donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Interview
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Altaf Hussain Quraishi
Title :
   Shaikh Mujibur Rahman

شیخ مُجیبُ الرحمن
انٹرویو
الطاف حسن قریشی
 
 
۳ جون ۶۹ء گیارہ بجے کے لگ بھگ میں نے شیخ مجیبُ الرحمن کو فون کیا۔ پہلے ایک صاحب، پھر دوسرے صاحب نے میرا نام پوچھا۔ دوسرے صاحب غالباً شیخ صاحب کے پرائیویٹ سکرٹری تھے۔ پرائیویٹ سکرٹری نے کہا: ’’شیخ صاحب، فارن ڈپلومیٹس سے باتیں کر رہے ہیں۔‘‘ ’’اچھا، میں کچھ دیر کے بعد فون کر لوں گا۔‘‘ میں نے باتوں کی نوعیت کے بارے میں سوچتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ایک منٹ ٹھہریے، میں ان سے کہتا ہوں۔‘‘ چند لمحوں بعد شیخ صاحب کی آواز گونجی۔ میں نے انگریزی میں اپنا تعارف کرایا، وہ اُردو میں بولے: ’’میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کب آئے؟ کل ساڑھے آٹھ بجے آ جائیے، دل کی باتیں کریں گے۔‘‘ ریسیور رکھ دینے کے بعد شیخ صاحب کے مختلف رُوپ ذہنی اُفق پر اُبھرنے اور ڈوبنے لگے۔
گول میز کانفرنس میں انھیں کئی مراحل پر دیکھا تھا۔ ان کا عالم برہمی بھی یاد آیا اور ان کا خوشی سے پھولے نہ سمانا بھی بھلایا نہ گیا۔ سیاست کے کوچے میں ان کے اندازِ دلربائی کیا کیا قیامت نہ ڈھا گئے۔ ان کے عہد و پیمان، بوالہوسوں کے لیے اُمیدِ نشاط اور اہل نظر کے لیے آزارِ جاں۔ یہ تمام مناظر ایک ایک کر کے کئی ان کہی داستانیں کہہ گئے۔
 
میں مشرقی پاکستان میں ۱۱ مئی سے کُو بکُو پھر رہا تھا۔ ۲  جون تک تقریباً آٹھ ضلعوں کے اندرنی علاقوں میں گیا۔ طالب علموں، دانشوروں، سیاست دانوں اور دیہات کے بھولے بھالے باسیوں سے باتیں کیں۔ تقریباً ہر محفل اور ہر گفتگو میں شیخ مجیب الرحمن کا ذکر چلا۔ مختلف مقامات پر عوام کے مختلف ردعمل تھے۔ چند جھلکیاں آپ بھی دیکھیے:
ڈھاکہ شہر میں شیخ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ ایک طالب علم، جو کبھی منعم خاں کی نعمتوں کا رس چوستا رہا ہے، بڑے پر خلوص لہجے میں بولا:
 
’’پورا مشرقی پاکستان شیخ صاحب کے ایک اشارے پر جانیں دینے کے لیے تیار ہے۔ وہ ہمارا مجبوب لیڈر ہے، اس نے ہمارے لیے جیل کی سختیاں برداشت کی ہیں، اُس کے لیے ہمارے سر حاضر ہیں۔‘‘ میڈیکل کالج کی ایک طالبہ نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے عرضِ مدعا بیان کیا:
 
’’شیخ صاحب ہماری آرزئوں اور ہماری تمنائوں کے نقیب ہیں۔ ان کے چھ نکات میں ہمیں بنگلہ قومیت کی آزادی کا سہنا خواب نظر آتا ہے۔ وہ جب تقریر کرتے ہیں، الفاظ کے طوفان میں جذبات بہہ جاتے ہیں۔ وہ ہمارے حقوق کے محافظ اور ہمارے عزائم کے ترجمان ہیں۔‘‘ ایک بڑے سرکاری ملازم نے راز داری کے سے انداز میں کہا: ’’پورا مشرقی پاکستان مجیب کی مُٹھی میں ہے، مغربی پاکستان کو اسی سے معاملہ کرنا ہو گا۔‘‘
ایک شکستہ خاطر، مگر منجھے ہوئے سیاست دان نے دھیمی آواز میں کہا: ’’مجھے تو اب مجیب الرحمن ہی معتدل سیاست دان دکھائی دیتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ مضبوط نہ کیے گئے، تو انتہاپسند قوتیں ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گی۔‘‘ میں نے ایک رکشا چلانے والے سے پوچھا: ’’تم شیخ مجیب الرحمن کو جانتے ہو؟‘‘ اس نے تڑپ کر جواب دیا:
 
’’اسے کون نہیں جانتا۔ جب وہ ۲۲ فروری کو جیل سے نکل کر آیا، لاکھوں انسان اسے دیکھنے کو آئے۔ وہ تو امارا نیتا ہے۔‘‘ اسی شہر میں ایسے لوگ بھی ملے جو شیخ صاحب کے شدید مخالفوں میں سے تھے۔ شیخ صاحب کے ایک سابق رفیق نے کہا: ’’وہ جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اس کے تمام عزائم میں فسطائیت کی روح کار فرما ہے۔‘‘ ایک بزرگ سیاست دان کے آگے میں نے مجیب صاحب کا نام لیا، تو دفعتہ ان کی مُٹھیاں بھنچ گئیں: ’’میرے سامنے اس کا نام نہ لیجیے۔ میں نے اس کے تمام لچھن دیکھ رکھے ہیں۔ میں اسے بہت پہلے سے جانتا ہوں۔ آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ غالباً ۳۸ء کی بات ہے، فریدپور میں مسلم لیگ کے دودھڑے قائم ہو گئے۔ ایک کے ساتھ مولوی تمیزالدین خاں تھے اور دوسرے کے ساتھ عبدالسلام خاں۔
 
ایک روز ان دونوں گروپوں نے ایک ہی وقت میں جلسے منعقد کیے۔ مولوی تمیز الدین خاں کے جلسے کی صدارت خواجہ ناظم الدین کر رہے تھے اور عبدالسلام خاں نے سہروردی صاحب کو بلا رکھا تھا۔مولوی تمیز الدین خاں کے جلسے میں حاضری زیادہ تھی۔ ناگاہ ایک نو عمر لڑکا کندھے پر لاٹھی رکھے آیا اور اس نے چند منٹ کے اندر جلسے میں گڑ بڑ پیدا کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجمع سہروردی صاحب کے جلسے میں زیادہ ہو گیا۔
 
