donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bharat Me Mausiqi Ki Rawayat Aur Musalmano Ki Khidmat


بھارت میں موسیقی کی روایت اور مسلمانوں کی خدمات


 تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    بھارت میں آج کل موسیقی کا چلن بہت عام ہے اور اس کو بڑھاوا دینے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کوششیں بھی جاری ہیں۔ ان دنوں نوجوانوں میں اگرچہ مغربی کلچر کی طرح مغربی موسیقی کا بھی چلن بڑھ رہا ہے مگر بھارت کی اپنی موسیقی بے حد پُراثر ہے اور یہ عالمی پہچان رکھتی ہے۔ اس کی ہزاروں سال پرانی روایت رہی ہے اور یہ ہماری مخلوط تہذیب کا حصہ ہے۔ بھارت دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن جس قدر پرانا ہے، اتنی ہی قدامت کا حامل ہے ہندوستانی سنگیت۔ چونکہ بھارت میں مسلمانوں کی آمد سے قبل تک تاریخ نویسی کا رواج نہیں تھا لہٰذا یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں سنگیت کی روایت کتنی پرانی ہے۔ البتہ ویدوں میں موسیقی کا ذکر ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہزاروں سال قدیم ہیں۔ اسی طرح موہن جوداڑو اور ہڑپا کی کھدائی میں ایک رقاصہ کی مورتی برآمد ہوئی ہے جسے دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس دور میں موسیقی کا چلن تھا۔ مانا جاتا ہے کہ موسیقی کا آغازوادی سندھ کی تہذیب کے دور میں ہوا تھا، تاہم اس دعوے کے ثبوت میں بس یہی رقاصہ کی کانسے کی مورتی ہی پیش کی جاتی ہے۔وادی سندھ کی تہذیب کے زوال کے بعد ویدک موسیقی کا آغاز ہوا جس میں موسیقی کے انداز میں بھجن اور منتروں کے تلفظ سے خدا کی عبادت اور ارادھنا کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ دو قدیم بھارتی گرنتھوں رامائن اور مہابھارت کی تخلیق میں موسیقی کا اہم اثر رہا۔کرشن کا تصور صدیوں پرانا ہے اور انھیں ہمیشہ بانسری کے ساتھ ہی مصور کیا گیا ہے۔ گویا یہ آلہ موسیقی بھارت میں صدیوں سے رائج ہے۔ ہندوستان میں ثقافتی دور سے لے کر جدید دور تک آتے آتے موسیقی کے اسٹائل اور طریقہ میں زبردست تبدیلی آئی ہے اور اس پر وسط ایشیا کی موسیقی کا اثر بھی پڑا ہے کیونکہ بھارت پر صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلمان اسی خطے سے آئے تھے اور وہ اپنے ساتھ جہاں دوسری چیزیں لائے تھے وہیں موسیقی بھی لائے تھے۔ بھارتی موسیقی کی تاریخ کے عظیم موسیقاروں جیسے کالی داس، شیخ محمد غوث گولیاری،تان سین، امیر خسرو وغیرہ نے ہندوستانی موسیقی کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور جن روایتوں کو پنڈت روی شنکر، بھیم سین، پنڈت جسراج، سلطان خان وغیرہ جیسے سنگیت پریمیوں نے آج کے دور میں بھی قائم رکھا ہوا ہے۔


ہندوستانی موسیقی قدم بہ قدم

    بھارتی موسیقاروں میں یہ نظریہ رہا ہے کہ موسیقی کے دیوتا شیو اور سرسوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہی جان پڑتا ہے کہ انسان اتنے اعلیٰ فن کو فضلِ الٰہی کے بغیر صرف اپنی طاقت پر، تیار نہیں کر سکتا۔ویدک دور میں سنگیت معاشرے میں مقام بنا چکا تھا۔سب سے قدیم گرنتھ 'رگ وید' میںموسیقی کا ذکر بے حد احترام کے ساتھ کیا گیا ہے۔ متعدد وادوںکی ایجاد بھی رگ وید کے وقت میں بتائی گئی ہے۔ 'یجروید' میں موسیقی کا ذکر ہے ، پھر 'ساموید' آیا، جسے موسیقی کا اصل گرنتھ سمجھا گیا۔ 'ساموید' میں تلفظ کے لحاظ سے تین اور موسیقی کی نظر سے سات  سروں کا ذکر ہے۔ 'ساموید' کا ترانہ (سامگان) میسوپوٹامیا، یروشلم، ایران، عرب وغیرہ کی مذہبی موسیقی سے کافی ملتا جلتا تھا۔

