donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Prof. Md. Shahjahan Nadvi
Title :
   Moashrati Amano Salamati Quran Pak Ki Raushni Me


معاشرتی امن وسلامتی قرآن پاک کی روشنی میں


 عربی تحریر:  ڈاکٹر پروفیسر محمد شاہ جہاں ندوی


 اردوترجمہ:    شفاء اللہ ندوی


       نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انسانیت ظلم وستم کی چکی میں پس رہی تھی ،مطلق العنانی اور اقتدار پسندی کے جوے تلے کراہ رہی یہ خلق خدا ایک ایسی فضا میں سانس  لینے پر مجبور تھی جس پر جنگل قانون کی حکمرانی تھی ، گویا معاشرہ میں ظلم کا ایک نظام تھا جس کو رائج کر کے رکھا گیا تھا،انسانی زندگی بے حیثیت و بے  قیمت ہو کر رہ گئی تھی ، کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی رسالت خالدہ کی نیر تاباں سے نہ صرف یہ کہ اہل مکہ کو جگمگا یا بلکہ پوری دنیا کو منور و مجلٰی کردیا گیا ،ظلم وستم اور وحشیت وبربر یت کی خونی دلدل میں پھنسے اس معاشرہ  میں نہ صرف انسانی طبقات بلکہ حیوانات وجمادات اور ماحولیا ت وطبیعیات سب کی حفاظت وسلامتی کے لئے اصول وقوانین مرتب فرمایا ۔   حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشروں میں امن وسلامتی کے قیام کے لئے جو اقدامات فرمائے اور اس سلسلہ میں جو کوششیں فرمائیں ، ’’میثاق مدینہ ‘ ‘ نامے دستوری بل اس کا منھ بولتا ثبوت ہے ،  جسے آپ ؐ نے سن ۱   ؁ھ موافق 523؁ء میں مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے کے فورا بعد  پا س کیا تھا، جس میں کل ۵۲؍  دفعات تھے ،جن میں سے پچیس دفعات مسلمانوں کے امور سے خاص تھے ،جبکہ دیگر ستائیس دفعات کا تعلق مسلمانوں اور دیگر ادیان ومذاہب کے پرستاروں بالخصوص یہود اور بت پرستوں کے مابین باہمی تعلقات سے تھا ،  یہ دستو رجہاں ایک طر ف قبائلی لعنت سے امت اسلامی کی براء ت کا اعلان کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس دستور میں مختلف قومو ں کے درمیا ن معاشرتی ہم آہنگی ،عہد وپیمان کے توڑنے والوں کو روکنے ، حفاظت مسلم کا احترام ، مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے غیر مسلم اقلیتوں اور ذمیوں کی حمایت وپاسدار ی ، انکو  فطری آزادی کی فراہمی اور انہیں ان ہی کی منشاء کے مطابق  اپنے مذہبی فرائض ودینی شعائر کو انجام دینے کی ایسی کھلی اجازت کہ اسلامی حکومت  کے زیر سایہ کسی فرقہ پر کوئی مضائقہ و تنگی کا امکان بھی باقی نہ رہے ،معاشرتی امن و سلامتی اور دیتوں کی پوری پوری ضمانت و گارنٹی ،ہر طرح کی عدالتی کارروائیوں کے لئے شرعی عدالت سے ہی  رجوع کرنے کی صراحت بھی تھی ۔ اس قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ہ عقیدہ و اظہار رائے کی آزاد ی ہر قوم و فرقہ کو حاصل ہو گی جبکہ حکومت کی مدافعت کیلئے مالی تعاون کرنا سب کی ذمہ داری ہوگی اور جہاں تک مالی استحکا م کی بات ہے تو اس کا حق و اختیار تمام انسانی جماعتوں کو بلا تفریق مذہب وملت دیاجائے گا ،اس دستور میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دشمن سے مقابلہ کے لئے ضرورت پڑنے پر مشترکہ مدافعت  بہر حال ضرور ی تو ہے اہل کتاب اور مسلمان کے درمیا ن بھلائی و نصیت کی باتیں کہنا بھی ایک واجبی امر ہوگا، ہر کنبہ کے افراد کو اپنی کنفیڈریشن  بنانے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی جائے گی کہ اس سے حکومت اسلامی کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہونچ رہا ہو ورنہ نہیں ،میثاق مدینہ بل میں انسداد ظلم ستم کے تعلق سے جو دفعہ تھی اس کی رو سے مظلوم کی مدد کرنا ضروری اور حفاظت وسلامتی ہر باشندہ کا حق قرار پا ئی تھی ۔(سیرت ابن ہشام ؍جلد دوم ص108-106) حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لہو ولعب کی غرض سے جانوروں کے قتل کو بھی حرا م قراردیا ،حضرت شرید بن سوید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چڑیا کا بے فائدہ قتل کیا ،روز قیامت وہ چڑیا خداکی بارگاہ میں بلند آواز سے (شکایتاً)کہے گی اے اللہ مجھے فلاں شخص نے بے فائدہ قتل کیا تھا نہ کہ کسی مقصد ومنفعت کے لئے ،(نسائی؍حدیث: 4446) جیسا کہ حضرت محمد ؐ نے طبعی ماحول کے لوازمات کے تحفظ کی تاکید فرمائی،کیونکہ انہیں لوازمات کے باعث خدا کی اٹھا رہ ہزار مخلوقات کا  آپس میں تواز ن قائم ہے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی ا ن بعض اہم عناصر کے فقدان کا سبب و محرک ہے جن کا انسان اور اس کی زندگی کی سلامتی کے لئے ضروری ہے ۔چنانچہ حضرت عبد اللہ حبشی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ؐنے فرمایا :جس نے بیری کا کوئی درخت  کاٹا اللہ اس کا سر (جس طرح اس نے درخت کاٹ کر زمین میں جھکا دیا تھا اسی طرح ) جہنم میںجھکا دیں گے۔ (ابودائود؍حدیث نمبر: 5239) امام ابو دائود ؒ نے اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ حدیث میں  مفید ہریالی کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے  جیساکہ وہ اپنی سنن ابو دائود میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر ہے اس کی تقدیری عبارت یوں ہوگی’’ من قطع سدرۃً فی فلاۃٍ یستظل بہا ابن السبیل ،والبہائم عبثاً، وظلماً بغیر حقٍ یکون لہ فیہا،صوب اللہ رأسہ فی النار‘‘   یعنی  جس کسی نے چٹیل میدان میں لگے بیڑی کا ایسا درخت  جس کے سایہ میں مسافر یا چوپائے آرام کرتے ہوں ظلماً،یا بے فائدہ یابغیر کسی حق جو اس  کا اس سے وابستہ ہو تو ایسے شخص کے سرکو اللہ تعالیٰ  جہنم  میں پست کردے گا ۔(سنن ابو دائود؍ج؍4؍ص361)

