donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Bijliyan Barse Huye Badal Me Bhi Khwabida Hain


بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں


نہال صغیر

۔بلاد آدم ۔ضلع ویشالی ۔بہار۔

موبائل :9987309013   

 ای میل:sagheernehal@gmail.com

 

    آج ایک عجیب فیشن بن گیا ہے ہر کوئی مسلم نوجوانوں کی گمراہی اور ان کی بے کرداری کا رونا روتا ہے ۔جسے دیکھئے وہ نوجوانوں کو مطعون کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔کہیں کوئی ایسی خبر آگئی جس میں مسلم نوجوان کی کسی جرم میں ملوث ہونے کی بات ہو کہا جانے لگتا ہے کہ ہم شرمندہ ہیں ان کی ایسی حرکتوں سے لیکن وہیں جب ایسی خبریں آتی ہیں جس میں مسلم نوجوانوں کے بلند کردار و اخلاق کا تذکرہ ہوتا تو ہم اس کی تشہیر کرتے ہوئے پتہ نہیں کیوں گھبراتے ہیں ؟۔ علامہ اقبال بیسویں صدی عیسوی کا وہ بطل جلیل ہے جس نے امت کو یاس اور نا امیدی سے نکلنے کی سوچ عطا کی ۔ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف سے مسلم امہ زوال کے گھیرے میں تھی جو ہنوز جاری ہے علامہ نے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلا کر راکھ کے ڈھیر سے چنگاری کو شعلہ بننے کی جانب گامزن کیا ۔چنانچہ انہوں نے طرابلس کی ایک ننھی بچی فاطمہ کی شان میں ایک نظم لکھی جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس گھنگھور اندھیرے میں بھی امید کی کرنیں ہیں جنہیں ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔اس نظم میں ایک شعر جس کے ایک مصرعہ کو اس مضمون کا عنوان بنایا ہے ۔وہ کہتے ہیں   ؎ 

اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں      بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں

    نوجوان کسی قوم ،گروہ یا خاندان کا اصل سرمایہ ہے ۔دنیا کی کوئی تحریک نوجوانوں کے بغیر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔خود اسلام کی تحریک کو بھی ساری دنیا میں لے کر جانے والے نوجوان صحابہ ہی تھے ۔ انہوں نے نے ہی اپنے اخلاق کردار اور شجاعت اور جوانمردی سے اقوام عالم کے دلوں کو مسخر کیا ۔علامہ اقبال نے جس وقت طرابلس کی اس ننھی مجاہدہ فاطمہ کے نام سے نظم لکھی تھی وہ وقت تھا جب پہلی جنگ عظیم برپا تھی اور دنیا سوپر پاور مسلم مملکتوں کو ہڑپنے میں ایک دوسرے سے بازی مارنے میں مصروف تھیں ۔اسپین میں صدیوں پہلے مسلمانوں کے عروج کے سورج کو مسلمانوں کی بے عملی اور کوتاہ اندیشی کے دبیز بادل نے نگل لیا تھا ۔ہندوستان میں بھی مسلم بادشاہوں کی شان کو گہن لگ چکا تھا ۔اسی طرح بہت سی مسلم مملکتیں نوآبادیاتی نظام کی نذر ہو چکی تھیں ۔لیکن علامہ اقبال کو ننھی مجاہدہ کے روپ میں راکھ کی ڈھیر میں ایمان اور غیرت کی چنگاری دبی نظر آگئی تھی۔

    اکیسویں صدی شاید بیسویں صدی عیسوی سے بھی زیادہ سنگین صورتحال کے ساتھ ہمارے سامنے ہے ۔ہر طرف افراتفری اور جنگ و جدل کا ماحول ہے جو کہ ان ہی قوتوں کا برپا کیا ہوا ہے جنہوں نے دنیا پر دو جنگ عظیم کو مسلط کیا ۔اس کا لازمی نتیجہ بھوک افلاس اور قحط کی صورت میں نکلنا تھا اور آج ہمارے سامنے ہے ۔اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کمیٹی کے مطابق ملک عزیز میں بیس کروڑ لوگ بھوکے سونے کے لئے مجبور ہیں ۔ اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لئے اور لوگوں کو بھوک اور افلاس سے کے تنگ و تاریک سرنگوں سے باہر لانے کے لئے خود اقوام متحدہ اور دنیا کی بیشتر ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے کئی منصوبے چل رہے ہیں۔اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی تمام تر کوششوں کے حکومتوں کے منصوبوں کے باوجود قابل رحم حالات میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں تک اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے ۔ کیوں کہ یہ سارے کام سخت مشکل پروٹوکول اور سرکاری ملازمین کی افسر شاہی کی نظر ہو جاتے ہیں۔لیکن مسلم نوجوان آج کئی طرح سے لعن طعن کا شکار ہے اس نے کئی جگہوں پر اپنی بساط بھر کو شش کی ہے اور وہ اس میں اپنے اطراف میں مجبور اور بے سہارا لوگوں کی بھوک مٹانے میں کامیاب ہے ۔