    ویدک دور کے گرنتھ 'رامائن' میںکئی آلات اورگیتوں کی وضاحت ملتی ہے، تو 'مہابھارت' میں کرشن کی بانسری کے جادوئی اثر سے تمام متاثر ہوتے ہیں۔ایک مقام پر ارجن بھی رقص وموسیقی سکھاتے نظر آتے ہیں۔اپنیشد اور دوسرے گرنتھوں سے بھی ہمیں اس وقت کی موسیقی کا تعارف ملتا ہے۔ چوتھی صدی میں بھرت مونی نے 'ناٹیہ شاستر' کے چھ ابواب میں موسیقی پر ہی گفتگو کی۔ ان میں مختلف وادوں کی وضاحت، ان کو بجانے کے طریقوں، سر، چھند، تال اور مختلف کالوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اس گرنتھ میں بھرت مونی نے گلوکاروں کی خصوصیات اور خامیوں پر بھی کھل کر لکھا ہے۔ پانچویں صدی کے ارد گرد لکھے گئے ایک اہم گرنتھ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک لوگ راگوں کے بارے میں جاننے لگے تھے۔ لوگوں کی طرف سے گائے بجائے جانے والے راگوں کو متگ مونی نے مقامی راگ کہا اور مقامی راگوں کے قوانین کو سمجھانے کیلئے ایک گرنتھ کی تخلیق کی۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اچھی طرح غور وفکرکر کے پایا کہ چار یا پانچ سروں سے کم میں راگ بن ہی نہیں سکتا۔ساتویں،آٹھویں صدی میں راگوں اور سروں کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور راگوں کو گانے،بجانے کے وقت پر بھی سنجیدگی سے سوچا گیا ہے۔

موسیقی اور مسلمان

    گیارہویں صدی میں مسلمان اپنے ساتھ فارس کی موسیقی لائے۔ فارسی اور ہندوستانی موسیقی کے میل سے ایک نئی طرح کی موسیقی کا جنم ہوا۔یہاں کی قدیم موسیقی میں تبدیلیاں آئیں۔ اس دور کے بادشاہ اورراجہ بھی موسیقی کے عاشق تھے اور موسیقاروں کو سرپرستی دے کر ان کے فن کو نکھارنے،سنوارنے میں مدد کرتے تھے۔ بیجاپور کے ایک سلطان نے ’’نورس‘‘ تحریر کیا تو شہنشاہ اکبر کے دربار میں 36 موسیقاروں کی موجودگی کا ذکر کتابوں میں لتا ہے۔  اسی دور کے تان سین، بیجوباورا، رام داس کے نام آج بھی مشہور ہیں۔ جہانگیر کے دربارمیںھتتر خاں و ولاس خاں نامی ماہرین موسیقی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں تو خود بھی اچھا گاتاتھا اور گلوکاروں کو سونے،چاندی کے سکوں سے تولواکر انعام دیا کرتے تھے۔ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کا نام تو بہت سے پرانے گیتوں میں آج بھی ملتا ہے۔ گوالیار کے بادشاہ مان سنگھ بھی موسیقی پریمی تھے۔ انھیں اوقات میں ہی موسیقی کی خاص اسٹائل 'دھرپد' کی ترقی ہوئی۔بھارت میں مسلمانوں کی آمد کے بعد سے یہاں موسیقی کی ترقی کی رفتار بڑھ گئی کیونکہ اسے پھیلنے اور بڑھنے کے لئے مناسب ماحول ملا اور سرکاری سرپرستی بھی۔اس دور میں بہت سی کتابیں بھی تحریر کی گئیں جو آئندہ دور کے موسیقاروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔

    زمانے کی تبدیلی کے ساتھ موسیقی کے فارمیٹ میں بھی تبدیلی آنے لگی مگر اصل عنصر ایک ہی رہے۔مغل دور اقتدار میں بھارتی سنگیت فارسی و مسلم ثقافت کے اثر سے اچھوتا نہ رہ سکا۔ شمالی بھارت میں مغل اقتدار زیادہ پھیلا ہوا تھا جس کی وجہ سے شمالی ہندوستان کی موسیقی پر مسلم ثقافت و اسلام کا اثر زیادہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ جنوبی بھارت میں مقبول سنگیت کسی قسم کے بیرونی اثرات سے اچھوتا ہی رہا۔ اس طرح بھارتی موسیقی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

