donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Interview
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Moid Rasheedi
Title :
   Perween Sher Ke Adbi wa Zahni Milanat Ke Tanazir Me Aik Mokhatba

  پروین شیر کے ادبی و ذہنی میلانات کے تناظر میں ایک مخاطبہ


 معید رشیدی


(سوال  :۱ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے محسوس کیا ہے کہ شاعری ہو یا نثر، آپ لفظوں کے اس آہنگ کا بڑا ستھرا مزاق رکھتی ہیںجس کا اپنا ایک ردم Rhythm  ہوتا ہے۔یہ وجدان کا کرشمہ ہے یا یہ چیز خصوصی طور پر آپ کی کوشش سے عبارت ہے؟  

(جواب ) ۔۔۔۔۔۔ اس سوال نے مجھے یاد دلایا ہے کہ مشہور فرانسیسی ادیب اور فلسفی Voltaire  ) (1694-1778 نے کہا تھا کہ شاعری موسیقی ہے۔۔۔۔۔۔۔میں بھی اس سے متفق ہوں۔موسیقی سے مجھے عشق ہے۔محسوسات کو شاعری کا جامہ پہناتے وقت ذہن میں خود بخود نغمگی رقصاں ہونے لگتی ہے۔لفظوں میں سمانے لگتی ہے۔ بچپن سے میرا قلم،مو قلم اور مضرا ب ایک دوسرے کے ہم سفر رہے ہیں۔میری تخلیقات میں ان کا گھل مل جانا وا جبی ہے۔  

(سوال  :۲ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔شاعری اور مصوری، دونوں ہی فنون میں آپ کو ملکہ حاصل ہے۔آپ کے دو شعری مصور مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ارباب نظر نے انہیں کئی اعتبار سے سراہا ہے۔شاعری اور مصوری میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔آپ کے یہاں یہ ایک دوسرے کی معاون رہی ہیں یا حریف۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک پہلو پر توجہ دی جائے تو دوسرا دب جاتا ہے۔غائب نہیں ہوتا تو پردئہ خفا میں چلا جاتا ہے۔آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ آپ مصوری میں ڈوبی ہوں اور آپ سے شاعری دور بھاگ رہی ہو ؟

( جواب )۔۔۔۔۔۔۔۔۔  میرا تجربہ یہ ہے کہ تخلیقیت کے مختلف ذرائع  ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا  ہوتے ہیں۔اکثر میرے مو قلم کی کوکھ سے پیدا ہو کر کوئی تخلیق کینوس کے علاوہ  قرطاس پر بھی شاعری کے روپ میں اپنی رہائش گاہ بنا لیتی ہے ۔اسی طرح قلم سے پیدا شدہ رنگ کاغذکے ساتھ کینوس پر بھی سنور جاتے ہیں۔ مصوری کے دوران شاعری اور شاعری کے دوران مصوری ایک دوسرے سے دور جانے کے برعکس قریب تر ہو جاتی ہیں۔کبھی کوئی خیال مصوری کے لیے ذہن میں آتا ہے لیکن وہ نظم بن جاتا ہے۔اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔
(سوال  :۳ )۔۔۔۔۔۔۔۔گر آپ سے پوچھا جائے کہ شاعری اور مصوری میں آپ کس کو ترجیح دینا چاہیں گی تو آپ کا جواب کیا ہوگا ؟کیا دونوں ہی آپ کے لیے لازم و ملزوم ہیں؟

 (جواب ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل۔ مو قلم اپنے انداز میں محسوسات کا اظہارکرتا ہے اور قلم اپنے طر یقے کار سے۔ دونوں کا امتزاج شاعری کو نیا رنگ عطا کرتا ہے۔نئے راستے اور نیا اُفق ۔اگر مو قلم میرا دو ست نہ ہوتا تو ا س سے اُبلتے ہوئے رنگوں کی لہروںکا غنا  لفظوں میں کیسے سماتا؟۔ اس کی پیکر تراشی قلم میں کیسے سرایت کرتی؟ پھر تو مصورانہ خیال اور امیجری میری  شاعری میں نہیں سماتی جنہیں میں شاعری کی جان سمجھتی ہوں۔

(سوال  :۴ )۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے تخلیقی محرکات کیا ہیں؟

 ) جواب)۔۔۔۔۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے، کبھی تخلیقیت کے لیے تخیل بنیاد  بنتا ہے اور کبھی تخیل کے لیے کوئی تخلیق بنیاد بن جاتی ہے۔ کچھ طاقتور تخلیق ذہن کو دور اُڑا لے جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس تخلیق سے بھی پرے۔ اُس تخلیق سے پیدا شدہ فضا سے الگ ،تخیل کی نئی دنیا آباد کر کے  ایک نئی تخلیق کا محرک  بن جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انسان خود ایک ساز ہے جس کے تاروں کو تصورات کی انگلیاں چھیڑ دیا کرتی ہیں