معاشرہ میں امن وسلامتی بحال کرنے کے لئے سوشل کورٹ کا قیام:

              مذہب اسلام نے مختلف انسانی برادریوں کے درمیان ہم آہنگی اور معاشرتی امن وامان کو قائم کیا تو،معا بعد  سوشل کورٹ یعنی سماجی عدالت بھی قائم کی ،اورلوگوں کے مابین ایسی مساوات و برابر ی کہ کوئی شخص کسی پر ظلم نہ کرے ۔ اسلام نے لو گوں کو حقوق کا احترام کرنا سکھا یا ،حقوق کو ہڑپ لینے یا قوت و طا قت کے بل پر حقدارو ں سے ان کے حقوق چھین لینے کو جرم عظیم قرار دیا ،اور اس بات کا مطالبہ کیا کہ  معاشرہ میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے تما م انسانوں کو یکساں مواقع دئے جائیں،معاشرتی ٹکرائو کی بڑھوتری کے اسباب و وجوہات  اورسماج کے مختلف طبقات کے ما بین کشمش و کشیدگی کے بواعث ومحرکات کو ختم کیا ، مالداروںاور غریبوں کے مابین طبقاتی خلیج کو پاٹ دیا،عصبیت کو حرام اور نسلی،جنسی ،صنفی ،صوبائی ، خاندانی ، نسبی وغیرہ بنیادوں پر لو گوں کی تحقیر و تذلیل اورٹھٹھا کرنے کو ممنوع قراردیا اور اس نے سماج کے ہر فرد کو شخصی آزادی ،نقل وحمل کی آزادی،رائے وعقیدہ کی آزادی ،تعلیم وتربیت کی آزادی ، صنعت و حرفت کی آزادی ، سماجی ہم آہنگی ،حق  ضمانت و گارنٹی صرف اور صرف اس لئے فراہم کی تاکہ پوری انسانیت  آزاد ،باعزت اور پسندیدہ زندگی گزار سکے اور ہرانسان ایک دوسرے کی نظر میں مکرم و معزز بن جائے کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی (سورہ اسرائ: آیت؍70)ظلم وزیادتی کو اسلام نے بہر صورت و بہر شکل حرام قراردیا ہے ،اللہ عز وجل کا ارشاد ہے : اور حدسے تجاوز مت کرو اللہ قانون شرعی سے تجاوز کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (سورہ بقرہ: آیت :190)    اور اللہ ظلم کرنے  والوں کو پسند نہیں کرتا(آل عمران : آیت :57) حضرت ابوذر غفاری ؓ  سے ایک حدیث قدسی مروی ہے جس میں فخر رسالت ؐ اللہ تعالیٰ سے نقل فرماتے ہیں َ: میرے بندوں میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرا م رکھا ہے ،لہٰذا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو(مسلم شریف؍حدیث نمبر2577)علامہ نووی ؒ حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلاتظالموا اصلی میں فلاتتظالموا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے بعض  بعض پر ظلم نہ کرے ،اوریہ لفظ دراصل اللہ کے اس قول’’یا عبادی انی حرمت الظلم علیٰ نفسی و جعلتہ بینکم محرما‘‘  جس کا ترجمہ ابھی چند سطور پہلے حدیث قدسی میں آیا ہے ،کی تاکید وتائید اور اس سے ظلم کی حرمت کی شدت بیان کرنا مقصود ہے ۔(النووی شرح صحیح مسلم ؍ج 132/16 ؍مطبوعہ دارالاحیاء بیروت) علامہ ابن تیمیہ ؒ  حدیث کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ ہر طرح کی بھلائی عدل وانصاف کے دائرہ میں آتی ہے جبکہ شر کی ہر قسم ظلم ہی ظلم کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر چیز میں اور ہر فرد کے ساتھ عدل وانصاف فرض اور ظلم ہر چیز میں اور ہر فر د کے ساتھ حرام ہے ۔لہٰذا کسی شخص کا کسی کے ساتھ ظلم کرنا سرے سے جائز ہی نہیں خواہ وہ مظلو م مسلمان ہویا کافر یا ظالم (ابن تیمیہ ؍مجموع الفتاویٰ؍166/18؍ مطبوعہ ملک فہد اکیڈمی سعودی؍1416؁ھ)نیز حدیث کے الفاظ’’ یا عبادی انی حرمت الظلم علیٰ نفسی و جعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا‘‘ کی بابت علامہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ خطاب صرف مسلمانوں سے نہی ںبلکہ خدا کے تمام  بندوں سے ہے تاکہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے (بحوالہ سابق

