donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmad Hatib Siddiqui
Title :
   Hamare Naujawan


ہمارے نوجوان


…احمد حاطب صدیقی… 

 

تعجب ہے۔ یہ الزام  تو صرف ہم پاکستانیوں ہی پرلگتا ہے کہ… ’سارے جہاںکا درد ہمارے جگر میں ہے‘…کہ مسئلہ خواہ بوسنیا کا ہو، فلسطین کا ہو، قبرص کا ہویا اراکان کا… ’خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر‘ؔ… مگر ان سب سے تو ہمارا ایک تعلق ہے، ایک ناتا ہے کہ ہم اور وہ ایک ہی ہادی، ایک ہی رہبر، ایک ہی آقاکا کلمہ پڑھتے ہیں۔ہم ایک ہی امت کے افراد ہیں اور ایک ہی قبلہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ برٹش کونسل جیسے اداروں کو کیا سوجھتی ہے کہ ہم پاکستانیوں کی آپس کی رائے شماری میں دخل در معقولات کرنے کو دخیل ہوجاتے ہیں۔ قبل از رائے شماری ہی اعداد و شمار جمع کرنے لگتے ہیں۔ صرف جمع ہی نہیں کرتے، اُس پر رائے زنی بھی کرنے لگتے ہیں۔اُنھیں کوئی نہیں کہتا کہ:

’’ہمارے معاملات میں دخل دینے والے تُم کون؟‘‘

اُن سے کوئی نہیں پوچھتا کہ:

’’آخر کس  وجہ سے…میرے جہاں کا درد تمھارے جگر میں ہے؟‘‘

ایک اطلاع کے مطابق مذکورہ برطانوی کونسل نے کچھ عرصہ قبل پاکستانی نوجوانوں سے ایک سروے کیا ۔ سروے کا عنوان تھا:

"Next generation goes to the ballot box."  

اِسے اُردو میں یوں کہہ لیجیے :

’’آئندہ نسل کی پیش رفت صندوقِ رائے شماری کی طرف‘‘۔

اس سروے میں 18سے 29برس تک کے 5000 پاکستانی نوجوانوں سے اُن کی رائے لی گئی۔ اعداد وشمار کے مطابق ’بہترین سیاسی نظام‘ کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نوجوانوں نے سب سے زیادہ تعداد میں ’شرعی نظام‘ کے حق میں ووٹ دیا۔ دوسرے نمبر پر ’فوجی حکومت‘ رہی اور تیسرے نمبر پر آکر نوجوانوں نے ’جمہوریت‘ کانام لیا۔

ایک مغربی نشریاتی ادارے کے تبصرے کے مطابق یہ ایک ایسی نسل کی رائے ہے جو پچھلے پانچ سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی مطمئن نہیں۔اس سروے کا لب لباب یہ ہے کہ ’پاکستان غلط سمت میں جارہاہے‘۔ یہی بات اگر ہم پاکستانی، برطانیہ یا امریکا کے متعلق کہیں تو ’تنگ نظر ملا‘ کہلاتے ہیں۔اب یہ فیصلہ کون کرے کہ ’تنگ نظر‘ کون ہے؟

محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلّم کی شریعت میں ایسی کون سی بات ہے جو انسانیت کو’غلط سمت‘ میں لے جاتی ہو؟ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ چیلنج دیا جاسکتاہے کہ ذرا کوئی شریعتِ مصطفویؐ میںسے کسی ایک بھی ایسی بات کی نشان دہی کر دے جس میں انسانیت کی فوزو فلاح نہ پائی جاتی ہو۔ یوںکہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی رائے سے اُن کی حکومت بننی چاہیے… ’مگر کیاکریں کہ شریعت کا ڈر ہے‘ … شریعت کسی ایک طبقے کے مفادات کا نہیں، بحیثیت مجموعی تمام انسانوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔شریعت کی رُو سے کوئی (خواہ حاکم ہو یا محکوم) کسی کا مال ’ناحق‘ لے سکتا ہے، نہ کسی کی عزت و آبرو ،نہ کسی کی جان۔ یہ کلیہ ’حالتِ جنگ‘ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔سو، شریعت کا ڈر اُنھی کو رہتا ہے جو اس قسم کی ’آزادی‘ (وہ بھی صرف اپنے لیے) چاہتے ہیں۔ خود جو چاہیں کرتے رہیں۔ لیکن اگرکوئی دوسرا بھی اُن کے اختیارکیے ہوئے اِس ’حق آزادی‘ کو استعمال کرنے پر اُتر آئے تو وہ ’دہشت گرد‘ ہو جاتا ہے۔

جن 5000 نوجوانوں سے سروے کیا گیا ہے وہ وہ دینی مدارس سے سندیافتہ ’طالبان‘ نہ تھے۔ ’انگریزی مدارس‘ کے کانووکیشن سے’دستار بندی‘ کے بعد ’ڈگری پانے والے‘ نوجوان تھے۔اگریہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ:

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!