(سوال  :۵)۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا کہ آپ مصور بڑی ہیں یا شاعرہ؟

(جواب ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی نہیں۔ میری سبھی تخلیقات میرے بچے ہیںجو میرے لیے یکساں ہیں۔
(سوال  :۶ )۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا موجودہ سفر نامہ جس کا عنوان ـ’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘ ہے،ایک مختلف تجربہ ہے۔کچھ میٹھا کچھ کھٹا ،بلکہ کھٹا کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
 (جواب ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں ہر فنکار حساس ہوتا ہے ۔ فکر اور تخلیقیت کی زر خیزی حسیت کے بغیر ممکن نہیں۔سوئیٹو(سائوتھ افریقہ)ٹائون شپ کی کچی گلیوں میں  چھوٹے سے خستہ گھر کے نیم تار یک کمرے میں سولہ سالہ لڑکی کی آنکھوں سے جھانکتا ہوا ۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔۔  آج بھی شور مچاتا ہے جب سیاحوں کا گروپ اُس کی بد حالیوں کو تماشے کی طرح دیکھ رہاتھا۔اور مجھے اپنا یہ شعر یاد آرہا تھا:

 زمین پیروں تلے ہو یہ اب گماں بھی نہیں        جو سر اُٹھایا تو دیکھا کہ آسماں بھی نہیں

  دوران سفر،  زندگی کی  نئی نئی کہانیاں پڑھنے کو ملیں۔آنسوئوں سے بھیگی ہوئی بھی اور خوشیوں سے تر بہ تر بھی۔ کئی سوالوں کے جوابات ملے اور کئی نئے سوالوں نے بھی گرفتار کیا۔زندگانیاں بہ ظاہر بے حد مختلف اور اندرونی طور پر بالکل یکساں نظر آئیں۔آگہی کے کئی دروازے کھلے، تخلیقیت کی رگوں کو تازہ خون ملے اور فکر کے آسمان کو نئے چاند ستارے ۔ محدود ذہن کو وسعت حاصل ہوئی ۔قدرت کے نگار خانوں نے حیران بھی کیااور اُس کے اسرار نے الجھا بھی دیا۔نئے نئے تجربات نے میرے قلم اور برش کو نئے ڈائمنشن دیے۔

(سوال  :۷ )۔۔۔۔۔۔۔۔سفر ناموں کے درمیان کہیں کہیں نظمیں موجود ہیں۔کیا یہ اُن ہی لمحوں میںتخلیق ہوئی ہیں یا پھر آپ نے وطن واپسی پر انہیں تخلیق کیا  ہے؟

( جواب )۔۔۔۔۔۔۔۔۔  دو تین نظموں کے علاوہ سبھی نظمیںدوران سفر، اُنھیں لمحات میں وجود میں آئیں۔ ذہن میں گونجتی رہیں اور رات میں سونے کے قبل تک شور مچاتی رہیں جب تک کاغذ پر اُتر کر نہ آ گئیں۔

(سوال  :۸)۔۔۔۔۔۔۔۔  وہ کون سے اسباب تھے یا داخلی جبر تھا کہ آپ کو محسوس ہوا کہ سائوتھ افریقہ ،سوآزی لینڈ اور سائوتھ امریکہ کے اسفار کی یادیں قلم بند کی جانی چاہئیں؟شاعری کے ساتھ سفر نامہ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

 (جواب )۔۔۔۔۔۔۔  ان اسفار کے تجربات الفاظ میں محفوظ کر لینے کی دو وجوہا ت ہیں۔ سائوتھ افریقہ اس لیے کے اپارٹ ہائیڈ کے دوران انسانوں کی حیوانیت نے مجھے دہلا دیا تھا۔ احساس کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر باہر نکلنے کو بے چین تھا۔انسانوں کو انسان کا ہیبت ناک چہرہ دیکھانا چاہتی ہوں۔بھولی ہوئی داستان یاد دلاکر بے حسی کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔لا تعلقی کو تعلق میں بدلنا چاہتی ہوں۔ سوآزی لینڈ کی بے رحم بادشاہت جس طرح عوام کو کچل رہی ہے وہ انسانیت کامنہ کالا کر رہی ہے۔وہاں لوگوں کی بے کسی ہر طرف نظر آئی۔   پیرو (سائوتھ امریکہ ) اس لیے کہ یہاں قدرت کی پر اسرار قوت بھر پور ہے جو کہیں انسانی ذہن کے ذر یعہ ظاہر ہے تو کہیں قدرتی نظاروں میں۔یہاں کے جادو بھرے کرشمے روحانی احساسات کو  مہمیز کرتے ہیں۔قدرت کی نا قابل یقین تخلیق۔۔۔۔۔۔۔۔انسانی ذہانت، جس نے ماچو پیچو جیسا عجوبہ اس زمین سے دور پہاڑوں کی گود میں تخلیق کیا۔ میں اپنے قاری کو وہاں لے جانا چاہتی ہوں ،قدرت کے کرشموں کے درمیان۔

