donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Interview
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Farhan Haneef
Title :
   Meri Maa Mujhe Duniya Me Nahi Lana Chahti Thii : Nida Fazli

 میری ماں مجھے دنیا میں نہیں لانا چاہتیں تھی:ندا فاضلی

فرحان حنیف


جدیدشعراء کی بھیڑ میں اپنی علاحدہ پہچان بنانے والے نرالے شاعر ندا فاضلی پیر ۸ فروری ۲۰۱۶ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۷۸ برس تھی ۔ ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا ۔ وہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے ۔ وہ انسانی قدروں پر یقین رکھنے والے خوش دل فنکار تھے ۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظموں اور دوہوں کے عمدہ اور منفرد شاعر تھے ۔ نثر میں بھی وہ ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ خاکہ نگاری اور نغمہ نگاری میں بھی انھوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا تھا ۔ ندا فاضلی کی اب تک تقریباً ۲۴ تصانیف شائع ہوچکی ہیں جن میں ملاقاتیں ، لفظوں کا پل ، مور ناچ ، آنکھ اور خواب کے درمیان ، دیواروں کے بیچ ، دیواروں کے باہر ، کھویا ہوا سا کچھ ، چہرے ، سفر میں  دھوپ تو ہوگی ، ہم قدم ، دنیا مرے آگے ، زندگی کی طرف اور شہر میں گاؤں وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ ذیل میں ندا فاضلی کے ایک طویل اور یادگار انٹرویو کے کچھ حصے پیش کئے جارہے ہیں ۔ ممبئی کے صحافی اور شاعر فرحان حنیف وارثی نے یہ بات چیت ریکارڈ کی تھی ۔

فرحان حنیف : اپنی پیدائش اور تعلیم و تربیت کے علاوہ بچپن کے کسی دلچسپ واقعے پر روشنی ڈالیں ۔

ندا فاضلی : پیدائش اور تعلیم و تربیت کے بارے میں تفصیل سے ’’ دیواروں کے بیچ ‘‘ اور ’’ دیواروں کے باہر‘‘ میں لکھ چکا ہوں ۔ ویسے میری پیدائش دہلی کی ہے ۔ والدہ بھی دہلی کی تھیں ، والد علی گڑھ کے پاس ایک قصبہ ہے دیبائی ، وہاں کے رہنے والے تھے ۔ میری تعلیم و تربیت گوالیار میں ہوئی ۔ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ میری والدہ مجھ سے پہلے دو بچوں کو جنم دے چکی تھیں ۔ ایک بڑی بہن اور ایک بڑے بھائی ۔ اس زمانے میں بھی اور آج بھی ہر گھر میں کمانے والے کی آمدنی کے حساب سے بچوں کی پیدائش کی تعداد مقرر ہوتی ہے ، میری والدہ دو کے بعد تیسرا جوان کے پیٹ میں تھا ، اسے پیدا کرنا نہیں چاہتی تھیں اور وہ تیسرا میں تھا ۔ مجھے اس دنیا میں نہ لانے کے لئے اس زمانے کی تمام دیسی دواؤں کا استعمال انھوں نے کیا ، اس درمیان وہ ایک حادثے کا شکار ہوئیں لیکن اس کے باوجود انہونی کو ہونی ہونا تھا ، میں دنیا میں آگیا ۔ دیسی ادویات کا جو استعمال ہوا تھا اس نے لگتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر میرے ذہن پر کچھ عجیب سے اثرات چھوڑے ہیں اور انہی اثرات کی گرفت میں بچپن سے میں اب تک ہوں ۔ میرا اپنا خیال ہے کہ انسانی وجود اور اس کے وجود کے عناصر جس پر آئندہ زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اس کی بنیادماں کی کوکھ میں پڑ چکی ہوتی ہے اس کی اصطلاح میں اسے جنس کہا جاتا ہے ۔ اس کو اور آسان طریقہ سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ نیم کا پیڑ مسجد جائے ، گرودوارے جائے یا مندر جائے ، اسمیں کسی کی دعا سے بھی سیب نہیں پیداہوسکتا ، اس طرح سیب کا درخت لاکھ کوشش کرے اس کے اندر انگور نہیں اُگ  سکتا ۔

