donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Interview
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Ashiq Raheel
Title :
   Aik Shauar Mausiqar Aur Gulokar Se Interview

 ایک شاعر ‘ موسیقار ‘ اور گلوکار سے اِنٹرویُو

 

(ایک شخص :تین خصوصیات)


پروفیسر  عاشق  راحیل

چیئر مین:  انجمن گلشنِ ادب۔ لاہور۔ پاکستان۔

 

         آج ہم ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت جو نہ صرف ایک اچھے شاعر ہیں ‘ بلکہ موسیقی کے رموز سے آشنائی کے ساتھ ساتھ خوش گلو بھی ہیں ‘ سے بات کرنے جا رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا اگر تفصیلاََ احاطہ کِیا جائے ‘ تو ایک ناول میں مطلُوبہ ابواب کی تعداد بڑھ جائیگی۔  انہوں نے بچپن سے ہی جن مشکلات و مسائِل کے پَے در پَے حملوں کے وار سہے ‘ اور ان کے اثرات سے نِمٹنے کے لئے جس بردباری اور جراء ت سے کام لیا ‘ ان کی زبانی ہی پڑھنے کو ملیں گے۔ ایسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔ اس شخص نے ایک منزل کو سَر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ ایک ترقی سے استفادہ کرکے اورلطف اندوز ہو کر نئی منزل کی تلاش کو نکل پڑا۔ اس کی ایک محتصرمثال یہ بھی ہے ‘ کہ وہ اپنی مختلف ملازمتوں سے فراغت کے بعد بھی ایک ایسے فن میں زور آزمائی کر رہے ہیں ‘  جن میں اساتذہ بھی اپنے آپ کو طفل مکتب ہی گردانتے ہیں۔

          آپ سے ملواتے ہیں ۔ جناب محمد اشرف گِل کو ‘ جو ایک نہایت شریف ا لنفس اور مخلص انسان ہیں۔ پاکستان کی پیدائش سے  پہلے تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ ۔ پنجاب ۔ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب نہایت کم عمری میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ والدہ  نے اپنے چار بچّوں (دو بیٹیوں اور دو بیٹوں) پر مشتمل فیملی کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ دو بڑی بہنوں کے بعد تیسرے نمبر پر اشرف گِل نے  اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے اور ہائی سکول کا ڈپلوما نزدیکی قصبہ مِترانوالی ضلع سیالکوٹ سے حاصل کیا۔ پھر لاہور منتقل ہو گئے۔ متعدد نوکریوں کے بعد یونائیٹڈ بنک سے منسلک ہو گئے۔ اپنا مکان بنایا‘ شادی کی۔ اور پھر اپنی نئی منزل کی تلاش اور اپنے مستقبل کو مزید روشن کرنے کے لئے اپنی بیوی اور بچوں سمیت امریکہ کے شہر نیویارک میں آ رہائش پذیر ہوئے۔ یہیں سے ہی سعودی عرب جا کر مکّہ مکّرمہ میں کعبہ شریف اور مدینہ منورہ میں روضہ نبیئِ اکرم کی زیارت کے ساتھ ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ بعد میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر فریزنو میں منتقل ہو گئے ‘ اور تا حال اپنی بیوی اور بچوں سمیت یہیں قیام پذیر ہیں‘ اور ریٹائرمنٹ کے بعد شاعری اور موسیقی

 میں نئے نئے تجربات کرنے میں مصروف ہیں۔ باقی آپ خود سنئیے ‘ اشرف گِل کی کہانی۔ ہمارے سوالات کی روشنی میں:

سوال۔۱:  آپ اپنے بچپن اور نوجوانی کے حالات اور واقعات کے بارے کچھ بیان کیجے

             اشرف گِل: میرا نام محمد اشرف گِل ہے ‘  اور میں نے شاعری اور موسیقی میں اپنی پہچان اشرف گِل کے نام سے ہی  بنائی ہے۔ میری پیدائش پاکستان کے وجود میں آنے سے پیشتر ضلع گوجرانولہ تحصیل وزیرآباد کے ایک چھوٹے قصبے میں ہوئی۔ میرے  والد صاحب کا چھوٹا سا زمیندارہ تھا۔ کھیتی باڑی کرنے کے ساتھ ساتھ پِیروں کی مریدی کرنے میں پیش پیش ہُوا کرتے تھے۔ اور ماں کے  مُطابق بعض اوقات کئی کئی روز اپنے پِیروں کی ہمرہی میںمختلف گائوں قصبوں میں ہی دن رات گذارتے تھے‘ اور اُن کی خدمات کو کافی اہمیت  دیتے  تھے۔علاوہ ازیں مقامی مسجد میں امام کے فرائض انجام دینے کے ساتھ بچوں اور بڑوں کو دینی تعلیم سے بھی نوازتے تھے۔ مگر میری بدقسمتی کہ مَیں اُن کی مصروفیات نہ دیکھ پایا ‘ کیونکہ وہ میری ۸ سال کی عُمر میں ہی اس جہان سے وداع ہو گئے۔ اور میرا‘  میری دو بڑی بہنوں‘  اور میرے چھوٹے بھائی کا  بوجھ میری ماں کے نحیف و ناتواں کاندھوں پر چھوڑ گئے۔ بعد میں ماں نے اپنی تمام تر قوتوں کو یکجا کرکے والد
 صاحب کی کمائی ہوئی جمع شدہ پونجی میں سے میری دونوں بڑی بہنوں کی شادی بھی کی ‘ اور مجھے میٹرک تک کی تعلیم بھی دلوائی۔

                سوال۔۲:   میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے مستقبل کے بارے کیا خود سوچا ‘ یا آپ کو کسی نے  اپنے آپ کو آگے بڑھانے کیلئے کچھ مشورے دیئے؟ آپ نے محنت کو اپنا شعار بنایا یا قسمت کو اس میں شامل کِیا؟

