donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : S M Moin Quraishi
Title :
   Urdu Ki Aham Ghaltian

اردو کی اہم غلطیاں


 از ایس ایم معین قریشی

 

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومیں اپنی زبانوں سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ ان پر فخر کرتی ہیں۔ .اس سلسلے میں ایک دلچسپ اور فکر انگیز خبر برادر اسلامی ملک ملائیشیا سے آئی ہے۔ وہاں کے وزیر ثقافت نے اعلان کیا ہے کہ جو شہری اپنی قومی زبان غلط بولے گا اس پر جرمانہ کیا جائے گا جو ایک ہزار رنگٹ (ملائیشیا کا سکہ) تک ہوسکتا ہے۔ ان احکام پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی غرض سے وزارت _ثقافت نے ایسے خصوصی دستے تشکیل دیے ہیں جو ان شہریوں کو پکڑیں گے جو غلط زبان بولتے پائے گئے یا جو قومی زبان میں دوسری زبانوں کی ملاوٹ کے مرتکب ہوئے۔..اس خبر کے تناظر میں ذرا اپنی مظلوم قومی زبان کا جائزہ لیجیے۔..اب وہ زمانہ نہیں کہ ہم میر تقی میر کی طرح اپنی صحت سے زیادہ زبان کی صحت کا خیال رکھیں۔ ..میر صاحب کو دلّی سے لکھنو کا سفر درپیش ہوا تو گاڑی کا کرایہ پاس نہ تھا۔ ایک شخص نے انہیں شریکِ سفر کرلیا۔تھوڑی دیر بعد اس نے (غلط زبان میں) کوئی بات کی۔.حضرتِ میر نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ کچھ دور جا کر اس نے پھر بات کی تو میر صاحب چیں بجبیں ہو کر بولے”صاحب قبلہ!آپ نےکرایہ دیا بے شک گاڑی میں بیٹھئے مگر باتوں سے کیاتعلق؟“.اس نے کہا”جناب کیا مضائقہ ہے؟ راہ کا شغل ہے۔ ذرا جی بہلتا ہے۔“ .میر صاحب بگڑ کر بولے ”خیر آپ کا تو شغل ہے میری زبان خراب ہوتی ہے۔“ .ہماری جیسی رنگ برنگی ثقافت کے حامل ملک میں اس بات کی گنجائش بھی کم ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان دانی پر ناز کرتے ہوئے کہے: 

" اردو ہے جس کا نام‘ ہمیں جانتے ہیں داغ .ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے. . . یایہ کہے:" نہیں کھیل‘ اے داغ! یاروں سے کہہ دو.کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے !.اردو زبان نئے الفاظ‘ تلازمات‘ رجحانات‘ تلفظ حتیٰ کہ املا کو قبول کرنے اور اپنانے میں بہت فراخ دل واقع ہوئی ہے۔زبانیں اسی طرح فروغ پاتی ہیں۔ کسی بھی زبان کا کوئی بڑے سے بڑاعالم سو فیصد درستی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔.

چنانچہ جہاں علامہ اقبال کا ایک مصرع”تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی“ اعتراض کی زد میں آیا کہ خودکشی”آپ“ ہی کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ذریعے عمل میں نہیں آتی..وہیں اردو نثر کے عناصر خمسہ (سرسید احمد خاں‘حالی‘ ڈپٹی نذیر احمد‘ شبلی نعمانی اور مولانا محمد حسین آزاد) بھی نکتہ چینی سے نہ بچ سکے۔ .ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یہ گاڑھی اردو کا زمانہ نہیں۔اس پر یاد آیا کہ ایک مولوی صاحب کسی پنساری کی دکان پر گئے اور پوچھا”برخوردار! آپ کے ہاں "عرقِ نعناع" ہوگا؟.“ مولوی صاحب نے”عرقِ نعناع“ کے تینوں ”ع“ اپنے حلق سے اتنے تکلف کے ساتھ برآمد کیے کہ بچارہ پنساری سٹپٹا اٹھا۔ اس نے ادب کے ساتھ عرض کیا ”حضور ہے تو سہی لیکن اتنا گاڑھا نہیں ہے جتنا آپ کو چاہیے۔“ .تاہم ہم اس کے بھی حق میں نہیں کہ پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود اردو اپنے ہی وطن میں خور و زبوں رہے۔.جہاں تک اردو میں انگریزی کی ملاوٹ کا تعلق ہے .ٹی وی کے مختلف چینل اور ایف ایم ریڈیو کے میزبانوں نے اس کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔

