donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Neyaz Irfan
Title :
   Kuchh Tajaweez Islahe Zaban Ke Bare Mein

 

کچھ تجاویز اصلاحِ زبان کے بار ے میں


پروفیسر نیاز عرفان

اس امر میں کوئی اختلاف رائے نہیں کہ ہر زبان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں نہ تو یک لخت ہوتی ہیں اور نہ ہی زبان کے بنیادی ڈھانچے میں ہوتی ہیں ۔ اگر ان دو معیارات کو پس پشت ڈال کر کوئی شخص زبان کے صرفِ نحو کے محاورے ، روز مرہ، رائج الفاظ یا ان ہجوں میں تبدیلی کر لیتا ہے تو اسے زبان کی غلطی شمار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں زبان اردو کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ تاہم بعض اظہارات میں کسی دوسری زبان بالخصوص کسی علاقائی زبان سے الفاظ یا تراکیب مستعار لے کر اردو میں رائج کرنے میں نہ صرف کوئی مضائقہ نہیں بلکہ تفہیم کو آسان اور بہتر بنانے کے لیے اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے اردو زبان کے استعمال میں بعض ایسی اغلاط سرزد ہو رہی ہیں جن میں سے اکثر کو غلط نہیں سمجھا جاتا ہے اور زیادہ حیرت ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے بعض اغلاط اہل زبان کی تحریروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اب آئیے ان عموماً رائج اغلاط کی مثالیں لے کر بات کر لیں:


۱۔ سوا اور علاوہ کے استعمال میں غلطی

سب سے زیادہ رائج غلطی ''سوا'' اور ''علاوہ'' کے استعمال میں کی جا رہی ہے جو بعض سکہ بند اہل زبان کے قلم سے بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں الفاظ کا اصل مفہوم ایک دوسرے کے الٹ ہے۔ اگرچہ ''سوا'' کے بجائے ''علاوہ'' کا لفظ استعمال کرنے سے بعض اوقات کام چل جاتا ہے لیکن اصل میں یہ غلط ہوتا ہے۔ مثلاً اس جملے کو دیکھئے: ''اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر تمام ازم (نظام) کفر و شرک کی دعوت دیتے ہیں'' (پروفیسر خورشید احمد کا اداریہ مطبوعہ ترجمان القران)۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نعوذ باللہ اسلام بھی اور دیگر تمام ازم (نظام) بھی کفروشرک کی دعوت دیتے ہیں، حالانکہ لکھنے والے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر باقی تمام نظام کفروشرک کی دعوت دیتے ہیں۔ صحیح عبارت یوں ہونا چاہیے تھی: ''اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کے سوا (یعنی اسلام کے استثنیٰ کے ساتھ) دیگر تمام ازم (نظام) کفرو شرک کی دعوت دیتے ہیں''۔


اسی طرح ایک اور فقرہ لیجئے ''حکیم صاحب … ان کے خیال میں مرض الموت کے علاوہ ہر مرض کا علاج کر سکتے ہیں'' (ڈاکٹر صفدر محمود کے کالم مطبوعہ جنگ سے)۔ اگر غور سے دیکھا جائے اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ حکیم صاحب مرض الموت کا بھی اور ہر مرض کا بھی علاج کر سکتے ہیں، جو غلط ہے اور ان کا مقصد یہ نہ تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھنا یہ چاہتے ہیں کہ حکیم صاحب مرض الموت کو چھوڑ کر باقی ہر مرض کاعلاج کر سکتے ہیں۔ لہٰذاانھیں یوں لکھنا چاہیے تھا:''حکیم صاحب … ان کے خیال میں، مرض الموت کے سوا ہر مرض کا اعلاج کر سکتے ہیں''۔ اب تیسری مثال لیجئے: ''مسلم لیگ (ن) ان شہروں میں سویپ کر گئی ہے۔ دو نشستوں کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے (عطا الحق قاسمی کے کالم مطبوعہ روز نامہ جنگ سے)۔ اس مثال میں بھی محترم قلمکار کا مطلب یہ ہے کہ دونشستوں کو چھوڑ کر باقی تمام نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، جبکہ مفہوم الٹ نکلتا ہے۔ صحیح جملہ یوں لکھا جانا چاہیے تھا: '' … دو نشستوں کے سوا باقی تمام نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے''۔ در حقیقت لفظ علاوہ کا مفہوم ہے یہ بھی اور مزید یہ بھی (In addition to) جبکہ لفظ سوا کا معنی ہے صرف یہ، اس کے استثنیٰ کے ساتھ یا اس کو چھوڑ کر (Execpting this..., with the execption of...)۔ قلمکاروں کو علاوہ اور سوا کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے۔