             اشرف  گِل: ہاں! میری ماں جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ میری کامیابی کا سہرا انہی کے سَر پر ہے۔ انہوں نے مجھے ہر نشیب و فراز کے بارے اپنے تجربات سے بہرہ ور کیا۔ کیونکہ میری ماں بھی تو ایک راستے کے پتھر کی مانند تھی۔ جس کو جہان کی مسلسل ٹھوکروں نے اور زمانے کے سلوک نے عالمِ بیوگی میں تجربات سے مالا مال کر دیا تھا۔ اور ماں ہی کے تجربات کی روشنی میں مجھے بھی کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وگرنہ میں تو خود اُس وقت کمہار کے ہاتھ میں کچّی مٹّی کی مانند تھا ‘ جو کہ اس کی ہتھیلی کی مرہون منّت ہوتی ہے۔ جس طرف چاہے موڑد ے۔ اور جہاں تک جہان کے مشوروں کا تعلق ہوتا ہے ۔ وہ تو یوں ہے ‘ کہ بیشتر لوگ تو خود ہی اپنے ہی کسی نہ کسی مسئلے سے دو چار ہیں۔ جس کے پاس بھی جائیے ‘ مشورے کیلئے ‘  ان کے مسائل سے جھولی بھر کے ساتھ لے آئیے۔ یہی سب کا حال دیکھا ‘ تب بھی تھا ‘ جو اب تک جُوں کا تُوں ہی ہے۔ اور جن کے پاس مسائل کم ہیں ‘ ان کے پاس صلاح دینے کی اہلیت نہیں۔ بس یہی دیکھا جو اب بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ باقی آپ نے محنت او ر قسمت کا ذکر کیا۔ تو میں محنت پر یقین رکھتا ہُوں۔ جو مَیں نے کی ہے‘  اور کر بھی رہا  ہُوں۔ جیسے میرے ایک شعر کی مانند:   ؎  اگرچہ چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔۔مگر پھر بھی مسلسل چل رہا ہوں۔۔۔تبھی مطمئن بھی ہُوں اور خوش و خرّم بھی۔ گودورانِ کشمکش زندگی مجھ سے  غلط فیصلے بھی کافی ہوئے ہیں ‘ مگر میں نے ان ناکامیوں پر آنسو بہانے کی بجائے ‘  نئی سوچوں اور منصوبوں پر عمل درآمد کیا اور زندگی کے کاروان کو رکنے نہیں دیا۔ اس کی گاڑی کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمّت کروانے میں کبھی کاہلی سے کام نہیں لیا۔ باقی قسمت کے تو میری نظر میں دو ہی پہلو ہیں: ایک نفی اور ایک مثبت۔ جو لوگ تقدیر کے سہارے پر رہتے ہیں ‘ کاہل ‘ سست اور کام چور ہوتے ہیں۔ اور بہانہ سازی میں ایک نمبر بھی۔ تبھی ایسے لوگ زندگی میں وہ نہیں کر پاتے۔ جن کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ اور وہی ہیں محنتی لوگ‘ جو آپ کو اپنے ارد گرد کامیابی سے ہمکنار نظر آئینگے۔ ایسے لوگوں کی مثال یوں ہے جیسے: بقول شاعر:  ؎ نامی کوئی بغیر مشقّت نہیں ہوا۔۔سَو بار جب عقیق کٹا ‘ تب نگیِں ہوا۔۔۔ یا میری ایک غزل کے شعر کے مُطابِق:

  ؎  زندگانی تو تگ و دَو سے بسر ہوتی ہے۔۔۔۔سَر پہ تقدیر کا احسان لِئے پھِرتے ہیں۔

            یوں تو میرے ساتھی میٹرک کرکے سکول ٹیچر ٹریننگ پروگرام کیلئے درخواستیں بھیج رہے تھے اور مجھے بھی اسی ہی راہ پر لیکر جانے  کیلئے اکسا رہے تھے۔ مگر میری ماں نے مجھے لاہور بھجوانے کا جو کام کیا‘ گو وہ فیصلہ میری ماں کیلئے سینے پر پتھر رکھنے کے برابر تھا۔ مگر وہی  ایک فیصلہ اس وقت سب سے زیادہ اہمیت کا حامل بھی ثابت ہُوا ‘ اور میرے بہترین مستقبل کے لئے ایک مِیل پتھر کی صورت اختیار کر گیا۔  لہذا میری ماں نے گائوں کے ایک ریلوے مُلازم جو لاہور میں ملازمت کرتے  تھے اور میرے ایک چچا محبوب عالم کے واقف تھے جو ایک  گورنمنٹ دفتر اکائونٹنٹ جنرل لاہور میں کام کرتے تھے ‘ کے پاس بھجوانے کا اہتمام کیا۔ میرے والد کی وفات کے بعد چونکہ ہمارے اپنے  لاہور رہنے والے عزیزوں سے روابط کٹے ہوئے تھے‘ جو میرے لئے میری ماں کو بحال کرنا پڑے۔ جونہی میرے چچا نے میرے لاہور آنے  کی حامی بھری۔ میں نے اپنے گائوں کو فوری طور پر خیر باد کہنے میں ذرا بھی حیل و حجت نہیں کی۔ اور ایک دن میری ماں نے مجھے میرے چند  کرتے پاجامے ایک لوہے کے ٹرنک میں ڈال کر اور کچھ نقدی دیکر لاہور کیلئے بذریعہ ٹرین روانہ کر دیا۔

                          لاہور آ کر میری نئی اور اصل زندگی کی جد و جہد کا آغاز ہوا۔ یہاں پر خصوصاََ دو مسائل کا ذکر کرنا مناسب ہو گا۔ ایک تلاشِ روزگار اور دوسرے رہائش و خوراک کا۔ رہائش کیلئے تو میرے چچا موصوف نے میرے چچیرے بھائی نُور حسین گِل کے گھر میں کر دیا۔جو پنجاب پروونشیل بنک میں ملازمت کرتے تھے۔ مگر نوکری کیلئے لاہور کی سڑکیں ناپنا شروع کر دیں۔ چند ایک جگہوں پر کام ملا بھی ‘ مگر شاید ان نوکریوں کو میرے ذہن نے قبول نہ کیا۔ اور ایک کے بعد دوسری کرکے آگے بڑھنے کی سوچتا رہا۔

               سوال۔۳:  ؒلاہور آ کر آپ نے کیا محسوس کِیا۔ اور آپ نے اپنے مستقبِل کے بارے کیا کیا سوچ بچار کی۔ کیا کسی نے آپ کی کسی معاملے میں رہنمائی کی؟؟

