donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Aziz
Title :
   Aanhazrat Ki Tableegh Me Bala Ki Kashish


آنحضرتؐ کی تبلیغ میں بلا کی کشش اور قرآن مجید میں غضب کی تاثیر


قرآن مجید کے سورہ ’النّجم‘ کی روشنی میں


 ترتیب: عبدالعزیز


    مکہ کے وہ باشندے جو یہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں غیر معمولی کشش اور قرآن مجید میں غضب کی تاثیر ہے۔ ان کی ہر وقت یہ کوشش رہتی تھی کہ اللہ کے رسولؐ اپنی باتیں لوگوں کے سامنے پُرامن ماحول میں سنجیدگی اورمتانت کے ساتھ پیش نہ کرسکیں اور قرآن مجید بھی سنا نہ سکیں۔ اس کیلئے وہ ہنگامہ آرائی اور شور و غل مچاتے تھے۔ ایک موقع ایسا آیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ النجم سنانے کا موقع مل گیا تو آپؐ نے وہ سورہ سنایا۔ سورہ النجم کے آخر میں ہے :

    ’’آنے والی گھڑی قریب آلگی ہے، اللہ کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں۔ اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم اظہارِ تعجب کرتے ہو ؟ ہنستے ہو، روتے نہیں اور گا بجا کر انھیں ٹالتے ہو۔ جھک جاؤ اور اللہ کے آگے سجدہ کرو اور بندگی بجا لاؤ‘‘۔ 

    یہ اس قدر مؤثر خاتمہ کلام تھا جسے سن کر کٹّے سے کٹّے منکرین بھی ضبط نہ کرسکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کلام الٰہی کے فقرے ادا کرکے سجدہ کیا تو وہ بھی بے اختیار سجدے میں گرگئے۔ 

    سورہ النّجم کا تاریخی پس منظر: زمانۂ نزول کی اس تفصیل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن میں یہ سورہ نازل ہوئی۔ ابتدائے بعثت کے بعد سے پانچ سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نجی صحبتوں اور مخصوص مجلسوں ہی میں اللہ کا کلام سنا سنا کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہے تھے۔ اس پوری مدت میں آپؐ کو کبھی کسی مجمع عام میں قرآن سنانے کا موقع نہ مل سکا تھا، کیونکہ کفار کی سخت مزاحمت اس میں مانع تھی۔ ان کو اس امر کا خوب اندازہ تھا کہ آپؐ کی شخصیت اور آپؐ کی تبلیغ میں کس بلا کی کشش اور قرآن مجید کی آیات میں کس غضب کی تاثیر ہے۔ اس لئے وہ کوشش کرتے تھے کہ اس کلام کو نہ خود سنیں، نہ کسی کو سننے دیں اور آپؐ کے خلاف طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلا کر محض اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے آپؐ کی دعوت کو دبادیں۔ اس غرض کیلئے ایک طرف تو وہ جگہ جگہ یہ مشہور کرتے پھر رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہک گئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ان کا یہ مستقل طریق کار تھا کہ جہاں بھی آپ قرآن سنانے کی کوشش کریں وہاں شور مچادیا جائے تاکہ لوگ یہ جان ہی نہ سکیں کہ وہ بات کیا ہے جس کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بہکا ہوا آدمی قرار دیا جارہا ہے۔ 

    ان حالات میں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم پاک میں، جہاں قریش کے لوگوں کا ایک بڑا مجمع موجود تھا، یکایک تقریر کرنے کھڑے ہوگئے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کی زبانِ مبارک پر یہ خطبہ جاری ہوا جو سورۂ نجم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کلام کی شدتِ تاثیر کا حال یہ تھا کہ جب آپؐ نے سجدہ فرمایا تو وہ بھی سجدے میں گرگئے۔ بعد میں انھیں سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم سے کیا کمزوری سرزد ہوگئی اور لوگوں نے بھی انھیں اس پر مطعون کرنا شروع کیا کہ دوسروں کو تویہ کلام سننے سے منع کرتے تھے، آج خود اسے نہ صرف کان لگاکر سنا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ بھی کر گزرے۔ آخر کار انھوں نے یہ بات بناکر اپنا پیچھا چھڑایا کہ صاحب ہمارے کانوں نے تو اَفَرَ ئَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰی وَ مَنٰو ۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی کے بعد محمدؐ کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے: تِلْکَ الْغُرَانِقَۃُ الْعُلٰی وَ اِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْجٰی (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے) اس لئے ہم نے سمجھا کہ محمدؐ ہمارے طریقے پر واپس آگئے ہیں۔ حالانکہ کوئی پاگل آدمی ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ اس پوری سورۃ کے سیاق و سباق میں ان فقروں کی بھی کوئی جگہ ہوسکتی ہے جو اُن کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الحج، حواشی 96 تا 101)۔

    موضوع اور مضمون: تقریر کا موضوع کفار مکہ کو اس رویّے کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے جو وہ قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اختیار کئے ہوئے تھے۔ 