فرحان حنیف : ندا صاحب ! پہلے تو یہ بتایئے کہ آپ کی شاعری کے آغاز کے کیا کوائف تھے ؟

ندا فاضلی : شاعری کا ماحول گھر میں ہی تھا ۔ میرے والد دعا دیباٹیوی داغ اسکول کے نمائندہ شاعروں میں تھے ۔ ویسے میری شاعری کی شروعات اور گوالیار میں ۱۹۶۰ء میںاچانک بے گھر ہونے کی تاریخ ایک ہی ہے ۔ اکیلا پن ،اقتصادی بدحالی اور ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ ان محرکات میں شامل ہیں ، جن کا لفظی اظہار میری شاعری اور نثر ہے ۔

فرحان حنیف : آپ نے پہلا شعر کب اور کون سا کہا تھا ؟

ندا فاضلی : جس طرح مجھے آخری شعر کی اطلاع نہیں ہے کہ وہ کیسا اور کس طرح کا ہوگا ، اسی طرح پہلے شعر کی بھی اطلاع نہیں ہے ۔ شاید میرا پہلا شعر بغیر لفظوں میں تھا جو زیادہ با معنی تھا اور وہ اس چیخ کے روپ میں تھا جو میری والدہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود میرے وجود میں ظاہر ہوا تھا ۔ وہ میرا پہلا احتجاج تھا ، جس کے معنی میں آج تک سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں ۔

فرحان حنیف : ’ لفظوں کا پل‘ سے ’ کھویا ہوا سا کچھ ‘ پر تو مسلسل تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں مگر treatmentمیں زیادہ تنوع نہیں ہے ۔ اسے کیا قرار دیا جائے ، تنوع کی کمی ، ارتکاز کی شدت یا اسٹائل پر اصرار ؟

ندا فاضلی:  ’ لفظوں کا پل‘ ’ مور ناچ ‘ ’ آنکھ اور خواب کے درمیان‘ اور ’ کھویا ہوا سا کچھ ‘ ان چار شعری مجموعوں کے بعد بھی ظاہر ہے ، تخلیقی عمل جاری ہے ۔ ان مجموعوں کا میں نے مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ غزل ، نظم ، گیت ، دوہے ، نثری نظم اور ماہیا وِغیرہ ۔ جہاں تک لفظیات کا تعلق ہے ، ان کے بارے میں عرض کرچکا ہوں کہ میری شعری زبان اردو کی رائج شعری زبان سے کسی حد تک الگ ہے ۔ اس میں زمین و آسمان کو سوچا نہیں گیا ہے ، دکھایا گیا ہے ۔ میںنے لاشکل abstractزبان کی بند تصویروں کے ذریعہ اپنی بات کہی ہے ۔ میں نے اس شعری رویے کے ذریعہ اس لوک وراثت سے رشتہ جوڑنے کی سعی کی ہے ، جس میں اردو کی حصے داری اگر تھی بھی تو نہ ہونے کے برابر تھی اور جہاں تک treatmentکا سوال ہے تو اس تعلق سے ’ لفظوں کا پل ‘ ، ’ مور ناچ‘ ’ آنکھ اور خواب کے درمیان‘ اور ’ کھویا ہوا سا کچھ ‘ میں مثالیں بھری پڑی ہیں :

دنیا جسے کہتے ہیں ،جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے ، کھو جائے تو سونا ہے

غم ہو کہ خوشی دونوں ، کچھ دیر کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ، ہنسنا ہے نہ رونا ہے

فرحان حنیف : ندا صاحب ! آپ کی گذشتہ دس بارہ برسوں کی شاعری میں نفی اور نثریت کی جگہ اثبات اور Mellownessآگئے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟

ندا فاضلی : زندگی بدلتی ہے تو زندگی کو جاننے پہچاننے کے انداز بھی بدلتے ہیں ۔ ڈاکٹر اقبال کا مصرع ہے :

ثبات ایک تُغّیر کو ہے زمانے میں ۔ ان سے بہت پہلے مہاتما بدھ کہہ چکے تھے ۔ تبدیلی ایک حقیقت ہے اور ہر تبدیلی بھی تبدیلی ہوتی ہے ۔ یہ اس سے بڑی حقیقت ہے ۔ ‘‘ فلسفہ طراز شاعر اکثر ایک ہی فکری دائرے کے امیر ہوتے ہیں، مگر جو زندگی کو فلسفہ بناتے ہیں ، ان کے شعری سفر کے مناظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ میں نے اپنی شاعری کا موضوع خود اپنی زندگی اور اس کی بدلتی ہوئی سمت و رفتار کو بنایا ہے ۔ اس کا مزاج سوانحی ہے ۔مرے کلام میں یہ اثرات لفظوں کے آگے پیچھے محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔

فرحان حنیف : پوری دنیا میں اس وقت نثر کا دور ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟

ندا فاضلی : نثر لکھتے ہوئے اکثر مجھے اس کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ ہوا ہے ۔ ہمارے عہد کی پیچیدگیاں جتنے پھیلاؤ اور تہہ داری کے ساتھ نثر میں بیان کی جاسکتی ہیں ، شاعری کے ضابطوں اور قاعدہ میں ممکن نہیں ۔

فرحان حنیف : آپ غالب، میر اور اقبال میں کس کو ترجیح دیتے ہیں ؟

ندا فاضلی : تینوں اپنے مزاج اور عہد کے شاعر ہیں ۔ میں بیک وقت بہت سے شاعروں کو پسند کرنے کا حوصلہ رکھتا ہوں ۔ ان بہت سوں میں اردو کے علاوہ ہندوستانی زبانوں اور انگریزی کے واسطے سے دوسرے ممالک کے شعراء بھی شامل ہیں ۔

فرحان حنیف : آج اردو کا جو مقام ہے ، اس پر آپ کے تاثرات جاننا چاہوں گا۔

ندا فاضلی : آج اردو زبان اپنے رسم الخط کے ساتھ سیاسی کھیل تماشے کا ایک کھلونا بن گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے اردو تعلیم آہستہ آہستہ سمٹتی جارہی ہے ۔ اردو کے ساتھ تعصب کی بنیاد محمد علی جناح کے اس رویے سے شروع ہوتی ہے ، جس میںانھوں نے دو قومی نظریے میں اردو کو بھی شامل کیا تھا ۔ ایک بڑا پیرا ڈاکس یہ ہے اور یہ سوچنے والا پہلو بھی ہے کہ ہندوستان میں آپ کے جتنے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں ،ان کی پیدائش ، ان کی کشمکش اور ان کا تصادم صرف دو آبہ تک محدود رہا ہے ، جس کا نام اردو ہے ۔ جناح صاحب جس وقت اردو کے مسلمان ہونے کا اعلان کررہے تھے ، قاضی نذر السلام مسلمان تھے اور بنگالی زبان کے بڑے شاعر تھے ۔ بشیر وائیکم مسلمان تھے اور تامل زبان کے مشہور شاعر تھے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو کا تعلق کسی مذہب سے ہے نہ رہے گا ۔ اردو کا موجودہ روپ جو ہے اس کے پس پردہ انگریزوں کی ’ ڈوائیڈاینڈ رول‘‘ کی پالیسی ہے ۔ اس پالیسی نے رسم الخط کی سطح پر مجموعی طاقت کو توڑنے کی سعی کی ۔دیوناگری ہندوؤں کی زبان ہے اور پرشین اسکرپٹ جو ہے وہ مسلمانوں کی زبان ہے اور پھر بٹوارے کے بعد زبان بھی دو حصوں میں بٹ گئی ۔