         ظلم چونکہ بہت سنگین گناہ کبیرہ اور حرام ہے اسی لئے ظلماً ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا گیا ہے ،ارشاد خدواندی ہے : اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس نے پھیلایا ہو قتل کرڈالے ،تو گویا اس شخص نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس شخص نے کسی شخص کو بچا لیا تو گو یا اس نے تمام آدمیوں کو بچالیا (سورہ مائدہ: آیت: 32)دراصل مذہب اسلام کے پیش نظر ایک ایسا انسانی معاشرہ کا قیام ہے جس میں ہر طرف علم عمل کے نسیمی جھونکے  چل رہے ہوں، جس میں تمام انسانوں کو ترقی و ترفعی،تعلیم وتربیت ،اقتصادیات و معاشیا ت وغیرہ کے یکساں مواقع حاصل ہوں،اللہ تعالیٰ نے نبی پاک ؑ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :آپ کہئے کہ کیا علم والے اور جہل والے(کہیں)دونوں برابر ہو تے ہیں؟ اور نصیحت تو وہ پکڑتے ہیں جو اہل عقل سلیم ہوتے ہیں (سورہ زمر؍آیت : 9)آیت سے جہاں علماء اور جہلاء دونوں کا فرق جگ ظاہر ہو تا ہے وہیں اہل علم وکما ل کی قدردانی بھی نظر آتی ہے ،نیز اس سے یہ ترغیب بھی ملتی ہے کہ بلند درجات کی خواہش ہو تو علوم وفنون پر توجہ دیں۔اللہ کا ارشادہے :میرے رب میرے علم میں ترقی عطا فرما(سورہ طہ؍آیت :114) جس سے یہ بات مثل سورج عیاں ہو جاتی ہے کہ علم کسی شخص یا کسی جماعت یا کسی قبیلہ  وخاندان کی جاگیر نہیں بلکہ اس  کی تحصیل کے دروازے تمام انسانوں کے لئے کھلے ہو ئے ہیں۔

        رہی بات اسلامی معاشرہ میں تمام انسانوں کو یکساں مواقع ملنے کی تو اس سلسلہ میں خداوند قدوس کا اعلان ہے : جب نماز ادا کرچکو تو روئے زمین پر خدا کا فضل یعنی رزق کی تلاش و جستجو میں نکل پڑو(سورہ جمعہ ؍62)نیز اسی کا ارشاد ہے : وہ ایسا انعام فرمانے والا ہے کہ اس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کردیا ،تاکہ تم اس کے رستوں میں چلو پھرو اور خداکی روزی میں سے کھائو (پیو) اور اسی کے پا  س دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے (سورہ ملک؍15)ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں بلاتفریق  و تخصیص تجارت وحرفت اور معاش ورزق کے مواقع سب کو یکساں حاصل ہیں ۔علامہ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس لمبی چوڑی دنیا میں اس کے گوشے گوشے ،چپے چپے اورعلاقے علاقے میں  جدھر چاہو کسب معاش اور تجارت و سوداگری کی خاطر سفر کیا کرو(ابن کثیرؒ؍تفسیر القرآن العظیم ؍199/8 مطبوعہ بیر وت العلمیہ 1419  ؁ ھ) واضح رہے کہ جس طرح اسلام معاشرہ میں مساوات و برابری اور علم ومعرفت کی ہلچل دیکھنا چاہتا ہے اسی طرح وہ معاشرہ میں نیکی وبھلائی کا ہر سودور دورہ ،صلاح ونیکی کا چرچا ،اور شرور فسادات کا اٹھتا جنازہ اور منکرات وبدعنوانیوں کا خاتمہ بھی چا ہتا ہے یعنی اسلا م خیر وصلاح سے معمور سماج اور فتنہ وفساد سے معدوم معاشر ہ کا قائل ہے ۔خداوندقدو س کا ارشادہے : جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی کی باتوں کا چرچا چاہتے ہیں ،انکے لئے دنیا اور آخرت دونوں جہان میں دردناک سز ا مقر رہے ۔حقیقت حال اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے (سورہ نور ؍آیت :19)خلاصہ یہ کہ جماعت او رجماعت کے مابین فرق،فرد اور فرد کے مابین امتیاز کی لعنت سے پاک وصاف معاشرتی عدالت کے قیام کے لئے مذہب اسلام نے بڑی جانفشانی سے کام لیا ،اور ان پڑھ کے لئے علم ،بے کار کے لئے کام کاج،مریض کے لئے دواتجویز کی ۔ جفا کش کسان ،محنتی مزدور اور مجد ملاز م کے لئے پر امن بہتر ین زندگی کی راہ ہموار کی اور خیر و بھلا ئی کا ڈنکا ہر سو بجوادیا ۔

