donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Markazi wa Reyasati Hukumaton Ki Falahi Schemon Se Istefade Ki Muhim


مرکزی وریاستی حکومتوں کی فلاحی

 

اسکیموں سے استفادے کی مہم


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل: 9431414586


اردو زبان وادب کا علمی حلقہ جان بورتھوک گلکرسٹ کے نام سے بخوبی واقف ہے کہ گلکرسٹ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں ہندوستانی زبانوں کے شعبے کا سربراہ تھا۔ اگرچہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک طبیب تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں شعبہ میڈیکل کے اعلی عہدے پر فائز تھا۔ اس کے سامنے ایسٹ انڈیا کمپنی کو مزید مستحکم بنانے کا نشانہ تھا لیکن وہ ہندوستانیوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا بھی خواہاں تھا۔ اس لئے وہ اپنے سرکاری فرائض کی انجام دیہی کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ بالخصوص تعلیم یافتہ حلقوں کی مجلسوں میں فرصت کے اوقات گزارنا اس کی ہابی تھی۔ تعلیمی اداروں کے جلسوں میں وہ کثرت سے شرکت کرتا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایجنڈوں کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستانیوں کو بارہا یہ باور کراتا تھا کہ ایسٹ انڈیا کی جو فلاحی اسکیمیں ہیں اس سے ہندوستانی عوام واقف نہیں ہے۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ محض 2 فیصد ہندوستانی ہی کمپنی کی مراعات سے استفادہ کررہا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فلاحی اسکیموں سے واقف ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے  کہ گلکرسٹ کے مقاصد میں عوام الناس کے درمیان کمپنی کی مقبولیت کو بڑھانا تھا لیکن اس میں ایک سچائی یہ بھی تھی کہ اس وقت حکومت کی جو پالیسیاں تھیں ان سے 98فیصد عوام ناواقف تھی اور اس کی بنیادی وجہ ہماری ناخواندگی تھی یا پھر انگریزی سے ناآشنائی۔ کیوں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام سرکولر انگریزی میں شائع ہوتے تھے یا پھر اس کے تراجم فارسی میں۔ انیسویں کے آغاز میں جب اردو کا چلن قدرے عام ہوا تو اردو میں بھی سرکاری فرامین جاری کیے جانے لگے۔

