donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Fikr Ko Wasi Kijiye Aur Sehat Mand Rahiye


احسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ

 

فکر کووسیع کیجئے اور صحت مند رہئے


    اس سرزمین پر زمانۂ قدیم سے خوشی اور غم کا سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ بہت سے دانشوروں اور فلسفیوں نے خوشی اور غم کے وجوہات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال نے بھی فلسفہ غم پر قلم اٹھایا ہے ۔ خوشی اور غم کے لگائو کو ظاہر کرتے ہوئے زندگی سے اس کے تعلقات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ زندگی میں غم کے بعد آنے والی خوشی کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ خوشی کے بعد غم کا سایہ بھی انسان کی زندگی کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے پیچھے آخر لوگ صدیوں سے کیوں پریشان ہیں۔ وجہ خوشی کی تلاش ہے جو انسانی صحت کی ضمانت ہے۔ خوشی اور غم دو متضاد الفاظ ہیں ۔ علامہ اقبا ل نے فلسفۂ غم کا تصور ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔

گو سراپا کیف عشرت ہے شرابِ زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دہن میں سحابِ زندگی

موج غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی
ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم خوش کیسے رہیں ؟ خوش رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ہنستے اور مسکراتے رہیں ۔ ایسا ہم اسی وقت کر سکتے ہیں جو ہم دوسروں کی خوشیوں میں شریک رہیں۔ ایسا کرنا بڑے ہی حوصلہ مندی کا کام ہے۔ زبان سے سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ میں تو آپ کے خوشی او ر غم میں برابر کا شریک ہوں۔ لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ ہاں کچھ لوگ ایسے دنیا میں ضرور ہیں جو دوسروں کے خوشی اور غم میں خلوص کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اکثر لوگ اپنی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں اور دوسروں کی خوشی میں وجہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد دوسروں کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا کرنا اور غم کے راستے کو ہموار کرنا ہوتاہے۔ ایسا کرنے والے بھی کسی نہ کسی شکل میں ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لازمی ہے کہ دوسروں کی کامیابی پر افسردہ ہونا بند کیا جائے۔ 

    آج کے بھاگ دوڑ والی زندگی میں انسان کے لئے ہنسنا اور مسکرانا لازمی ہوگیا ہے۔ اس عمل پر بہت سارے تجربات ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں Laugh Labنام کا ایک تجربہ گاہ قائم کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے دماغوں کی تصویر لینے کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ جو لوگ خوش مزاج ہوتے ان کے دماغ کے ان حصوں میں تحریک پیداہوتی ہے جن کا تعلق فرحت پیدا کرنے والے Hormonesسے ہوتا ہے سائنسدانوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ مسکرانے اور خوش رہنے سے دل کی دھڑکن صحیح ڈھنگ سے ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مسکرانا خلوص کے ساتھ ہو۔ بنائوٹی مسکراہٹ ایسا نہیں کر سکتی۔ 
    موجودہ دور مادہ پرستی کا دور ہے۔ ہر انسان ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ملوث ہے۔ آگے بڑھنے کی تگ و دو جائز طریقے سے درست ہے لیکن یہ فکر کرنا کہ میں آگے بڑھوں اور دوسرا اپنی جگہ ساکت رہے یہ سراسر غلط عمل ہے۔ کچھ لو گ اپنا زیادہ وقت اسی ادھیڑ بن میں برباد کرتے ہیں کہ وہ ترقی کی منزل کیوں طے کر رہا ہے۔ مثلاً اگر کوئی مکان بنا رہا ہے تو یہ فکر لاحق ہوجاتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے لا رہا ہے۔ کوئی بزنس میں ترقی کر رہا ہے تو یہ فکر اسے ستانے لگتی ہے کہ یہ کہیں ہم سے آگے نہ بڑھ جائے۔ علم و ادب کے میدان میں اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو ویسے اشخاص کاذہن پژمردہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں میری پوچھ کم نہ ہوجائے۔ طرح طرح کے غلط حوالات سے اسے نیچا دکھانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ یہ کیفیت بڑی ہی خطرناک ہے۔ اس سے ہر انسان کو خاص کر ایسی فطرت والے انسان کو سچی خوشی مل ہی نہیں سکتی ہے۔ وہ بلڈ پریشر، ذہنی ڈپریشن اور ذیابیطش کا شکار ہوگا۔ ایسی فکر والے لوگوں کے لئے دوسروں کی خوشی اتنی مہلک بن جاتی ہے کہ ہرٹ اٹیک تک کی نوبت آجاتی ہے۔ 

    لہٰذا یہ ضروری ہے اپنی فکر و سیع کیجئے ۔ خود خوش رہئے ، دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کیجئے۔ 

    مسکراہٹ اور خوشی کا تعلق دراصل پورے جسم سے ہے یعنی مسکراہٹ صرف خوشی کا احساس ہی نہیں کرتی بلکہ مختلف اعضاء کو بھی مثبت انداز سے متاثر کرتی ہے۔ جب ہم مسکراتے ہیں تو ہمارے جسم کے پندرہ چھوٹے چھوٹے عضلات ہمارے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عضلات کی ورزش کے ساتھ خون کا بہائو بھی بڑھ جاتا ہے، جو چہرے کو ہلکی سرخی اور چمک بخشتا ہے۔ مسکراہٹ زور دار ہو تو آنسو چھلک پڑتے ہیں اور یادرکھئے کہ آنسو غم کے ہوں یا خوشی کے ان سے دبائو میں کمی ضرور واقع ہوتی ہے۔ 

    معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی، لالچ اور خود غرضی نے خوش ہونے کی طاقت چھین لی ہے۔ خوشی کا احساس بانٹنے سے اس میں اضافہ ہوا ہے ۔ صرف اپنی ذات سے متعلق خوشی کا اظہار ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ دوسرے افراد کی خوشیوں میں کشادہ دلی سے بھی شرکت کرنی چاہئے۔ موجودہ دور کے سائنسی ماہرین کی رائے ہے کہ خوشی کا احساس انسان کو فطری طور پر عطا کیا گیا ہے۔ دیگر صلاحیتوں کی مانند اگر اس صلاحیت کا استعمال نہیں کیا جائے تو انسان میںخوشی محسوس کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لئے فکر کو وسیع کیجئے، خوش رہئے ، خوشیاں بانٹئے اور دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہوئے۔ دوسروں کی کامیابی خواہ وہ کسی قسم کی ہواسے اپنی کامیابی محسوس کیجئے او ر اس پر خوشی منائیے۔

٭٭٭

 

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Lalbagh, Darbhanga
Email: ahsanalam16@yahoo.com

Comments


Login

You are Visitor Number : 796