donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Kya Aqeeda Insan Ke Sath Mirrikh Par Jayega


 

کیا عقیدہ انسان کے ساتھ مریخ پر جائے گا؟


 

کے اشرف


انسان جب مریخ کے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہے  اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اگلی ایک دہائی میں  مریخ پر پہنچ جائے گا اور وہاں بود وباش اختیا ر کرے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ  اگر اُس گروہ میں کچھ مسلمان بھی شامل ہوئے تواُن  کی عبادات کا کیا بنے گا۔ وہ نماز کیسے پڑھیں گے۔ روزے کیسے رکھیں گے۔ قربانی کس کی اور کیسےدیں  گے۔ حج کیسے کریں گے۔

علمائے دین پہلے ہی مریخ کے سفر کے بارے میں فتوے جاری کررہے ہیں کہ وہاں جانا حرام ہے لیکن علما یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ اگرمسلمان وہاں پہنچے تو وہ دینی مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہوں گے اور اُن مسائل کی نوعیت کیا ہوگی۔

جہاں تک خدا پر عقیدے کا تعلق ہے اُس کاتو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کاخدا یونیورسل خدا ہے۔ وہ جب مریخ پر جائیں گے تو خدا پہلے ہی وہاں موجود ہوگا۔  جس طرح وہ زمین پر اُس پر اعتقاد رکھتے ہیں اُسی طرح وہ مریخ پر بھی اُس پر اعتقاد رکھ سکیں گے۔ رسول پاک پر اعتقاد بھی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ مریخ پر جانے والے مسلمان بھی انسان ہوں گے اور رسول پاک کو اللہ تعالی نے انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔  اس لئے مریخ پر جانے والے مسلمان اللہ اور رسول پر ایمان قائم رکھ سکیں گے۔ البتہ نماز ، روزے ، قربانی اور حج کے بارے میں شاید انہیں دشواری پیش آئے۔

ہو سکتا ہے کہ نماز پڑھنے کے اوقات میں بھی کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے ۔ مریخ پر دن کی لمبائی تقریباً زمین کے دن کی لمبائی کے برابر ہی ہے۔ اس لئے وہ وہاں بھی دن میں پانچ نمازیں پڑھ سکیں گے۔ تاہم جس مسئلہ کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا وہ مریخ پر  قبلہ کی عدم موجودگی ہے۔ مریخ پر قبلہ نہ ہونے کی وجہ سے شاید انہیں نماز کے لئے رخ تعین کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔اس مسئلہ پر انہیں متحد ہو کر اجتہاد کرنا پڑے گا۔ چونکہ اتحاد مسلمانوں کے لئے سب سے مشکل کام ہے ہو سکتا ہے وہاں بھی مسلمانوں میں قبلہ کے رخ کے تعین پر ایک طویل جنگ چھڑ جائے۔  تاہم لڑائی سے بچنے کے لئے وہ زمین پر سعودی امام کعبہ سے فتوی لے کر کسی  ایک سمت میں رخ کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں ۔  لیکن اس کا ایک سادہ سا حل ہم ابھی پیش کئے دیتے ہیں۔ اگر یہ تحریر پڑھنے والا کوئی مسلمان مریخ پر پہنچے تو وہ وہاں ایک نیا کعبہ تعمیر کر سکتا ہے۔ کیوں کہ مریخ کا سائز زمین کے ہی برابر ہے وہ مریخ کے اُسی خط عرض اور طول بلد پر کعبہ تعمیر کر سکتے ہیں جس نقطے پر زمین پر کعبہ موجود ہے۔

یہاں تک تو کام چل جائے گا۔   لیکن روزوں کے سلسلے میں پیدا ہونے والے مسائل شاید زیادہ غور و فکر کے طالب ہوں ۔ کیونکہ مریخ پر ایک نہیں دو چاند ہیں۔ دونوں ایک وقت میں طلوع و غروب نہیں ہوتے اور نہ ہی مریخ کے گرد ان کا چکر 
زمینی چاند  کی طرح ہے۔  مریخ کا ایک چاند مریخ پر مغرب سے طلوع ہو کر مشرق میں غروب ہوتا ہے جب کہ دوسرا چاند مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں غروب ہوتا ہے ۔ مریخ کے دونوں چاند مریخ کے گرد تقریباً چار گھنٹوں میں اپنا سفر مکمل کر لیتے ہیں ۔ وہ مریخ پر دن میں چھ بار طلوع  و غروب ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے کی مخالف سمت میں۔

