donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Maashrati Tabdili Ke Mashraqi Aur Maghrabi Tasawwurrat


معاشرتی تبدیلی  کے مشرقی اور مغربی تصورات


کے اشرف


مسلمان شاید اپنی قسم کے واحد انسان ہیں جن کی بڑی تعداد نہ صرف ماضی کو از سر نو زندہ کرنا چاہتی ہے بلکہ ماضی میں زندہ  رہنا چاہتی ہے۔


دنیا کے کسی ملک میں یا انسانوں کے کسی اور اتنے بڑے گروہ میں ماضی کو زندہ کرنے یا ماضی میں زندہ رہنے کی خواہش نہیں پائی جاتی۔ بلکہ  زیادہ تر اقوام میں اس خیال کو ہی سرے  سے ایک بے ہودہ خواہش قرار دے کر رد کر دیا جاتا ۔


چین، جاپان، ہندوستان، یورپ، نارتھ امریکہ  یا لاطینی امریکہ کے کسی ملک میں چلے جائیے  اور لوگوں سے پوچھئے کہ کیا وہ پندرہ سو سال قبل تاریخ میں واپس جانا اور زندہ رہنا پسند کریں گےتوآپ کے مخاطب کا چاہے کسی نسل، مذہب  [اسلام کے علاوہ] یا علاقے سے تعلق ہوتو وہ آپ کے سوال کو ایک احمقانہ سوال   سمجھ کر ردّ کر دے گا۔ شائد کچھ منچلے اسے ایک اچھی مہم سمجھ کر چند لمحوں کے لئے ماضی میں سفر کرنے پر آمادہ ہو جائیں لیکن اگر اُن سے مستقلاًً  وہاں رہنے کے لئے استفسار کیا جائے تو وہ کبھی اس پر تیار نہیں ہوں گے۔


مسلمانوں کی کہانی اس کے بالکل برعکس ہے۔  بہت سے مسلمانوں میں یہ  خواہش پائی جاتی ہے کہ  اچانک تاریخ کو پہیہ اُلٹا گھومے اور وہ رسول    پاک اور صحابہ ٔ  اکرام کے دور میں پہنچ جائیں اور پھر اپنی ساری زندگی ان کی معیت میں گزاریں۔


وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایسا سوچنے اور ایسی خواہش کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔  مزے دار بات یہ ہے کہ یہ سوچ یا خواہش صرف اُن کی ذاتی خواہشات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ سوچ اور خواہش اُن کے تخلیقی شعور کے ذریعے اُن کے علمی و ادبی شاہپاروں میں بھی پہنچ جاتی ہے۔


اردو ادب کی بہت سی اصناف میں یہ سوچ اور خواہش تو مرکزی خیال کی صورت میں رچی بسی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اردو کی افزائش اور نشوونما کے ادوار میں ہندوستان کے غیر مسلم اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے۔


ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقت کے ساتھ اردواپنے آپ کو مذہبیت کے اس اثر سے آزاد کر لیتی لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کی ماضی میں سفر کرنے اور ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے کی طاقت ور خواہش نے اُردو زبان کو اس اثر سے نکلنے نہیں دیا۔


چیونکہ اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے۔ اس لئے اس مسئلے پر مزید کچھ کہے بغیر ہم اصل موضوع پر اپنی معروضات کا تسلسل جاری رکھیں گے۔


ہاں تو بات ہو رہی تھی دیگر اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کی ماضی میں زندہ رہنے کی خواہش کی۔ مسلمانوں کی یہ خواہش جیسا کے ہم عرض کررہے تھے صرف سوچ اور خواہش کے زمرے سے نکل کر ان کے تخلیقی شعور کے ذریعے علم و ادب کے دائروں میں بھی مسلسل دخل اندازی کرتی رہتی ہے۔ اگر یہ حمدوں ، نعتوں ، منقبتوں ، قصیدوں اور مرثیوں تک محدود ہوتی  توایک بات تھی  اس کے اشارات تو ہمیں غزل اور نظم  جیسی اصناف میں بھی جا بجا  دکھائی دیتے ہیں۔


ادب کی ذیل سے باہر نکلیں تو سیاست کے میدان میں تو کئی  مسلمان ممالک میں شریعت لاگو کرنے کے لئے توانا  تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ تحریکیں بھی دراصل عہدنبوی اور عہد خلفا کو زندہ کرنے اور اُس میں زندہ رہنے کی خواہش کی ہی ایک صورت ہے۔  بلکہ ایک حوالے سے اُس عہد میں زندہ رہنے کی خواہش سے زیادہ خوفناک صورت حال ہے کیونکہ شریعت کے نفاذ ماضی میں زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والی قوتیں ماضی کو حال اور مستقبل پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔


ماضی پرستی اور ماضی میں زندہ رہنے کی خواہش ماضی بعید میں یوروپی اقوام میں بھی موجود تھی لیکن انہوں نے بتدریج  مذہبی ، سیاسی اور سماجی ریفارمز سے اس خواہش کا گلا مکمل طور پر گھونٹ دیا لیکن مسلمانوں میں ابھی تک یہ خواہش پوری طاقت اور قوت کے ساتھ زندہ ہے۔