سہروردی صاحب نے یہ منظر دیکھا، تو نو عمر لڑکے کو بلا بھیجا ۔ لڑکا سٹیج پر آیا، تو اس کا نام پوچھا۔ لڑکے نے اپنا نام مجیب الرحمن بتایا۔ سہروردی صاحب نے اس کی ہمت کی داد دی اور کہا: کلکتہ آئو، تو مجھے ضرور ملنا۔ یہ سہروردی صاحب سے مجیب کی پہلی ملاقات تھی۔‘‘ شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں ملے جلے تاثرات میرے ذہن پر قابض رہے پھر رنگپور کے قریب مجھے ایک بوڑھے کسان کا مختصر فقرہ یاد آ گیا: ’’سنا ہے مجیب پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔‘‘
 
کھلنا کے ایک طالب علم نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا تھا: ’’میرا تعلق سٹوڈنٹس لیگ سے ہے۔ سٹوڈنٹس لیگ کے اس طبقے سے نہیں جو کُل پاکستان بنیادوں پر نہیں سوچتا۔‘‘
کومیلا کے ایک دیہاتی نے اشکبار آنکھوں سے کہا تھا: ’’مجیب یہ تو پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے فلاں فلاں حقوق پامال ہوئے، مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں کیا کیا ملا؟ خدا نے اتنی نعمتیں دی ہیں کہ میرا سرجذبہ شکر سے جھک جاتا ہے۔‘‘
 
دینا ج پور کے ایک شہری نے کہا: ’’مجیب الرحمن کی حکومت صرف ڈھاکہ تک محدود ہے۔ اس کے جاں نثار بیس تیس سے زیادہ نہیں۔‘‘ یہ تمام باتیں میرے ذہن پر چاروں طرف سے یلغار کر رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کا وزیراعظم بننے کے امکانات کس شخصیت میں زیادہ ہیں۔ ۴ جون کو وقتِ مقررہ پر شیخ صاحب کی اقامت گاہ پر جا پہنچا۔ خوبصورت اور دو منزلہ بنگلہ۔ برآمدے میں شیخ صاحب کے چاہنے والوں کا ہجوم، زیادہ جوان چہرے، آنے جانے والوں کا تانتا سا بندھا ہوا۔ شیخ صاحب کے ڈرائنگ روم تک رسائی ہوئی۔ ٹیگور کی قدِ آدم تصویر نے خیر مقدم کیا۔
 
شیخ صاحب جلد ہی تشریف لے آئے اور مجھے سینے سے لگا لیا جیسے برسوں کے شناسا ہوں پھر محبت بھرے لہجے میں بولے: ’’قریشی صاحب، میں آپ کو ایک مدت سے جانتا ہوں۔ اس وقت سے جب میں دوسری دستور ساز اسمبلی کا رکن بنا تھا۔ آپ اس وقت اسمبلی میں آیا کرتے تھے۔‘‘ میں تردید کرنا چاہتا تھا کہ میں تو اس وقت صحافت میں تھا ہی نہیں، مگر شیخ صاحب کی رواں باتوں نے کچھ کہنے کی اجازت نہ دی۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’آپ اس وقت بھی پائے کی رپورٹنگ کرتے تھے۔ اس زمانے میں آپ سے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں۔ آپ نے سیاسی معاملات میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے۔‘‘
 
میں نے ایک بار پھر کچھ کہنے کا عزم کیا۔ ہونٹ کھلنے بھی نہ پائے تھے کہ شیخ صاحب کی زبان فیض ترجمان نے حقائق پر سے پردہ اٹھانا شروع کیا: ’’قریشی صاحب، آپ کو یاد ہو گا میں نے دستور سازی میں کتنی دلچسپی لی تھی۔ آپ تو ایک ایک مرحلے سے واقف ہیں۔ میری پوری زندگی سیاست کی زلفیں سنوارتے گزری ہے۔‘‘ کمرا کم عمر مشتاقین سے پُر تھا۔ سب کی نظریں مجیب الرحمن کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ ان کے چہرے وفورِ جذبات سے چمک رہے تھے۔ شیخ صاحب کی مست آگیں آنکھیں بار بار کھلتی اور بند ہوتی تھیں۔ ان آنکھوں میں انا کے خمار سے ہلکے ہلکے ڈورے اُبھر آئے تھے۔ نیم گھنی مونچھوں میں مستقبل کی سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔
 
’’قریشی صاحب، میں جانتا ہوں آپ نے میرے خلاف اُردوڈائجسٹ میں لکھا ہے، میں اس کی قدر کرتا ہوں، کیونکہ آپ کی نیت میں خلوص اور دیانت ہے۔ سیاست کا اصول ہی اختلاف رائے کا احترام کرنا ہے۔ بعض سیاست دانوں نے بھی مجھ پر الزامات لگائے ہیں۔ میں ان کا جواب دینا نہیں چاہتا۔ یہ اخلاقی اعتبار سے سخت معیوب ہے کہ ایک دوسرے پر چھینٹے اڑائے جائیں۔ مجھے حیرت ہے شورش کاشمیری نے میرے خلاف مواد کیونکر چھاپا، وہ تو میرے دوستوں میں سے تھے۔میں نوابزادہ نصر اللہ خاں کی ایک ایک بات کا جواب دے سکتا ہوں، مگر میں ان بکھیڑوں میں الجھنا نہیں چاہتا۔ میں تو عوام کا خادم ہوں، بس خدمت کرنا اپنا شعار ہے۔‘‘
 
شیخ صاحب نے ماحول پر ایک نظر ڈالی۔ ان کے چند اور احباب کمرے میں آ گئے تھے۔ شیخ صاحب نے فاتحانہ انداز میں کہا: ’’قریشی صاحب، میں سیاسی لیڈر، سیاسی ورکر ہوں۔ میرا گھر یہاں کے عوام کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ان لوگوں نے میرا ہر قدم پر ساتھ دیا ہے، میں انھیں کیونکر چھوڑ سکتا ہوں؟ یہ میرے لیے خون بہانے کو تیار تھے۔ انھوں نے میرے راستے میں آنکھیں بچھائی ہیں، میں بھی ان کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کروں گا۔ ایک سیاسی ورکر اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے؟‘‘
 
حاضرین میں چند اور نفوس کا اضافہ ہو گیا تھا۔ شیخ صاحب نے گردن کو قدرے بلند کرتے ہوئے کہا: ’’قرشی صاحب، آپ تو گول میز کانفرنس میں تقریباً ہمارے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے میرے بارے میں وزارتِ عظمیٰ کی باتیں تو سنی ہوں گی؟‘‘ ’’جی ہاں، مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہی تھیں۔‘‘ ’’قریشی صاحب، آپ صحافی ہیں، آپ سے کیا چھپانا۔‘‘ اتنے میں ایک صاحبٍ ریش آ گئے اور باتوں کا سلسلہ چند ثانیوں کے لیے منقطع ہو گیا۔ شیخ صاحب باہر گئے اور جلد ہی واپس آ گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا یہاں کا سارا نظام اشاروں پر چلتا ہے۔
 