شاعری کے ساتھ سفر نامہ لکھنے کا خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اول تو میں خود کو روایتی سفر نامہ نگار نہیں سمجھتی۔ میںصرف اپنے احساسات کی ترجمانی کرتی ہوں جو قدرت کے نگار خانوں کے مشاہدات سے پیدا ہوتے ہیں۔جن میں حیرانگی، استعجاب،آنسو، مسکراہٹ ، سوالات اور سوچ کے رنگ ہوتے ہیں۔   میں اس مختلف صنف کی طرف اس لیے متوجہ ہوئی کیونکہ دروںمیں جو ان کہی کے غول ہیں باہر نکلنے کو بے چین،  وہ ایک ہی دروازے میں نہیں سما سکتے۔ وہ دوسرا بند دروازہ کھول کر ہی باہر آ سکتے ہیں۔

(سوال  :۹ )۔۔۔۔۔۔۔آپ ایک تاثر پسند مصور ہیں اور شاعری میں بھی اس تاثریت کا رنگ گہرا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ حقیقت اور تاثرکا جو آمیزہ آپ کے ان دونوںفنون میں نظر آتا ہے۔یہی آپ کی انفرادیت ہے۔پھر بھی کسی کسی کا یہ خیال ہے کہ آپ کے یہاں تعقل کی کار فرمائی زیادہ نظر آتی ہے؟  آپ اس تعلق سے کیا کہنا چاہیں گی؟

 (جواب)۔۔۔۔۔۔۔۔  قاری آزاد ہے۔ یہ اُس کا حق ہے جو رائے قائم کرے۔ میرا خیال ہے کہ شاعری صرف لطف انگیز ہی نہیں ،فکر انگیز بھی ہو۔زندگی کے صرف ایک ہی نہیں  مختلف چہرے ہیںجو فنون لطیفہ کے کارناموں کا حصہ ہیں ۔  فنی تخلیق میں زندگی کا ہر پہلو ہو۔شاعری میں صرف وقتی لطف نہ ہو۔تصورات کے ریشم سے بھی اس کی کشیدہ کاری ہو اور حقیقت کے سُوت سے بھی۔دیوانگی بھی ہو اور فرزانگی بھی۔شاعری کا مقصد محض تخلیقیت تک محدود نہ ہو بلکہ زندگی کی اُلجھی ہوئی ڈور کا سرا تلاش کرنا بھی ہو۔  

 اپنا اپنا نقطئہ نظر ہے۔ میری تخلیقات کے متعلق مختلف قد آور نقادوں نے اس کے بالکل برعکس بھی کہا ہے۔

(سوال  :۱۰ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔نظم اور غزل میں آپ کسے ترجیح دینا چاہیں گی؟کیوں کہ ہمارے یہاںاکثر شعرا کسی ایک صنف ہی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔دوسری اصناف کو صرف مزہ بدلنے کے لیے آزمانے کی کوشش کرتے ہیںجیسے میر نے مثنویاں بھی کہیں،سوانح بھی لکھی لیکن وہ غزل ہی کے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔اخترالا یمان صرف نظم کے شاعر ہیں۔فیض نے بہت اچھی غزلیں بھی کہی ہیں لیکن اکثر نقادوں کی نظر میں وہ ایک اہم نظم گو شاعر ہیں۔آپ کی نظر میں ان دونوں اصناف کی کیا اہمیت ہے ؟   