۲۔ ارسال اور روانہ کا غلط استعمال

لوگ عموماً دو الفاظ ''ارسال'' اور ''روانہ'' کے استعمال میں غلطی کرتے ہیں۔ اکثر آپ نے سنا ہو گا خط روانہ کرنے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ غلطی ریڈیو، ٹی وی اور اشتہارات میں اکثر مشاہدے میں آتی ہے۔ ارسال کا لفط کسی غیرمتحرک یا بے جان چیز کو بھیجنے کے لیے استعمال کرنا صحیح اور روانہ کا لفظ جاندار یا متحرک چیز کو بھیجنے کے لیے استعمال کرنا صحیح ہے۔ ان الفاظ کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔مثلاًخط ارسال کیا جاتا ہے جبکہ قاصد روانہ کیا جاتا ہے۔


۳۔ لفظ فن کا غلط استعمال

انگریزی لفظ"Art"کا اردو ترجمہ ''فن'' اور لفظ "Artistic" کا ترجمہ ''فنی'' کیا جاتاہے جو صحیح ہے اور رائج بھی ہے مگر انگریزی لفظ "Technique"کا ترجمہ بھی اکثر لوگ لفظ ''فن'' ہی کرتے ہیں جو اس اصول کی بنا پر غلط ہے کہ ایک تصور Conceptکے لیے صرف ایک لفظ یا اصطلاح ہی مخصوص کرنا منطقی اور معقول بات ہے۔ عرب ممالک میں لفظ "Technique"کو معرب کر کے ''تکنیک'' بنا لیا گیا ہے لہٰذا ہمیں اپنی زبان میں بھی اس کی تورید کر کے "Technique"کے لیے لفظ ''تکنیک'' اور "Technical"کے لیے ''تکنیکی'' کے لفظ کو اختیار کر کے رائج کر لینا چاہیے، جیسے کہ بعض لوگ کر بھی رہے ہیں۔ لہٰذا Techniqueکے لیے ''تکنیک'' نہ کہ ''فن'' اور Technicalکے لیے ''تکنیکی'' نہ کہ ''فنی'' کے الفاظ صحیح ہوں گے۔


۴۔دنوں کے نام میں تبدیلی کی ضرورت

اصطلاحات اور الفاظ میں میرا نظریہ یہ رہا ہے کہ ہر اصطلاح اور لفظ کو صرف ایک چیز یا تصو رکو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس ضمن میں میری ناچیز رائے میں ہفتے (Week)کے سات دنوں میں سے دو دنوں کے ناموں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان دو دنوں میں پہلا دن Saturday ہے جس کے لیے ہمارے ہاں ''ہفتہ'' اور ''سنیچر'' دو نام مستعمل ہیں یعنی اس دن کو ''ہفتہ'' بھی کہا جاتاہے اور ''سنیچر'' بھی۔ میرے خیال میں Saturday کے ترجمے کے طور پر ''سنیچر'' کا لفظ ہی رائج کیا جانا چاہیے۔ جبکہ ہفتہ کہ لفط صرفweekکے ترجمے کے طور پر ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ دوسرا دن Thursdayہے جس کے لیے ہمارے ہاں جمعرات کا لفظ مستعمل ہے۔ اس کے استعمال کی وجہ سے جملے نہ صرف عجیب و غریب صورت اختیار کر لیتے ہیں بلکہ ابہام بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اس دن کی رات کا ذکر کرنا ہو تو جمعرات کی رات کی لمبی اصطلاح استعمال کرنا پڑے گی۔ مثلاً ''جمعرات کی رات کو شدیدزلزلہ آیا تھا'' اس لیے میری تجویز ہے کہ Thursdayکے لیے ''خمیس'' کا لفظ اختیار کر لیا جائے۔


۵۔لفظ ''عوام'' کا بطور مؤنث استعمال

اخبارات میں کالم لکھنے والے، سیاست دان اور مقررین اکثر لفظ ''عوام'' کو بطور مؤنث استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ''عوام بولتی نہیں'' یا ''عوام فیصلہ کرے گی'' وغیرہ یہ غلط ہے۔ لفظ عوام کو مذکر کے طور پر جمع کے صیغے میں استعمال کرنا صحیح ہے۔ یہ غلطی غالباً اس لیے کی جاتی ہے کہ اردو میں لفظ ''پبلک '' مؤنث کے طور پر بولا اور لکھا جاتا ہے، جو صحیح ہے مگر لفظ ''عوام'' کو مؤنث واحد لکھنا اور بولنا غلط ہے۔ اس ضمن میں جناب ثروت جمال اصمعی نے روزنامہ جنگ راولپنڈی میں اپنے کالم مطبوعہ ۲۷دسمبر۲۰۱۲ء بعنوان''زبان کی غلطیوں کا مسئلہ '' میں بجا طور پر توجہ دلائی ہے۔ اس کالم میں انھوں نے اردو گفتگو اور تحریر میں بلا ضرورت انگریزی الفاظ کے استعمال کو بھی غلط قرار دیا ہے۔ متذکرہ بالا جملے صحیح یوں ہوں گے ؛ ''عوام بولتے نہیں'' اور ''عوام فیصلہ کریں گے''۔