 اس تمہید کا مقصد نہ تو جان گلکرسٹ کی خدمات کا اعتراف ہے اور نہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فلاحی اسکیموں کے تعلق سے کوئی تذکرہ ہی مقصود ہے، بلکہ اس تمہید سے محض یہ ثابت کرنا ہے کہ خواہ کوئی بھی حکومت ہو اگر عوام اس حکومت کی اسکیموں سے واقف نہیں ہوتی تو اس کا فائدہ ایک خاص طبقے تک محدود رہ جاتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کم وبیش اقلیتی طبقے کا یہی حال ہے کہ وہ موجودہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسیوں کی معلومات حاصل کرنے کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں۔ نتیجہ ہے کہ اقلیت طبقے میں شامل سکھ، بودھ، جین اور پارسی اقلیتوں کے لئے جاری اسکیموں سے زیادہ فائدہ حاصل کررہی ہیں، جبکہ مسلمان اس معاملے میں کافی پیچھے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف ان اسکیموں سے ان کی لاعلمی ہے۔ اس وقت مرکزی حکومت کی جانب سے 269 اسکیمیں چلائی جارہی ہیں جن کا تعلق حکومت کے مختلف محکموں سے ہے۔ ان اسکیموں سے جہاں ملک کا عام شہری استفادہ کرسکتا ہے وہیں اقلیت طبقے کے لئے خصوصی مراعات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ خاص کر تعلیمی شعبے میں کئی اسکیمیں تو صرف اقلیتوں کیلئے ہی چلائی جارہی ہیں۔ راقم الحروف نے اپنی تصنیف ’’مائنا ریٹی ایجوکیشن ان انڈیا‘‘ میں ان اسکیموں کا تعارف 2012 میں کرانے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ یہ کتاب انگریزی زبان میںتھی اور اس کی اشاعت کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ان اسکیموں کا تعارف اپنے گرد ونواح میں کرائیںگے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوئی، لیکن علمی حلقے میں اس کی پذیرائی میرے لئے حوصلہ بخش رہی۔ میری معلومات کے مطابق کرناٹک کی حکومت نے اپنے فلاحی اسکیموں کے تعلق سے ایک کتاب شائع کی تھی جس میں مرکزی حکومت کی اسکیموں کا تعارف بھی شامل تھا اور وہاں کی رضاکار تنظیموں کو یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ مسلم آًبادی میں ان اسکیموں کے تعلق سے مہم چلائیں۔ جہاں تک ریاست بہار کا تعلق ہے، یہاں میری ناقص معلومات کے مطابق اس طرح کی کوشش ہنوز شروع نہیں ہوئی، جبکہ ریاست میں ایک درجن اضلاع مسلم آبادی کی اکثریت والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت نے جب ایم ایس ڈی پی جیسی اسکیم کی شروعات کی تو پہلے مرحلے میں بہار کے 7 اضلاع شامل کیے گئے تھے اور دوسرے مرحلے میں بھی 5 اضلاع شامل کیے گئے ۔ حال ہی میں بہار کے محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے وزیر پروفیسر عبد الغفور کا اخباری بیان آیا تھا کہ وہ مرکز ی وزیر محکمہ برائے اقلیتی فلاح وبہبود سے مل کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ ریاست کے بقیہ اضلاع اور ان بلاکوں کو بھی اس اسکیم میں شامل کیا جائے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ ایک اچھی پہل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی پہل یہ ہوگی کہ پوری ریاست میں مرکزی اور ریاستی سرکاری اسکیموں کی معلومات عام لوگوں تک پہنچانے کیلئے خصوصی مہم چلائی جائے، تاکہ عدم واقفیت کی وجہ سے ہی ہماری بڑی آبادی سرکاری فلاحی اسکیموں سے استفادہ کرنے میں ناکام ہے، بالخصوص رضاکار تنظیموں کے وسیلے سے اس مہم کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے یا پھر ہمارے مذہبی رہنما اس کاز میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے یہاں ایک ایسا مربوط انتظام ہے جس کا استعمال اجتماعی بیداری کے لئے بھی کیا جاسکتا ہے، مثلاً ہر ایک جمعہ کو مساجد میں تقاریر وخطابات کا اہتمام ہوتا ہے، ایسے میں اکثر مساجد میں دینی مسائل تک ہی گفتگو ہوتی ہے۔ اگر ان مساجد میں سرکاری اسکیموں اور اس کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو بھی سمجھانے کیلئے تھوڑا وقت نکال لیا جائے تو میرا خیال ہے کہ اس طرح بھی کافی حد تک لوگ ان اسکیموں سے استفادہ کرسکتے ہیں یا پھر ہمارے علمائے کرام جو دیگر اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں وہ بھی چند فلاحی اسکیموں سے لوگ باگ کو روشناس کراسکتے ہیں۔ مسلم معاشرے کے جو تعلیم یافتہ افراد ہیں وہ بھی اس ملی فریضہ کو انجام دے سکتے ہیں اور اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً چھٹیوں کے دنوں مقامی سطح پر جلسے کا اہتمام، کتابچہ، دیواری اشتہاروغیرہ کی اشاعت کر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ نئی نسل کے جو فعال ومتحرک افراد ہیں بالخصوص جن کا عمل دخل سیاست میں ہے وہ بھی اپنے حلقے میں سرکاری اسکیموں کو عام کرنے کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ ان کاموں میں اردو صحافت کا بھی کلیدی کردار ہوسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ فرداً فرداً اسکیموں کا مختصر خاکہ اخباروں میں شائع کیا جائے۔ چند اخبار اس کام کو انجام بھی دے رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ اس طرف ہماری توجہ قدرے سست ہے۔


