donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mumtaz Umar
Title :
   Halal Mein Haram Ki Amezish

حلال میں حرام کی آمیزش
 
…ڈاکٹر ممتاز عمر …
www.dr.mumtazumer@yahoo.com
 
ہمارا معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہے۔ دہشت گردی، قتل وغارت گری، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، بے چینی، فکر مندی، بددیانتی، نافرمانی گویا جہاں دیکھیں بگاڑہی بگاڑ ہے۔ بات یہیں تک نہیں قدرتی آفات نے بھی ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ کبھی بے وقت کی برسات ہے جو سیلاب کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو کہیں خشک سالی کا سامنا ہے۔ معاشی بدحالی ہے کہ رکنے میں نہیں آتی، توانائی کے بحران نے ترقی کی راہیں مسدود کردی ہیں، دنیا کی پہلی مسلم نیوکلیئر اسٹیٹ ہونے کے باوجود غیر ملکی دراندازی کو روکنے میں ہم ناکام ہیں۔ یہ کیفیت روز افزوں بڑھتی جارہی ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں بھی بہتری کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہ ملک اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا پھر ہم اُسی کے پیارے کے نام لیوا ہیں۔ ماہ رمضان ہو یا ربیع الاول کی آمد بڑی بڑی محافل سجاتے ہیں۔ ہر طرف روح پرور ماحول بیدار ہوتا ہے۔ عیدالاضحی پر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسمٰعیل ذبیح اللہ کی یاد میں جانوروں کی قربانیاں دیتے ہیں گویا ہر ہر موقع پر رب سے تعلق جوڑنے کے دعویدار بھی ہیں۔ ماہ صیام کا چاند نظر آئے تو مساجد کی وسعتیں کم معلوم ہوتی ہیں پھر آخری عشرے میں معتکفین عبادت میں لگے ہیں۔ یوں تو سال بھر عمرے کی سعادت پانے والے عازم سفر ہیں مگر رمضان المبارک میں تو یہ تعداد لاکھوں میں ہوجاتی ہے۔ حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہونے والے بھی ہر سال بڑھ رہے ہیں۔ کتنے ہی ہیں جو تیاری کرتے ہیں مگر مقررہ تعداد پوری ہونے کے بعد مایوس و ناامید ہوکر آئندہ برس مقاماتِ مقدسہ کی دید آنکھوں میں سجائے اداس ہو بیٹھتے ہیں۔ ان تمام عبادات 
وریاضتوں کے باوجود معاشرتی مسائل اور نفسانفسی اپنے عروج پر ہے۔ آخر کیوں؟
 
آئیے ذرا اپنی عملی زندگی کا جائزہ لیں کہ خرابی کا آغاز کہاں سے ہورہا ہے؟ اس حوالے سے جو سب سے پہلی چیز سامنے آتی ہے وہ حلال اور حرام کے فرق سے ناآشنائی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان اک خفیف سی لکیر حائل ہے جو غیر محسوس انداز میں عبور ہوجاتی ہے یوں ہم حرام کے دائرے میں داخل ہو کر اپنی عبادات کی اصل روح کو کھو دیتے ہیں۔ جب ہمارا کھانا پینا، پہننا اور اوڑھنا ہی حرام ہو تو عبادات کیونکر قبول ہوسکتی ہیں اور جب عبادات قبول نہ ہوں گی تو ان کے ثمرات سے استفادہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ ذرا گہرائی اور گیرائی سے غور کریں تو یہی حرام ہر برائی کی جڑ ثابت ہوگا۔ اس کا تعلق نافرمانی سے ہو یا متوقع پریشانی سے، فکرمندی سے ہو یا بے چینی سے، دہشت گردی سے ہو یا قدرتی آفت سے بلاشبہ ہر مسئلے کی بنا یہی حرام کی آمیزش ہے۔
 