۶۔ ایک جملے کے مثبت اور نفی حصوں کا ابہام

زبان اردو کے بعض منفی جملے بھی اصلاح طلب ہیں جن کا پہلا حصہ غیر ضروری طو رپر مثبت بیان سے شروع ہوتا ہے ابہام کا باعث بنتے ہیں۔ یہ وہ جملے ہیں جن میں انگریزی زبان میں Neither, nor کا استعمال ہوتا ہے، جس سے مفہوم صحیح طو رپر واضح ہوتا ہے۔ اردو میں ایسے جملوں کی مثال لیجئے: ''اکثر سیاسی رہنمائوں کے برعکس ہمارا ممدوح جھوٹا ہے، بزدل ہے، فریبی ہے اور نہ خائن ہے''۔ یہاں مقصد ممدوح رہنما کو خراج تحسین پیش کرنا ہے مگر پہلے حصے میں ان کو جھوٹا، بزدل اور فریبی قرار دینے کا تاثر پیدا کرنے کے بعد دوسرے حصے میں ایک عیب کی نفی کر کے پہلے حصے کے اثر زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ جملہ اس طرح لکھاجانا چاہیے تھا: ''اکثر سیاسی رہنمائوں کے برعکس ہمارا ممدوح نہ تو جھوٹا، بزدل اور فریبی ہے اور نہ ہی خائن ہے''۔ اب ایک اور جملہ لیجئے ''وہ جنرل نیازی کو جانتے ہیں اور نہ پہنچانتے ہیں''۔ یہ جملہ یوں ہو تو ابہام ختم ہو جائے گا۔ ''وہ نہ تو جنرل نیازی کو جانتے ہیں اور نہ ہی پہچانتے ہیں''۔


۷۔ لفظ اضافیت کا غلط استعمال

انگریزی زبان کی اصطلاح "Relativity" کا ترجمہ''اضافیت'' کر کے "Theory of Relativity" کا ترجمہ ''نظریہ اضافیت'' کیا جاتا ہے اور یہی ترجمہ رائج ہے۔ مگر اس ناچیز کی رائے میں یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ لفظ اضافیت، لفظ اضافی سے نکلا ہے۔ اضافہ کا معنیٰ تو زیادتی یا بڑھوتری "Addition/Increment" ہے۔ اضافی کی انگریزی Additionalاضافیت کی انگریزی Additionality صحیح ہے۔ "Relation"کا ترجمہ''نسبت'' "Relative"کا ترجمہ ''نسبتی'' اور Relativity"کا صحیح ترجمہ ''نسبتیت'' ہو گا۔ مگر نہ معلوم ہمارے ماہرین سائنس نے "Relativity"کا ترجمہ ''اضافیت'' کس بناء پر کر لیا ہے۔ "Theory of Relativity"کا صحیح ترجمہ ''نظریۂ نسبتیت'' ہو گا نہ کہ ''نظریہ اضافیت''۔


۸۔حرف ''س'' سے شروع ہونے والے الفاظ کا تلفظ
بعض علاقوں میں حرف ''س'' سے شروع ہونے والے الفاظ کے نہ صرف تلفظ یعنی بولنے میں حرف ۱ (الف) زائد لگا لیتے ہیں بلکہ لکھنے میں بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ مثلاً سٹیٹ کو اسٹیٹ سکول کو اسکول بولتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ اس سے بعض اوقات عجیب صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً لفظ Estateکو تو اسٹیٹ لکھنا ہی ہو گا مگر یہ حضرات Stateکو بھی ''اسٹیٹ'' بولتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ اسی طرح Stateاور Estate دونوں کا تلفظ اور املا اسٹیٹ کرتے ہیں جو عجیب لگتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ لفظ سکول کو ''اسکول'' بولتے اور لکھتے ہیں تو پھر کیا وہ عربی لفظ سکون کو بھی ''اسکون'' بولیں گے اور لکھیں گے؟ اسی طرح لفظ ''سٹیل '' کو ''اسٹیل'' بولا اور لکھا جاتا ہے تو پھر کیاعربی لفظ ''سبیل'' کو بھی ''اسبیل'' بولیں اور لکھیں گے؟ اگر ایسا کریں گے تو غلط ہو گا۔ لہٰذا گزارش ہے کہ حرف ''س'' سے شروع ہونے والے الفاظ کے بولنے اور لکھنے کے سلسلے میں اصلاح کر لی جائے اور الفاظ کا اصل تلفظ اور املا استعمال اور رائج کرنا مناسب ہو گا۔ یعنی ایسے الفاظ سے پہلے فالتو حرف ''ا'' (الف) لگانا اور بولنا ترک کرنا ہی مناسب ہو گا۔