 جواب :    میں نے دونوں کو آزمایا۔ نظم کا کینوس میرے لیے زیادہ وسیع  ہے۔  بہت زیادہ پابندیاں اظہار کے فطری بہائو کو نقلی رنگ دے دیتی ہیں۔ لیکن غزلیہ شاعری کا اپنا حسن ہے کہ ہر پھول کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ ہر کسی کو کوئی خاص خوشبو پسند ہے کسی کو کوئی اور۔ مجھے نظمیں اس لیے پسند ہیں کہ اس میں ایک سی فضا ملتی ہے۔ غزلوں کے ہر شعر میں ماحول بدل جاتا ہے۔ میں ذہن و دل کی فضا اتنی تیزی سے نہیں بدل سکتی۔ اگرمیرے دل میں کبھی سوگواری کی فضا ہے تو شادمانی بے معنی ہو جاتی ہے اور شادمانی کی فضا میں سوگواری  ۔اس کے با وجود غزل کی دنیا بھی مجھے مسحور کرتی ہے اور کبھی کبھی میں یہاں بھی پناہ لیتی ہوں ۔کیوں کہ کچھ احساسات ایسے ہوتے ہیں جو کسی مخصوص راستے  ہی سے ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔

(سوال  :۱۱ )۔۔۔۔۔۔۔۔  آپ کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن کی یادوں کو آپ بھلا نہیں پائی ہیں۔آپ اپنے اندر ایک خلش محسوس کرتی ہیں۔آج آپ مصور اور شاعرہ کی حثیت سے عالمگیر شہرت کی مالک ہیں۔غا لبًا آپ کو آسودگی بھی میسر ہے۔پھر بھی  اس خلش اور بے چینی کے کیا معنی ہیں؟

(جواب )۔۔۔۔۔۔۔   سناہے زندگی کے سب سے اہم لمحات عمر کے اولیں پانچ سال ہوتے ہیں۔اُس وقت جو تجربے ہوتے ہیںوہ روح میں  جذب ہو جاتے ہیں۔زندگی میں کئی باب ہوتے ہیںجو یکے بعد دیگرے ختم ہوتے جاتے ہیں۔میری زندگی کے چند باب ایسے تھے جو ختم ہو گئے لیکن ختم نہیں ہوئے۔وہ ماحول،وہ فضائیں،وہ ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری پہلی سانس،پہلا قدم،پہلا خواب اور پہلی محبت آج بھی میری سانسوں میں ہیں۔پہلی محبت تھی ماں کی مہربان آنکھوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر کے سامنے نیم کے چھتنار درخت سے، آنگن میں خوشبو بکھیرتی ہوئی رات کی رانی سے،گھر کی چھت پہ چاند اور ستاروں سے روشن آسمان تلے میرے بستر سے لپٹی ہوئی چاندنی سے۔۔۔۔۔۔جو اب میرے پاس نہیں ہیں۔یہاں برفیلے موسم کی وجہ سے موٹی ،Insulatedدیواروں کے درمیاں۶ ماہ قید رہنا پڑتا ہے۔ ہوائوںکے نرم لمس سے دور،  شیشے کی دیواروں میں قید بڑی حسرت کے ساتھ اُن ہوائوں کو برف کے سفید غبار کی بانہوں میں رقصاں دیکھتی ہوں۔قدرت سے الگ تھلگ ہو کر  ایک گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔کچی، معصوم عمر کے تجربے،بے فکری،خواب ہی خواب، کچھ نمکین آنسو ،کچھ میٹھی ہنسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب وہیں چھوڑ آئی۔ان کی جگہ اب ایک خلاء ہے اور خلش ہے۔پہلی محبت کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟

شہرت اور آسودگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہر کسی کے لیے یہ آلات زندگی کا نقشہ صحیح کرنے کے لیے کافی نہیںہیں۔ہر کھلونے سے طبیعت اُکتا جاتی ہے۔کچھ زندگیوں کا مکمل ہونا بہت مشکل ہے۔اُنہیں وہ چاہیے جو شاید اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔جن کے لیے شہرت اور آسودگی ہی تکمیل ہے وہ رنگین شیشے کے گلاس میں بے رنگ پانی کو رنگین سمجھ لیتے ہیں۔یہ نیند میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں۔
زندگی کی کتاب اتنے مختلف ابواب میںنہ جانے کیوںمنقسم ہے۔یوں بھی یہ کتاب تو ختم ہونی ہی ہے لیکن قطرہ قطرہ، بار بار کیوں؟ایک باب ختم ہوتا ہے،ایک موت۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر دوسرا باب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اور موت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!  بار باراس درد سے گزرنا پڑتا ہے۔تکمیل کی تلاش میںخلش اور بے چینیاں میرے ساتھ رہتی ہیں جو میرے لیے سود مند بھی ہیں۔یہ ذہن کے بند دریچے وا کرتی ہیں۔ یہ نہیں ہوں تو سوچ اور فکر کے چراغ بجھنے لگتے ہیںجو زندگی کی زندگی ہیں۔جب تک خلش اور بے چینی ہے،فکر اور سوچ بھی ہے۔جب تک فکر اور سوچ کے چراغ کی ضیا پاشیاں ہیں،زندگی میں بھی اُجالا ہے۔فکر ہی زندگی کی بقا ہے جسے خلش زندہ رکھتی ہے۔ورنہ انسان ایک رو بوٹ ہو جا تا ہے۔عقلی تقاضوں کے تحت زندگی اپنے وجود کے با وجو د  مر جاتی ہے۔

