donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   1857 Ka Sahafti Rujhan

                                                                                                                                                   ء     ۱۸۵۷   
 کا صحافتی رجحان 
 
 
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
فرنگیوں نے جب مغلوں سے حکومت چھین کراپناپورا اقتدار قائم کیا تو ان کے نشانے پرزیادہ تر مسلمان ہی رہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ جانتے تھے کہ اقتدارسے بالواسطہ یابلاواسطہ جومربوط ہواکرتے ہیںان کاخمارجھٹکے میں اترناممکن نہیں ہوتا۔اس لئے ان کی کوشش رہی کہ مسلمانوں کوہر سطح پر دبایا جائے اور اس ضمن میں انہوں نے دوطرح کی پالیسی اپنائی وہ طبقہ جس کواقتدارکانشہ تھا اس کیلئے Native State 622 بنایااور اسے اقتدار سونپ دیا اور ساتھ ہی دیسی ریاستوں میں اپنے ریڈیڈنٹ مسلط کردئے اس طرح سے ایک بڑاطبقہ جوانگریزوں کی مخالفت کی پشت پناہی کررہا تھا اسے خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن دوسری طرف اس سے بھی بڑاایک مئوثر طبقہ یہ محسوس کرنے لگا کہ اس سے جواقتدارچھن گیا ہے اس سے اس کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورتحال خراب ہوگئی اورانگریزمذہب کوکمزورکرنے کی کوشش کریں گے فرقوں میں تقسیم کریںگے، ہمنوبنائیںگے، اتحادکوپارہ پارہ کریں گے اوربنیادی سماجی ڈھانچہ کومسمار کرکے اپنی نئی بنیادقائم کردیںگے جس سے اس کاتشخص بھی ختم ہوجائے گااوراس کی تاریخی روش روایات وقت کے ساتھ معدوم ہوجائے گی۔
 
جب کسی ملک میں کوئی بڑی ناخوشگوارتبدیلی رونماہونے لگتی ہے اس وقت وہاں کے حساس ،باشعور اور دانشوراسے محسوس کرلیتے ہیں اور اس کے رد عمل میں وہ اس کے مضراثرات کی روک تھام کواپنافریضہ بنالتیے ہیں اتنا ہی نہیں جب پابندیاں حد سے گذرجاتی ہیں توعلامتی پیرائیہ اظہار کاوسیلہ بھی اپنایاجاتاہے چنانچہ جب انگریزوں نے اقتدار پرقبضہ جمالیاتواس وقت کے شعراء اور ادبا اورصحافیوں نے بھی اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے قلم اٹھالئے اور اس جنگ کو تیزکرنے کیلئے انہوں نے ایسا حربہ استعمال کیا جس نے انگریزوں کی نیندیں حرام کردیں۔
 