                 اشرف گِل:  اس وقت نوجوانی کا عالم تھا۔ اور اتنی مستقل مزاجی بھی نہیں تھی ۔مستقبل کیا ہوتا ہے ‘ اسے کیسے سنوارنا ہے‘ اور کیوں سنوارنا ہے؟؟ان باتوں سے ُکمل ناواقفیت تھی۔مگر اتنا تو ضرور نظر آ رہا تھا ‘ کہ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ جس سے کچھ رقم فراہم ہو سکے۔ جو رہائش گاہ کی سہولت کیلئے ادا کی جائے اور گائوں میں اپنے چھوٹے بھائی کی تعلیم کیلئے اور ماں کی ضروریات میں کام آئے۔ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے بھی پیسہ درکار تھا۔ سو کام کرنا ضروری اور ناگزیر تھا۔ چاہے کیسا بھی ہو۔ تعلیم کا بھی شوق تھا۔ مگر وہ تب ممکن تھا۔ جب مالی وسائل مستحکم ہوں۔ جو تا حال ’  صِفر‘ سے بھی منفی صفر تھے۔ مجھے آپ ہی سب کچھ سوچنا بھی اور کرنا بھی تھا‘ اپنے لئے ‘ اپنی ماں اور بھائی کیلئے۔ سو میں نے کیا‘ چھوٹی موٹی نوکریوں کے سہارے سے۔ صبح کام کرنے کے بعد شام کو ایک پرا ئیو یٹ سکول: ’السنہ شرقیہ‘  میں داخلہ لے لیا۔ اس سکول کو اس وقت ایک نہایت قابل احترام ہستی‘ اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ‘ غریبوں کے ہمدرد‘ ایک تجربہ کار وکیل‘ مرحوم آقا بیدار بخت چلا رہے تھے۔ اور وہاں سے فارسی فاضل ‘ عربی فاضل ‘ اور پنجابی فاضل کے ڈپلومے حاصل کئے جا سکتے تھے۔یاد رہے کہ اس کالج سے بہت سے غریب گھرانوں کے بچوں نے ’فاضل‘ کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم یعنی  بی۔ اے۔ ‘ ایم۔اے ۔ ‘ پی۔ ایچ ۔ ڈی ۔ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اور بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر اپنی زندگیوں کے نہج بدلے۔ اور میں بھی فارسی فاضل کا ڈپلوما حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ۔ بعد میں ایف۔ اے۔ اور پھر بی۔ اے۔ کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔ متعدد نوکریوں کے بعد مجھے یونائیٹد بنک لمیٹڈ لاہور میں جو نوکری ملی ‘ اس نے میرے مستقبل کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ملازمت میں ترقی بھی ملنے لگی۔ اپنی ماں او ر بھائی کو گائوں سے لاہور بھی لے آیا ۔ گھریلو معاملات کے نئے پہلو منظرِ عام پر آئے ‘ اور ان سے نمٹنے کیلئے طاقت بھی بڑھی۔ اور بنک سے قرضہ لیکر اپنا مکان بھی تعمیر کر لِیا۔

              سوال۔۴: آپ نے اپنے آپ کو کام میں اتنا مصروف رکھا۔ کبھی گھر بسانے کے بارے بھی غور کیا۔ یا اپنی شادی کروا لینے  کے بعد اخراجات کے بڑھ جانے کے اندیشے نے راہ میں رکاوٹ ڈالی؟؟

              اشرف گِل:  ارے صاحب! شادی کروانے کا بھلا کس کو شوق نہیں ہوتا۔ دنیا میں شاید ہی کچھ لوگ ایسے ہوں جو شادی  کے بارے نہیں سوچتے۔ میں بھی گھر بسانے کا سوچتا تھا۔ کچھ لڑکیاں میری زندگی میں آئیں بھی۔ اور چلی اس لئے گئیں کہ ان کے والدین کا  معیار زندگی میرے خام حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ شروع میں ہی مجھ میں خود داری کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔ جس کی بنا پر میری معاشرے اور رشتہ داروں میں ایک خاص عزت تھی۔ اسلئے میرے کچھ کھاتے پیتے قریبی رشتے دار مجھے اپنا داماد دیکھنے کا سنجیدگی سے سوچتے  ضرور تھے ‘ مگر میرے مستقبل کی بنیادوں کو سہارا دے کر مضبوط بنانے سے ہچکچاتے تھے۔ میرے پاس مکان بھی تو نہیں تھا جہاں نئی نویلی دلہن کو رکھا جا سکے۔ اور میرا مکان بننے تک وہ اپنی جوان بیٹیوں کو گھر میں نہیں بٹھا سکتے تھے۔ اسی لئے کچھ لڑکیاں جو میرا اچھا جیون ساتھی ثابت ہو سکتی تھیں‘  ہاتھ سے نکل ؎گئیں۔ میری غربت ‘ امارت کے سامنے دم توڑتی رہی۔ یہ معاشرہ آج بھی اسی ہی ڈگر پر گامزن ہے۔ قابلیت اور اچھائی کی قدر و منزلت آج بھی وہی ہے ‘ جو میرے عنفوانِ شباب کے دوران تھی۔ آج بھی کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیوں کیلئے غریب مگر لائق لڑکوں کی رسائی نا ممکن ہے۔ یہ کلنک ہمارے معاشرے کے ماتھے پر آج بھی چسپاں ہے ۔ ہزاروں لوگ معاشرے کی اس نا ہمواری کی زد میں ہیں ‘ اور اپنی ہی بنائی ہوئی رسومات و روایات کی کشمکش میں مبتلا اور زور آزما۔۔۔

                    بہر حال خدا خدا کرکے میں نے جب مکان بنایا ‘ تو رشتہ بھی اچھا مل گیا۔ شادی ہو گئی۔ میری بیوی ماشاء اللہ بہت خوش قسمت رہی میرے لئے۔ گھر کا تمام کام کاج سنبھالنے کے ساتھ ہمارے بچوں کیلئے بہت اچھی ماں بھی ثابت ہوئی ہے۔ اور میری ماں کو بھی  اس کی زندگی ختم ہونے تک اس نے سنبھالا۔ مجھے پہلے کی طرح گھریلو کاموں سے فراغت ہی رہی۔

             سوال۔۵: آپ کو ملک سے باہر جانے پر کسی نے اکسایا یا آپ نے اپنا ملک چھوڑنے کا از خود ارادا کیا۔ اور کیوں  ؟؟؟  جب آپ کی بنک میں اس وقت اچھی پوزیشن تھی۔ اس بارے کچھ بتائیے۔

               اشرف گِل: بچپن میں جب والدین پر انحصار ہو۔ ان کے ساتھ کہیں بھی جانا ‘ ایک تفریح کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مگر جوں جوں عمر بڑھتی ہے ‘ اور خصوصاََ جب انسان بال بچے دار ہوتا ہے ‘ پھر ملک تو درکنار ۔ پرانے گھر سے نئے گھر میں منتقل ہونا بھی دشوار ہوتا ہے۔ مگر میری مثال کچھ عام لوگوں سے ہمیشہ مختلف رہی ہے شاید۔ میں نے اپنے لئے ہمیشہ نئی مہمات کو  پیدا کِیا ‘ اور ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے نئے سازو سامان سے بھی لیس ہو کر مقابلہ کرتا رہا۔ امریکا آنے کے بارے کسی نے بھی کوئی مشورہ یا رائے مجھے نہیں دی۔ یہ فقط میرا اپنا ہی فیصلہ تھا۔ میرے مہماتی ذہن میں امریکا کے بارے صرف ایک ہی سوچ تھی اور وہ یہ۔۔ کہ امریکا کیسا ملک ہے؟ جس کی اگر روزانہ  کے اخبار میں خبر نہ لگے ‘  تو اخبار ادھورا سا ہوتا ہے۔ اور اگر ریڈیو  یا  ٹی۔ وی۔ پر بھی امریکا کا کوئی تذکرہ نہ ہو تو خبروں میں دلکشی پیدا نہیں  ہوتی۔ بس ایسی ہی ایک خلش اور کسک تھی ذہن میں میرے۔ او ر یہ خواہش بھی تبھی پوری ہوئی میرے سُسر صاحب کی وجہ سے‘  جو امریکا میں عرصہ دراز سے مقیم تھے اور وہاں کے شہری تھے۔ اپنی ساس صاحبہ کے ذریعے ان سے اس مسئلے پر پیش رفت ہوئی۔ اور ہولے ہولے شادی ہونے کے سات سال بعد میرے سُسر صاحب نے میری بیوی کے کاغذات لاہور امریکن کونسل میں داخل کروائے۔ اور بلآخر ۱۹۸۲ ئ؁ میں اپنی بیوی اور پانچ بچوں سمیت امریکا کے شہر نیویارک میں آ رہائش پذیر ہُوا۔ اس وقت میری نوکری یونائٹڈ بنک لاہور میں بحال تھی۔ اور بغیر ریٹائرمنٹ کے فوائد حاصل کئے یہ اہم فیصلہ کر ڈالا۔ جبکہ میرے لئے امریکا میں کسی بھی نوکری کا کوئی اہتمام بھی نہیں تھا۔

