انٹارکٹکا کی مدفون جھیل میں نئے جراثیم
امیر ناز
روسی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے انٹارکٹکا کی ایک مدفون جھیل میں نئی قسم کی جراثیمی زندگی دریافت کی ہے۔محققین نے برف کے نیچے دبی انٹارکٹکا کی سب سے بڑی جھیل ووسٹوک سے نمونے حاصل کر کے ان کا تجزیہ کیا تھا۔گذشتہ برس محققین کی ٹیم نے برف کی چار کلومیٹر موٹی تہہ میں کھدائی کر کے جھیل تک رسائی حاصل کی تھی اور وہاں سے نمونے اکٹھے کیے تھے۔
ووسٹوک جھیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دسیوں لاکھ برسوں تک سطح سے کٹی ہوئی ہے۔ اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ ایسے پانیوں میں اس قسم کی جراثیمی حیات موجود ہو گی جس سے موجودہ سائنس لاعلم ہے۔
روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے انسٹی ٹیوٹ برائے نیوکلیئر فزکس کی جینیٹکس لیبارٹری کے سرگئی بولات نے کہا کہ ان نمونوں سے ’ایسا ڈی این اے ملا ہے جو دنیا بھر کے ڈی این اے کی ڈیٹا بیسز میں موجود کسی ڈی این اے سے نہیں ملتا۔‘روسی سائنس دانوں کی ٹیم جس نے جھیل ووسٹوک تک رسائی حاصل کی۔
انھوں نے کہا، ’ہم اس حیات کو غیر درجہ بند اور غیر شناخت شدہ کہہ رہے ہیں۔‘ڈاکٹر بولات نے مزید بتایا انھوں نے خاص
طور پر ایک قسم کے بیکٹیریا پر توجہ مرکوز کی جس کا ڈی این اے پہلے سے معلوم اقسام سے 86 صرف فی صد مماثل تھا۔ ’اگر کسی جاندار کا ڈی این اے 90 فی صد (یا اس سے کم مماثل ) ہو تو اسے غیر شناخت شدہ تسلیم کیا جاتا ہے۔‘
کھدائی کے اس منصوبے کی تیاری پر کئی برس لگے۔ یہ جھیل مشرقی انٹارکٹکا میں واقع ہے جو دنیا کے ناسازگار ترین مقامات میں سے ایک ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں 21 جولائی 1983 کو دنیا کا کم ترین درجہ حرارت منفی 89 درجہ سنٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔اگرچہ 1956 میں روسی سائنس دانوں نے معلوم کر لیا تھا کہ اس علاقے میں برف کے نیچے ایک جھیل ہے لیکن 1990 کی دہائی میں برطانوی ماہرین نے معلوم کیا کہ یہ جھیل 15 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔
**********************
|