ایسٹ انڈیاکمپنی کے راستہ سے ہندوستانیوں کومحکوم بنانے والے انگریزوں نے ہندوستانیوںکےاتحادکوپارہ پارہ کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور اپنے اقتدارکومستحکم کرنے کیلئے ظلم وستم کی انتہاکردی۔ لیکن سرفروشانِ وطن اٹھ کھڑے ہوئے اور ہرخطہ سے انقلاب کی چنگاریاں اٹھنے لگیں۔ چونکہ یہ انگریزتجارتھے اورتجارتی حکمت عملی ان کی اولیت تھی اس لئے انہوں نے یہاں کے دست کاروں آرٹی شینسنز کی گھریلوصنعتوں کوتباہ کرنے کی کوشش کی۔ مین چسٹرسے کپڑے آنے لگے۔ قصبوںاورگائوں کے دستکار اور نورہاف کنگال کردئے گئے۔ مذہبی اداروں پرپابندی لگادی گئی۔ اخبارات اورجریدوں پرکڑے قسم کاسنسر لاگوکردیاگیا۔ کوئی بھی صحافی خودمختاراور آزادنہیں تھا کہ وہ اپنے قلم کی جولانی دکھاتالیکن ایسے جیالے بھی موجودتھے جنہوں نے بغیر کسی خوف وڈر کے علانیہ طورپر انگریزی حکومت قلعی کھولنے کاکام جاری رکھا۔اس سے برٹش حکومت بوکھلاگئی اور ہندوستان کے اخبارات کواس نے پابہ زنجیرکرنے کیلئے نئے قوانین نافذکئے کسی بھی شخص کواپنی زبان کھولنے کی آزادی نہیں تھی لیکن بقول فیض:
متاع لوح وقلم چھن گئی توکیاغم ہے 
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
انیسویں صدی کی تیسری دہائی تک فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی۔ ایسٹ انڈیاکمپنی نے جب عملاہندوستان میں وہ حیثیت حاصل کرلی جواب تک مغل حکمرانوں کوحاصل تھی توانہوں نے فارسی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کردی جومغل دور کی یادگار تھی۔ کمپنی کے اس اقدام کااردوکی نشوونماپر خوشگواراثرمتب ہوا۔ ۱۸۲۹تک ہندوستان میں صرف انگریزی اخبارات تھے جن کی توجہ اور دلچسپی کامرکز ہندوستان میں مقیم یورپین آبادی کی تجارتی، سماجی اور سیاسی زندگی تھی۔ جب ہندوستانی اخبارنویسی نے جنم لیا تو صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئی۔ اگر اردو صحافت کی تاریخ کاجائزہ لیا جائے توپتہ چلتاہے کہ اس کامزاج ابتداسے ہی باغیانہ تھا ۔ابتدائی دورمیں شائع ہونے والے اخبارات بالعموم اصلاحی ہواکرتے تھے۔ اور ان میں خبریں بھی بہ ظاہرغیرسیاسی قسم کی ہوتی تھیں مگران کاجوموادہوتاتھا اس کی گہرائی میں غم وغصہ کاطوفان دباہوتاتھا۔ ۱۸۵۷کے آس پاس صحافت کے مطالعہ سے اس کاباغیانہ تیورصاف طورپرمحسوس کیاجاسکتاہے اور پتہ چلتاہے کہ ہندوستانیوں کوانگریزراج کے خلاف آمادہ بغاوت کرنے میں اس کاکتنا اہم رول رہا ہے۔ جیسے جیسے انگریزوں کاظلم وجوربڑھتاگیاصحافت کالہجہ انتہائی حدتک تلخ وتنداورتیزہوتاگیا۔ اس عہد کی صحافت نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزی سامراج کے خلاف بغاوت کاشعلہ بھڑکایا،ان پرجاری ظلم وستم کے خلاف آواز بلندکی اور برطانوی اقتدارکوکھلاچیلنج کیا۔ انگریزاورانگریزی حکومت کے خلاف نفرت پیداکرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا۔ سلطنت کے باب میں بہادرشاہ ظفراورواجدعلی شاہ کاایک ہی حال تھا۔ بہادر شاہ کی سلطنت اگرقلعہ معلی کی چاردیواری تک محدودتھی تو واجدعلی شاہ بادشاہ اودھ کافرمان بھی قیصرباغ کے آگے نہ چلتاتھا۔اگرچہ بادشاہی انہی لوگوں کے نام سے کی جاتی تھی لیکن تمام اختیارات صرف گورنمنٹ بہادر کے پاس تھے جن کے اشارے کے بغیرپتہ بھی نہیںہلتاتھا، ایسی صورتحال میں صحافت نے ہندوستانیوں کومحض آمادہ بغاوت ہی نہیں کیابلکہ یہ کوشش بھی کی کہ ان کے اندر وہ جوہر بھی پیداکیا جائے جس سے وہ انگریزوں کامقابلہ کرنے کے اہل ہوسکیں۔اس کے سامنے یہ حقیقت عیاں تھی کہ انگریزی راج جس سرعت کے ساتھ قائم ہوتاجارہاہے اس سرعت کے ساتھ زوال پذیرنہیں ہوسکتااور برطانوی اقتدارکے ہتھکنڈوں کامقابلہ قدیم ہندوستانی طریقوں سے نہیں کیاجاسکتا،چنانچہ اس وقت کی تحریروں کے ذریعہ آنے والی نسلوں کومغربی سائنس اور مغربی فلسفہ کے حربوں سے لیس کرنے کی پوری کوشش بھی کی گئی ۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے مطابق انیسویں صدی میں یعنی ۱۸۲۲سے ۱۸۹۱تک کم وبیش پانچ سواخبارات ورسائل ہندوستان کے کونے کونے سے نکلے۔ ان میں بہت سے نکلے اوربندہوتے رہے۔اہم بات یہ ہے کہ ۱۸۵۷کی جنگ آزادی میں ان اخبارات ورسائل نے بہت ہی اہم رول ادا کیاانگریزوں کے ظلم وزیادتیوں کی خبروں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی عوام کے سامنے برطانوی سامراجیت کی استحصالی تصویر پیش کی جس سے ان کے جذبۂ آزادی کومزیدتقویت ملی اردوصحافیوںنے اپنی ذمہ داریوں کااوراک کرتے ہوئے بڑی حکمت عملی کے ساتھ مختلف انداز میں ہندوستانیوں کی آوازکوابھارنے کی جدوجہدکاآغازکیاجس کے نتیجہ میںان میں آزادی کاجذبہ بھرپوراورمنظم طریقہ سے ابھرا۔اودھ کے سلطنت کے خاتمہ اوروہاں کمپنی بہادرکی باضابطہ حکومت کے قیام کے بعد’’طلسم لکھنؤ‘‘ نے لکھنوکے عنوان سے ایک نمبرچھاپااس کی پہلی خبرکاتیورملا حظہ کیجئے:
لکھنومیں سنیچرآیاہے۔ چوروں نے ہنگامہ مچایاہے۔ جوسانحہ ہے عجائب ہے۔ آنکھ جھپکی پگڑی غائب ہے،شعر:
میرصاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار
جس دن سے سلطنت نہ رہی شہر بگڑا،چوروں کی بن آئی کسی میں طاقت نہ رہی ۔اس اندھیرپرایک مشل یادآئی ہے کہ اندھے کی جوروکاخدارکھوالا ہے۔اس شہر میں اندھادھندی ہے اس نابینائی پریہ حکومت اندھیرہے۔ صاف اندھے کے ہاتھ میں بیٹرہے۔ روزانہ باتیںعجائب ہوتی ہیں۔سوجھتاتوخاک نہیں،ٹٹول ٹٹول کرچٹھیاں غائب ہوتی ہیں۔
 