’’قریشی صاحب، گول میز کانفرنس میں چودھری محمدعلی، نوابزادہ نصر اللہ خاں اور مودودی پہلے ہی سے ایوب سے ساز باز کر چکے تھے۔‘‘ ’’آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟‘‘ میں نے رک رک کر پوچھا۔ ’’قریشی بھائی، آپ بھی ثبوت مانگتے ہیں۔ آپ کو تو سب کچھ معلوم ہے۔ اس کا واضح ثبوت تو یہ ہے کہ جونہی ایوب خاں نے دو نکات کا اعلان کیا، تو چودھری محمد علی نے فوراً صدر کو مبارک باد دی۔ نوابزادہ اور مودودی کا بھی یہی طرزِ عمل تھا۔ میں سمجھ گیا یہ کھلی سازش ہے۔ میں نے گرج کر کہا: یہ کیا ہو رہا ہے، ہم نے ایوب خاں سے اقتدار خون دے کر لیا ہے، وہ ہم پر کوئی احسان نہیں کر رہے۔ میں نے خبر دار کیا کہ عوام فقط ان دوباتوں سے مطمئن نہ ہوں گے۔‘‘ ’’مگر مجیب صاحب، مجھے تو ان واقعات میں کوئی سازش نظر نہ آئی۔‘‘
 
’’آپ کو نظر آئے یا نہ آئے، میں کہتا ہوں کہ وہ ایک سازش تھی، ورنہ ایوب خاں کے اعلان کا اس قدر خیر مقدم نہ کیا جاتا۔‘‘ ’’سنا ہے آپ کی مجوزہ ترمیموں سے دستوری معاملات خراب ہوئے اور مارشل لاء تک کی نوبت آئی؟‘‘ شیخ صاحب نے سر کے منتشر بالوں کو انگلیوں سے سنوارتے ہوئے کہا: ’’یہ ترمیمیں میری نہ تھیں، یہ تو عوامی لیگ نے مرتب کی تھیں اور قمر الزماں نے انھیں ایوب خاں تک پہنچایاتھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ترمیموں کے بارے میں اس قدر ہنگامہ کیوں ہے؟
 
قریشی صاحب، قانون ساز اسمبلی میں سینکڑوں اور ہزاروں ترمیمیں پیش ہوتی ہیں، سب کی سب تو منظور نہیں کر لی جاتیں، بالکل یہی معاملہ ہماری ترمیموں کا تھا۔ وہ ترمیمیں تھیں، فقط ترمیمیں! سیاست میں معاملہ سازی (BARGAINING) کا اصول ہر جگہ کار فرما ہے اور اس کا حق سب کو حاصل ہے۔ ہو سکتا نیشنل اسمبلی ہماری ایک ترمیم بھی منظور نہ کرتی اور یہ بھی ہو سکتا ہے، ان کا بڑا حصہ عوامی نمائندوں کے لیے قابل قبول ہوتا۔‘‘
 
مجیب صاحب کے پہلو میں ایک نو عمر سیاسی ورکر بیٹھے تھے۔ انھوں نے نعرہ بلند کیا: ’’ہماری ترمیموں کے خلاف جمہوریت دشمن عناصر پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔‘‘ ایسے پُر آشوب ماحول میں مجھے سیاسی معاملہ سازی پر گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ ’’شیخ صاحب، موجودہ سیاسی بحران کا آپ کے پاس کیا حل ہے؟‘‘ ’’حل واضح ہے۔ ۵۶ء کا دستور انتخابات کے لیے نافذ کر دیا جائے اور منتخب پارلیمنٹ کو چھ ماہ کے لیے محض اکثریت (Simple Majority) یا واضح اکثریت (Absolute Majority) کے ذریعے دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔ سمپل اور ایبسولیوٹ کا فرق تو آپ جانتے ہی ہیں۔ سمپل میجارٹی سے مراد حاضرارکان کی اکثریت اور ایبسولیوٹ پارلیمنٹ کے کل ارکان کی اکثریت، ہمارے لیے یہ دونوں قابل قبول ہیں۔‘‘
 
’’شیخ صاحب، محض اکثریت کے بل پر پورے دستور کا پوسٹ مارٹم ہو جائے گا۔‘‘ ’’قریشی صاحب، میں آپ کے خدشات کو پوری طرح سمجھتا ہوں۔ میری رائے میں یہ زیادہ تر مفروضوں پر مبنی ہیں۔ انتخابات کے ذریعے عوام کے وہ نمائندے منتخب ہو کر آئیں گے جن کا سیاسی شعور سابق نمائندوں سے یقینا بہتر ہو گا۔ وہ دستور میں کوئی ایسی ترمیم نہ کریں گے جس سے ملک کی سا لمیت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ ہمیں عوام کی سیاسی بصیرت پر اعتماد کرنا چاہیے۔‘‘
 
’’شیخ صاحب، اگر عوام کے جذبات قابو میں نہ ہوں، تو ہوش پر جوش غالب آ جاتا ہے۔ دستوری مسائل کو اس ملک میں کتنے لوگ سمجھنے والے ہیں؟ وہ دستوری الجھنیں جنھیں پختہ سیاسی قائدین نہ سلجھا سکے، عوام ان کے بارے میں کیا فیصلہ دیں گے؟‘‘ ’’مگر قریشی صاحب، آپ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ۵۶ء کا دستور بھی تو اکثریت ہی کے اصول پر تیار ہوا تھا، اس میں ردوبدل کا حق اکثریت ہی کو ملنا چاہیے۔‘‘ شیخ صاحب کی آواز میں بلا کا تحکم اور غضب کا اعتماد تھا۔
 
 میں ایک بار پھر سہم گیا۔ صحافی میں دم خم ہی کتنا ہوتا ہے؟ کھوئی ہوئی ہمت مجتمع کر کے میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کی۔’’اس تجویز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ دستوری مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ایک متفقہ فارمولے پر جمع کر لیا جائے۔‘‘ ’’مجھے اس تجویز سے اصولی اختلاف ہے۔ قریشی صاحب، آج کی سیاسی جماعتیں وہ ہیں جن میں بیشتر انتخابات کے مراحل سے نہیں گزریں۔ فرض کیجیے آج آپ مجھ سے کوئی معاملہ کرتے ہیں، کیا خبر انتخابات میں عوام مجھ پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں؟ یہی معاملہ دوسری شخصیتوں اور سیاسی جماعتوں کا ہے۔ دراصل انتخابات کے بعد ہی معلوم ہو گا، عوام کے حقیقی نمائندے کون ہیں۔ ان نمائندوں ہی کے ذریعے قومی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
 