بعض مسلمان سماجوں میں علمائے دین کا ضرورت سے بڑھا ہوا اثرو نفوذ بھی اسی خواہش کی ایک صورت ہے۔ یہ علما  اپنے اپنے سماج میں مکمل کوشش کرتے ہیں کہ  مسلمان کبھی شعوری طور پر ماضی کے تسلط سے باہر نہ نکل سکیں۔


اس ساری گفتگو کے بعد ہم آتے ہیں اس مضمون کے موضوع کی طرف یعنی تبدیلی کے مشرقی اور مغربی تصورات۔ اس طویل تمہید سے دراصل ہمارا مقصود مسلمانوں میں تبدیلی کے عمومی تصور  کی نوعیت کی طرف توجہ دلانا تھا۔


تبدیلی  انسانی معاشروں کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ انسانی سماج مسلسل اپنے آپ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اپنے مادی ماحول اور زندگی کی شرائط کو بہتر شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ سماج مناسب منصوبہ بندی سے یہ فریضہ انجام دیتے ہیں اور اپنے عوام کے لئے حیرت ناک نتائج پیدا کرتے ہیں ۔ ایسے نتائج سے وہ معاشرے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہیں۔ جس سے اُن کے عوام  کی زندگیوں میں بتدریج بہتری آتی چلی جاتی ہے۔


منصوبہ بندی کے تحت اس ترقی کے زیادہ سے زیادہ مظاہر ہمیں یوروپی ممالک میں دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں انسانوں  کی رہائش سے لے کر تعلیم ، علاج معالجے  ، ٹرانسپورٹ ، فنانس اور انسانوں کی جسمانی و جذباتی ضرورتوں کے لئے فعال نظام ہمہ وقت  کارفرما ہیں۔  ان نظاموں کو موثر اور فعال رکھنے کےلئے نجی اور سرکاری ادارے ہمہ وقت حرکت میں رہتے ہیں۔ ان کو مزید بہتر بنانے کے لئے متعلقہ ادارے ہروقت نئی منصوبہ بندی  کا عمل جاری رکھتی ہیں۔


مغربی ممالک میں تبدیلی کا عمل صرف اپنے معاشروں کو فعال رکھنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہر شعبہ ٔ زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ جہاں اس عمل میں مسائل پیدا ہوتے ہیں اُن سے نبرد آزما ہونے کے لئے عملی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اِن معاشروں میں تبدیلی کی خواہش ماضی میں لوٹنے یا ماضی کو حال پر مسلط رکھنے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ زندگی میں نئے امکانات کی کھوج اور اُن کو عملی شکل دینے کا نام ہے۔


تبدیلی کے اس تصور کا اطلاق اُن مشرقی معاشروں پر بھی مغربی ممالک کی طرح ہوتا ہے جو اپنی توجہ ماضی کی بجائے مستقبل پر مرکوز رکھنے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔  دوبارہ اگر اُن ممالک کا نام لیا جائے تو اُس میں جاپان، چین اور ساوتھ کوریا  سر فہرست ہیں۔ ہندوستان اگرچہ کافی حدتک تبدیلی کے اس تصور کو اپنا چکا ہے لیکن  پاکستان کی طرح ابھی ہندوستانی سماج بھی ماضی پرستی کی لعنت سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکا۔ ہندوستان میں ہنوز بہت سی ماضی پرست قوتیں پوری قوت اور طاقت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اُن کا معاشرتی اثرو رسوخ  بھی خاصا طاقت ور ہے۔ لیکن عمومی طور پر ہندوستان نے اپنے قبلہ درست کرلیاہے اور بڑی تیزی کے ساتھ رجعت پسندی کی کھال سے باہر آنے کے لئے کوشاں ہے۔


کیا اسلامی معاشرے کبھی تبدیلی کے مغربی تصور کو اپنا کر اپنی سوچوں اور خواہشوں کا رخ  ماضی سے مستقبل کی طرف موڑ سکیں گے؟


ہمیں مستقبل قریب میں ایسا ہونے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتے۔ مسلمان معاشروں میں ماضی پرست قوتیں خونخوار حد تک  بہت طاقت ور ہیں ۔ شاید کوئی طاقت ور مسلمان دانشور ان کو عہدی نبوی یا عہد خلفا میں زندہ رہنے کی خواہش  یا اُس عہد کو اس عہد پر مسلط کرنے کے مضمرات سے نکال کر عہد حاضر میں زندہ رہنے  اور تبدیلی کے رخ کو مستقبل کی طرف موڑنے پر قائل کرسکے۔ لیکن کیا کیا جائے ہر مسلمان دانشورعملی طور پر اُسی عطار کے لونڈے کے پاس دوا لینے جانے کا گرویدہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان معاشرے مسلسل انحطاط اور تبدیلی کے صحیح شعور سے عاری ہیں۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 723