donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zahiruddin Siddiqui
Title :
   Sanghi Zahniyat Ke Dahshatgard Musalmano Ko Mushtaal Karna Chahte Hain

سنگھی ذہنیت کے دہشت گرد مسلمانوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں


ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد 

 9890000552

 

    دنیا بھر کے نادان اور دانا لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ عظیم ہستی جس کا زمانہ معترف ہے وہ عظیم تھا، ہے اور رہیگا۔ دنیا والوں کی اوچھی حرکتوں سے ناموس رسالت ؐ نہ کبھی متاثر ہوئی اور نہ کبھی ہو گی، اس کے باوجود وقفہ وقفہ سے اس قسم کی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی شعائر اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی ناموس محمد ؐ پر نعوذ بااللہ کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس مذموم حرکت کے مر تکب یہود و نصاریٰ کے وہ کمینہ صفت افراد ہوتے ہیں جنہیں اسلام اور مسلمانوں سے للٰہی بغض ہے جوآفاقی مذہب اسلام سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ انہیں ہر وقت اسلام کے غلبے کا خوف ستاتا رہتا ہے۔ اپنی کمزور دینی بنیادوں سے خائف یہ افراد یہ جانتے ہیں کہ اگر اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا تو یہ مذہب پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ وہ اسلام کو بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ عوام مذہب اسلام سے متنفر اور شاکی رہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے اور حالیہ واقعات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ جب جب بھی اسلام اور مسلمانو ں کو بدنام کرنے کی کی کوشش کی گئی، ہر شر میں خیر کا پہلو پنہا ہوتا ہے کے مصداق اسلام کے بارے میں عوام کے تجسس میں اضافہ ہی ہوا، اسی تجسس کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام دنیا بھر میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ اسلا م اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا دوسرا مقصد دنیا بھر میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینا ہے، جس کے نتیجہ میں افغانستان، عراق، مصر، لیبیا، اور شام جیسے ملکوں پر حملوں کا جواز پیدا کیا جاسکے اور لا حاصل جنگوں کے نتیجہ میں ان ملکوں کے قدرتی وسائل پر اپنا تسلط قائم کیا جائے۔ ملکی سطح پر بھی یہ کام ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ یہاں بھی اس کے پیچھے وہی غلبہ اسلام کا خوف اورحصول اقتدار کے مقاصد کار فرما ہیں۔اسی خواہش کی تکمیل کے لئے فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو مشتعل کرکے اکثریت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں دہشت گردی کے لئے صرف مسلمان ہی ذمہ دار ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہندوئو کو متحد ہو کر فرقہ پرستوں کو اقتدار تک پہنچانا چاہیے۔ ہندو ووٹو ںکے ارتکاز کے لئے وہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وقتاً فوقتا ً مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے انہیں مشتعل کیا جائے اور پھران کے عمل پر رد عمل کی تھیوری پیش کرکے پورے ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ یہ کام سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیمیں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، پتت پاون سنگھٹنا، اور اس قسم کے سینکڑوں معروف اور غیر معروف ادارے کبھی لو جہاد، گھر واپسی،رام مندر، اور گائے ذبیحہ کے نام پر تو کبھی شعائر اسلام پر نشانہ سادھ کر انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر، پروفیسر، ماہر معاشیات سے لیکر تاریخ دان اور سادھو، سادھوی سبھی شامل ہیں۔کچھ معاملات جیسے فرقہ پرستی، تعصب، گائے ذبیحہ، لو جہاد وغیرہ تو ایسے ہیں جسے عام طور پر مسلمان نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن جب معاملہ ناموس رسول ؐ سے متعلق ہو یا اسلام پر حرف آتا ہو تو مسلمان اس گھنائونی حرکت پر ہر گز خاموش نہیں رہ سکتے۔ اب یہ بات بین الاقوامی سطح پر طئے ہو گئی ہے کہ مسلمان چاہے خود کتنا بھی دین سے دور ہو، بے عمل ہو، یا گناہوں میں مبتلاء ہوہر طرح کی نا انصافی برداشت کر سکتا ہے، ظلم و زیادتی برداشت کرسکتا ہے، انفرادی و اجتماعی ہلاکتیں برداشت کرسکتا ہے،  لیکن حضور پاک حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔اس کے لئے وہ اپنا سب کچھ نچھاور کر نے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ؐ کی شان میں گستاخانہ مذموم حرکت انجام دینے والے اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے ملعون صدر کملیش تیواری کی نا قابل برداشت شر انگیزی کے خلاف ملک گیر پیمانے پر مسلمانوں کی ملّی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، نبی کریم کی شان میں گستاخی کرنے والے مردود کو سخت سزا دینے کے مطالبہ میں شدت بڑھتی جارہی ہے۔اسلامی حکومت میں توشاطم رسول ؐ قابل گردن زدنی ہے، لیکن ہم جس سیکولر جمہوری ملک میں بستے ہیں وہاں اس قسم کی سزا کی توقع رکھنا فضول ہے۔ فرقہ پرستو ں کی جانب سے اس طرح کی حرکتیں مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ ضرور ہے لیکن یہ تکلیف اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب نام نہاد سیکولرافراد اس گناہ کے مر تکب ہوتے ہیں، ابھی پچھلے دنوں مہاراشٹرا کے ایک کانگریسی لیڈر ، سیکولر اخبار کے فتنہ پرور مدیر،فرقہ پرست قلم کار اور سنگھی ذہنیت کے کارٹونسٹ نے کائنات کی بلندیوں پر درخشاں چاند پر تھوکنے کی کوشش کی اور نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا کہ ان کا تھوک پوری غلاظتوں کے ساتھ ان ہی کے منہ پر آگرا۔اس اخبار نے اپنے ایک مضمون میں مہر نبوت کی توہین کرنے کی مذموم کوشش کی، جس سے پوری ریاست کے مراٹھی داں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی، جگہ جگہ اس اخبار کے خلاف احتجاج کیا گیا، پولس میں ایف آئی آر درج کروائی گئی، اور مسلمانوں نے از خود یہ فیصلہ کر لیا کہ اس اخبار کا بائیکاٹ کیا جائے چنانچہ دوسرے د ن سے ہی ہزاروں مسلمانوں نے اس اخبار کی خریداری بند کر دی اور مسلم ایجنٹوں نے اخبار کی ترسیل سے انکار کردیا۔ یعنی اس آتنک وادی اخبار نے مسلمانوں کو مشتعل کرکے جو آتنک پھیلانے کی کوشش کی تھی وہ خود اس کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ آج اس کے مارکٹنگ ایکزیکیو ٹیوز گلی گلی قریہ قریہ گھوم کراخبار کی ترسیل کو بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اسی طرح پچھلے دنوں ایک اور کھادی پوش کانگریس کے سابق مرکزی وزیرنے یہ بیان دیکر کہ’ ’سلمان رشدی کی کتاب سیٹانک ورسیس پر پابندی عائد کرنا راجیو گاندھی کی غلطی تھی‘ ‘ یہ ثابت کر دیا کہ خاکی چڈّی والے صرف فرقہ پرست جماعتوں میں نہیں بلکہ کھادی پوش کانگریسیوں میں بھی کئی ایسے ہیں جو سفید کھادی کے اندر خاکی چڈی پہنے ہوئے ہیں، بس حکومت بدلتے ہی ان کی کھادی اتر تی جارہی ہے۔ دراصل سردار ولبھ پٹیل سے لیکر پی۔ چدمبرم تک کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب کانگریسی حکومتوں میں خاکی چڈی والوں کا غلبہ نہ رہا ہوخصوصاً وزارت داخلہ کا قلمدان ہمیشہ انہی کے پاس رہا ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک ہزاروں فسادات سے لیکر بابری مسجد کے انہدام تک، بے گناہ مسلمانوں کے فرضی انکائونٹر سے لیکر تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کرنے تک وہی سنگھی ذہنیت کارفرما رہی ہے جو سیکولرازم کے مکھوٹے میں چھپی ہوئی ہے۔ یہ ذہنیت یوں ہی وجود میں نہیں آگئی، اس کے پیچھے آر ایس ایس کی وہ شاکھائیں ہیں جو بچپن سے ہی معصوم ذہنوں کو مکدر کرنے کا کام کرتی آرہی ہیں۔ وہی معصوم ذہن اب فرقہ پرست ذہنیت کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں پھیل گئے ہیں ، چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں، سرکاری دفاتر ہوں، خانگی ادارے ہوں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، وہی ذہنیت کام کر رہی ہے۔ اس کے پیچھے وہی وجوہات ہیں ایک تو اسلامو فوبیا اور دوسرے مسلمانوں کو مشتعل کرکے انہیں دہشت گرد ثابت کرنا۔ لیکن اب مسلمان بھی سمجھ گئے ہیں کہ اس قسم کی حرکتیں صرف اشتعال انگیزی کے لئے کی جاتی ہیں اس لئے وہ مشتعل ہونے کی بجائے ہوش مندی کا ثبوت دے رہے ہیں ، حالیہ واقعات پر مسلمانوں نے کسی پُر جوش رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے قانونی کاروائی کرنے ، اور جمہوری طریقہ سے احتجاج کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ مہاراشٹرا کے مسلمانوں نے اس اخبار کو ترک کرکے اپنی جس ملّی حمیت کا ثبوت دیا ہے وہ قابل مبارکباد ہیں۔

 


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 392