donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Marzia Arif
Title :
   Taleem Hi Insani Taraqiyat Ka Zeena Hai

تعلیم ہی انسانی ترقیات کا زینہ


ڈاکٹر مرضیہ عارف


ندوستان میں تعلیم کی اہمیت:تعلیم وتربیت وہ وسیلہ ہے جس سے انسان مہذب بنتا ہے، اسی لئے بزرگوں نے تعلیم کا اصل مقصد سیرت کی تعمیر اور شخصیت کی تکمیل قرار دیا ہے، ہندوستان میں تعلیم کا رواج اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ یہاں کی تہذیب، اشوک کے کتبات ہوں یا مندروں پر کی گئی سنگ تراشی اور گفائوں کی پینٹنگ یہ سب پرانے دور کی تعلیم کے ہی نمونے ہیں جس کی بنیاد پر ہمارے ملک کی شہرت دور دور تک پھیل گئی لوگ یہاں علم کی طلب میں آتے اور سنسکرت زبان وادب کے ذخیرہ سے استفادہ کرتے، سب سے پہلے انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے نظام تعلیم کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا، حالانکہ ان سے پہلے یہاں مسلمان بھی حکمراں رہے لیکن انہوں نے تعلیم پر کبھی بری نظر نہیں ڈالی، اسی رواداری اور وسعتِ قلب کا نتیجہ ہے کہ یہاں کی قدیم تہذیب اور زبان خاص طور پر سنسکرت پھلتی پھولتی رہی اور اس کے ساتھ دوسری زبانوں کو پنپنے کے مواقع بھی میسر آئے۔

پرانے وقار کی بحالی اور تعلیم

    ملک کی آزادی کے بعد پوری دنیا کی طرح ہمارے یہاں بھی تعلیم کا شہرہ تو بہت ہوا لیکن اس کو خاطر خواہ فروغ حاصل نہیں ہوسکا اور اسی لئے ہمارے یہاں ناخواندہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ، آج جو حلقے ہندوستان کے پرانے وقار کی واپسی کے خواہاں ہیں اور ملک کی تعمیر وترقی کی باتیں کرتے ہیں ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ سیاست سے بلند ہوکر عام لوگوں میں تعلیم کے چلن کے لئے کام کریں، ایسے پروگرام ترتیب دیں جس سے ناخواندہ افراد استفادہ کرکے علم کی روشنی سے بہرہ ور ہوسکیں۔ بحیثیت انسان ہر پڑھے لکھے شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے کچھ وقت دے۔

تعلیم نسواں کی اہمیت:دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو انسان کو علم کے حصول کی تلقین نہ کرتا ہو، اسلام نے تو تعلیم کو مزید اہمیت دے کر ہر مرد وعورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دے دیا ہے، یہاں تک کہ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے ، جس کے ذریعہ ہمارے گھر اور معاشرے میں علم کا اجالا پھیل سکتا ہے کیونکہ نئی پیڑھی کی پہلی تربیت گاہ اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہ ماں کی گود ہے، بچہ اپنی ماں کی ایک ایک ادا سے عمل کے طور طریقے سے سیکھتا ہے، اگر ماں پڑھی لکھی ہے تو وہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرسکتی ہے، ان میں تعلیم کا ذوق وشوق شروع سے پیدا کرتی ہے، جن گھروں میں مائیں ناخواندہ ہیں تو وہاں اولاد کی تعلیم مشکل ہوجاتی ہے ، اسی لئے ایک لڑکی کو تعلیم دینا پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کے مترادف ہے۔
مسلم پسماندگی کے اسباب:ہندوستان میں مسلمانوں کی پس ماندگی بنیادی طور پر تعلیم سے ان کی دوری کا نتیجہ ہے، اگر ان میں تعلیم خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کا رواج بڑھ جائے تو وہ بھی اپنی اقتصادیات کو سنوار سکتے ہیں، اس لئے بہتر یہ ہوگا مسلمانوں کے قائد اور رہنما ان کو سیاست کی طرف راغب نہ کریں۔ جیسا کہ عام طو رپر ہورہا ہے ۔ اس کے بجائے ضرورت اس کی ہے کہ مسلمانوں کے لئے تعلیمی پروگرام مرتب کئے جائیں، ان کے نچلے طبقہ میں تعلیم سے جو بے رغبتی عام ہے اس کو دور کرنے کے لئے مہم چلائی جائے اور متوسط طبقہ کو بھی یہ باور کرایا جائے کہ روپیہ پیسہ کمانا ہی سب کچھ نہیں، عصری تعلیم میں ترقی کمائی کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے، جاہل یا کم پڑھے لکھے بچے اپنے والدین کی کمائی ہوئی دولت کو برباد کردیتے ہیں اور ایسی اولاد بارہا زندگی کی دوڑ میں داخل ہوکر ماں باپ کا نام روشن کرنے کے بجائے ان کے لئے بوجھ ثابت ہوتی ہے۔