بہرحال۱۸۵۷میں اخبارات ورسائل میں جوکچھ لکھاجاتاتھا اس کامقصدہوتاتھا جبروتشددکے خلاف عوام کوبیدار کرنا۔ دینی مدارس میں بیٹھے ہوئے علماء بھی اپنی تحریروں سے جنگ آزادی کے نقشے بنارہے تھے تحریرمیں بیباکی ہوتی تھی اور یہ رجحان تمام پنپنے لگا تھا کہ حالات سے نبردآزماہونے کیلئے عوام کوحوصلہ اورہمت دیاجائے۔ برٹش حکومت کی تمام ترکوشش کے باوجود تحریرکاسیلاب رکنے کانام نہیں لیتا تھا۔ کسی قانون کی پاسداری انہیں مجبورنہیں کرسکی اور یہ رجحان ان کے جبروتشددکے باوجودعام ہونے لگا کہ ہم برٹش حکومت کی غلامی تسلیم نہیں کریںگے۔ اس کااثریہ ہوا کہ ملک کے طول وعرض میں انگریزی حکومت کے خلاف نفرت کاشعلہ بھڑکنے لگا اور انگریزوں کویہ دشواری ہونے لگی کہ ان تحریروں کوکس طرح روکاجائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک یہ تحریریں اوراخبارات شائع ہوتے رہیں گے، جب تک یہ جریدے منظرعام پرآتے رہیں گے وہ کمزورہوتے جائیںگے اس لئے انہوں نے ان کی آوازپرپابندی لگانے کیلئے باضابطہ ان کی زبان کوسمجھنے کیلئے ایک ٹیم بنائی۔ اس ٹیم کاکام یہ تھا کہ وہ یہ کوشش کرے کہ ان کے مذہبی جریدوں میں سیاسی افکارنہ آئیں۔ نیز مذہب اورسیاست کوالگ کرنے کیلئے ایسی خوبصورت چال چلی جائے کہ لوگ غیر محسوس طورپر مذہب اورسیاست کوالگ الگ ڈگرپرچل پڑیں۔لیکن یہ تمام ترکوششیں ناکام ہوئیں اور دیوبند میں فیصلہ لیاگیا کہ جتنی بھی دینی درسگاہیں ہندوستان میں ہیں وہاںدین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے فاسدافکار کاپردہ فاش کیاجائے ۔یہاں تک کہ درسگاہوں میں علماء اورمدرسین نے اپنی استعدادکے مطابق ان کے ہرفرمان کی تحریری طورپرنفی کرنے کی کوشش کی۔ ذرائع ابلاغ کے فقدان کے باوجود چھوٹے چھوٹے بک لیٹ بھی شائع کئے ان کتابچوں نے دین کے تحفظ کے نام پروطن پرستی کے جذبے کوابھارنے کاکام کیا۔ اسلام کی روشنی میں وطن عزیز کی اہمیت کوبتانے کی کوشش کی اورغلامی کی زنجیروں سے خودکوآزادکرنے کیلئے للکارا۔حالانکہ عرصہ گذرنے کے بعدانگریزوں نے ان تمام کتابچوں کوضبط کرلیا،تلف کردیالیکن وہ رجحان جوان چھوٹے چھوٹے جریدوں اورکتابچوں میں تھا اس نے آخررنگ دکھایااوراس کے بعد کے آنے والی نسلوں نے اسی راستے پرچل کروطن پرستی کے جذبے کوفروغ دیا۔ پہلی جنگ آزادی میں شامل دانشوراورمجاہدجوسینہ سپررہے اس کاعکس ہمارے ترسیل وابلاغ کے اوراق میں آج بھی دیکھاجاسکتاہے۔
 