    نیوز پورٹل کہرام نیوز کی خبر کے مطابق مہوبا بندیل کھنڈ کے حاجی پرویز احمد نے ایک لائق تحسین اور قابل تقلید قدم اٹھاتے ہوئے روٹی بینک کا قیام کیا ہے ۔اس کے تحت وہ گھر گھر سے روٹی اور سالن اکٹھا کرتے ہیں گھروں بس اڈوں ریلوے اسٹیشنوں پر بے سہارہ اور بھوکے لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔روٹی بینک کی خبر اس سے قبل نیوز چینلوں پر بھی آچکی ہے ۔لیکن مسلمانوں کی کردار کشی میں جٹا میڈیا یہ بتانے سے قاصر تھا کہ اسے شروع کس نے کیا ۔کہرام نیوز نے اس کمی کو پورا کیاجس کے لئے یقینا کہرام نیوز قابل مبارکباد ہے ۔خبر کے مطابق ڈھائی سو سے تین سو لوگوں تک روزانہ کھانا پہنچایاجاتا ہے ۔ اب کوئی اس شہر میں بھوکا نہیں سوتا ۔ یہ کام 15 ؍اپریل 2015 سے شروع کیا گیا ہے ۔شروعات میں پہلے دن بس اسٹینڈ و فٹ پاٹھ پر زندگی گزارنے والے سات لوگوں کوکھانا پہنچایا گیا ۔اس کے بعد حاجی پرویز احمد نے ایک میٹنگ کرکے دس نوجوانوں کو اس روٹی بینک نامی تنظیم سے جوڑا ۔تفصیل کے مطابق پہلے دن ہی نوجوانوں نے شہر کے کچھ محلوں کے گھر گھر جاکر لوگوں سے دو روٹی اور اور سبزی اکٹھی کی جس کی وجہ سے بینک میں پچاس لوگوں کے لئے کھانا جمع ہو گیا ۔پھر غریب ،یتیم اور بے سہارا لوگوں کی تلاش کرکے انہیں گھر گھر کھانا پہنچایا گیا ۔اس وقت اس روٹی بینک سے چالیس نوجوان جڑے ہوئے ہیںاور تقریبا ًڈھائی تا تین سو افراد کو روزانہ کھانا دیا جاتا ہے ۔سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اس کام میں بلا تفریق سبھی فرقہ کے لوگوں کا تعاون ہے اور تقسیم خوراک میں بھی کسی تفریق کے بغیر ضرورت مندوں کو کھانا پہنچایا جاتا ہے۔

    اورنگ آباد کے بھائی جی پورہ میں بھی کم از کم دو سو پچاس لوگوں کے لئے روٹی بینک کی شروعات کی گئی ۔یوسف مکاتی نے یہ نیک پہل کی ہے تاکہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جاسکے۔زی نیوز کی خبر کے مطابق روٹی بینک میں صبح سے ہی روٹی اور سالن جمع کرنے والوں کا تانتا لگ جاتا ہے اور اس کے بعد کھانا لینے والے آتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے کر جاتے ہیں ۔اس بینک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں باسی اور ناقابل استعمال کھانا نہیں لیا جاتا ۔کھانا انہی لوگوں سے لیا جاتا ہے جو کہ اس بینک کے ممبر ہیں ۔یوسف مکاتی کے مطابق چار سو مزید لوگوں نے ممبر شپ کی درخواست دی ہے ۔یعنی کچھ ہی دنوں میں دونوں وقت کھانا پانے والوں کی تعداد دوگنی ہو جائے گی کیوں کہ مزید لوگ اس روٹی بینک کے ممبر بن کر اس میں اپنا تعاون دیں گے۔