                سوال۔۶:  امریکا آ کر آپ نے کیا محسوس کیا۔ اچھا لگا ۔یا۔۔۔۔؟؟ نئی دنیا میں آ کر کیا مسائل در پیش آئے۔ اور بیوی بچوں کو پالنے میں کس مہارت کا استعمال کیا؟؟

               اشرف  گِل: جُون ۱۹۸۲ ئ؁ میں  نیویارک پہنچ کر اپنی بیوی کے بھائی کے گھر ( جو کافی دیر سے یہاں مقیم تھے) Brooklyn  کے علاقے میںنے اپنی فیملی سمیت آ ڈیرا جمایا۔ یہاں آ کر پہلے تو چند روز آرام کیا۔ کیونکہ ایک تو پاکستان سے نیویارک کے وقت میں جو ۹ گھنٹے کا فرق تھا۔ اس وقت سے مطابقت کرنے کیلئے دن کو رات اور رات کو دن میں ڈھالنا پڑا۔ چند روز مسلسل گھر میں بند رہنے کے بعد اپنے بِل سے باہر نِکلا۔ اور بروکلین کی گلیوں اور بازاروں کی رونق اپنی بیوی کے بھائی کی ہمرہی میں دیکھی۔ یہاں پر کسی کے گھر مہمان بن کر زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرا جا سکتا۔ اور وہ بھی بڑی فیملی کے ساتھ۔ لہٰذا حالات نے اب نوکری کی جانب توجہ دلائی۔ مگر کہاں تلاش کی جائے۔ کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت تھی ۔یعنی جو بتلائے کہ کیسے اور کہاں جایا جائے ‘ اور کس سے ملا جائے۔ انگریزی زبان پر دسترس ہونا بھی یہاں از حد ضروری تھا۔ اور اس زبان سے بس اتنی ہی آشنائی تھی ‘ جتنی کہ امتحان میں استعمال کرکے ڈپلوما یا ڈگری حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال چندپاکستانی لوگوں کی رہنمائی سے ایک امریکن ریسٹورنٹ میں پاکستانی سپروائزر کے ہاں ایک صبح ڈائون ٹائونManhattan  جا حاضر ہوا۔ سپروائزر سے جا کر مِلا۔ Good morning  کہہ کر کہا : II am looking for job.   سپروائزر  بولا: What kind of job? ۔ میں نے جواباً کہا۔ Cashier:   پُوچھا گیا: Do you know the currency?   جواب دیا: Yes  ۔اور نوکری مل گئی۔ دوسرے ہی دن ڈا ئون ٹائون مین ہٹن کے علاقے وال سٹریٹ میں موجود ایک ریسٹورنٹ میں جا کر حاضری لگائی۔ وہاں ایک امریکن سپروائزر تھا۔ ٹریننگ ایک ہفتہ چلی۔ او  پارٹ ٹائم کام شروع۔ کرنسی جانتا نہیں تھا ‘ مگر کہہ دیا ہاں! جیسے ہم پاکستانی کاغذی کرنسی کو ’نوٹ‘ کہتے ہیں ‘ مگر یہاں امریکا میں اس کو 'Bill'   اور 'coins'  کے بھی علیحدہ علیحدہ نام ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ سیکھ گیا۔ کام بھی ڈھنگ سے کرنے لگ گیا۔ اور گاہکوں سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات بھی ہونے لگی۔

               پھر ایک اور دوست کی وساطت سے وال سٹریٹ کے علاقے میں ہی ملک قطر کے ایک بنک میں جس کا نام ’دوحہ بنک‘  تھا ‘  فُل ٹائم نوکری دستیاب ہو گئی۔ اس بنک کی مینجمنٹ پاکستانی لوگوں پر مشتمل تھی۔ اور بنک کا سسٹم یونائٹڈ بنک جیسا۔ اس نوکری سے حالات میں تبدیلی آئی ‘ یعنی اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا۔ اور بچوں کو بھی ان کی عمر کے مطابق گریڈوں میں داخلہ مل گیا۔ زندگی معمول پر آ گئی۔ یہیں سے پھر ۱۹۸۸ئ؁ میں ہی مجھے حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ خانہ کعبہ اور روضہ نبیئِ کریم کی زیارت کا بھی موقعہ نصیب ہوا۔ ۱۹۸۸ئ؁ میں ہی نیویارک کو چھوڑ کر ریاست کیلیفورنیا کے شہر فریزنو اپنی بیوی اور بچوں سمیت آ گیا۔ اور ابھی تک یہاں ہی زندگی بسر کر رہا ہُوں۔

                    سوال۔۷:  یہ حالات تو وہ تھے ‘ جو تقریباََ تمام لوگوں کی زندگی میں رُوپذیر ہوتے ہیں ‘  مختلف طریقوں میں۔۔  اب آپ بتائیے کہ: آپ کا رجحان شاعری اور موسیقی میں کیسے ہوا؟؟ کیوں ہُوا؟؟ کچھ خصوصی وجوہات جو آپ کے اندر کو باہر لانے میں مُتحرک ہوئیں۔  بتائیے:  