’’شیخ صاحب، آپ کے چھ نکات شکل وصورت سے بڑے خطر ناک دکھائی دیتے ہیں مگر آپ تو ایسے نہیں۔‘‘ اس پر شیخ صاحب کی آنکھیں مسکرائیں۔ ان کا قد اور لمبا ہو گیا اور انھوں نے ملازم کو چائے لانے کو کہا۔ ’’قریشی صاحب، مجھے افسوس ہے باتوں میں چائے کا خیال ہی نہ رہا۔ آپ بھی کیا سوچتے ہوںگے! آپ جانتے ہیں مشرقی پاکستان کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں۔‘‘
 
’’جی ہاں، سفر کے دوران میں بڑے خوشگوار تجربات ہوئے۔ مجھے تو یہاں کے رہنے والوں کی یہ ادا بھاتی ہے، بس کبھی کبھی کچھ اور گمان گزرنے لگتا ہے۔‘‘
 
’’وہ کیا؟‘‘ ’’یہی کہ شاید آپ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ ’’نہیں، قریشی صاحب، آپ کا گمان ۱۰۰ فیصد غلط ہے۔ ہمارے عوام اور آپ کے عوام ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ پاکستان برصغیر میں مسلمانوں کی متحدہ کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا اور انشاء اللہ اس کا پرچم ہمیشہ سر بلند و سرفراز رہے گا۔ میرے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا ہوں، یہ سراسر بہتان اور افترا ہے۔ اگر میرا منصوبہ مشرقی پاکستان کو آزاد کرانے کا ہوتا، تو میں ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء کو اس کا اعلان کر سکتا تھا۔ جب میں جیل سے باہر آیا، لاکھوں انسان میرے گرد جمع ہو گئے تھے۔ میں ریس کورس میدان میں علٰحدگی کا اعلان کر سکتا تھا۔ اس وقت مجھے روکنے والا کون تھا؟ میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں نے پاکستان کی تشکیل میں اپنا خون دیا ہے اور میں ایک پاکستان کی سلامتی کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔‘‘
 
’’مگر آپ کے ۶ نکات کچھ اور کہتے ہیں۔‘‘ میں نے گرمئی محفل میں جرأتِ رندانہ سے کام لیا۔ ’’قریشی صاحب، ۶ نکات قرآن اور بائبل تو نہیں، ان پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے مگر میں آپ کو بتائوں کہ ۶ نکات ظالم طبقے کے خلاف مظلوموں کی دلی آواز ہے ہمیں مغربی پاکستان کے عوام سے کوئی کد نہیں، وہاں کی خوشحالی ہماری اپنی خوشحالی ہے، ہمیں صرف اسی طبقے سے نفرت ہے جس نے کبھی بیوروکریسی اور کبھی صنعت کاروں کے روپ میں ہمارے حقوق پرڈاکے ڈالے اور بد قسمتی سے ان سب کا تعلق مغربی پاکستان سے ہے۔ اس چھوٹے سے طبقے نے مغربی پاکستان کے عوام کو بھی ظلم کی چکی میں پیسا ہے۔
 
ہم سب مل کر اس طبقے کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ یہی طبقہ مسلسل ہمارے مسائل الجھاتا آیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے لوگ صرف انصاف چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔ ۶ نکات دراصل انصاف کا منشور ہے۔‘‘ ’’مگر شیخ صاحب، کمزور اور بے نام مرکز دونوں صوبوں کے مفادات کی حفاظت کیونکر کرے گا؟‘‘ ’’۶ نکات سے مرکز کمزور نہیں ہوتا۔‘‘
 
’’ شیخ صاحب، کیا آپ کسی ایسے مرکز کا تصور کر سکتے ہیں جسے ملک کا دفاع کرنا ہو اور اس کے پاس ایک پیسا نہ ہو؟‘‘ اتنے میں مسٹر سلیمان اور بیگم اختر سلیمان بھی تشریف لے آئے۔ وہ مجیب الرحمن ہی کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ شیخ صاحب نے اپنا فلسفہ بیان کرنا شروع کیا: ’’میں یہ نہیں کہتا کہ مرکز کو ٹیکس لگانے کا حق نہیں۔ وہ ٹیکس لگائے اور صوبائی حکومت وہ ٹیکس جمع کر کے مرکز کے حوالے کر دے۔‘‘
 
’’اگر صوبائی حکومتیں روپیہ دینے سے انکار کر دیں، تو؟‘‘ ’’یہ کیسے ممکن ہے، دستور کی رو سے صوبائی حکومتیں رقوم ادا کرنے کی پابند ہوں گی۔‘‘ ’’وہ مختلف بہانوں سے دستوری ضابطوں کو التوا میں ڈال سکتی ہیں۔‘‘ ’’اگر ایسا ہو، تو مرکزی حکومت فوج کشی کر دے۔‘‘ اس پر مسٹر سلیمان بولے: ’’شیخ صاحب، ملک کے اندر ہی فوج ایک صوبے کے خلاف استعمال ہو، یہ کس قدر نادانی اور بیوقوفی کی بات ہو گی۔ آخر ایسی صورت اختیار ہی کیوں کی جائے جس میں فوج کشی کی نوبت آئے۔ آپ ٹیکس لگانے اور ٹیکس جمع کرنے کی جو سکیم بتا رہے ہیں، اس کا تجربہ ۳۷ء کے لگ بھگ ہندوستان میں کیا جا چکا ہے۔
اس وقت بھی صوبے کی حکومتوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم مرکزی حکومت کو رقوم فراہم کیا کریں گی۔ ۶ ماہ کے اندر مرکزی حکومت بالکل کنگال ہو گئی اور صوبوں سے رقوم آنی بند ہو گئیں۔ اس ناکام تجربے کے نتیجے میں غالباً ریزمین ایوارڈ آیا تھا جس میں صوبوں اور مرکز کے درمیان ٹیکسوں کو واضح تقسیم تھی۔‘‘ اس جواب پر مجیب الرحمن کی آوازمیں خاصا دھیما پن پیدا ہو گیا۔ انتقالِ زر کی بات چلی، تو مسٹر سلیمان نے ایک اور نکتہ اٹھایا: ’’شیخ صاحب، انتقالِ زر مصنوعی طریقوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ آپ جانتے ہیں سرمایہ بڑی حساس شے ہے۔ دنیا کے ہر گوشے میں یہی ہوتا ہے کہ سرمایے کو جہاں بہتر حالات نظر آتے ہیں، وہ اس طرف کھینچتا چلا جاتا ہے اور جہاں اس کے لیے حالات سازگار نہیں، وہاں سے اس کا فرار لازمی ہے۔ آپ مشرقی پاکستان میں خوشگوار حالات پیدا کر دیجیے، سرمایہ خود بخود یہاں آئے گا۔‘‘
 