    حیدر آباد کے دبیر پورا فلائی اوور کے نیچے ایک نوجوان اظہر مقسوسی پچھلے ساڑھے تین سال سے بغیر چندہ بغیر کسی تنظیم کے لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں ۔فی الحال اس فلائی اوور کے نیچے سو تا ایک سو تیس افراد کے کھانے کا نتظام ہے ۔اظہر عمارتوں میں پی او پی کا کام کرتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ بھوکوں کو کھانا کھلانے کا یہ خیال ساڑھے تین سال پہلے اس وقت آیا جب انہوں نے فٹ پاتھ پر پڑی ایک معذور خاتون کو بھوک سے تڑپتے دیکھا ۔وہ کہتے ہیں کہ انہون نے خود بچپن میں بھوک کا سامنا کیا ہے اس لئے بھوک کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ان کے اس کار خیر میں ان کی بیوی کا تعاون اور ان کی ماں کی دعائوں کا اثر ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں اکثر دو دو روز تک بھوکا رہنا پڑا ہے ۔ان کے والد کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ صرف چار سال کے تھے ۔ان کی ماں نے بڑی مشقتوں سے پالا اور پڑھایا حالات سے مجبور ہو کر ان کی والدہ نے انہیں کسی کام پر نہیں لگایا ۔اظہر کے مطابق ان کی ماں کا کہنا تھا کہ بیٹا پیسہ تو پھر کمالوگے پڑھو اور اگر کچھ کرسکتے ہو تو لوگوں کی خدمت کرو۔وہ بتاتے ہیں کھانا کھلانے کی شروعات میں وہ گھر سے ہی کھانا بنوا کر لوگوں کو دبیر پورا فلائی اوور کے نیچے لا کر کھلاتے تھے اور یہ کھانا ان کی بیوی ہی بڑی خوشدلی اور اللہ سے اجر کی نیت سے کرتی تھی۔اظہر خود بھی کہتے ہیں کہ دل میں اگر نیکی کا خیال آتا ہے تو اسے کر ڈالئے دماغ کسی مصلحت اور خدشے کا ڈر دکھائے تو اس کی مت سنئے دل پر اللہ کی نظر ہو تی ہے ۔جب دل کی سن کر نیکی کے کاموں میں آگے بڑھیں گے تو اللہ کی مدد آپ کو آئے گی۔اس کے لئے انہوں نے اپنی زندگی سے ہی دو مثالیں پیش کیں۔ابھی ہمارا مقصد اس مضمون میں مسلم نوجوانوں کی ایسی ہی چند مثالیں پیش کرکے اقبال کی زبان میںیہ بتا نا مقصود ہے کہ   

    ؎  نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے     ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

    اب کچھ ایسے مسلم نوجوانوں کا تذکرہ جنہوں نے لاکھوں کی رقم کو اسکے مالک تک لوٹا کر ایماندار کی شاندار مثالیں پیش کی ہیں ۔جئے پور کے 26 ؍سالہ محمد عابد قریشی جو کہ سائیکل رکشا چلاتے ہیں۔انہیں سڑک کنارے پلاسٹک کی ایک تھیلی میں ایک لاکھ سترہ ہزار کی رقم لپٹی ہوئی ملی جسے انہوں نے دوسرے دن پولس کمشنر کے سپرد کردیا ۔ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ میں رات بھربستر پر کروٹیںبدلتا رہا یہ رقم ملنے سے انہیں یہ خدشہ تھا کہیں وہ انہیں لوٹانے جائیں اور ان پر ایک لاکھ سترہ ہزار روپئے کی چوری کا الزام نہ لگا دیا جائے۔نامہ نگاروں نے اس خدشہ کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بالکل مختصر جواب دیا ’’کیوں کہ وہ مسلمان ہے‘‘۔دوسرے دن یہی ہوا جب وہ پولس اسٹیشن رقم لوٹانے گئے تو انہیں جعلی کرنسی کا کاروباری سمجھ لیا گیا لیکن سارے نوٹ کی اسکیننگ کے بعد پولس افسر مطمئن ہوا۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایمانداری سب سے بڑی نعمت ہے‘‘۔محمد عابد قریشی دوسرے دن سکون سے سوئے کہ لالچ کا شکار بننے سے بچ گئے۔قریشی صرف چوتھی جماعت تک پڑھے ہوئے ہیں سائیکل رکشا چلا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں ۔وہ شہر جئے پور کی انتہائی پسماندہ بستی میں کرایہ کے ایک چھوٹے سے مکان میںرہتے ہیں جس کرایہ بھی اکثر وہ غربت کی وجہ سے وقت پر نہیں دے سکتے ۔ وہ اپنی تین ماہ کی بیٹی کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں لیکن ان کے سامنے ایمانداری کی خاندانی وراثت کا ان کی بیٹی میں منتقل ہونا زیادہ ضروری ہے۔