1) شمالی ہندوستان کی موسیقی 
2) کرناٹک اسٹائل کی موسیقی

شاہی محلوں سے صوفیہ کے آستانوں تک سنگیت کا زور

    شمالی ہندوستان کی موسیقی میں کافی تبدیلی آئی۔ سنگیت اب مندروں تک محدود نہ رہ کر شاہی درباروں کی زینت بن چکا تھا۔ اسی وقت کچھ نئی طرزیں بھی وجود میں آئیں ، جیسے خیال، غزل، ٹھمری وغیرہ اور بھارتی موسیقی کا کئی نئے وادوں سے بھی تعارف ہوا جیسے سرود، ستار وغیرہ۔بعد میں صوفی تحریک نے بھی بھارتی موسیقی پر اپنا اثر جمایا۔ آگے چل کر ملک کے مختلف حصوں میں کئی نئے طریقوں و گھرانوں کی پیدائش ہوئی۔ برطانوی دور حکومت کے دوران کئی نئے کردار مقبول عام ہوئے۔ عوام میں مشہور آج کا اہم آلہ موسیقی ہارمونیم، اسی وقت رواج میں آیا۔ اس طرح بھارتی موسیقی کے عروج و اشاعت اور تبدیلی میں ہر زمانے کی اہم شراکت رہی۔ بھارت میں مسلم دور کی شروعات میں ہی امیر خسرو کا ظہور ہو چکا تھا، جنھوں نے سنگیت کے پرچار وپرسار میں اہم رول ادا کیا تھا۔ وہ کئی بادشاہوںاور رئیسوں کے دربار سے وابستہ رہے جن میں سلطان معزالدین کیقباد، سلطان جلال الدین خلجی، سلطان علاء الدین خلجی، سلطان مبارک شاہ خلجی، شہزادہ کشلی خاں، شہزادہ محمد سلطان اور بغرا خاں وغیرہ۔ وہ اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ بہترین موسیقار بھی تھے۔ شاہی محلات میں جو عیش ونشاط کی محفلیں سجتی تھیں وہ امیر خسرو کی غزلوں کے بغیر اھوری رہتی تھیں۔ ان محفلوں میں اپنے وقت کے بڑے بڑے سنگیت کار اور رقاص شامل ہوتے تھے اور امراء کی طرف سے ان پر سونے چاندی کے سکوں کی بارش کی جاتی تھی۔ ان محفلوں کا تفصیلی ذکر اس دور کی معتبر کتاب’’ تاریخ فیروزشاہی‘‘ میں ملتا ہے جس کا مصنف ضیاء الدین برنی خود بھی شاہی محفلوں کا حصہ ہوتا تھا۔ امیر خسرو نے موسیقی میں کئی ایجادات کیں جن میں سے ایک قوالی بھی ہے۔ روایات کے مطابق وہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید تھے جو کہ سماع کے دلدادہ تھے۔ حالانکہ علماء وقت اسے ناپسند کرتے تھے اور انھوں نے سلطان غیاث الدین تغلق کے دربار میں اس کی شکایت بھی کی تھی، جس پر انھیں بادشاہ کے سامنے علماء کے اجتماع میں جواب دینا پڑا تھا۔ اسلام میں موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس بحث سے قطع نظر صوفیہ کی خانقاہوں پر موسیقی کا چلن رہا ہے اور سماع کی محفلیں سجتی رہی ہیں۔ خاص طور پر چشتی بزرگوں کے ہاں اسے پسند کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے پیشرو بھی سماع پر کاربند تھے اور بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے بارے میں تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال محفل سماع میں ہوا۔ گوالیار کے صوفی حضرت محمد غوث گوالیاری نے اکبر کے درباری موسیقار تان سین کی پرورش کی تھی اور اسے موسیقی کی تعلیم دی تھی۔ تان سین کی قبر آج بھی آپ کے پہلو میں ہے۔ 

موجوددہ دور میں سنگیت کا فروغ

    حالیہ دور میں موسیقی کے فروغ میں جدید آلات وایجادات اور الکٹرانک میڈیا کا خاص رول رہا ہے۔ کلاسیکل سنگیت میں ایک سے بڑھ کر ایک استاد پیدا ہوئے مگر فلمی موسیقی کو زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان ایجادات سے قبل موسیقی کا مرکز طوائفوں کے کوٹھے ہوا کرتے تھے مگر رکارڈ کی ایجاد نے اسے عوام تک پہنچایا اور پھر فلم وریڈیو نے اسے مزید مقبول بنادیا۔ کلکتہ کی گوہر جان پہلی گلوکارہ تھیں جن کی آواز رکارڈ کی گئی تھی۔ یہ ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئین اور ۱۹۳۰ء تک زندہ رہیں۔ قیاس ہے کہ ان کا نغمہ ۱۹۰۵ء میں رکارڈ کیا گیا تھا جو، اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ استاد بڑے غلام علی خاں، زہرہ بائی امبالے والی، بیگم اختر، کے ایل سہگل، ثریا ، نور جہاںوغیرہ ہندوستانی موسیقی اور گلوکاری کے میدان میں بیسویں صدی میں چھائے رہے توآزاد بھارت میں نوشاد علی، جے دیو، ایس ڈی برمن، خیام، لکشمی کانت۔پیارے لعل، استاد غلام محمد خان، محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، طلعت محمود، کشور کمار،مہیندر کپور وغیرہ نے مقبولیت کے رکارڈ قائم کئے۔ حالانکہ موسیقی اور گلوکاری میں اب بھی نئے تجربے ہورہے ہیں اور آج کی نئی نسل اے آر رحمٰن، وشال بھاردواج، سلیم۔سلیمان وغیرہ کوپسند کر رہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 895