                 اشرف گِل:  یہ سوال در حقیقت دو سوالوں پر مشتمِل ہے۔ ایک شاعری کے بارے اور دوسرا موسیقی کے متعلق : پہلے اپنی شاعری کے سفر کا حال بیان کرتا ہوں: شاعری ایک ایسا فن ہے۔ جس کا عطیہ خد ا کی جانب سے کچھ لوگوں کو ودیعت ہوتا ہے۔ جیسے کوئی  شخص اردو ۔ پنجابی میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ تو کر سکتا ہے۔ مگر یہ ممکن ہے ۔ کہ وہ ایک مصرعہ بھی شاعری کی رُو سے نہ لکھ سکے۔ اس عطیے سے میں  بالکل ہی آگاہ نہیں تھا۔ کہ میں بھی اُن لوگوں کی صف میں سے ایک ہوں جن کو یہ تخفہ ملنے والا ہے۔ میرے بچپن میں ایک عادت نے شاید میرا شاعری کی جانب رخ موڑا۔ یعنی: میرے گائوں کے ایک امیر گھرانے میں اس زمانے بیٹری سے چلنے والا ریڈیو تھا۔ اس گھر کے بچوں سے میری خاص دوستی تھی۔ اور مجھے ان کے گھر رسائی بھی تھی۔ اس وقت آل انڈیا ریڈیو کی ’اردو سروس‘ سے صبح کے وقت پروگرام ’آپ کی فرمائش ‘ دوپہر کو ’ آپ کی پسند‘ اور رات کو ’تعمیل ارشاد ‘ نشر ہوتے تھے۔ اور ان سب پروگراموں کے پیشکاران گانا بجانے سے پہلے گیت نگار ‘  موسیقار ‘ اور گلوکار کا نام خصوصی طور پر بتاتے تھے۔ اس وقت محمد رفیع ‘ لتا منگیشکر ‘ منّاڈے ‘ طلعت محمود و دیگر گلوکاروں کے گیت سننے کو ملے۔ میں صرف گیت ہی نہیں سنتا تھا ‘ بلکہ شاعروں کی شاعری پر بھی توجہ دیتا تھا۔ یعنی ہر مصرعے کو شاعر کیسے باندھتا ہے ‘ اور دوسری لائن کا تعلق کیسے قائم رکھتا ہے۔ تاکہ شعر سننے والا بھی لطف اندوز ہو۔  پر غور کرتا تھا۔اور مجھے ساحر لدھیانوی کی شاعری بے حد متاثر کرتی تھی۔ یہی دلچسپی میرے ذہن کے کسی خانے میں محفوظ ہوتی رہی۔ جو بعد ازاں میری شاعری میں ڈھلی اور کتابوں کی شکل میں نمودار ہوئی۔

           ۱۹۶۸ئ؁ میں یونائیٹڈ بنک کی نوکری کے دوران جب میں ایک قصبے منڈی فیض آباد ضلع شیخُو پورہ برانچ میں کام کرتا تھا۔ آل انڈیا  ریڈیو کا پروگرام سنتے سنتے ایک دن ایک شعر وارد ہو ہی گیا۔ اور اتفاق سے اس قصبے میں ایک صاحب علم و فضل جناب اسماعیل صاحب موجود تھے۔ اور شاعری کے رموز بھی جانتے تھے۔ اپنے بنک اکائونٹ کے سلسلے میں بنک میں آیا کرتے تھے۔ اور ان کے ساتھ ادب کے بارے بات ہُوا کرتی تھی۔ اپنا پلوٹھا شعر انہیں سنایا۔ اور انہوں نے مجھے مکمل شعر کہنے پر مبارکباد دی۔ اور میرے شاعر ہونے پرمہر ثبت کر  دی۔ پھر کیا تھا۔ ورودِ اشعار شروع ہو گیا۔ اور جناب اسماعیل صاحب کو بھی مصروف کر دیا۔ مگر زندگی کی ضروریات اور ترجیحات کا کچھ اور  تقاضا تھا۔ یعنی اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط کرنا۔ اور شاعری تو وقت مانگتی تھی۔ یعنی نئے دوست پیدا کرنا۔ ان کے ساتھ وقت کاٹنا۔ مشاعروں میں شمولیت کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ا سلئے شاعری باقاعدہ طور پر جاری رکھنا نا ممکنات میں ہی رہا۔ چند ایک مشاعروں میں گیا بھی۔ میرے کلام کی پذیرائی بھی ہوئی۔ مگر کوئی ایسا ساتھی دستیاب نہ ہوا ‘ جو مجھے ہانک کر مشاعروں میں لے کر جاتا۔ مگر لکھتا ضرور رہا۔ اور اردو شاعری سے ہی شروعات ہوئی۔ وقت گذرتا گیا‘ اور پھر نیویارک پہنچ گیا۔ یہاں بھی مشاعرے ہوتے تھے۔ فعال ادبی تنظیمیں بھی تھیں ‘  مگر انہی روزگار کی مصروفیات نے اپنے پنجے سے نکلنے ہی نہ دیا۔ اور یہاں بھی ایسا کوئی رہنما نہ ملا ‘ جو مجھے لوگوں سے متعارف کرواتا۔ لہذا

 شاعری کھٹائی میں ہی پڑی رہی۔ پھر انگریزی کی بول چال میں اضافہ کرنے کیلئے کالج میں بھی جانا شروع کر دیا۔ اور صبح سے لیکر رات  تک نوکری کے بعد کالج میں گزرنے لگے۔ شاعری کا سفر یہاں آ کر جام سا ہو گیا۔

                جب ۱۹۸۸ئ؁ میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر فریزنو میں ہِجرت کی۔ تو یہاں آ کر پنجاب۔ بھارت کے کچھ ادبی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ اور باقاعدہ ’ کیلیفورنیا ساہت سبھا ‘ کے نام سے ادبی محفل کا اہتمام ہوا۔ اور ہر ماہ مشاعرے منعقد ہونا شروع ہوئے۔ بعد میں مختلف شہروں میں اس بزم کی اور بھی برانچیں بن گئیں اور زور شور سے شاعری کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ ُختلف شاعروں (خصوصی پنجابی) حضرات کے ساتھ تبادلہ خیالات ہونے لگا۔ اور اسی دوران پنجابی غزلیات بھی کہنی شروع کیں۔ علم عروض کو بھی نہایت غور سے پڑھا‘ اور اس کی باریکیوں پر بھی کافی دھیان دیا۔ نیز شاعری میں جن اصولوں کو مد نظر رکھ کر بھارتی پنجابی اور ہندی شعر اء غزلیات کہتے ہیں ‘  یعنی ’ پِنگل‘ میں بھی جانکاری حاصل کی۔ جس سے شاعری (خصوصاََ غزل) کہنے میں اور نکھار آیا۔اور شاعری خوب پروان چڑھی۔  

                  سوال۔۸:  اب تک شاعری میں آپ کی کتنی کتابیں طبع ہو چکی ہیں۔ اور موجودہ وقت میں کیا چل رہا ہے شاعری کے  میدان میں؟؟؟