فرحان حنیف : آج بھی ادھر اُدھر سے آزاد نظم کی مخالفت جاری ہے ۔ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے ؟

ندا فاضلی : اردو کا معاشرہ احساس کمتری کا شکار ہے ۔ دنیا میں جو ہورہا ہے یا اردگرد جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس کا اثر وہ نہیں لیتا ہے ۔ وہ انٹرایکشن کی ضرورت کو بھی محسوس نہیں کرتا ہے ۔ اردو کے علاوہ ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانیں اور باہری ممالک کی بڑی زبانوں میںآج جو شاعری ہورہی ہے ، وہ وزن ، قافیہ ، ردیف اور بحر سے آزاد ہے ۔ سوسال قبل جب وٹمین نے شاعری کا آغاز کیا تھا ، اس وقت بھی اسی طرح مخالفت جاری تھی ۔ وٹمین نے نثری نظموں کا مجموعہ ’’i sing my self‘‘ ( میں اپنے آپ کو جانتا ہوں) جب سامنے لایا تھا تب انگریزی ادب میں اس سے اختلاف کا اظہار کیا گیا ۔ ایمرسن نے اس وقت وٹمین کی حوصلہ افزائی کی تھی اور لکھا تھا ۔

’’ نوجوان تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، میری پیشن گوئی ہے کہ تم نے انگریزی شاعری میں نئی جمالیات کو متعارف کرایاہے ۔ ‘‘

آج آپ دیکھ رہے ہیں ، انگریزی شاعری کی تاریخ وٹمین کے تذکرہ کے بغیر ناممکن ہے ۔ دیکھئے آج زندگی کی پیچیدگیاں اتنی بڑھ گئی ہیں اور حالات اتنے زیادہ تہہ در تہہ ہوچکے ہیں کہ اب یہ فارسی کے جو اثرات ہیں ، قافیہ ، ردیف ، بحر اور آہنگ وغیرہ ۔ زیادہ دور ساتھ نہیں چل سکتے ۔ آپ کو دوسری زبانیں جن راستوں پر جارہی ہیں ، انہی راستوں اور آزاد فضاؤں میں سانس لینی پڑیں گی ۔ آج جو یہ رجعت پسندی ہورہی ہے یہ اس وقت بھی ہوئی تھی ، جب علی سردار جعفری اور ن ۔ م ۔ راشد نے آزاد نظمیں لکھی تھیں ۔ اس زمانے میںاثر لکھنوی آزاد نظم کو قبول نہیں کرتے تھے اور آج بھی ہمارے یہاں حاوی صنف سخن غزل ہی ہے ۔

فرحان حنیف : ندا صاحب ! آخری سوال ، آپ کی تازہ تصنیف ’چہرے‘ خاص مقبول ہورہی ہے ۔ کیاآپ آئندہ اس میں مزید اضافہ کرنے کے خواہش مند ہیں ؟

ندا فاضلی : اسے آگے بڑھانا اب شاید ممکن نہیں ۔ میرے ساتھ مشکل یہ ہے کہ میں کسی موڈ کی گرفت میں دیر تک نہیں رہتا ۔ دوسری مشکل یہ ہے ، جن شاعروں پر میں نے لکھا ہے یا لکھنا چاہتا تھا ان میں سے بیشتر کا تعلق مشاعروں سے تھا ۔ ادب سے ان کا رشتہ مشاعروں کی راتوں تک محدود تھا ، جو بعد میں دن کی روشنی میں ختم ہوجاتا تھا ۔ لہٰذا لکھنے  کے لئے شعراء کے بارے میں جن معلومات کی ضرورت ہے ، وہ ملنا مشکل ہے میں قارئین کا شکر گزار ہوں کہ انھوں

نے ’ چہرے ’ کو پسند کیا ۔

 

فرحان حنیف وارثی سے رابطہ کا نمبر:9320169397

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 574