امن وسلامتی کے لئے حقو ق و واجبات کا تصور:

          میں نے اپنے اس مقالہ میں ’’حق‘‘ سے وہ مادی یامعنوی منفعت مراد لیا ہے جو کسی انسان کو شریعت کی جانب سے عطا کیا گیا ہے ،جس کی دفاع اور مطالبہ کا اسے حق حاصل ہے ،خواہ یہ حق فطری ہو مثلا ً:حق پیدائش یا جیسے مختلف انسانی حقوق مثلاً: زندگی ، افزائش نسل ،مختلف قسم کی حریت وآزادی ،اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے ۔یا یہ کہ کوئی التزامی حق ہو جو اس کو باشندہ ،کاریگر ،مدرس،طالب علم،شوہر ،مطلقہ کی حیثیت سے حاصل ہو اہو جیسے رہنے سہنے ،نقل وحمل  یعنی چلنے پھرنے اور کام کاج کے حقوق ۔اور لفظ ’’واجب ‘‘ میر ے اس مقالہ میں شعور واحساس اور دینی ،اخلاقی ،یا معاشرتی ،فریـضہ و ذمہ داری مثلاً : اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ، والدین کی اطاعت و فرمانبرداری ، صدق گو ئی و حق بیانی ،وطن کی حمایت و پاسداری وغیرہ کی ترجمانی کے لئے استعمال ہوا ہے ۔یعنی حق اور واجب یا منفعت اور ذمہ داری دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کہ جہاں حق ہو گا وہاں واجب ضرور ہوگا ۔

         اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حقوق کے مطالبات ہمیشہ باہمی کشمکش اور آپسی کشیدگی کی وجہ  اس طرح بنتے ہیں جس طرح ذمہ داریوں اور فریضوں کو حقوق یعنی کسی منفعت سے مربو ط کئے بغیر انکی ادائے گی پر اصرار حقوق  کے غصب کرلینے،مظالم کے پھیلنے اور غداری کے پنپنے کا سبب بن جاتاہے ۔بنا بریں اسلام نے حقوق کو واجبات سے مربوط کردیا ہے ۔اور ہر انسان کو حقوق و واجبات کا مطلب بھی سمجھا دیاہے اور ہر اُس سے احساس ذمہ داری ،حقوق کا احترام ،ان (حقوق) کی حفاظت و حمایت،انکی ادائے گی کا اہتمام کرنے اور ان کی تضییع سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے اور حقوق دئے جانے اور نہ دئے جا نے کے سلسلہ میں تقویٰ کو معیار بنانے کی ہدایت دی ہے ۔ قرآ ن نے اس سلسلہ میں بنیادی اصول یہ بتایا  ’’ان کل حق یقابلہ واجب ‘‘کہ’’ واجب کے مقابلہ میں ہر چیز حق ہے ‘‘ اللہ کا ارشاد ہے : عورتوں کے حقوق بھی مردوں پر انہی حقوق کی طرح ہیں جو ان  پر مردوں کے ہیں (سورہ بقرہ:آیت:228) آیت میں بتا یا جارہاہے کہ جس طرح عورتوںکے حقوق مردوں پر ہیں اسی طرح عورتوں پر مردوں کی ذمہ داریا ں بھی ہیں ۔علامہ بیضاوی فرماتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق مردوں پر وجوب اور مطالبہ کے استحقاق میں انہی حقوق کی طرح ہیں جو ان پر مردوں کے ہیں (بیضاوی،انوار التنزیل 141/1   مطبوعہ دارالاحیاء بیروت)

     سماجی تعلقات کی راہ سے امن وسلامتی کا قیام:

