donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar : Moqabla Jati Imtahano Ke Liye Mahaul Sazi Ki Zarurat


بہار: مقابلہ جاتی امتحانوں کے لئے ماحول سازی کی ضرورت


ڈاکٹر مشتاق احمد


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں مسلم معاشرے کے اندر تعلیم کے تئیں قدرے بیداری آئی ہے اور جس کا نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ہمارے شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص تعلیم نسواں کی اہمیت تسلیم کی جانے لگی ہے۔ اب متوسط طبقہ بھی اپنی بچیوں کو اسکول ومدارس کی راہ دکھانے لگے ہیں لیکن ایک ٹھوس سچائی یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کا مقصد ڈگری حاصل کرنا ہی سمجھا جارہا ہے اور لے دے کر بس تیسرے چوتھے درجے کی ملازمت حاصل کرنے کا رجحان غالب ہے۔ ظاہر ہے کہ اب جبکہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے پوری دنیا ایک بازار میں تبدیل ہوگئی ہے ، ایسے وقت میں ہر ایک شئے کی قیمت واہمیت کا دار ومدار اس شئے کی پختگی اور اس کی عصری اہمیت پر ہے۔ ایسے وقت میں تعلیمی شعبے میں بھی معیار ومیزان کو اولیت دی جانے لگی ہے۔ غرض کہ کسی بھی میدان میں اب صرف ڈگری کی بدولت کوئی شخص اپنی جگہ متعین نہیں کرسکتا بلکہ اس کے اندر جو صلاحیت و علمی استعداد اسی کی بدولت مقام پاسکتا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کوئی متعصب شخص کسی کی ذہانت کا استحصال کرسکے، بالخصوص قومی اور ریاستی سطح پر جو مختلف محکموں کے لئے اعلی درجے کی ملازمت کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات ہوتے ہیں اس میں تو صرف اور صرف علمی استعداد ہی معنی رکھتا ہے۔ کیوںکہ ان مقابلہ جاتی امتحانات کے جو مراحل ہیں وہ اس قدر صاف وشفاف ہیں کہ ہر ایک امتحان دہندہ اپنے نتائج کا محاسبہ خود بھی کرسکتا ہے کہ بیشتر مقابلہ امتحانات کے پہلے مرحلے کے امتحان میں جو سوالات دئیے جاتے ہیں اس کی اصل کاپی امتحان دہندہ کے پاس رہ جاتی ہے۔ محض جوابی صفحہ ممتحن کے پاس جاتا ہے اور اب تو بیشتر امتحانات کے پرچے معروضی ہوتے ہیںاور اس کی جانچ بھی کمپوٹر کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ مقابلہ جاتی امتحانوں میں کسی طرح کی بدعنوانی نہیں ہوتی ہے۔ مرکزی سطح پر یو پی ایس سی، ایس ایس سی، ریلویز، بینکنگ ، حفاظتی محکمے وغیرہ ۔ واضح ہوکہ یو پی ایس سی صرف آئی اے ایس ،آئی ایف ایس، آئی پی ایس یا الائڈ سروس کا ہی امتحان نہیں لیتی بلکہ دیگر مرکزی محکموں کے امتحانات بھی لیتی رہتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اگر یو پی ایس سی کے امتحان میں شامل ہونے کا رجحان اگر ہے تو وہ صرف ایڈمنسٹریٹیو سروس تک محدود ہے، یعنی آئی اے ایس، آئی پی ایس کے خواہاں طلبا ہی یو پی ایس سی کی طرف نظر رکھتے ہیں جبکہ تقاضائے وقت یہ ہے کہ وہ یو پی ایس سی کے دیگر امتحانوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ 