اس صورت میں مسلمانوں کو روزے رکھنے کے لئے خاص طور پر بہت سوچ وبچار سے کام لینا پڑے گا۔ البتہ یہ طے ہے کہ وہاں انہیں کسی رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ چناچہ بہت سے مولویوں کا اکٹھا ہو کر چاند دیکھنے اور رمضان کے آغاز کا اعلان نہیں کرنا پڑے گا۔  اگر مریخ پر آباد مسلمانوں نے زمین  پر رویت ہلال کمیٹیوں سے رابطہ جاری رکھا تو پھر شاید انہیں وہاں بھی رمضان آگے پیچھے کرنا پڑے اور عیدین کی نمازیں وہاں بھی ایک سے زیادہ ہوں۔لیکن اگر مریخ کے حوالے سے وہ کوئی مختلف نظام مرتب کر لیں تو شاید  رمضان اور عیدین کا مسئلہ بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائے۔

روزوں کے بعد انہیں قربانی کے لئے خاص طور پر بہت ہی گہرے غور وفکر کی ضرورت ہو گی۔ اول تو وہاں بھیڑ بکریاں اور اونٹ یا گائیں نہیں ہونگے اس لئے انہیں سوچنا پڑے گا کہ قربانی کس چیز کی دیں۔ اونٹ تو شاید مریخ پر آباد کوئی سر پھرا عرب لے جائے لیکن گائیں لے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  اس لئے اس مسئلے کا کوئی حل ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ ہاں ایک ممکنہ حل اس کا یہ ہو سکتا ہے کہ سر پھرا عرب اپنے اونٹ کی قربانی میں بہت سے اور مسلمانوں کا حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہو جائے تو اس طرح مریخ پر آباد مسلمان قربانی کی رسم بھی ادا کرسکیں۔

حج کا تعلق بھی بنیا دی طور پر چاند کے ساتھ  ہی ہے۔ رمضان کے آغاز وانجام کی طرح حج کے تعین  کے لئے مریخ پر آباد مسلمانوں کو کچھ غور وفکر سے کام لینا پڑے گا۔ اگر وہ رمضان کے آغاز وا نجام کا تعین کرنے میں کامیاب ہو گئے تو حج کے وقت کا تعین کرنا ان کے لئے آسان ہو جائے گا۔ جس طرح شعبانی سے کلیمی دو قدم ہے اسی طرح رمضان کے انجام سے حج ٹھیک دو مہینے دس دن بعد ہے۔ اس طرح وہ مریخ پر رمضان کے ٹھیک دو مہینے دس دن بعد حج کا فریضہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔  حج کے لئے چونکہ کعبہ کی ضرورت  ہوگی اُس کا ایک ممکنہ  حل ہم نے پہلے تجویز کر دیا ہے کہ زمینی عرض و طول بلد کی طرح مریخی عرض وطول بلد پر ایک کعبہ بنا لیں ۔ ورنہ  حج کا تعلق چونکہ مالی استعاعت سے جو مریخ پر آباد مسلمان اتنی مالی استعاعت رکھتے ہوں کہ وہ زمین پر واپس آکر حج کر لیں تو صرف وہی حج کے بارے میں سوچیں  باقی حج کے بغیر  زندگی گزاریں۔

یہ ساری باتیں چونکہ مریخ پر  عقیدے  کے امکانات کے  حوالے لکھی گئی ہیں  تو ان سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ انسان جب مریخ پر سفر کرے گا  تو عقیدہ بھی اس کے ساتھ سفر کرے گا۔  ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مریخ پر آباد کار سب انسانوں کا عقیدہ ایک ہی ہوگا۔ اگر مریخ پر جانے والوں میں کوئی مسلمان نہ بھی ہوا تو جو انسان مریخ پر جائیں 

گے وہ یقناً مسلمان ہو جائیں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کا اتنا بڑا معجزہ  دیکھنے کے بعد وہ مسلمان  نہ ہوں۔

آخر چاند پر جانے والا ایک خلا نورد بھی تو چاند پر اذان کی آواز سن کر مسلمان ہو گیا تھا۔زمین پر واپسی کے بعد اُس نے تبلیغی جماعت جائن کر لی تھی اور آج کل وہ باقاعدہ مبلغ کے طور پر سر گرم عمل ہے۔

اس لئے جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ مریخ پر پہنچنے کے بعدانسان عقیدوں سے نجات پا لے گاان سے ہمیں ہمدردی ہے۔  وہ ایسا نہ ہی سوچیں تو بہتر ہے۔ مریخ پر انسانی عقائد اسی طرح توانا رہیں گے اور ہو سکتا ہے وہاں بھی کچھ عرصہ بعد عبادت گاہوں کی اتنی ہی بہتا ت ہو جتنی زمین پر ہے۔

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 738