                   اشرف گِل:  میری سب سے پہلے پنجابی غزلیات کی کتاب ـ’’کُرلاندی تان‘‘ ۲۰۰۰ئ؁ میں چھپی۔ یہ کتاب دو رسم  الخطوط ’فارسی‘ اور ’گُرمُکھی‘ میں بیک وقت لاہور سے چھپی۔ میں نے چونکہ گرمُکھی رسم ا لخط بھی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ہے۔ اور یہ کتاب دو زبانوں میں چھپنے سے مجھے میرے بھارتی پنجابی علم و ادب سے وابستہ لوگوں سے ان کے تاثرات جاننے کے مواقع ملے۔ انٹرنیشل سطح پر میری شاعری سے لوگوں کو شناسائی ہوئی ‘ اور ادبی دوستوں کا دائرہ اور وسیع ہو ا۔ دوسرے نمبر پر میری اردو غزلیات کی کتاب ’’ وفا کیوں نہیں  مِلتی؟‘‘ لاہور سے چھپی ۔ اس کتاب کو بھی قارئین و ناقدین نے اچھے خیالات اور الفاظ سے نوازا۔ تیسرے نمبر پر ’’ جیون رُت کنڈیالی‘‘  پنجابی غزلیات پر مبنی‘ لاہور سے چھپی۔ نمبر ۴ ۔ پر اردو غزلیات کی کتاب ’’ چلو اِک ساتھ چلتے ہیں‘‘ لاہور سے طبع ہوئی۔ نمبر ۵۔ پر اردو غزلیات کی کتاب ’’وُہ مِلا کے ہاتھ جُدا ہُوا‘‘ لاہور سے چھپی۔ نمبر ۶۔ میری چیدہ پنجابی غزلوں پر مشتمل کتاب: ’’تولویں  بول‘‘ گرمکھی لِپّی میں بھارت کے دوسرے دورے کے دوران برنالا ۔ مشرقی پنجاب سے خود جا کر چھپوائی۔ نمبر ۷۔ چیدہ اردو غزلیات پر مبنی کتاب : ’’ساز و سوزسخن‘‘ گرمُکھی رسم الخط میں بھارت کے تیسرے دورے کے دوران چنڈی گڑھ سے جا کر چھپوائی۔ نمبر ۸۔ پنجابی غزلیات کی کتاب ’’سوجاں‘‘ لاہور سے ۲۰۱۱ئ؁ میں لاہور طبع ہوئی ہے۔ ایک اردو غزلیات کی انگلش ترجمہ ہوئی کتاب کا مواد تیار ہے۔

                       مَیں تین مرتبہ ہندوستان کا دورہ بھی کر چکا ہوں۔ جس میں اپنے پہلے اور دوسرے بھارتی دورے کے حالات و واقعات لکھ چکا ہوں۔  وہ سفر نامہ بھی آپ کے سامنے جلد پیش کرونگا۔ اس دوران جہاں جہاںمیں گیا وہ مقامات ہیں: پنجاب میں: امرتسر ‘

 لدھیانہ ‘  جالندھر ‘  پٹیالہ ‘  برنالا ‘  چنڈی گڑھ ‘  نواں شہر ‘  اور ملوٹ ‘  کے علاوہ: نئی دلّی ‘ لکھنئو ‘ بھوپال ‘ اور بمبئی ۔ لکھنئو اور بھوپال میں میرے لئے منعقد کئے گئے بڑے بڑے مشاعروں میں اپنی اردو شاعری کے علاوہ اپنی پنجابی شاعری بھی (وہاں کے اردو زبان کے سامعین کے اصرار پر) پیش کرکے آیا ہوں۔ میں ان کے اعلی ادبی ظرف اور غیر جانب دار رویے کو سلام کرتا ہوں۔  

             سوال۔۹: اچھا تو اب چلتے ہیں آپ کے موسیقی کے سفر کی طرف: کب شروع  ہُوا ؟؟ کیسے  ہُوا ؟؟ کہاں تک پہنچا ؟؟  اور کیا کیا آگے کرنے والے ہیں مستقبل میں؟؟

               اشرف گِل: ارے جناب: ابھی تک جو بھی آپ کو بتایا گیا۔ مجھ سے سر زد ہوا اور ہو رہا ہے ۔ اس ضمن میں خاص بات یہ  ہے ‘ کہ میں اپنے آپ کو ایک ناچیز انسان سمجھتا ہوں۔ میرے اپنے پاس کچھ نہیں۔ صرف عنایاتِ ربّی ہی ہے ۔ یہ سب اس ذاتِ عظیم ہی کا  کرشمہ ہے‘ جو میری ہستی سے روپذیر کروا رہا ہے۔ ورنہ:   ؎  من آنم کہ من دانم۔۔ موسیقی مجھ پر کب اور کیسے وارد ہوئی؟ اسے بتانے کیلئے مجھے آپ کو کچھ واپس لیجانا پڑیگا۔ یعنی بچپن میں ہی آل انڈیا ریڈیو سُننے سے میرے اندر جو طوفان قید تھا۔ باہر آ گیا۔ ان گیتوں میں جو موسیقار کا حصہ ہوتا تھا ‘ اسے ہی لیجئیے: چاہے میوزک کی جانکاری نہیں بھی تھی مگر گیت شروع ہوتے ہی پہلے موسیقاروں کی دھنیں ایسی پر سوز  لگتی تھیں۔ کہ دل کی رگوں کو چھو لیتی تھیں۔ اور مدہوشی کے سے عالم تک لے جاتی تھیں۔ یعنی دل میں کھُب جاتی تھیں۔ اور اس کے بعد

 محمد رفیع ‘  لتا منگیشکر ‘  منّاڈے و دیگر گلُوکاروں کی منجھی ہوئی سریلی ‘  رسیلی اور با کما ل آوازیں‘ پھر ان کی الفاظ میں ادائیگی کی مہارت ناقابل بیان ۔ سمجھنے والوں کیلئے سرور و سر خوشی سے لبریز اور جامِ شیریں کی مانند۔ وہی دھنیں میرے وجود میں دھنستی چلی گئیں۔ ہاں! یہ سب کچھ میرے اندر ہی رہ جاتا ‘ اگر میرے ایک میوزک شناس دوست مجھے ہارمونیم لینے پر نہ اکساتے۔     

             جہاں تک انسانی ’گلے‘ کا تعلق ہے۔ یہ بھی شاعری کی طرح خدا کی دین میں شمار ہوتا ہے۔ مگر شاعری میں علمِ عروض چاہئے   شعر کی نوک پلک سنوارنے کیلئے۔ اور گلے کو ضرورت ہے ریاض کی۔ ہارمونیم خریدا گیا۔ پھر اس کو بجانے کا طریقہ پوچھا گیا۔ ُسروں کو سمجھنے  میں دقت ہوئی ‘ وقت لگا۔ بار بار اور پھر بار بار دہرانے سے ہاتھ سیدھا ہوتا چلا گیا۔ اساتذہ جو بھی دستیاب ہوئے راگوں کی چالوں کے بارے جانکاری حاصل کی۔ بہت محنت در محنت در محنت کی۔ تب کہیں جا کر سُروں نے ساتھ دینا شروع کیا۔ اور اب ان میں سے طرح طرح کے گیت نکالنے میںمجھے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی ۔ اور خدا داد صلاحیتں بھی اس کام میں سہارا دے رہی ہیں۔مگر ریاضت ‘  ریاضت    پھر ریاضت۔۔۔ جاری ہے۔اب تک میں بہت سی دھنیں تیار کر چکا ہوں۔ ( اور باقاعدگی سے کر بھی رہا ہوں) اور گیت ریکارڈ بھی کروائے ہیں۔ اپنی آواز میں۔ ان دھنوں کو ماہر فلمی موسیقاروں نے پاس بھی کیا ہے۔ جیسے وزیر افضل ۔ طالب حسین۔ و دیگر۔۔۔اللہ تعالیٰ کی نوازشات کا  مجھ پر بہت احسان ہے‘  اور اس نے مجھے ہمت بھی عطا کی ہے ‘ اس بار کو اٹھانے کیلئے۔