             معاشرتی تعلقات دراصل وہ سماجی مراسم و روابط کے بندھن ہیں جن سے کسی معاشرہ میں ایک ساتھ زندگی گزارنے والے سبھی افراد  باہمی طورپر ایک دوسرے سے مربوط اور بندھے ہو ئے ہوتے ہیں ،اسلام نے اس پہلو پر کافی توجہ دی ہے اور لوگوں کے مابین سماجی تعلقات کی استواری پر کافی زور صرف کیا ہے ،فرد اور سماج کے گہرے ربط و تعلق پر بڑی باریک بینی سے  بیان کرتے ہوئے اس نے والدین کی اطاعت وفرمانبرداری ،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ،پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ،بھلائی و نیکی کے کام کرنے ،ضرورت مندوں پر ترس کھانے ،مسلمانوں میں اخوت وبھائی چارگی پیدا کرنے ،اچھی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے کو واجب وضروری قراردیا ،نیز ان تمام امور کی انجام دہی کا بھی حکم دیا جن میں انسانیت کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی مستور و پوشیدہ ہے ۔

           چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمایا: اور یہ ایسے ہیں کہ اللہ نے جن تعلقات کو قائم رکھنے کا حکم کیا ہے انکو قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب سے گھبراتے ہیں (سورہ رعد ؍آیت :21)نیز اللہ پاک کا ارشاد ہے : ہم نے توریت میں بنی اسرائیل سے قول و قرار لیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت مت کرنا،اورماں باپ کی اچھی طرح خدمت  گزاری کرنا،اسی طرح اہل قرابت یعنی رشتہ داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا،اور عوام الناس سے خوش خلقی سے پیش آنا یا ان سے اچھی طرح بات کرنا(سورہ بقرہ:آیت  83)اور فرما یا : اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو،والدین کے ساتھ  اچھا معاملہ کرو ،اور اہل قرابت ،یتیموں،محتاجوں کے ساتھ بھی ،پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی ،ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر یعنی مسافر کے ساتھ بھی ،اور انکے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں یعنی غلاموں اور باندیوں کے ساتھ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اپنے کو بڑا سمجھتے  ہوں اور اپنی شیخی بگھاڑ تے ہوں(سورۃ النساء ؍آیت:36) نیز اللہ کا ارشادہے : آپ ان سے کہئے کہ آئو میں تم کو وہ چیز یں پڑھ کر سناتا ہوں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمادیا ہے اور وہ یہ ہیں :(۱) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرائو(۲)والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو(۳)اپنی اولاد کو غربت و افلاس  کے ڈر کی وجہ سے قتل مت کرو،ہم تم کو اور ان کو رزق دیں گے (۴) بے حیائی کے تمام طریقوں خواہ علانیہ ہو ں یا خفیہ انکے پاس بھی مت جائو(۵)اور جن کا خون کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو،یہ خداکا تمہارے لئے تاکیدی حکم ہے تاکہ تم سمجھ سکو یعنی حقیقت حال سے واقف ہو سکو(سورہ انعام :آیت : 152)ایک جگہ اور ارشادربانی ہے : ہم نے انسان کو اپنے ما ںباپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اُس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا ،اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا،اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھوڑانا تیس مہینے میں پور ا ہوتا ہے (سورہ احقاف؍15

          قرآن کریم نے حضرت لقمان ؑ کی اس نصیحت کو بھی نقل کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو سماج و معاشرہ میں بہتر اسلامی زندگی گزارنے کی اپنے اندر اہلیت پیدا کرنے کے لئے دی تھی ۔آیت کا مفہوم یہ ہے ’’بیٹے نماز پڑھا کر،اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر،اور بُرے کاموں سے منع کیا کر اور جو مصیبت تم پر واقع ہو اس پر صبر کیا کر کیونکہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر  اور زمین پر اتراکر مت چل کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی تکبر  کے ساتھ  فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتااور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست ر کھا کرو، بیشک آوازوں میں سب سے بُری آواز گدھوں کی آواز ہے (سورہ لقمان؍19-17)حتیٰ کہ صلح پسند غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہیں  ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے دین حق کے سلسلہ میں نہ جنگ کریں اور نہ تمہیں گھروں سے نکالیں ،اچھا سلوک کرنے اور ان کے ساتھ  عدل وانصاف کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاب کرنے والوں کو پسند فرماتاہے (سور ہ ممتحنہ ؍8)اور ایسے لوگوں کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات وبراری کو ضروری قراردیا ہے ،اللہ کا فرمان ہے : اے ایمان والوں اللہ کے لئے پوری پابندی کرنے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو،اور کسی خاص گروہ سے عداوت تم کو اس بات پر نہ اکسائے کہ تم اس کے ساتھ عدل نہ کرو،عدل کیا کرو کیونکہ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (سورہ مائدہ؍آیت نمبر: 8