(سوال  :۱۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔  آپ نے کئی بار ہندوستان اور پاکستان کے دورے بھی کیے۔یہاں کے کئی شہروں میںآپ کا غیر معمولی خیر مقدم بھی ہوا۔لیکن آپ نے کبھی ان تجربات کو زبان کیوں نہیں دی؟کیا سفر نامہ قلم بند کرنے کے لیے جس طرح کی ذ ہنی اور جذباتی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہاں نہیں ملی یا آیئندہ کبھی لکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟

(جواب ) ۔۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، میں ایک روائیتی سفر نامہ نگار نہیں ، صرف اپنے احساسات کی ترجمان ہوںجب تک کوئی اہم اور غیر معمولی تجربہ نہ ہو، جب تک کوئی صورت حال دنیائے دل کو تہہ و بالا نہ کر دے، جب تک کوئی سماں مجھے انگشت بدنداںنہ کر دے۔۔۔۔۔میرا قلم خامو ش رہتا ہے۔یہ کچھ انوکھا چاہتا ہے، اعجوبہ چاہتا ہے،کچھ انہونی جیسی ہونی چاہتا ہے جو چونکا دے،پریشان کردے ، حیران کر دے،سرشار کر دے۔  

(سوال  : ۱۳ )۔۔۔۔۔۔۔۔۔    ہندوستان اور پاکستان ہی نہیں،اتنے بہت سے ممالک کے آپ نے سفر کیے۔انہیں آپ نے کیوں اس لا یق نہیں سمجھاکہ لفظوں میں قید کر کے ان لمحات کو  سرمدی بنا دیا جاتا؟   

(جواب )۔۔۔۔۔۔۔۔۔  زندگی کبھی بہت انوکھے اور عجیب و غریب تجربوں سے ہمکنار کردیتی ہے۔ان تجربات سے پیدا شدہ محسوسات یوں جھنجھوڑ ڈالتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر قلمبند کرنا ہی پڑتا ہے۔اپارٹ ہائیڈ جیسی خوفناک صورت حال نے مجھے برسوں سے بے چین کر رکھا تھا۔یہ بے چینی مجھے زمین کے اُس حصے پر لے گئی جہاں یہ زہر پھیلا تھا۔اسی طرح صد یوں پرانی انکا ز (Incas) کی انوکھی تہذیب اور ماچو پیچو کے طلسمات نے بھی مجھے برسوں سے جکڑ رکھا تھا۔وہاں جا کر جو دیکھاوہ خواب جیسا تھا۔یقین سے پرے۔جا بجا انسانی کرشموں کے نشانات ایسے ہیں جیسے کسی دوسرے سیارے کی مخلوقات کے کارنامے ہوں۔ان دو ممالک کی انفرادیت،ان کے جلال و جمال از حد پُر اثر ثابت ہوئے۔ان کے متعلق جو کچھ محسوس ہوا اُس میں اتنی شدت تھی کہ احساسات کے اس خزانے کو فوراً ہی محفوظ کرنا پڑا۔اب  دوسرے ممالک کے میرے حیرت انگیز تجربات بھی جلد ہی منظر عام پر آئینگے۔

(سوال : ۱۴)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے اس سفر نامے میں جو ایک تسلسل ہے اور جس طرح آپ نے اسے ایک جمالیاتی تنظیم عطا کی ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ آپ میں بیانیہ کی زبردست صلاحیت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا اگلا قدم فکشن کی طرف ہو، کیونکہ آپ یوں بھی کسی ایک صنف تک محدود نہیں ہیں۔کیا کبھی آپ کے ذ ہن میں اس قسم کی کرید پیدا ہوئی ؟

(جواب )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   دل میں ان کہی کا انبار ہے جو مجھے بے چین کرتا رہتا ہے۔کسی نہ کسی راستے سے باہر نکلنا ہی چاہتا ہے۔میں نے کچھ افسانے بھی لکھے لیکن بہت کم۔دنیائے دروں میں نہاں کہانیوں کا گھنا جنگل ہے۔ کون جانے کب ،کس راستے سے عیاں ہو۔
                                                          

 


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 676