donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Interview
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Fazil Husain Parwez
Title :
   Topi Aur Tilak Ki Seyasat Ab Khatam Honi Chahiye

ٹو پی اور تلک کی سیاست اب ختم ہونی چاہئے


مسلمانوں کے مسائل احتجاج سے نہیں بات چیت سے حل ہوسکتے ہیں


صدر آل انڈیا امامس آرگنائزیشن مولانا عمیر احمد الیاسی کا


ٹیلیفونک انٹرویو…ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

 

    ہندوستانی مسلمان کے مسائل بات چیت کے ذریعہ ہی حل ہوسکتے ہیں۔ احتجاج سے کچھ ہونے والا نہیں۔ ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی کے لئے ہی ملاقات کی اور ہم اپنی بات چیت و وزیر اعظم کے تیقنات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ بات چیت کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ مولانا عمیر احمد الیاسی نے گواہ کو دیئے گئے ٹیلیفونک انٹرویو میں کیا۔ مولانا عمیر بانی کل ہند تنظیم ائمہ مساجد (آل انڈیا امام آرگنائزیشن) مولانا جمیل احمد الیاسی مرحوم کے فرزند ہیں جو اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستان کی ساڑھے پانچ لاکھ مساجد کے ائمہ کرام کے مسائل کی یکسوئی کے عزائم کے حامل ہیں۔ 2؍جون کو مسلمانوں کے ایک 30 رکنی وفد کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات پر بعض گوشوں سے کڑی تنقید ہوئی ہے۔ اس سے پہلے ان کے دورۂ اسرائیل پر بھی کافی نکتہ چینی کی گئی تھی۔ گواہ نے مولانا عمیر الیاسی سے فون پر انٹرویو لیا جس کا خلاصہ آپ کی نذر ہے۔

    آل انڈیا امام آرگنائزیشن نے نریندر مودی سے جو ملاقات کی وہ وزیر اعظم کی کسی بھی مسلم وفد سے پہلی سرکاری ملاقات تھی۔ اس میں سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر فخرالدین علی احمد کے فرزند ڈاکٹر پرویز احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر عبیدالرحمن، پروفیسر حلیم اندور گرلز کالج، فیروز بخت احمد مولانا آزاد کے نبیرہ، ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد، قاری محمد میاں مظہری، مولانا برہان احمد، مولانا لقمان، مولانا کلب حسین، تبلیغی جماعت کے بلال احمد، جامعہ معارف العلوم کے مہتمم الیاس بھرت پوری جیسے قابل قدر شخصیات شامل تھیں۔ نیک نیتی، مضبوط ارادوں کے ساتھ وفد نے وزیر اعظم سے بات چیت کی اور ان سے کہا کہ آپ ریڈیو پر ’من کی بات‘ کہتے ہیں ہم یہاں اپنے دل کی بات کہنے آئے ہیں۔ بے اعتمادی کو ختم کرکے اعتماد پیدا کرنے، قربتیں بڑھانے اور نئے رشتے قائم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ وفد نے وزیر اعظم کے مسلمانوں کی ترقی سے متعلق ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر کے نظریہ کی ستائش کی۔ ساتھ ہی ان سے درخواست کی کہ وہ مائناریٹی فینانس کارپوریشن کے بجٹ میں اضافہ کرکے مسلم نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے اقدامات کریں۔ عدلیہ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے‘ یہ شکایت دور کرے۔ آرکیا لوجیکل سروے کے تحت جن قدیم مساجد میں کتے لوٹ رہے ہیں‘ جہاں آوارہ اور بدقماش عناصر کی سرگرمیاں جاری ہیں‘ اُن مساجد میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ جامعہ مسجد دہلی، شاہجہانی مسجد بھی آرکیا لوجیکل سروے کے تحت ہے مگر یہاں نماز ادا کی جارہی ہے۔اوقافی جائیدادوں کو ناجائز قابضین سے آزاد کرکے انہیں ڈیولپ کیا جائے۔ ساڑھے پانچ لاکھ مساجد کے اماموں کو 1993ء سے کانگریس جھنجھنا دے کر بہلادے رہی ہے‘ اب نئی حکومت جو ترقی کی بات کررہی ہے‘ سب کو لے کر چلنے کی بات کرتی ہے اسے امام کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ قبرستانوں کی جگہ کم ہوتی جارہی ہے۔ مسلم امپاورمنٹ کے صرف وعدے اور تیقنات ہوتے رہے ہیں۔ سچر کمیٹی سفارشات پر عمل آوری کی جائے۔ پیشرو حکومت نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا۔ نئی حکومت ان کے زخموں پر مرہم لگائے انہیں ترقی کے مواقع فراہم کرے۔ اب عمل کی ضرورت ہے۔ مولانا عمیر احمد الیاسی نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پوری دلچسپی اور ہمدردی کے ساتھ وفد کے مطالبات کی سماعت کی اور یقین دلایا کہ وہ اس کا جائزہ لینگے اور سب کی ترقی کیلئے اقدامات کرینگے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب مذہبی خطوط سے بالاتر ہوکر اتحاد و اتفاق کیساتھ اپنی اور اپنے وطن کی ترقی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