             سوال۔ ۹ : میوزک میں ریکارڈڈ کام کے بارے بتائیے۔ کہ اب تک کیا کیا کِیا ہے۔ اور آگے کیا کرنے کا ارادہ  ہے؟؟؟

               اشرف گِل:  ہم سب اپنی اپنی پسند کے گانے تو سنتے رہتے ہیں۔ ریڈیو سے ‘  ٹی وی سے ‘ یا اپنے پاس سی۔ ڈیز رکھ کر۔ مگر میوزک ریکارڈ کروانا خار زار جنگل سے گذرنے کے مترادف ہے۔شاعری آسان ہے۔ غزلیات لکھیِں ‘  چند ادب شناس احباب سے کُچھ لکھوا لیا۔ اور کتاب چھپوا لی۔ بس بات ختم ۔ مگر موسیقی کے میدان میں جن مشکلات اور مسائل سے سابقہ پڑتا ہے ۔ ان میں ہوتے ہیں: مختلف طبیعت کے موسیقی کے ماہرین : جن کو سنبھالنا عجیب ہی نہیں بلکہ بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔ اور ان کے سوا موسیقی کا سنگار بھی نہیں ہوتا۔  لہذا دو تین دفعہ خود لاہور جاکر اپنی میوزک البمز تیار کرنے کے سلسلے میں کچھ مواقع مختلف موسیقاروں کے ساتھ گذارنے پڑے ہیں۔اور نئے نئے تجربات سے نہ صرف واقفیت ہوئی ہے ۔ بلکہ اضافہ بھی۔ بہر حال میری پہلی سی۔ ڈی۔ ’ آپ کی کشش ‘ جس میں میری (۱۱)  غزلیات؍گیت ہیں۔ جس میں جناب غُلام علی ‘ ریاض علی خاں ‘ اور حامد علی خاں کے علاوہ میری اپنی آواز بھی ہے۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے  میوزک ڈائرکٹر صفدر نیاز نے موسیقی ترتیب دی ہے۔ اِس سی۔ ڈی۔ کو میں نے ذاتی طور پر پہلے تیار کروایا ‘  پھر بمبئی جا کر ٹی۔ سیریز ۔ کمپنی سے ریلیز بھی کروایا ہے۔ دوسری سی۔ ڈی۔ ’چوری چوری ‘ جس میں میرے اپنے لکھے ہوئے(۹ ) گیت ؍غزلیں ہیں ‘ اور میری اپنی ہی دھنوں اور آواز پر مبنی ہے خود ریکارڈ کروائی ہے۔ میری تیسری سی۔ ڈی۔ ’اکھیاں توں اوہلے‘ ہے۔ جس میں میرے (۱۰) پنجابی گیت ہیں۔  ان گیتوں کی دھنیں بھی میری اپنی ہی ہیں۔ اور ان میں (۵ ) دو گانے ہیں۔ جو میں نے پاکستان کی مشہور گائیکہ نصیبو لعل کے ساتھ ریکارڈ کروائے ہیں۔ اور (۵) گیت میری سولو آواز میں ہیں۔ میری چوتھی سی۔ ڈی۔ ’ یاد بن کر‘ ہے۔ جس میں میرے ملے جلے گیت اور غزلیں ہیں۔ ان تمام سی۔ ڈیز کا تعارف میں نے نومبر ۲۰۱۱ئ؁ میں اپنے شہر فریزنو میں اپنی ایک خصوصی محفل موسیقی میں سامعین کو پیش کیا ہے۔  مستقبل میں بھی کچھ نئی میوزک البم تیار کرنے کا پروگرام ہے۔ بشرطِ زندگانی۔ انشاء اللہ۔

                  سوال۔ ۱۰: آپ کا شاعری ؍ موسیقی میں استادی؍ شاگردی کا کیا تصّور ہے؟؟؟

                 اشرف گِل: شاعری تو تحفہئِ خُداوند ہے۔جو سیدھی شاعر پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں تخیل خالصتاََ شاعر ہی کا  ہوتا ہے۔ اگر استاد کو اُس تخیل میں شامِل کیا جائے ‘ تو خیال بدلنے سے اصل شاعر صرف مجرُوح ہی نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ شاعر کِسی طور بھی اس آمدہ شعر کی ہیئت کو بدلنے پر تیار نہیں ہوگا۔ لہذ ا یہاں اُستاد کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں اگر اُس آمد شُدہ شعر کو ہم علمِ عروُض کی رُو سے جانچتے یا ناپتے ہیں ‘ تو اس ضمن میں شاعر کو رائے اور تجویز ضرور دی جا سکتی ہے۔ یعنی الفاظ کو آگے پیچھے کرنا۔ شعر میں روانی پیدا کرنا۔ اٹکتے ہُوے الفاط کو درست کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان لوازمات کو درست کرنے والے کو استاد کا رتبہ دے دیا جائے۔ تو بات سمجھ میں آتی ہے۔اور اگر شاعر از خود:  فِعلُن‘  فُعُولُن ‘ فاعِلُن ‘ مُفاعیلُن ‘ یا  فاعلاتُن۔ و دیگر بُنیادی عروضی ارکان کے بارے معلومات حاصِل کر لے‘  تو شاید اصلاح کی ضرورت در پیش نہ ہو۔

             جیسے شاعری خُداداد بخشش ہے ‘  ویسے موسیقی خُدا داد عنایت نہیں ہوتی۔ موسیقی ایک علم ہے۔ اور ہر علم سیکھنے سے حاصل ہوتا  ہے۔یہ الگ بات ہے کہ موسیقی کو شاعری کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا داد چیزوں میں ’گلا‘ بھی خدا کی دین ہے۔ مگر اس کو سریلا بنانے کیلئے  پریکٹس درکار ہوتی ہے۔ اور سُروں کے رموز سیکھنے کیلئے استاد کی ۔ میرا طریقہئِ کارکردگی بھی یہی ہے کہ میں ہر کام بہت گہرائی میں جا کر کرتا ہوں۔ چاہے موسیقی کو سنُوں یا شاعری لِکھوں۔ جب ہارمونیم پر کسی بھی راگ کو چھیڑ کر مشق کرتا ہوں تو راگوں کی شناخت کا پتہ بھی چلتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ نئی نئی دھنوں کو دریافت کرنے کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں کہیں کسی جگہ بھی کسی میوزک استاد کی آمد کا پتہ چلتا ہے۔۔تو ضرور وہاں پہنچ کر راگوں کی چالوں کے بارے جانکاری حاصل کرتا ہوں۔ نتیجتاَ یہ معلوم ہوا۔ کہ موسیقی میں استاد کی اشّد  ضرورت ہوتی ہے۔ استاد کے علاوہ  موسیقی کے فن کو ازبر کرنا سر پٹکنے کے مُترادف ہے۔خداداد اہلیت بھی مددگار ثابت ضرور ہوتی ہے۔