تعلیم کے لئے مناسب ماحول

    تعلیم کے فروغ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے گھروں کا ماحول بہتر ہو، پڑھائی اور لکھائی کی اس میں چرچا ہو، بچوں کی تربیت والدین کے پیش نظر رہے کیونکہ غیر تعلیمی اور ناآسودہ ماحول میں زندگی گزارنے والے بچے عام طور پر علم کے حصول میں پیچھے رہتے ہیں، ان میں مقابلے کی صلاحیت کم سے کم ہوجاتی ہے۔

    تجارت وکاروبار کے میدان میں مسلمانوں کی نئی نسل کی پیش رفت جاری رہنا چاہئے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ مسلم بچوں کو مقابلوں کے امتحانات کے لئے تیار کرایا جائے، ان کی صلاحیتوں کو صحیح سمت عطا کرکے، سرکاری نظم ونسق کے اعلیٰ عہدوں تک پہونچانے کے قابل بنایا جائے کیونکہ جس قوم کے لوگ انتظامیہ میں معقول نمائندگی سے محروم رہتے ہیں وہ قوم اپنا واقعی حق بھی حاصل نہیں کرپاتی۔

صحیح تعلیم کا راز:مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں صحیح تعلیم کے راز کو جان لیا تھا ، اسی لئے ان میں نامورمفکر، سائنس داں، موجد اور قائد پیدا ہوتے رہے، میرے خیال میں صحیح تعلیم کی تین کڑیاں ہیں ایک علم، دوسرے عمل تیسرے اخلاق، اسی طرح صحیح تعلیم کے تین مددگار ہیں ایک روشن ذہن ، دوسرے درد مند دل اور تیسرے سودمند طریقہ، صحیح تعلیم کے تین مقاصد ہیں ایک فرد کی اصلاح، دوسرے سماج کا سدھار اور تیسرے قوم کی فلاح وبہبود۔

    مسلمانوں نے جب تک تعلیم کے ان پہلوئوں پر توجہ دی اور انہیں اپنائے رکھا وہ ترقی کے زینہ پر چڑھتے گئے۔ حکومت واقتدار اور سیاست کی بھول بھلیوں میں پھنس کر جب انہوں نے مذکورہ زریں اصولو ں سے منہ موڑ لیا تو مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا، مغربی دنیا نے مسلمانوں کی تعلیم کے تئیں گہری توجہ اور شغف کو اپنایا تو وہ بھی آگے بڑھتے گئے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں اجتماعی طو رپر اپنے پرکھوں کے اصولوں کو اپنا کر کھویا ہو اوقار ومرتبہ پھر حاصل کرلیں کیونکہ   ؎

جہانتک دیکھئے تعلیم کی فرمانروائی ہے
جو سچ پوچھو تو نیچے علم اوپر خدائی ہے

(یو این این)

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1405