انگریزوںکویہ اندازہ نہیں تھاکہ ہندوستان جسے وہ اپنی کولونی بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ پوراملک وطن پرستی کے جذبہ سے اس قدرسرشارہوجائے گااور ان کی تحریریںاتنی شعلہ بیان ہوسکتی ہیں جولوگوں میں سرفروشنی کی تمناپیداکردے۔ لہذاجب ان تحریروں نے اپنااثردکھا ناشروع کیاتو وہ خاصے پریشان رہے اوراس کے خلاف طرح طرح کے قوانین بنائے، طرح طرح کی کمیٹیاں تشکیل دیں مگر سب لاحاصل رہاکیو نکہ ۱۸۵۷میں جس رجحان کی بنیادرکھی گئی تھی اس میں وطن پرستی کواولیت حاصل تھی۔ اور وطن عزیزکیلئے ہرقربانی کارثواب کی حیثیت رکھتاتھا اس لئے اس کے مثبت نتائج برآمدہوئے۔
 
بلاشبہ ۱۸۵۷کی پہلی جنگ آزادی میں سارے ہندوستان میں جرأت مندی وحوصلہ شناسی کے ساتھ ہندوستانیوں کوبرطانوی اقتدارکے خلاف صف آراکرنے، تمام علاقوںکوجوڑنے ،تمام مذاہب کے افرادکوایک دوسرے سے قریب کرنے اوران میں عزم وحوصلہ پیداکرنے میں اردو صحافت نے جورول اداکیا اس کاتسلسل۱۹۴۷تک شدت سے قائم رہا اورآج بھی بہت حدتک وطن پرستی اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں اردو صحافت اپنامثبت کرداراداکررہی ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 913