’’خوشگوار حالات کون پیدا کرے؟‘‘ شیخ صاحب نے پُر سکون لہجے میں پوچھا، ’’یہ کام سب کو مل جل کر کرنا ہو گا۔ اور دیکھیے، آپ بینکوں سے انتقالِ زر کی بات کرتے ہیں۔ میںآپ کو بتاتا ہوںکہ ہر بینک کو یہ واضح ہدایات ہیں کہ فصل کی کٹائی کے دنوں میں ایک خاص نسبت سے سرمایہ مشرقی پاکستان میں رکھے۔ جب یہ دور گزر جاتا ہے تو یہ سرمایہ ملک کے اس حصے میں چلا جاتا ہے جہاں اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور پھر یہ سرمایہ ضرورت کے وقت مشرقی پاکستان میں آ جاتا ہے۔ سرمایے کو جامد نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
 
’’مگر مغربی پاکستان والے ہمارا زرِ مبادلہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں بیرونی ممالک میں مشرقی پاکستان کے تجارتی مشن ہوں۔‘‘ شیخ صاحب نے بڑے تحمل سے کہا۔ ’’آپ مرکز کو خارجہ پالیسی دینا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا: ’’جی ہاں۔‘‘ ’’کیا تجارت واقتصادیات کے بغیر خارجہ پالیسی کا تصور کیا جا سکتا ہے؟‘‘
 
’’ہم اپنے تجارتی مشن سفارت خانوں کے ذریعے اور ملک کی خارجہ پالیسی کے تحت قائم کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ خارجہ پالیسی کو فوقیت حاصل ہو گی۔ جن ممالک کے ساتھ ہمارے روابط دوستانہ ہوں گے، انہی سے ہم تجارتی تعلقات قائم کریں گے۔‘‘ بیگم اختر سلیمان نے ذرا خشمگیں لہجے میں کہا: ’’مجیب، میں ناشتے کے لیے جاتی ہوں، خواہ مخواہ تم سے الجھ پڑوں گی ۶ نکات پر۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔ شیخ مجیب نے بڑے معتدل انداز میں کہا: ’’قریشی صاحب، آپ ماہر اقتصادیات ہیں، نہ میں اور مسٹر سلیمان! ہمارے چند مسائل ہیں، ہم ان کا حل چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ماہرین اقتصادیات کی ایک کمیٹی قائم کی جا سکتی ہے، ۲ رکن مشرقی پاکستان کے ہوں اور ۲ مغربی پاکستان کے۔ ضرورت محسوس ہو تو باہر سے بھی کسی بین الاقوامی شہرت کے ماہر کو بلایا جا سکتا ہے۔ یہ کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ ہمارے لیے قابل قبول ہو گا۔‘‘
 
’’یہ تجویز تو بڑی معقول ہے‘‘ میں نے شیخ صاحب کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’قریشی صاحب، میں یہ سچے دل سے کہتا ہوں کہ ۶ نکات قرآن اور بائبل نہیں، یہ تو میں نے سیاسی سمجھوتے کے لیے پیش کیے تھے، مگر بعض اخبارات اور بعض قائدین نے انھیں ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کیا۔ گفتگو اور بات چیت کے ذریعے سیاسی سمجھوتہ ناممکن نہیں۔‘‘ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک غیر ملکی نامہ نگار آگیا۔ شیخ صاحب نے اسے دوسرے روز۹ بجے کا وقت دیا۔ کمرے میں ہجوم خاصا تھا، میں نے بھی رخصت لی اور کہا: ’’مجھے تنہائی میں ایک دو گھنٹے کے لیے باتیں کرنی ہیں۔‘‘
 
’’آپ کل ۱۰ بجے آ جائیے، میں کمرا بند کر لوں گا۔‘‘ مگر ۹ بجے تو غیر ملکی نامہ نگار آئیں گے۔‘‘ ’’میں انھیں زیادہ وقت نہیں دیتا، بس یہی پندرہ بیس منٹ، مجھے زیادہ خوشی اپنے ہی لوگوں سے مل کر ہوتی ہے۔‘‘ دوسرے روز میرے ہمراہ جناب اے جی شیخ بھی تھے۔ جناب اے جی شیخ فری لانسر فوٹو گرافر ہیں، فنونِ لطیفہ کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی ہیڈمسٹرس نے ان کا نام الٹ پلٹ کر دیا تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہیں میں نے بھی ان کا نام کچھ کا کچھ نہ لکھ دیا ہو۔ شیخ صاحب کے لیے ہمیں تقریباً آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔
 
وہ اس بار جناب اے جی شیخ سے بڑے تپاک سے ملے اور مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’یہ آپ کے دوست تمام ہنگاموں میں میرے ساتھ رہے۔ ۲۲ فروری کو یہ میری تصویریں لیتے رہے پھر ۲۳ مارچ کے قریب مجھے ڈھاکہ کے گلی کوچوں میں جانا پڑا۔ منعم خاں کی سازش تھی کہ مقامی لوگوں اور مہاجرین کے درمیان فسادات کرا دیے جائیں۔ میں اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے میدان میں نکل آیا۔ اپنے دوست سے پوچھیے، میں نے کس قدر خطرات میں کام کیا۔‘‘
 
’’جناب، مجھے تو سیاست سے ذرا بھی دلچسپی نہیں، میں تو ہنگاموں سے کوسوںدور رہا ہوں۔‘‘ جناب اے جی شیخ نے کہا۔ ’’مگر تم نے ہمیں کام کرتے ہوئے تو دیکھا ہے۔ تم تو ہماری جیپ کے بہت قریب تھے۔‘‘ میرے دوست خاموش رہے اور تصویر لینے کے لیے اپنے آلات درست کرنے لگے۔ ’’کیا میری پوری تصویر لو گے؟‘‘ شیخ صاحب نے پوچھا۔
 