آئیے ذرا غور کریں کہ تمام ترجفاکشی، محنت، احساسِ ذمہ داری کے باوجود یہ حرام کیسے در آتا ہے؟ مگر ہم بے صبرے اور ناشکرے بھی ہیں۔ حرص اور لالچ نے ہمیں آپے سے باہر کردیا ہے۔ ذرا بجلی گئی توہم اس کے بغیر چند لمحے گزارنے کو تیار نہیں، فوری طور پر غیر قانونی ذرائع سے بجلی حاصل کی جاتی ہے جو یقینا حرام کے زمرے میں آتی ہے۔ اسی بجلی کی روشنی میں آپ پڑھتے ہیں اور محض دنیوی علوم نہیں قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔ اسی بجلی سے پانی کھینچتے یا چڑھانے کی موٹر بھی استعمال کرتے ہیں گویا حرام کی بجلی سے پانی حاصل کیا جسے نہانے، منہ دھونے، کپڑے دھونے، کھانا پکانے، پینے اور یہاں تک کہ وضو کرنے تک میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ اب ذرا سوچیے جب آپ کی بنیاد ہی حرام ہے تو دیگر امور کے فوائد کیسے مل سکتے ہیں؟ رب العالمین نے فرمایا ’’اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور برُے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ (سورۃ العنکبوت: آیت ۱، ص ۱۰۱۷۔ ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی، سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ ادارہ ترجمان القرآن لاہور ۲۰۰۳ئ) اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم نماز ادا کرتے ہیں، اس کے قائم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یعنی مسجد میں جاکر باجماعت ادا کرتے ہیں مگر باہر نکلتے ہیں تو معاشرے میں تبدیلی نہیں۔ اس کی دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں کہ یا تو یہ مفہوم درست نہیں لیکن نعوذ باللہ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ قرآن کریم الہامی کتاب ہے اور اس پر ہمارا ایمان بھی ہے تو پھر ارشاد ربانی کے باوجود نماز ادا کرنے یا قائم کرنے کے بعد بھی برائیوں کا خاتمہ کیوں نہیں ہورہا؟ تو دوسری وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ جس پانی سے وضو کیا گیا، کپڑے دھوئیے گئے، پینے اور کھانا پکانے میں استعمال کیا گیا وہ تو سارا کا سارا حرام تھا تو تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ ویسے اس کی ایک اور وجہ بھی ہے جو زیر بحث موضوع سے ذرا ہٹ کر ہے وہ یہ کہ ہم نماز ادا کرنے کے دعویدار ہیں مگر شعوری طور پر اس کے قیام میں مخلص نہیں۔ الا ما شاء اللہ آپ کو کچھ لوگ ملیں گے جو اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھنے سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے تک جو کچھ زبان سے ادا کرتے یا جہری نمازوں میں امام سے سنتے ہیں اس کے مفہوم، مطالب، مقاصد اور خود پر نافذ کرنے کے حوالے سے باخبر ہیں ورنہ تمام ہی رٹے رٹائے انداز میں تمام کلمات ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔
 
حرام کی یہ آمیزش گیس کی چوری یا دیگر مواقع پر بھی نظر آتی ہے مثلاً چوراہوں، بازاروں اور سڑک کے کنارے ٹھیلے والے اکثر کنڈے کی بجلی استعمال کرتے ہیں جو ناجائز وحرام کے زمرے میں آتی ہے۔ وہ بڑی محنت وجانفشانی سے روزی کماتے اور گھر لے جاتے ہیں۔ اپنے 
اہل خانہ پر خرچ کرتے ہیں مگر مسئلہ وہی ہے کہ جب حرام کی بجلی کی روشنی میں کاروبار کیا گیا یا کاروباری اشیاء استعمال کی گئیں تو روزی حلال کہاں رہی؟
 
سرکاری دفاتر میں کسی جائز کام کو کرانا ہو تو بغیر رشوت دیے یہ کام کرانا ممکن نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ رہے رشوت دینے والے تو انہوں نے تو مجبوری، ناکامی اور اضطرابی کیفیت پر ایسے فتاویٰ حاصل کرلیے ہیں کہ جب جائز کام بھی نہ ہو تو بحالتِ مجبوری کراہیت وگناہ سمجھتے ہوئے رشوت دی جاسکتی ہے۔ سرکاری محکموں کے رشوت خور ملازمین کی توجہ جب اس ناجائز اور حرام طریقے کی طرف دلائی جاتی ہے تو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ’’یہ رشوت تو نہیں آپ کا کام کرنے کی رقم لی ہے۔‘‘ اگر اُن سے کہا جائے کہ حکومت آپ کو یہی کام کرنے کی تنخواہ دیتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ’’تنخواہ صرف دفتر آنے کی ملتی ہے کام کرنے کے لیے الگ سے نذرانہ دیجیے۔‘‘
 