    کلام کا آغاز اس طرح فرمایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہکے اور بھٹکے ہوئے آدمی نہیں ہیں، جیسا کہ تم ان کے متعلق مشہور کرتے پھر رہے ہو، اور نہ اسلام کی یہ تعلیم اور دعوت انھوں نے خود اپنے دل سے گھڑلی ہے، جیسا کہ تم اپنے نزدیک سمجھے بیٹھے ہو بلکہ جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں وہ خالص وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔ جن حقیقتوں کو وہ تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں وہ ان کے اپنے قیاس و گمان کی آفریدہ نہیں ہیں بلکہ ان کی آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔ انھوں نے اس فرشتے کو خود دیکھا ہے جس کے ذریعہ سے ان کو یہ علم دیا جاتا ہے۔ انھیں اپنے رب کی عظیم نشانیوں کا براہ راست مشاہدہ کرایا گیا ہے۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سوچ کر نہیں دیکھ کر کہہ رہے ہیں۔ ان سے تمہارا جھگڑنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا آنکھوں والے سے اس چیز پر جھگڑے جو اسے نظر نہیں آتی اور آنکھوں والے کو نظر آتی ہے۔ 

    اس کے بعد علی الترتیب تین مضامین ارشاد ہوئے ہیں: 
    اوّلاً؛ سامعین کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دین کی تم پیروی کر رہے ہو اس کی بنیاد محض گمان اور من مانے مفروضات پر قائم ہے۔ تم نے لات اور منات اور عزیٰ جیسی چند دیویوں کو معبود بنا رکھا ہے، حالانکہ اُلوہیت میں برائے نام بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تم نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے، حالانکہ خود اپنے لئے تم بیٹی کو عار سمجھتے ہو۔ تم نے اپنے نزدیک یہ فرض کرلیا ہے کہ تمہارے یہ معبود اللہ تعالیٰ سے تمہارے کام بنوا سکتے ہیں، حالانکہ تمام ملائکہ مقربین مل کر بھی اللہ سے اپنی کوئی بات نہیں منواسکتے۔ اس طرح کے عقائد جو تم نے اختیار کررکھے ہیں، ان میں سے کوئی عقیدہ بھی کسی علم اور دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ کچھ خواہشات ہیں جن کی خاطر تم بعض اوہام کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو۔ یہ ایک بہت بڑی بنیادی غلطی ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہو۔ دین وہی صحیح ہے جو حقیقت کے مطابق ہو۔ اور حقیقت لوگوں کی خواہشات کی تابع نہیں ہوا کرتی کہ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھیں وہی حقیقت ہوجائے۔ اس سے مطابقت کیلئے قیاس و گمان کام نہیں دیتا، بلکہ اس کیلئے علم درکار ہے۔ وہ علم تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو اور الٹا اس شخص کو گمراہ ٹھہراتے ہو جو تمہیں صحیح بات بتا رہا ہے۔ اس غلطی میں تمہارے مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تمہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے، بس دنیا ہی تمہاری مطلوب بنی ہوئی ہے۔ اس لئے نہ تمہیں علم حقیقت کی کوئی طلب ہے ، نہ اس بات کی کوئی پروا کہ جن عقائد کی تم پیروی کر رہے ہو وہ حق کے مطابق ہیں یانہیں۔ 

    ثانیاً؛ لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا مالک و مختار ہے۔ راست رو وہ ہے جو اس کے راستے پر ہو، اور گمراہ وہ جو اس کی راہ سے ہٹا ہوا ہو۔ گمراہ کی گمراہی اور راست روی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ہر ایک کے عمل کو وہ جانتا ہے اور اس کے ہاں لازماً برائی کا بدلہ برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا مل کر رہتا ہے۔ اصل فیصلہ اس پر نہیں ہوتا کہ تم اپنے زعم میں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور اپنی زبان سے اپنی پاکیزگی کے کتنے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہو، بلکہ فیصلہ اس پر ہوتا ہے کہ خدا کے علم میں تم متقی ہو یا نہیں۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں سے وہ درگزر فرمائے گا۔ 

    ثالثاً؛ دین حق کے چند بنیادی امور لوگوں کے سامنے پیش کئے گئے ہیں جو قرآن مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے صحیفوں میں بیان ہوچکے تھے، تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا اور نرالا دین لے آئے ہیں بلکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ یہ وہ اصولی حقائق ہیں جو ہمیشہ سے خدا کے نبی ؑبیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہی صحیفوں سے یہ بات بھی نقل کر دی گئی ہے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسی ظلم و طغیان کی پاداش میں ان کو ہلاک کیا تھا جس سے باز آنے پر کفارِ مکہ کسی طرح آمادہ نہیں ہورہے ہیں۔ 

    یہ مضامین ارشاد فرمانے کے بعد تقریر کا خاتمہ اس بات پر کیا گیا ہے کہ فیصلے کی گھڑی قریب آلگی ہے جسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔ اس گھڑی کے آنے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعہ سے تم لوگوں کو اسی طرح خبردار کیا جارہا ہے جس طرح پہلے لوگوں کو خبردار کیا گیا تھا۔ اب کیا یہی وہ بات ہے جو تمہیں انوکھی لگتی ہے؟ جس کی تم ہنسی اڑاتے ہو؟ جسے تم سننا نہیں چاہتے اور شور مچاتے ہو تاکہ کوئی اور بھی اسے نہ سننے پائے؟ اپنی اس نادانی پر تمہیں رونا نہیں آتا؟ باز آجاؤ اپنی اس روش سے، جھک جاؤ اللہ کے سامنے اور اسی کی بندگی کرو۔ 

    یہی وہ مؤثر خاتمۂ کلام تھا جسے سن کر کٹّے سے کٹّے منکرین بھی ضبط نہ کرسکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کلام الٰہی کے یہ فقرے ادا کرکے سجدہ کیا تو وہ بھی بے اختیار سجدے میں گرگئے۔ 

موبائل: 9831439068    

azizabdul03@gmail.com      

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 663