donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Islam Aur Musalmano Ki Badnami Ke Zimmedar Khud Ham Musalman Bhi Hain

اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کے ذمہ دار خود ہم مسلمان بھی ہیں

 

 اشفاق الرحمن شررؔ

مئو ناتھ بھنجن، یو۔پی۔ حال مقیم جدہ، سعودی عربیہ


موبائل: +966551105767  

(e-mail: sharar68@gmail.com)


    دنیا بھر میں زندگی کے ہر شعبہ میں مفکرین کی ایک جماعت ہوتی ہے جو اپنے اپنے میدان میں ماضی اور حال کا باریکی سے مطالعہ کرتی ہیں اور اس مطالعہ کی بنیاد پر کسی حتمی نتیجہ پر پہونچتی ہیں جسے دنیا بالاتفاق مانتی ہے۔ ماہرین علوم معاشرہ نے دنیا بھر میں گذرے ہوئے اور موجود مشاہیر شخصیت کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک شخصیت کو سب سے اچھا انسان (Best Human)  اور سب سے زیادہ مہربان و نرم دل (Most Kind)  قرار دیا۔ ماہرین قانون نے اپنے مطالعہ میں ایک شخصیت کو سب سے اچھا منصف (Best Judge)  قرار دیا، دنیا بھر کے علم تمدن کے مفکرین نے ایک شخصیت کے بہترین حکمراں (Best Ruler)  ہونے پر اتفاق کیا اور دنیا کے لئے حیرت کی بات ہے کہ یہ تمام تر خوبیاں مختلف انسانوں میں نہیں بلکی ایک واحد شخصیت میں رہیں۔ الگ الگ شعبوں میں الگ الگ شخصیت کا نمایاںہونا معمولی بات ہے لیکن اگر کسی ایک انسان کے اندر یہ تمام خوبیاں پائی جائیں تو وہ کوئی عام انسان نہیں ہو سکتا ۔ دنیا میں لاثانی شخصیت اور نرالے کارنامے صرف ہمارے نبی، امام الانبیاؑئ، دو جہاں کے بادشاہ جناب محمدالرسول اللہؐ کی ہے۔ حضرت آدمؑ تا دنیا کے آخری انسان کوئی دوسرا آپؐ کی خوبی کو نہیں پا سکتا اس پر ہمارا ایمان تو ہے ہی اور یہ اٹل سچائی بھی ہے۔ آخر دنیا بھر کے الگ الگ مفکرین نے ہر میدان میں ایک ہی شخصیت کو اعلیٰ بتایا تو یہ بے سبب نہیںہو سکتا۔

    عرب میں ایک زمانہ ایسا تھا کہ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں جو عرب میں موجود نہ ہو۔ عورتوں کا بازار لگتا اور جانور جیسے خرید و فروخت کی جاتی تھیں، لڑکیوں کی پیدائش کو باعث ذلت اور منحوس سمجھا جاتا تھا کسی مرد کو کسی لڑکی باپ کہلوانا گوارہ نہیں تھا لہٰذا لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا، قبائلی زندگی تھی ہر قبیلے کے الگ الگ سردار ہوا کرتے تھے سب کے الگ الگ قانون تھے غریب اور کمزور انصاف سے محروم تھے ایک قبیلہ دوسرے کی جان کا دشمن تھا۔کمزوروں کی فریاد سننے والا کوئی نھیں تھا، جھوٹ بے ایمانی، جوا، شراب عام تھا، شراب کی یہ حالت تھی کہ اس زمانے میں معیار کا پیمانہ تھا جس کے گھر میں جتنی پرانی شراب ہوتی اس کا شمار امراء اور شرفاء میں ہوتا، فحش شاعری کا عام رواج تھا اس زمانے کی عربی شاعری میں جتنا فحاشی اور عریانیت ملتی ہے کسی اور زمانہ یا ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چوری اور راہ زنی عام تھی کوئی تنہا سفر نہیں کر سکتا تھا لوگ جماعت بنا کر کہیں آتے جاتے۔ ایسے حالات میں ایک غریب بیوہ ماں سے ایک شخصیت پیدا ہوتی ہے جن کے شیرخوارگی کی عمر سے ہی کمالات ظاہر کونے لگے تھے جن کا ذکر کیا جائے تو تحریر کافی طویل ہو جائے گی اس لئے اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کر دوں کہ وہی شخصیت ہے جن کی پارسائی، نیک نیتی، صداقت، انصاف، قناعت اور مہربانی کی پوری دنیا قائل ہے جو انبیاء کے امام اور ہمارے آقا و نبی اور اللہ کے رسولؐ ہیں۔ لڑکپن کی عمر میں ہی آپؐ کی سچائی کی شہرت ہو گئی تھی جوان ہوتے ہوتے امین کا خطاب بھی مل گیا لوگ اپنے آپسی جھگڑے ختم کرانے آپ ؐکے پاس آنے لگے، پورے مکہ میں آپ کی ایک بہترین شخص کی پہچان بن گئی۔ چالیس سال کی عمر میں نبوت ملنے کے بعد جیسے ہی آپؐ نے وحدانیت کی تبلیغ شروع کی وہی لوگ جو اپنے جھگڑے ختم کرانے آتے تھے ، آپ کو صادق اور امین کے نام سے پہچانتے تھے دشمن بن گئے اور جھوٹا ثابت کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔ لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری ان کے ظلم اور زیادتی برداشت کرتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش جاری رکھے جو لوگ ظلم کرتے ان کے لئے بھی اللہ سے رو رو کر دعائیں مانگتے پھر وہ وقت بھی آیا جب ایک ایک کر کے لوگ آپؐ کے ساتھ آتے گئے اور ایک بہترین جماعت تیار ہو گئی۔ آپؐ نے اہل مکہ کو ظلم سے بعض آنے، انصاف کرنے، سچ بولنے اور عورتوں کی عزت کرنے کی تعلیم دی۔ اتنے شفیق اور رحم دل کہ جس نے روزانہ اوپر کوڑا پھینکا اس کے بیمار ہوجانے پر عیادت کے لئے پہونچ گئے۔ رات کے اندھیرے میں کمزوروں اور مجبوروں کی مدد کرتے، اسی دوران ایک حبثی غلام پر ترس کھا کر اس کی مدد شروع کر دیئے اس غلام کا مالک بڑا ظالم تھا پورے دن بکریاں چرانے کو دیتا اور رات میں ایک بوری گیہوں یا جو پیسنے کو دیتا نہ دن میں آرام نہ رات میں نیند کا موقع ایک روز اس کے رونے کی آواز سن کر آپ نے اس کے پاس جا کر سبب پوچھا تو اس غلام نے اپنا حال سنایا آپؐ نے اس غلام کو سلا دیا اور خود اس کے بدلے چکی پیسی لگاتار تین یا چار روز تک ایسا کرنے پر اس غلام نے تعارف پوچھ لیا جیسے ہی آپؐ نے نبی ہونے کی بات کہی فوراً غلام مسلمان ہوگیا اجسے پوری دنیا موذن رسولؐ حضرت بلالؓ کے نام سے جانتی ہے۔