ملی جلی زبان بولنے کے باعث وہ ٹھیک طرح اردو بول پاتے ہیں اور نہ انگریزی۔

چند روز قبل ہم حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے موضوع پر ریڈیو کے ایک قومی پروگرام میں نشر ہونے والے مذاکرات کی نظامت کر رہے تھے۔ شرکائے گفتگو دو بہت سینئر صحافی اور تجزیہ نگار تھے۔جب ہم نے ان میں سے ایک صاحب کو اظہار خیال کی دعوت دی تو انہوں نے کہا”اس تمام صورت حال کو بین الاقوامی”تناطر“ (ت ن ا ط ر) میں دیکھیے۔“ ہم نے بالواسطہ ان کے سہو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ”بین الاقوامی تناظر ( ت ن ا ظ ر) میں ذرا ٹھہر کر بات کرلیں گے۔. فی الحال آپ عام پاکستانی کے نقطہ نظر سے کچھ فرمائیں۔“ .انہوں نے اصرار کیا”پہلے بین الاقوامی”تناطر“ میں حالات کو جانچنا ضروری ہے۔ ہم سمجھ گئے کہ موصوف ”تناظر“ کو ”تناطر“ کہتے ہیں اور اپنی اصلاح پر آمادہ بھی نہیں۔ .دوران _گفتگو انہی صاحب نے یہ بھی ارشاد فرمایا”ہم اپنے معاملات میں کسی اور کی”مدالخت“ برداشت نہیں کرسکتے۔.“ اس طرح انہوں نے لفظ ”مداخلت“ کو ذبح کر ڈالا۔ .تاہم یہ انفرادی غلطی کی ایک مثال تھی۔ اس کے برعکس ایک غلطی جو بازاروں سے شروع ہو کر اب کتابوں تک پہنچ چکی ہے وہ یہ ہے کہ لفظ”عوام“ کو مونث کرکے اسے واحد بنا دیا گیا ہے۔.چنانچہ پہلے جو عوام (عام کی جمع) ہوتے تھے‘ اب ہوتی ہے۔ بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی کہنے لگے ہیں ”ہماری عوام بہت باشعور ہے“.ہمیں عوام کے مونث ہوجانے پر اتنا اعتراض نہیں اس لیے کہ دنیا بھر میں صنفی تناسب اور ”تعصب“ عورتوں کے حق میں ہموار ہورہا ہے۔ اصل رونا اس بات کا ہے کہ ان بے چاروں (یا ”بے چاریوں) کو واحدکردیا گیا ہے۔ .بعض لوگ بھاری بھرکم اردو بولنے کے شوق میں غلطیاں کرجاتے ہیں۔جس زمانے میں ہم سندھ سوشل سیکیورٹی کی ملازمت میں تھے ہمارے ایک دوست نے ایک محفل میں ہم سے سوال کیا ”آپ کی ڈسپنسریوں میں دوائیں تو ”دافر“ (دال کے ساتھ) مقدار میں ہوتی ہیں نا؟“ ہم نے کہا ”جی ہاں۔“ دل میں سوچا اگر یہ”واو“ کے ساتھ”وافر“ کہتے تو ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا۔

.اسی طرح ہمارے ایک باس (جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی) کسی کی گفتگو کے دوران اچانک کہتے ”تکیہ کلام معاف....“وہ بے چارے ”قطع کلامی“ کی جگہ”تکیہ کلام“ کہہ کر اپنے تئیں اہلِ _زبان ہونے کا تاثر دیتے تھے۔ وہ آنکھوں کی روشنی کو”آنکھوں کی روشنائی“ کہتے تو بڑا لطف آتا تھا۔ .یہ انفرادی معاملات ہوگئے لہٰذا اجتماعی غلطیوں کی طرف آتے ہیں ..