تو یہ اندر کی گواہی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں سے نہیں، پچھلے 66 برسوں سے ہم ’غیرشرعی نظام‘ ہی دیکھتے چلے آئے ہیں۔’مارشل لا‘ بھی تو مغرب ہی کا متعارف کرایا ہوا(اور ’غیر شرعی‘) نظام ہے۔ یہ کون سا ہمارا اپنا نظام ہے؟ کوئی بتائے کہ ان دونوں مغربی نظاموںکو اپنانے سے اب تک ہماری کیا فلاح ہوئی؟ کیا بہبود ہوئی؟ ہم نے کتنی ترقی کرلی؟ ہمیں کس قدر خوشحالی حاصل ہوئی؟ ہم تو رہے وہی غلام کے غلام اور مغرب کے مقروض۔ہمارے ملک پر ’مارشل لا‘ بھی (جمہوریت کا ٹھیکیدار) مغرب ہی مسلط کرتا رہاہے۔آمروں کی ہمیشہ امریکا ہی نے مدد کی ہے۔ اُسی کے سہارے وہ ہم پر’آمریت‘ گانٹھتے رہے ہیں۔اور’جمہوریت‘ بھی ہم پر تب ہی آئی جب امریکا نے یاتو اپنے لے پالک آمروں کے تخت کا تختہ کروایا۔یاخوداُنھی کے ہاتھوںہمارا… ’این آر او‘…کرڈالا۔جب چاہا یارا تونے… مارشل لا سے مارا تونے … اور… جمہوریت سے زخمی کردیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ ’جمہوریت بہترین نظام ہے‘۔ جب کہ ہمارے ملک کے ’بچے جمہورے‘ کہتے ہیں کہ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘۔ ان دونوں باتوں میں سے … عملی تجربے کے بعد … ثابت کیا بات ہوئی؟یہ بات 5000پاکستانی نوجوانوں میں سے اُن کی اکثریت نے بتادی۔

آئیے اب ہم ذرا جمہوری عمل کا جائزہ لے لیں۔ جس فیصلے کو ’عوام کی اکثریت کا فیصلہ‘ کہا جاتا ہے، وہ ہوتا کیسے ہے؟ ہر سیاسی جماعت کی ایک ’انتخابی کمیٹی‘ سخت سر پھٹول اور باہمی مار پیٹ کے بعد کچھ لوگوں کو’پارٹی ٹکٹ‘ دے کر نامزد کردیتی ہے۔ (نوٹ کیجیے کہ فیصلہ کس نے کیا؟)۔ اب آئیے انتخابی عمل کی طرف۔ سو فیصد آبادی کانام انتخابی فہرست میں درج نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کے نام درج ہوتے ہیں اُن میں سے سو فیصد لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 30سے 40 فیصد رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ 40فیصد بھی اُس صورت میں جب لوگ زیادہ پُرجوش اورزیادہ پُر امید ہوں۔ 60 فیصد اکثریت تو پہلے ہی کٹ گئی۔ان 40فیصد لوگوں میں سے بھی 100 فیصد رائے دہندگان کا فیصلہ مؤثر بہ عمل نہیں ہوتا۔ صرف 30سے 37 فیصدکی رائے ایسی ہوتی ہے جو رائگاں نہیں جاتی۔ (اب یہاں فرض کر لیجیے کہ انتخابی عمل ہر قسم کی دھاندلی سے پاک ہوا)۔ڈالے گئے ووٹوں میں سے30فیصد سے 37فیصد تک جو اُمیدوار ووٹ حاصل کرلیتا ہے، وہ کامیاب قرار پاتا ہے۔63 سے 70  فیصدلوگوں کے ووٹ مختلف جماعتوں کے نامزد کیے ہوئے اُمیدواروں میں منتشر ہوجاتے ہیں۔ جیتنے والا ’عوام کی اکثریت کا نمائندہ‘ کہلاتا ہے۔ جب کہ عوام کی اکثریت اُس نمائندے کو دیکھ دیکھ کر ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔یہ ہم نے آپ کے سامنے فقط… فیئر الیکشن …کے نتائج پیش کیے ہیں۔ اَن فیئر کی تو بات ہی کیاہے۔

اب رہا یہ سوال کہ اِن ’پڑھے لکھے لڑکوں‘ نے کیسے کہہ دیا کہ’شرعی نظام‘ ہی بہترین سیاسی نظام ہے؟ تو بات یہ ہے کہ اِس موضوع پر لکھی گئی کتابوں سے تو لائبریریوں کی لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ مگر ایک چیزایسی ہے جو ہمیں اپنے معاشرے میں بھی رائج دکھائی دیتی ہے۔ یوںیہ ’شرعی سیاسی نظام‘ ہمارے اِس گئے گزرے معاشرے میں بھی بنیادی سطح (Grassroot Level)   تک نافذ نظر آتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آٹھ دس افراد کسی مجلس میں موجود ہیں۔نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔شرعی تقاضا ہے کہ فوری طورپر ’امام کا انتخاب‘ کیا جائے۔ تصور کیجیے کہ کس طرح ’تجویز‘ اور ’تائید‘ (بعض صورتوں میں ’اعتراضات‘ )سے لے کر ’انتخاب‘تک کا مرحلہ کتنی تیزی سے اورکیسے متعین طریقے پر طے ہو جاتا ہے۔ آٹھ دس افراد میں سے سوفیصد کی ’رائے عامہ‘ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ’انتخاب‘ اُسی شخص کا ہو جو’حاضر اسٹاک‘ میں سے نماز کی امامت کرانے کا اہل ہے۔ یہ اس لیے کہ … ’جس کاکام اُسی کوساجے‘… وہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سینما کا ٹکٹ بلیک کرنے والے کوامریکا سے لاکر قیادت کے منصب پر فائز کردیاگیاہو۔ 




۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1034