۹۔ بعض الفاظ میں حروف ر اور ڑ کے املا کا مسئلہ

بعض الفاظ جن کے درمیان حرف ر یا ڑ آتا ہے،کے لکھنے میں اکثربے احتیاطی کی جاتی ہے۔مثلاًلفظ پ، و، ل، ٹ، ر، ی کو ''پولٹری'' (جو کہ پ۔و۔ل۔ڑ۔ی۔بنتا ہے) لکھا جاتا ہے، اسی طرح لفط س ، و، ے، ٹ، ر کو ''سویٹر'' (جو کہ س۔ و۔ ے۔ڑ۔بنتا ہے) اور پ ۔ و۔ س ۔ ٹ۔ر۔کو ''پوسٹر'' ( جو کہ پ۔ و۔ س۔ ڑ۔ بنتا ہے) لکھا جاتا ہے۔ ان کا بالترتیب صحیح املا ''پولٹری'' نہیں بلکہ''پولٹری''، ''سویٹر'' نہیں بلکہ ''سویٹر'' اور پوسٹر نہیں بلکہ ''پوسٹر '' ہے۔ اس معاملے میں عربی اور سندھی زبان کے املا کے قواعد اور روایات بہتر ہیں کہ ان دونوں زبانوں میں کسی لفظ میں مستعمل ہر حرف خواہ جڑا ہوا ہو یا اس کا مخفف ہو واضح طو رپر پورا لکھا جاتاہے۔ اس معاملے میں بھی محبان اردو اور اردو دانوں سے احتیاط کی استدعا ہے۔


۱۰۔    اردو زبان کی گرامر کے قواعد ہندی گرامر کے قواعد سے بھی مستعار لیے گئے ہیں۔ اردو میں حرکات یعنی زبر، زیر اور پیش کا استعمال ہوتا ہے جن کے لیے …َ ، …ِ اور …ُ کی علامات مستعمل ہیں۔ ہندی میں ان حرکات کے لیے سنسکرت اور ہندی حروف تہجی کے حروف (اَ) (اِ)
اور (اُ) رائج ہیں جبکہ اردو میں عربی سے مستعار لی گئی علامات مستعمل ہیں۔ اردو میں اکثر الفاظ ایسے ہیں جن میں نہ تو زبر (…َ)، نہ زیر( …ِ) اور نہ ہی پیش (…ُ) کی حرکات اور ان کی علامات موجود ہیں۔ ان میں یائے مجہول اور وائو مجہول ہیں، جن کے لیے کوئی حرکات اور ان کی علامات موجود نہیں ہیں۔ مثلاً سَیر، سِیر اور سیر یا سَیل، سِیل اور سیل (Sael, Seel or Sale)یہاں سیر اور سیل کے لیے حرکات اور اس کی علامات سنسکرت اور ہندی میں تو ہیں مگر اردو میں نہیں ہیں۔ مثلاً سنسکرت اور ہندی یائے مجہول (اے) کی علامت موجود ہے، اردو میں اس کے لیے حرکت اور اس کی علامت موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے اردو زبان سیکھنے والوں یا غیراہلِ زبان کو ایسے الفاظ کے صحیح تلفظ کی ادائیگی میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ اس ضمن میں میری تجویزہے کہ ایک حرکت بنام''زبیر''(ز ب ے ر) رائج کی جائے جس کی علامت زبر (…َ) اور زیر (…ِ) کے علاوہ '' - '' ہو یعنی حروف کے اوپرچھوٹی سیدھی اور متوازی لکیر مقرر کی جائے مثلاً سَیر،سَیل اور اسی طرح میرا اور مِیری کے علاوہ میری لکھا جائے۔ اب وائو مجہول کو لیجئے وائو پیش کے علاوہ وائو مجہول کے لیے جس کے لیے ہندی میں بالترتیب '' '' کے ساتھ '' '' کی علامات رائج ہیں، اردو میں ''…ُ '' ، '' …ُو '' کے علاوہ (یعنی نچلی سمت جھکی پیش کی علامت کے علاوہ وائو مجہول کے وائو کے اوپر پیش کی متوازی علامت یوں '' '' لکھی جائے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 739