 اگر ہم ایک مشن کے طور پر اس کام میں لگ جائیں تو ممکن ہے کہ مسلم طبقے کی اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے کا کوئی راستہ ہموار ہوسکے۔ یہاں میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہتا ہوں، مرکزی حکومت کے محکمہ تعلیم کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ذریعہ پورے ملک میں کمپوٹر اور خطاطی کے مراکز قائم کیے جارہے ہیں، سال میں دو مرتبہ کونسل کے ذریعہ یعنی جون اور ستمبر میں ان اسکیموں کیلئے اشتہار شائع ہوتا ہے۔ اگر ان کے مراکز کی فہرست دیکھیں تو اندازہ لگتا ہے کہ جنوبی ہند میں اس کے مراکز زیادہ ہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہاں کی رضاکار تنظیموں اور تعلیمی اداروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ جبکہ شمالی ہند بالخصوص بہار میں ان کے مراکز اردو آبادی کی تعداد کے لحاظ سے کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس اسکیم سے ناواقفیت ہے۔ حال ہی میں میں نے کئی رضاکار تنظیموں اور تعلیمی اداروںسے اس سلسلے میں گفتگو کی تو اس حقیقت کا انکشاف ہوا، ظاہر ہے کہ یہ اسکیم قومی کونسل کے ذریعہ ایک دہائی سے چلائی جارہی ہے لیکن اب بھی ایک بڑی آبادی اس اسکیم سے فائدہ نہیں حاصل کرپارہی ہے، جبکہ کونسل کے ذمہ داران بالخصوص ڈائریکٹر پروفیسر ارتضی کریم کی کوشش ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ کمپوٹرس تربیتی مراکز قائم ہوں، تاکہ اقلیت طبقے کے بچے روزگار حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اسی طرح مختلف بینکوں کے ذریعے مرغی پروری، مویشی پالن اور چھوٹے گھریلو صنعت کے لئے قرض دیے جاتے ہیں اور ان پر حکومت کی جانب سے 33فیصد سبسیڈی دی جاتی ہے۔ یہاں بھی مسلم طبقہ دوسرے کے مقابلے میں پیچھے ہے اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس کے لئے قرض لیتے ہیں وہ اس کی ادائیگی کے معاملے میں بھی کوتاہ ہیں۔ جبکہ اس قرض کے ذریعہ روزگار حاصل کرسکتے ہیں اور اپنی ترقی کا راستہ بھی ہموار کرسکتے ہیں۔جہاں کہیں بینک کی جانب سے کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو وہاں دانشور طبقہ کو آگے بڑھ کر رہنمائی کرنی چاہئے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم معاشرے میں سرکاری اسکیموں سے واقفیت کی تدابیر پر سنجیدگی سے غور وفکر کیا جائے اور جو لوگ انفرادی طور پر ان اسکیموں سے واقف ہیں وہ اپنے معاشرے میں مبلغ کے طور پر کام کریں۔ ایسا کرنا وقت کا تقاضا ہے کیوں کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت میں عوام الناس کیلئے فلاح بہبود کی اسکیموں کا آغاز ونفاذ سیاسی مجبوری ہوتی ہے۔ مگر ان اسکیموں سے وہی افراد قما حقہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو بیدار ہوتے ہیں اور وقت کے پابند بھی۔ کیوں کہ تمام سرکاری اسکیموں کے لئے متعینہ وقت ہوتا ہے ، اگر ہم اس مدت میں درخواست نہیں دے پاتے تو پھر ہمیں حکومت سے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ جمہوریت میں جو طبقہ جتنا چاق وچوبند رہتا ہے وہ فائدے میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا مسلم معاشرہ اس معاملہ میں تساہلی کا شکار ہے، اگر تھوڑی سی کوشش ہو تو ہم بھی حکومت کے تمام تر فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔ 


٭٭٭   

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 624