    مسلم اکثریتی شہر بھیونڈی کے سلیم شیخ ایک آٹو رکشا ڈرائیور ہیں ۔ان کے رکشا میں ملند امباونے اپنے تجارتی سامان کے ساتھ سوار ہوئے لیکن اپنی منزل پر پہنچ کر انہوں نے تجارتی سامان تو اتار لیا لیکن ایک تھیلی جس میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپئے تھے وہ رکشا میں ہی بھول گئے ۔ کچھ دیر بعد یہ معلوم ہونے کے بعد ان کے ہوش اڑگئے کہ رقم والی تھیلی تو وہ رکشا میں ہی بھول گئے ہیں۔ تین گھنٹے کے بعد ملند کے پاس رکشا ڈرائیور سلیم شیخ کا فون آیا کہ وہ اپنا بیگ جس میں ان کی رقم ہے رکشا میں ہی بھول گئے ہیں۔سلیم شیخ نے بتایا کہ انہیں اس بیگ کی معلومات اس وقت ہوئی جب وہ گھر گئے ۔احمدا ٓباد کے عبد الوہاب شیخ نے اپنے آٹو رکشا میں مسافر کے ذریعے بھول سے چھوڑے گئے لاکھوں کے زیورات اور پانچ لاکھ نقد رقم لوٹا کر ایمانداری کی شاندار مثال قائم کی ۔اسی طرح میری نظر وں سے دو ایسے ہی واقعات گزرے دونوں ہی واقعات میں رکشا ڈرائیور مسلم نوجوان ہی تھا دونوں ہی واقعہ زیورات کے تاجر سے تعلق رکھتا ہے ۔ایک واقعہ میں ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات کاتخمینہ پچیس لاکھ اور دوسرے میں پینتیس لاکھ بتایا گیا تھا ۔یہ محض چند مثالیں ہیں ۔باقی کہانی بکھری پڑی ہے ۔بقول علامہ اقبال چمن میں ہر طرف بکھری ہے داستان میں ۔

ہمارے سامنے مایوسی پھیلانے والے واقعات اور نوجوانوں کی گمراہی و بے راہ روی کے واقعات بہت آتے ہیں ۔لیکن کبھی ہم نے ان راکھ کے ڈھیر میں اس ایمانی چنگاری کو ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔  کبھی ایسے واقعات سامنے آتے بھی ہیں تو ہم اسے نظر انداز کرکے اسی مجرم ضمیری کے مایوس اندھیری سرنگ میں چلے جاتے ہیں جس میں دشمن کے ساتھ ساتھ ہمارے کوچھ نادان دوست بھی مسلسل مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔مجھے تو معاشرے کے بدترین سے بدترین اور گمراہ نوجوان میں بھی امید کی کئی کرنیں نظر آتی ہیں ۔کاش کہ ہم انہیںمثبت طور پر سمجھ سکیں اور قوم کو اس ذلت اور پستی سے نکالنے میں ان کی مدد لے سکیں ۔آنے والے وقت میں جو کچھ ہوگا وہ نوجوانوں کے ذریعہ ہی ہوگا ۔ بوڑھی ہڈیوں میں صرف مصلحت جیسی منافقانہ روش ہی پلا کرتی ہے۔جس کی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں ۔ مصلحت سے پرے اگر کوئی ہمیں مل سکتا ہے اورانشاء اللہ ملے گا تو صرف نوجوان ہی ملے گا ۔جس میں قوم کا درد بھی موجودہ صورتحال سے آزردہ بھی ہے اور ان حالات سے قوم کو نکالنے کے لئے فکر مند بھی ۔کاش کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اپنی قوم کا بیش بہا خزانہ اور سرمایہ تصور کرتے ہوئے ان سے مایوس ہونے کی بجائے ان کی تربیت اور قوم کی تعمیر و ترقی میں ان کی مدد لے سکنے کی قوت حاصل کرپاتے !

 


*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 642