بہرکیف، اس وقت بہار بپلک سروس کمیشن (بی پی ایس سی) کے ذریعہ انتظامیہ سروس کے لئے اشتہار جاری کیا گیا ہے۔ تقریباً ایک ہزار اعلی عہدوں کے لئے 27 ستمبر سے آن لائن فارم بھرا جائے گا اور مین امتحان آئندہ سال فروری تک ہوگا۔ ریاستی سطح کیلئے بی پی ایس سی کا امتحان خاصہ معنی رکھتا ہے کہ اسی امتحان کے ذریعے ڈپٹی کلکٹر اور پولس محکمے میں ڈی ایس پی کے علاوہ دیگر محکموں کیلئے بھی امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں۔ یہ امتحان بھی سہ سطحی ہوتا ہے، پہلا مرحلہ پی ٹی کا ہے جس میں صرف اور صرف معروضی پرچے ہوتے ہیں دوسرا مرحلہ مین امتحان یعنی تحریری پرچے ہوتے ہیں اور آخری مرحلہ انٹرویو کا ہوتا ہے۔ اس لئے اس امتحان کیلئے خصوصی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اقلیت طبقے کے طلبا بھی اس میں شامل ہوتے ہیں لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اس کے لئے خاص تیاری کا وہ اہتمام نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کا نتیجہ حوصلہ بخش نہیں رہتا۔ اگر واقعی ہمارے معاشرے میں مقابلہ جاتی امتحان کی ماحول سازی ہو ، بالخصوص ایسے طلبا جو ذہین ہیں اور غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی ذہن سازی لازمی ہے۔ اگرچہ بڑے شہروں میں نجی کوچنگ چلائے جارہے ہیں، بہار میں محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے پرنسپل سیکریٹری عامر سبحانی صاحب کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے حج بھون پٹنہ میں بھی بی پی ایس سی امتحان کی تیاری کے لئے کوچنگ کا اہتمام کیا گیا ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آیا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی سطح پر مسلم معاشرے میں ایک تحریک شروع ہونی چاہئے کہ ہمارے ایسے گریجویٹ جو واقعی مقابلہ جاتی امتحان کے لائق ہیں انہیں متحرک کیا جائے کہ وہ اس طرح کے مقابلہ جاتی امتحانوں میں شامل ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ بعض ضلع ہیڈ کوارٹر میں بھی نجی کوچنگ کی شروعات ہوئی ہے۔ ہمارے شہر دربھنگہ میں چند فعال ومتحرک نوجوانوں نے بھی نئی نسل کی ذہن سازی کے لئے اس طرح کی کوچنگ کا آغاز کیا ہے۔ ان میں ایک عاتف عارفی ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے اس طرح کی کاوشیں کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر بتایا کہ ہمارے پانچ فیصد گریجویٹ ہی مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہونے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اس طرح کے قومی یا ریاستی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانوں میں شامل ہی نہیں ہوںگے تو پھر نتیجہ معلوم ہے۔ کیونکہ اس طرح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہونے کا فیصد دو سے ڈھائی تک ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر اقلیت طبقے کے امیدواروں کی تعداد ہی کم ہوگی تو پھر نتیجہ بھی مایوس کن ہی ہوگا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شروع سے ہی اپنے معاشرے میں اس بات کی تلقین کریں کہ جو طلبا ذہین ہیں وہ انتظامیہ کی ملازمت کے لئے ہونے والے امتحانات میں ضرور شامل ہوں۔ واضح ہوکہ ہمارا ملک ایک جمہوری نظام کا حامل ہے اور اس حقیقت سے قما حقہ ہم سب واقف ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام بیروکریٹس کے ہاتھوں میں ہے۔ آج حکومت کی تمام پالیسی سازی اور پھر اس کے نفاذ میں ان ہی بیروکریٹس کا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس شعبہ میں ہماری تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ یہاں ایک حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں جن کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی ہے وہ اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر اور انجینئر بنانا چاہتے ہیں۔ بلا شبہ ڈاکٹر اور انجینئر کی بھی ملک وقوم کو ضرورت ہے لیکن انتظامیہ سے دور ہوتے جانا بھی خسارہ عظیم ہے۔ اس حقیقت کو بھی گرہ باندھ کر رکھنا چاہئے، آج اگر کسی بلاک ،سرکل، سب ڈویزن، ضلع، کمشنری، ریاستی سیکریٹرایٹ میں ہمارا نمائندہ ہے تو وہ ہمارے لئے کس قدر مفید ہے اس پر تبصرہ کرنا ضروری نہیں ، بس اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ انتظامیہ میں جب تک ہماری نمائندگی میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارے بہت سے مسائل حل نہیں ہوسکتے اور انتظامیہ میں ہماری نمائندگی میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے معاشرے میں مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے والے امیدواروں میں اضافہ ہوگا۔ اس کی ایک زندہ مثال خطہ جموں وکشمیر ہے کہ جہاں کے طلبا گزشتہ پانچ چھہ برسوں سے یو پی ایس سی کے امتحان میں قابل قدر کامیابی حاصل کررہے ہیں اور اس کی واحد وجہ وہاں کے معاشرے میں پیشہ وارانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے کے لئے باضابطہ طلبا کے درمیان مہم چلائی جارہی ہے اور مقامی سطح پر ذہن سازی کی جارہی ہے۔ چونکہ بہار میں بھی ایک درجن اضلاع میں اقلیتی مسلم طبقے کی اکثریت ہے، ان اضلاع میں اگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے ماحول سازی کی جائے تو ممکن ہے کہ نتیجہ حوصلہ بخش ہوسکتا ہے۔
میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں کہ معمولی کوششوں سے بھی ہم اچھے طلبا کا انتخاب کرسکتے ہیں اور انہیں مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے تیار کرسکتے ہیں۔ گزشتہ سال میں نے محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود حکومت بہار کے تعاون سے اپنے کالج میں کلرک گریڈ کے امتحانات کی تیاری کیلئے 60 طلبا کا انتخاب کیا تھا اور انہیں محض تین ماہ کی مفت کوچنگ کروائی تھی۔ انہیں مقابلہ جاتی امتحانات کے نصاب کے مطابق کتابیں دی گئی تھیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان میں 20سے زائد طلبا نے مختلف محکموں کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح بہار میں حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب امیر شریعت بہار و جھارکھنڈ نے میڈیکل اور انجینئرنگ کے امتحانات کے لئے کوچنگ (رحمانی -30)کا اہتمام کیا ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے آرہا ہے اور ہمارے معاشرے میں پیشہ وارانہ تعلیم کا ماحول بھی قدرے سازگار ہوا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انفرادی طور پر ریاست کے مختلف حصوں میں اس طر کی ماحول سازی کا کام ہونا چاہئے تاکہ ہماری پسماندگی کا ازالہ ہوسکے۔

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 580