    مولانا عمیر احمد الیاسی نے ایک سوال کے جواب میں کہ جس نریندر مودی نے کبھی مسلمانوں سے ٹوپی قبول کرنے سے انکار کیا تھا اب ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہے؟ کہا کہ سب سے پہلے تو ٹوپی اور تلک کی سیاست ختم کی جانی چاہئے۔ ٹوپی پہن کر، روزہ اور افطار پارٹی کرواکر مسلمانوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ہمیں ٹھوس عملی کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ اپنے دورہ اسرائیل سے متعلق انہوں نے کہا کہ انہوں نے اسرائیل کے بشمول 40ممالک کا دورہ کیا ہے کیا اسرائیل کو جانا گناہ اور امریکہ کو جانا ثواب ہے؟ انہیں مسجد اقصیٰ میں نماز عصر کی امامت اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ سعادت ہند۔پاک اور بنگلہ دیش کے کسی امام کو حاصل نہیں ہوئی جس کے لئے وہ اللہ کے شکر گذار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی جو بھی خارجہ پالیسی رہے گی اس کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ویسے نئی حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ فلسطین سے متعلق ہندوستان کی سابقہ پالیسی برقرار رہے گی۔ اس کے علاوہ فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ دو اسٹیٹس کا جھگڑا ہے۔ بات چیت محبت سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اور خود فلسطینی حکام اسرائیلی حکام سے بات چیت کرتے رہے ہیں تو ہمارے دورہ پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔ مولانا عمیر احمد الیاسی نے مساجد کے اماموں کے مسائل سے متعلق بتایا کہ ساڑھے پانچ لاکھ مساجد کے امام 24گھنٹے اللہ کے گھر میں اللہ کے بندوں کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ کیا ان کے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھنے کا حق نہیں ہے؟ کیا انہیں اچھے کپڑے پہننے کا حق نہیں ہے؟ سپریم کورٹ نے کے فیصلے کے باوجود ابھی تک ان کے مسائل حل نہیں کئے گئے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ مسجد کے امام کو جو بھی تنخواہ دی جاتی ہے وہ فرسٹ گریڈ آفیسر کی تنخواہ کے مساوی ہو۔

    وزیر اعظم سے ملاقات کے موقع پر ہندوستان کے بعض جماعتوں یا قائدین کو مدعو نہ کرنے سے متعلق مولانا عمیر احمد الیاسی نے کہا کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اتحاد کا فقدان ہے۔ لیڈرشپ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں کوئی کسی کی لیڈرشپ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ جمعیۃ العلماء کے دو گروپ ہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اپنے مسائل ہیں۔ کوئی کسی جماعت کو مانتا ہے تو کوئی کسی جماعت کو نہیں۔ اس پس منظر میں ہم نے ہندوستان کے نامور ہستیوں کا وفد تشکیل دیا اور ملاقات کی۔ تنقیدیں ہوتی رہیںگی اس کی ہمیں پرواہ نہیں ہے۔ ہمارا کام اپنے مسائل کو حل کرنا ہے۔

(یو این این)


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 621