’’آپ جس قدر چاہیںاور جیسی چاہیں، میں حاضر ہوں۔‘‘ شیخ صاحب کی آنکھوں میں مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ کمرے میں وہی ہجوم عاشقاں تھا۔ مجیب صاحب نے میرا سب سے تعارف کرایا۔ زیادہ تر وہی احباب تھے جو شیخ صاحب کے ساتھ گول میز کانفرنس کے سلسلے میں مغربی پاکستان گئے تھے۔
’’مجیب صاحب، کچھ اپنی زندگی کے حالات بتائیے۔‘‘ ’’بھئی میں تو ایک کارکن ہوں۔‘‘ ’’مگر اب تو آپ قدآور قائد ہیں اور شاید پاکستان کے ہونے والے وزیراعظم۔‘‘ ’’قریشی صاحب، سازشیں ہو رہی ہیں۔‘‘ ’’آپ تو ان سازشوں سے بالاتر ہیں۔‘‘ ’’ میں انتخابات پر یقین رکھتا ہوں، ہمارے مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں۔ وہ شخصیتیں جو ہوا میں معلق ہیں، وہ انتخابات کے نام ہی سے چونک اٹھتی ہیں۔ میں اپنی جماعت کو کُل پاکستان بنیادوں پر منظم کر رہا ہوں۔ میں بھاشانی کو چیلنج دیتا ہوں کہ انتخابات کے ذریعے عوام کا سامنا کریں۔ ان میں جرأت نہیں ہم ملک میں انارکی پھیلنے نہیںدیں گے۔‘‘
 
’’آپ کی جماعت کتنے فیصد نشستیں حاصل کر لے گئی؟‘‘ ’’اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے، تو ہمیں بھاری اکثریت حاصل ہو گی۔‘‘ ’’مفصلات اور دیہات میں تو آپ کی جماعت کا زور خاصا کم ہے۔‘‘ ’’اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔‘‘ ’’اچھا، آئیے ماضی کی باتیں کریں، زندگی کے بیتے ہوئے حصے کے بارے میں کچھ بتائیے۔‘‘
 
’’میری زندگی سلاسل وزنداں کی زندگی ہے۔ ہمیشہ مخالفوں سے ٹکراتا رہاہوں۔ پاکستان میں ۱۰ برس سے بھی زیادہ عرصہ جیل میں گزرا۔ میری زندگی کے مختصر سے کوائف یہ ہیں:  ’’۱۹۲۰ء میں ضلع فرید پور کے ایک گائوں ڈونگی پارا میں پیدا ہوا۔ تعلیم کے سلسلے میں کلکتہ آیا۔ وہاںاسلامیہ کالج میں بی اے کا طالب علم تھا کہ سیاسی ہنگاموں نے سر اٹھایا۔ مسلم لیگ کی تنظیم کا کام زوروں پر تھا۔ میں سلسلۂ تعلیم منقطع کر کے سیاست میں چلا آیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ڈیفنس منسٹر قائم کیا۔ کلکتہ میں اس کی سکرٹری شپ مجھے ملی۔
 
۴۲ء میں فضل الحق صاحب نے مسلم لیگ کو چیلنج دیا۔ انہی دنوں بالائی گھاٹ میں ضمنی انتخابات ہونے والے تھے۔ مسلم لیگ کے رضا کاروں نے انتخاب کے سلسلے میں بڑے زور شور سے کام کیا۔ میں ان کے ساتھ تھا اور ہمیںانتخابات میں شاندار کامیابی ہوئی۔ بنگال مسلم لیگ کی کونسل کا رکن نامزد ہوا۔ ۴۲ء میں مسلم لیگ نے قحط کے سلسلے میں ایک ریلیف کمیٹی قائم کی تھی، میں نے مرحوم لال میاں کے ساتھ اس کمیٹی میں کام کیا۔ ۴۵ء میں انتخابات کا اعلان ہوا۔ یہی وہ انتخابات تھے جس میں پاکستان کی تشکیل کا فیصلہ ہونا تھا۔ سہروردی صاحب نے مجھے فریدپور بھیج دیا۔ میں وہاں کی تنظیمی سرگرمیوں کا انچارج تھا۔ انتخابات میں مسلم لیگ کو بہت عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی۔ پھر ۴۶ء کا دہلی سیشن آیا۔ ہم نے قائد اعظمؒ کی موجودگی میں پاکستان کا حلف اٹھایا۔
 
۴۷۔۴۶ء میں بہار میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد کلکتہ کی طرف آ رہی تھی۔ مہاجرین کیمپ قائم کیا گیا۔ سہروردی صاحب کی ہدایت پر میں کانگرسی حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے گیا۔ ظفر امام سے بھی ملا پھر بنگال مسلم سٹوڈنٹس لیگ میں کام کرتا رہا۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جس کے صدر راجہ محمودآباد تھے، اس میں بھی نمایاں حصہ لیا اتنے میں سہلٹ کا ریفرنڈم سر پر آ گیا۔ میں ۵۰۰  کارکنوں کے ساتھ سہلٹ گیا، وہاں ہم نے خوب کام کیا۔ آخر سہلٹ کے عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
 
ہماری آرزوئوں کا محور، پاکستان وجود میں آ ہی گیا۔ بنگال مسلم لیگ توڑ دی گئی اور ایک ایڈہاک کمیٹی قائم ہوئی۔ اس پر خواجہ ناظم الدین اور سہروردی کے اختلافات ابھر آئے۔ ۶ فروری ۴۸ء کو سٹوڈنٹس لیگ قائم ہوئی۔ ان دنوںاُردو کو پاکستان کی واحد سرکاری زبان بنانے کی مہم زوروں پر تھی یہ نئی تنظیم اس مہم کے آگے ڈٹ گئی۔ مجھے ۱۱ مارچ ۴۸ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین نے ہماری تحریک کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور صوبائی اسمبلی نے مرکز کو سفارش کی کہ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے۔ اس بنیادی تبدیلی کے آتے ہی ہمیں رہا کر دیا گیا۔
 
میں نے ۴۷ء میں بی اے پاس کر لیااور اب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ہماری رہائی کے بعد یونیورسٹی میں ایک ہڑتال ہوئی، مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور زنداں کی دیواروں نے ایک بار پھر خیر مقدم کیا۔ اب سہروردی پاکستان آ چکے تھے۔ چند نوجوانوں اور پختہ سیاست دانوں کی کوششوں سے مسلم عوامی لیگ قائم ہوئی۔ میں جیل میں تھا۔ تاہم مجھے جائنٹ سکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ میں جلد ہی چھوٹ گیا، لیکن ایک موقع پردفعہ ۱۴۴کی خلاف ورزی کی اور جیل کی ہوا کھائی، مگر ضمانت پر رہائی مل گئی۔ نئی سیاسی تنظیم کے صدر بھاشانی اور جنرل سکرٹری شمس الحق منتخب ہوئے۔ رہا ہونے کے بعد لاہور گیا اور پیر مانکی شریف سے ملا۔ نومبر ۴۹ء میں مجھے پھر گرفتار کر لیا گیا اور اس بار ۵۲ء تک جیل میں رہا۔ میرے خلاف دو مقدمے چل رہے تھے لیکن ایک میں بھی مجھے عدالت میںمجرم ثابت نہ کیا جا سکا۔ اب میں عوامی لیگ کا جنرل سکرٹری تھا۔
 