                  سوال۔ ۱۱:   آ پ کے پسندیدہ شاعر اور گلوکار کون کونسے ہیں؟؟؟

             اشرف گِل: میرے پسندیدہ شاعراگرچہ بہت سارے ہیں۔ جن کا فرداََ فرداََ ذکر کرنا ممکن نہیں۔ مگر جیسے پہلے بتا چُکا ہُوں ‘ کہ ساحر ؒلدھیانوی سے زیادہ مُتاثر ہُوں۔اور میں نے کوشش بھی کی ہے کہ اُن جیسا روح پرور ‘ دلسوز ‘ اور دلکش کلام پیش کرسکوں۔ مگر کہاں تک کامیاب ہوں۔ معلوم نہیں۔ ویسے مرزا غالب‘ ڈاکٹر محمد اقبال سے بھی استفادہ کرتا ہوں۔ عہد حاضر میں بھی کافی خواتین و حضرات اچھا کلام پیش کر رہے ہیں۔ گلوکاروں میں سے سب کے پسندیدہ:  محمد رفیع ۔ منّاڈے۔ لتا منگیشکر ۔ غُلام علی۔ مہدی حسن شامل  ہیں۔

                  سوال۔ ۱۲:  کوئی پیغام سامعین اور شائیقین فنِ شاعری و موسیقی کیلئے؟؟

                  اشرف گِل: میرا پیغام بھی ہے اور التجا بھی : کہ جو لوگ بھی شاعری کرتے ہیں‘  خوب کرتے ہیں۔ مگر کسی کو یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جو وہ کرتے ہیں۔ بس انتہا ہو گئی۔ کیونکہ ہر شاعر کا اُسلُوب اور ہر فنکار کا ڈھب مُختلف اور اپنا اپنا  ہوتا ہے۔ ہم اگر سب کو سراہیں تو اچھا کام دیکھنے سُننے کو ملیگا۔ دئیے سے دیا جلانے ہی کی کوشش کی جا نی چاہئے۔ تاکہ فنونِ لطیفہ کو ترقی حاصل ہو۔ منفی تنقید نگاروںکا چھچھورے پن سے گریز کرنا بہت ضروری  ہے۔ گروہ بندی سے اِحتراز کیا جانا چاہئے۔ تاکہ فن کی ترویج  میں اضافہ ہو۔ ایک دوسرے کے فن کو بڑھاوا دینے میں مدد کی جانی چاہئے۔ یاد رہے۔ کہ جیسے خُدا نے ہر انسان کو علیحدہ شناخت دی ہے ۔ اسی طرح ہر ایک فنکار کا فن ِ نگارش بھی ایک دوسرے سے جُدا ہے۔ اور اسی بات سے ہی ہر فنکار کا ثبوتِ بقا ہے۔ جیسے بقول شاعر :  ؎  فکر ہر کس بقدرِ ہِمتِ اُوست۔۔۔ گذارش یہ بھی ہے۔ کہ آپ میری  website:www.ashrafgill.com  اور youtube:ashrafgill1  پر بھی جائیے۔ اور مجھ پر بھی تنقید کیجے۔ تاکہ مجھ میں مزید اچھا کام کرنے کا جذبہ اور شعور پیدا ہو۔ اس کیلئے آپ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ میرے ای۔ میل پر:  ashgill88@aol.com   

       ہاں راحیل صاحب: ایک بات آپکو بتانا چاہتا ہوں۔ کہ میں نے حال ہی میں اپنی والدہ مرحومہ (حاجن رابعہ بی بی ) کے نام پر سالانہ ’غزل ایوارڈ‘ کا اہتمام کیا ہے ۔جو ہر سال آپکے ادارا: گُلشنِ ادب کی وساطت سے اول ‘ دوم ‘ اور سوم شعراء و شاعرات کو نقد کیش کی صورت فراہم کِیا جائیگا۔انشاء اللہ۔ یہ پیش رفت اس لئے کی گئی ہے کہ شعراء و شاعرات کو غزل کے مزید علمِ عُرُوض کے رُموز و لوازمات کو سمجھنے میں کچھ غیر ضروری محنت کرکے اچھی شاعری پیش کرنے کا موقع دستیاب ہو۔

               حال ہی میں میری نویں (۹ویں) کتاب ، جو کہ میری چیدہ چیدہ اُردو غزلیات پر مبنی ہے ، اور ’ہندی رسم الخط‘ میں مشتمل  ہے۔ حیدرآباد دکّن ہندوستان سے جناب رؤف خیر (معروف شاعر و ادیب) کی نگرانی میں اشاعت کے مراحل میں ہے۔ اس کا اہتمام میں نے اپنے ہندی جاننے والے نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام دنیا میں بسنے والے دوستوں کی پُر زور فرمائش پر کیا ہے۔میں اُن سب خواتین و حضرات کا تہہ دل سے ممنون ہُوں۔ جنہوں نے مُجھے اس کام کے لئے مائل کیا ہے۔ اس کتاب کا نام جناب رؤف خیر کے مشورے سے ’سُلگتی سوچوں سے‘ تجویز کیا گیا ہے۔ امید ہے آپ سب پسند فرمائیں گے۔

       باقی سب خواتین و حضرات کیلئے میری دُعائیں اور نیک تمنائیں

۔۔اللہ تعالے آپ سب کو اپنے  حِفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
میں خود بھی آپ کی دعاؤں کا خواستگار ہُوں۔            

                        بہت بہت شکریا! جناب گِل صاحب آپکے قیمتی وقت کا جو آپ نے اپنی مصروفیات سے نکال کر مجھے عنایت کیا۔ امید ہے قارئین آپکی مجھ سے کی ہوئی باتیں پڑھ کر خوش تو ضرور ہونگے ہی۔ مگر آپ نے جو اپنی خدا داد صلاحیتوں کو تخلیق کرکے ادب کا حصہ بنایا ، اُس کو سراہیں گے اور آپ کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کے کام ‘ حوصلے اور لگن کی داد دینگے اور شاید تقلید کرنے کی کوشش بھی کرینگے۔ جو آپ نے سر انجام دئیے ہیں۔ اور بدستور اس لگن میں مگن بھی ہیں۔ خدا آپ کو مزید ہمت عطا کرے: آمین۔       


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 823