    جو لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دی جاتی تھی ان کو معاشرہ میں عزت بخشا، ایک لڑکی کو رحمت کا ذریعہ بتایا، لڑکی کی پرورش کو جنت کا ضامن قرار دیا، بیوی کو برابر کا درجہ عطا کیا، ماں کے قدموں کی نیچے جنت کی بشارت دی، والدین کی ملکیت میں بیٹی کا حصہ طے کیا اس طرح عورتوں کو اتنی اہم بنایا کہ دنیا کے کسی اور تہذیب میں ایسی مثال نہیں ہے، بیوہ جہاں منحوس سمجھی جاتی تھی اس سے نکاح کرنے کو باعث ثواب بتایا اور خود بھی اپنے سے بڑی عمر کی بیوہ عورت سے شادی کر کے ایک مثال پیش کی۔ سچ بولنے کی تعلیم دے کر جھوٹ کا خاتمہ کیا، جوا کے رواج عرب سے ختم کیا چوری اور راہ زنی ایسے ختم ہوئی کہ عرب میں اس زمانے میں بھی چوری اور راہ زنی نام کے برابر ہی ہے۔ کتنا بھی سونا یا نقدی لیکر کہیں بھی آنے جانے میں کسی کو کوئی خوف نہیںہوتا۔ مال دار لوگوں پر زکوٰۃ اور صدقہ فطر واجب قرار دیکر ان کے کامال میں غرباء کا حق بنایا اور خاص بات یہ ہے کہ زکوٰۃ خود اور اپنے رشتہ داروں کے لئے حرام قرار دیا حالانکہ آپؐ کی یا آپؐکے رشتہ داروں کی مالی حالت بھی اچھی نہیں تھی ایک روز کھانے کے بعد کل کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ قناعت ایسی کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک برداشت کیا لیکن کبھی اپنی قسمت کا شکوہ نہیں کیا۔ شراب کو گناہوں کی ماں بتا کر لوگوں کو شراب سے بعض رکھا۔ حکومت ملنے پر ایسا نظام قائم کیا کہ یتیم، غریب سب کے حقوق محفوظ کئے، خواتین کو عزست بخشی، انصاف کی یہ حالت تھی کہ فریقین میں اگر ایک مسلمان دوسرا کافر ہوتا تب بھی دونوں کو برابر مقام دیتے اور جو حق ہوتا وہی فیصلہ کرتے خواہ کسی کے حق میں بھی ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ عربوں کی تعلیم، تکنیک اور سائنس کی پوری دنیا میں شہرت تھی لیکن ہمارے نبیؐ سے پہلے عرب کی جہالت ، دقیانوسی، ظلم، راہزنی وغیرہ پوری دنیا میں مشہور ہو چکی تھی ایسے ماحول میں اسی عرب کو دنیا کے لئے مثالی تہذیب بنانے ، خواتین کو معاشرہ میں عزت کے ساتھ جینے کا موقع، انسانی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا جیسے عظیم احسانات کرنے والی شخصیت کا بھلا کون عقل مند قائل نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ کچھ نا مراد، انسان کی شکل میں حیوان، انسانیت اور سماج کے دشمن اس شخصیت میں بھی کمی نکالتے ہیںان سے بدبخت کون ہوگا۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم مسلمان خود بھی اسلام اور اپنے نبیؐ کو بدنام کرنے میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ  یا فردہو ہماری تاریخ ، قرآن، اور حدیث نہیںپڑھے گا بلکہ ہم کو دیکھ کر ہمارے مذہب اور نبیؐ کے بارے میں فیصلہ کریگا۔ ہم خود ہی سچے دل سے اپنا محاسبہ کریں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ ہمیں کیا تعلیم دی گئی اور ہم دوسروں کے سامنے کیسی مثال پیش کر رہے ہیں؟ ہمارا کیا مقام ہے اور ہم کہاں پہونچ چکے ہیں؟ آخر دشمن اسلام ہماری کمزوریوں اور گمراہیوں کو مدعہ بنا کرہمارے مذہب کو بدنام نہیں کریں گے تو کیا کریں گے جب کہ ان کا مقصد ہی ہے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا۔ کاش ہم مسلمان اپنے مقام، مرتبہ اور ذمہ داری کو سمجھ کر ایک بار پھر سے اپنی اصل راہ پر پلٹ آتے


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 819