۵۲ء کے آغاز میں خواجہ ناظم الدین نے صرف اُردو کو سرکاری زبان بنانے کا ایک بار پھر اعلان کیا۔ اس وقت طلبہ کی آل پارٹیز ایکشن کمیٹی قائم ہوئی۔ میں اس وقت جیل میں تھا۔طلبہ پر فائرنگ ہوئی میں نے جیل میں بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ نقاہت کی وجہ سے مجھے سٹمیر پر فرید پور سے ڈھاکہ ہسپتال میں لایا گیا۔ اس وقت سارا شہر بڑا سوگوار تھا۔
 
یہ قیامت خیز عہد بھی گزر گیا۔ ۵۴ء کے انتخابات کا انقلاب آفرین دور آیا۔ مسلم لیگ کو ذلت آمیز شکست ہوئی، وہ صرف۹ نشستیں جیت سکی۔ فضل الحق کی وزارت قائم ہوئی۔ میں بھی اس میں وزیر تھا۔ آدم جی مل میں خونریز فسادات ہوئے اور فضل الحق وزارت برطرف کر دی گئی۔ میں ابھی وزیر کی حیثیت سے بنگلے میں تھا، مجھے وہاں سے گرفتار کیا گیا۔ تقریباً ۴۰۰۰ افراد گرفتار ہوئے۔ سکندر مرزا اپنے لیے راستہ بنا رہے تھے۔ ۵۵ء کے شروع میں قید و بند سے رہائی ہوئی۔
 
یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ میں اس کا رکن منتخب ہو گیا۔ ۵۶ء میں صنعت اور تجارت کا وزیر بنا۔ ۵۷ء تک وزارت کی ذمہ داریاں اٹھائیں۔ میں نے محسوس کیا عوامی لیگ کی تنظیم میری خدمات کا تقاضا کرتی ہے، چنانچہ میں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور جنرل سکرٹری کی حیثیت سے تنظیمی امور میں مصروف ہو گیا۔ میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں واحد کارکن ہوں جس نے وزارت سے ازخود استعفیٰ دیا۔
 
۵۸ء میں مارشل لاء آیا اورمیرے لیے حکم اسیری لایا۔ میرے خلاف ۱۲ مقدمات چلائے گئے، وہ سب کے سب جھوٹے تھے۔ دسمبر ۵۹ء میں رہائی ملی۔ ۶۲ء میں پھر گرفتار ہوا۔ کراچی میں سہروردی قید کر لیے گئے تھے، وہ ۶۳ء میں چل بسے اور عوامی لیگ کا بوجھ میرے کمزور کندھوں پر آن پڑا۔ ۶۵ء کی جنگ نے ہم سب کو ہلا دیا۔ مشرقی پاکستان پوری دنیا سے کٹا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس احساسِ تنہائی اور بے سروسامانی نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیا اور ۶ نکات وجود میں آئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کھلی کتاب کی طرح سب پر عیاں ہے۔‘‘
 
میں بڑی سعادت مندی سے شیخ صاحب کی زندگی کے نشیب وفراز محفوظ کرتا رہا۔ طلبہ کے مشہور لیڈر طفیل احمد، شیخ صاحب کے پہلو میں تھے۔ آپ میرے اضطرابِ ناتمام کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شیخ صاحب نے یک بیک اونچی آواز میں کہا: ’’قریشی صاحب، میں نے پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک پاکستان کے مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آج بھی مجھ ہی پر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا الزام لگایا جاتا ہے اور الزام بھی وہ اصحاب لگا رہے ہیں جن کے اپنے دامن تہی ہیں۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں، مشرقی پاکستان کے عوام سخت دشواریوں سے دوچار ہیں، ہم صرف ان کا مداوا چاہتے ہیں۔ آپ خود ہی سوچیے، مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری آبادی ۵۶ فیصد ہے۔ مغربی پاکستان تو علیحدگی کا تصور کر سکتا ہے، ہم نہیں کر سکتے۔‘‘
 
پھر انھوں نے قدرے غضب آلود لہجے میں کہا: ’’وہ حصہ اگر علیحدہ ہونا چاہتا ہے، تو ہو جائے۔‘‘ انھوں نے بپھرے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی: ’’ہم مغربی پاکستان سے ناخوش نہیں، مگر یہ کیا انصاف ہے کہ وہاں منگلا اور تربیلا ڈیم بنیں اور مشرقی پاکستان آبپاشی کی سہولتوں سے محروم رہے۔ آپ جانتے ہیں ۱۹۴۷ء میں مشرقی پاکستان کا زرِ مبادلہ ۷۰  فیصد کے لگ بھگ تھا۔ اب وہ صرف ۴۶ فیصد ہے۔ مجھے بتائیے یہ کیوں؟ یہ مشرقی پاکستان کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے پٹ سن کا کاروبار روزبروز زوال پذیر ہے۔ ہمارے زرِ مبادلہ کی فی صد تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟‘‘
 
شیخ صاحب مجھ سے تندوتیزانگریزی میں مخاطب تھے: ’’پنجاب نے سرحد اور سندھ کو اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ بلوچستان زنجیروں سے آزاد فضا میں سانس لینے کے لیے مضطرب ہے۔ میرے صوبے میں ۴۰۰  سے زیادہ افراد نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، مگر ان پر اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ پیریٹی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک کمیٹی ۷ برس تک کام کرتی رہی، مگر موجودہ حکومت نے ایک ہفتے کے اندر مشرقی پاکستان کے چھ سات افسروں کو مرکزی سکرٹری بنا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرخلوص نیت سے کام کیا جائے، تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔‘‘
میں بڑے خشوع وخضوع سے شیخ صاحب کی سیاسی تقریر سنتا رہا۔ پھر ذرا ہمت کر کے ایک سوال پوچھ ہی لیا: ’’آپ کی جماعت نے ۵۵ء میں پیریٹی کا اصول تسلیم کیا تھا؟‘‘
 