آپکو اکثر ایسے دعوت نامے ملتے ہوں گے جن میں لکھا ہوتا ہے کہ تقریب ”مورخہ.... کومنعقد ہوگی۔“.یہی تاریخ‘ ایک بار پھر تقریب کے بینر پر بھی لکھی ہوتی ہے حالانکہ ”مورخہ“ ماضی کی تاریخ کے لیے آتا ہے جیسے مورخہ 4 اپریل کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی۔آنے والی تاریخ کے لیے اگر چاہیں تو”بتاریخ“ لکھ دیں جیسے ”بروز“ لکھا جاتا ہے۔ بعض الفاظ کے املا میں بلاوجہ اضافےکردیے گئے ہیں .مثلاً انکسار کی جگہ انکساری تقرر کی جگہ تقرری‘ تنزل کی جگہ تنزلی‘ تابع کی جگہ تابعدار‘ مع کی بمع یا بمعہ لکھنا عام ہے۔ .آنحضرت کی ایک صحابیہ کا نام بی بی ثویبہ? (ث و ے ب ہ) تھا جنہیں اسلام کی پہلی شہید ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہمارےیہاں یہ نام آیا تو کسی کاتب نے بے احتیاطی سے لکھتے وقت ’ے‘ اور’ب‘ کے نقطے آگے پیچھے کردیے اور یہ لفظ ”ثوبیہ“ (ث وب ی ہ) ہوگیا..ہماری بچیوں کا عام نام ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی اصل نہیں۔..بعض اشعار غلط رائج ہوگئے ہیں۔ مثلاً غالب کا شعر ہے:.

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت" کہ " رات دن .بیٹھےرہیں تصورِ_جاناں کیے ہوئے ..پہلے مصرع میں عام طور پر”فرصت کے رات دن“پڑھا جاتا ہے۔ .درد کا ایک ضرب المثل شعر ہے.دردِ _دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو .ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں .دوسرے مصرع میں”کروبیاں“ کروبی کی جمع ہے جس کے معنی ہیں مقرب فرشتہ۔ بہت سے لوگ ”کروبیاں“ کو”کرو۔ بیاں“ کہتے سنے گئے جیسے یہ”کروفر“ قسم کا کوئی لفظ ہو۔.ایک مرکب لفظ ہے”قوتِ لا یموت”یعنی اترنی خوراک جو بس زندہ رہنے کے لیے کافی ہو۔ اس”یاقوت“ والے”قوت“ کو یار لوگوں نے ”قوتِ باز“ کے انداز میں بگاڑ کر ”قوتِ لایموت“ کرلیا۔

”ماشاءاللہ“ جوایک کلمہ تحسین و آفرین ہے اس کے بعد ”سے“ کا لاحقہ لگ گیا ہے۔ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ کہتے ہیں”ماشاء اللہ سے میرا بیٹا بڑا ذہین ہے۔“.

اسی طرح ”دونوں فریقین“ پر غور فرمایئے ”فریقین“ کے تو معنی ”دو فریق“ ہیں پھر اس میں”دونوں“ کا سابقہ کیوں؟.آخر میں ایک لفظ اور یاد آیا”صہیونیت“ (ص ہ ی ون ی ت) جو یہودیہوں کی عالمی تنظیم ہے۔ اسے اخبارات میں بھی عام طور پر”صیہونیت“ (ص ے ہ ون ی ت) لکھا جارہا ہے۔ تعجب اس پر ہوتا ہے کہ اردو ڈکشنری بورڈ کی شائع کردہ لغت کی بارہویں جلد کے صفحہ 1028 پر بھی ”صیہونیت“ کوتحفظ دے دیا گیا ہے۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1031