سرکاری محکموں میں رشوت ستانی میں حکومت اور عدلیہ بھی برابر کی شریک ہے۔ جب بھی یہ افسران منظر عام پر آتے ہیں تو کوئی احتساب کرتے ہوئے نہیں پوچھتا کہ جس قدر تنخواہ پر یہ کام کررہے ہیں، پرُآسائش زندگی گزارنے، رہن سہن اور آمدورفت میں کیسے کامیاب ہوئے؟ اصل میں نظام عدل ہی موجود نہیں۔ کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا کڑوڑوں کے مکانات اور لاکھوں کی مالیت کی گاڑیاں رکھتا اور اپنی آمدنی سے کہیں زائد اخراجات کا حامل ہے مگر پکڑ نہیں۔ ہاں! خدا ترسی بھی دکھائی جاتی ہے اسی حرام کی کمائی سے عمرہ، حج، قربانی اور رمضان المبارک میں غریبوں کو راشن دلوا کر اللہ کی خوشنودی اور بندوں کی دعائیں سمیٹی جاتی ہیں۔
 
آپ جس قدر غور کریں گے اُسی قدر ہر ایک اس لت میں گرفتار نظر آئے گا۔ پرائیویٹ اسکول انتظامیہ فیسوں کی وصولی پر مطمئن نہیں۔ اُسے اس بات سے دلچسپی بھی ہے کہ بچہ کتابیں، بیگ، یونیفارم اور جوتے فلاں فلاں دکان سے خریدے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحبان کو یہ دلچسپی ہے کہ ادویات فلاں کیمسٹ سے اور ٹیسٹ اُس لیبارٹری سے کرائے جائیں۔ یہی نہیں کارپینٹر، میسن، رنگریز ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس کی بتائی ہوئی دکان سے سامان لیا جائے تاکہ بعد میں وہ اپنا کمیشن حاصل کرسکے۔ اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں گاڑی والوں کو شکایت ہے کہ پیٹرول پمپوں پر ناپ تول صحیح نہیں تو خود ان کا رویہ بھی مسافروں کے ساتھ مشفقانہ نہیں بلکہ مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
 
معلم کا پیشہ پیغمبرانہ شمار ہوتا ہے۔ یہاں بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی کچھ ایسے ذرائع اختیار کیے جارہے ہیں جو حدود سے متجاوز ہیں۔ مثلاً اساتذہ تعلیمی اداروں میں کم وقت دیتے ہیں اور پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز میں زیادہ محنت اور توجہ سے پڑھاتے دیکھے گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح مسیحائی کے دعویدار ڈاکٹرز سرکاری اسپتال میں مریضوں کے ساتھ انتہائی روکھائی اور اکھڑپن سے پیش آتے ہیں، کوئی سوال کرو تو جواب نہیں دیتے اور جب ان کے نجی کلینک میں جائیں تو بالکل ہی مختلف معلوم ہوتے ہیں۔ بڑی باریک بینی کے ساتھ مرض کی نوعیت، پرہیز وغیرہ بتاتے ہیں۔
 
اب ذرا غور کیجیے جب ہماری روزی میں حرام کی ہلکی سی آمیزش بھی ہوگئی تو پھر بیوی بچوں کی نافرمانی، والدین اور بزرگوں سے بیزاری، بڑے چھوٹوں کا ادب واحترام کیسے ملحوظ رہ سکتا ہے۔ پھر رزق میں برکت کیسے ہوگی؟ جب عبادت ہی قبول نہ ہوں گی تو اللہ کی مدد کیسے آئے گی؟ پھر تو آفات صحیح آرہی ہیں۔ ہم عذاب کے حق دار ہیں اور خود ہی طلب کررہے ہیں۔ پھر پریشانی کیوں؟
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1058