’’جی ہاں۔‘‘ ’’اور اب آپ اس سے منحرف ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’قریشی صاحب، اس کے لیے ہمیں موردِ الزام نہ ٹھہرائیے، ہم ي! برس سے پیریٹی کا مذاق اڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایک قدم پر اس کی خلاف ورزی ہوتی رہی، اس معاہدے کے ہم بھی پابند نہیں رہے۔‘‘
 
ان کی آنکھیں تیزی سے گردش کر رہی تھیں۔ ’’میں کہتا ہوںِ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی میں نے بے پناہ خدمت کی ہے۔ کوئی ہے ایسا لیڈر جو عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے ۱۰ برس جیل میں رہا ہو؟ میرے عوام میری قربانیوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‘‘ اس موقع پر مجھے مجیب الرحمن کے متعلق ایک اور پُرعزم سیاسی لیڈر کا قول یاد آیا:
 
’سیاست میں مجیب کا مثبت کارنامہ کیا ہے؟ بس یہی نا کہ وہ ۱۰ برس جیل میں رہے، کسی بڑے مقصد کے لیے نہیں، منفی کردار کی وجہ سے۔‘‘
شیخ صاحب کی آواز میرے ذہن کو برماتی ہوئی گزر گئی۔ ’’مغربی پاکستان کے لوگ بھی مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ میں ۶ نکات کا خالق ہوں، اس کے باوجود انھوں نے مذاکرات کے زمانے میں مجھے سینے سے لگایا۔ میری راہوں میں بچھ بچھ گئے، وہ مجھے اپنا سمجھتے اور مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مغربی پاکستان کی بھی نمائندگی کروں گا، میں اپنے الفاظ کا پابند ہوں۔‘‘
 
’’مگر عوام تو آپ کے رویے سے خوش نہیں؟‘‘ کمرے میں کئی آوازیں آپس میں ٹکرا گئیں۔ ’’یہ سب پروپیگنڈا ہے، عوام ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘ شیخ صاحب نے فرمایا: ’’اگر عوام ہمارے ساتھ نہ تھے تو کرفیو کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ گولیاں کس نے کھائیں؟ خون کس کا بہتا رہا؟‘‘ ’’شیخ صاحب، وہ دور اور تھا اور یہ دور اور ہے۔ ہمیں ان میں فرق کرنا چاہیے۔‘‘
 
’’مہاجرین کے بارے میں آپ کا رویہ کیا ہے؟‘‘ ’’وہ مجھے بے حد عزیز ہیں۔ میرے سیاسی پیشوا سہروردی بھی مہاجر تھے اور ایک طرح سے میں بھی مہاجر ہوں۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ میں نے اپنے عہدِوزارت میں زیادہ تر لائسنس اور کاروباری مراعات مہاجرین کو دی تھیں۔‘‘ ’’مگر وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ ’’انھیں ہنگاموں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیادہ تر حالات حکومت نے خراب کیے تھے۔ منعم خاں نے اپنے آخری دنوں میں یہ منصوبہ بنایا کہ مقامی لوگوں اور مہاجرین کو آپس میں لڑا دیا جائے اور اس طرح ان کے زمانۂ اقتدار میں اضافہ ہو جائے گا۔ میں خود ڈھاکہ کے نازک مقامات پر گیا اور بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایا۔ کھلنا میں زیادہ تر ہنگامے صبور خاں کے پالے ہوئے غنڈوں نے برپا کیے۔ ہمیں بھائیوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہیے۔‘‘
 
’’شیخ صاحب، اسلام کا رشتہ ہمیں اخوت کا ہی احساس بخشتا ہے۔‘‘ ’’قریشی صاحب، مجھے اس مسئلے میں آپ سے اختلاف ہے، اسلام کا رشتہ اب سب سے کمزور رشتہ ہے۔ اگر یہ مضبوط ہوتا، تو عالم عرب میں افتراق نہ ہوتا، اسلام انھیں کیوں متحد نہ رکھ سکا۔ آخر کیوں؟‘‘ ’’وہ تو عرب قومیت کے پرستار بن گئے ہیں اور قومیت انسان کو تقسیم کر دیتی ہے۔‘‘ ’’مگر ان کی زبان تو ایک ہے۔‘‘ ’’زبان کسی واضح عقیدے کے بغیر متحد کرنے والی قوت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ شیخ صاحب، گونج دار آواز میں بولے: ’’میں سمجھتا ہوں ایک ہونے کا احساس باہمی اعتماد سے پیدا ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے، ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔ اعتماد کی فضا منصفانہ نظام ہی سے قائم ہوتی ہے۔ آپ اسلام کی باتیں کرتے ہیں۔ مغربی پاکستان کا ایک طبقہ مشرقی پاکستان کا حصہ کھاتا رہا ہے، آپ کے خطے سے یہ آواز کیوں نہیں اٹھتی کہ بھائی کا مال کھانا حرام ہے؟‘‘
 
’’شیخ صاحب، اگر ہم سب اسلام کے اصولوں کو سچے دل سے تسلیم کر لیں تو ملک کے کسی حصے میں بھی استحصال (Exploitation) کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہم قدرت کے فطری نظام سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے، ہمارے مسائل میں اعتدال کا فقدان بڑھتا رہے گا۔‘‘ ’’قریشی صاحب، یہ باتیں وعظ کے لیے اچھی ہیں، مذہب ہمارا بڑا مسئلہ نہیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگ سیدھے سادے مسلمان ہیں۔ ہندوئوں کے خلاف ان میں شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے مسائل چار ہیں: ۱۔ ملک کا دارالسلطنت مشرقی  پاکستان میں ہو۔ ۲۔ اس حصے میں فوجی ہیڈ کوارٹر قائم کیے جائیں۔ ۳۔ یہاں سرمایہ مضبوط بنیادوں پر تعمیر ہو۔ ۴۔ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہو جائے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، بے اعتمادی کے مظاہرے ہوتے رہیں گے۔‘‘ شیخ صاحب کی ورکنگ کمیٹی میرا محاصرہ کیے رہی، میں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے ڈر تھا میرا اعتماد بھی بھک سے اڑ نہ جائے۔ میں نے شیخ صاحب کے مضبوط ہاتھ سے آخری بار مصافحہ کیا۔ ہاتھ میں بے پناہ قوت اور بلا کا اضطراب تھا۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس وقت مجھے نورجہاں کے ہاتھوں سے کبوتروں کے اڑنے کا واقعہ کیوں یاد آیا تھا؟ ایک لمحے کے لیے میں نے محسوس کیا کہ دوسرا کبوتر بھی اڑ گیا اور کسی کی نگاہیں دورخلا میں گھور رہی ہیں۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 656