         اسلام معاشرتی امن وسلامتی کی بقاء کے لئے مسلم وغیر مسلم دونوں طبقو ں کے مابین باہمی تعاون کی فضا قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ معاشرتی و سماجی مصلحت متحقق اور انسانی بھلائی ہر طرف عام ہو جائے ،جس کی وضاحت اس حلف الفضول نامے معاہدہ سے بھی ہو تی ہے جو کمزوروں کی امداد،حاجت  مندوں کی حاجت روائی ،ستم رسیدوں کی دلاسائی ،مصیبت زدوں کی دلجوئی اورمظلوموں کی حمایت  کے لئے دورجاہلیت میں حضرت محمد ؐ کی موجودگی میں طے پائی تھی ، جس کی اہمیت و افادیت اور قدر ومنزلت سے دنیائے انسانیت کو واقف کراتے ہوئے نبی پاک ؑ نے جو کچھ فرمایا اس کو حضرت طلہ بن عوف نے اس طرح نقل کیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : میں عبد اللہ بن جدعان کی رہائش گاہ پر ایک ایسے معاہد ہ (حلف الفضول) میں شریک تھا جس کے بدلہ میں مجھے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور جس کے لئے اس دور اسلام میں بھی اگر مجھے آواز دی گئی تو میں ضرور لبیک  کہوں گا (بیہقی ؍سنن کبریٰ؍حدیث نمبر:13080؍معرفۃ السنن والآثار؍حدیث نمبر:13232

         خلاصہ یہ کہ اسلام ہر حال میں معاشرتی امن وسلامتی  چاہتا ہے اور سماج میں کسی بھی طرح کی منافرت و معاند ت  کو برداشت نہیں کرتا،وہ ہر شخص کو اس کی قبائلی ،لسانی ،مذہبی ،جنسی ،لونی ،صوبائی ،خاندانی ،نسلی فرق کو نظر انداز کرکے اس کا حق دیتا ہے ،لہٰذا بلکہ کسی شک وشبہ برملا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے بغیر انسانی معاشرہ  میں امن وسلامتی کا قیام ناممکن ہے ۔

  خانگی امن وسلامتی :

    خاندان کو معاشرہ ٔ انسانی کی پہلی  اینٹ یا خشت اول کی حیثیت حاصل، یہ شریعت اسلامی کے ایک خاص حکم کے مطابق عورت و مرد کی باہمی شادی  سے تشکیل  پاتا ہے ،جس کے بعد جنسی تعلقات کے باب میں متعاقدین یعنی عورت ومر د دونوں ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں ،اور جس سے نہ صرف یہ کہ محض انسانی وجود قائم و دائم اور بنی نوع انساں کی بقاء کا راز وابستہ ہے بلکہ اللہ  کی جانب سے اس فانی دنیا کی مقر کردہ مدت کی تکمیل بھی اسی خاندان سے متعلق ہے ۔

            اسلام میں مشروعیت نکاح سے مقصود یہ ہے شوہر وبیوی کے درمیان باہمی الفت و محبت اور شفقت وہمدردی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لئے جانثاری  وجاں سپاری کا جذبہ پیداہو،ان میں باہمی موانست وموافقت، ہم آہنگی ورواداری اوردونوں کے اندر ایک دوسرے کے تعاون کا داعیہ پیدا ہو ،ان میں غربت و اجنبیت اور تنہائی و اکیلے پن کے احساسات باقی نہ رہیں تاکہ مصائب و خدشات کے وقت انہیں اعتماد و بھروسہ کی طاقت حاصل اور ایسے سنگین موڑ پر بھی انہیں سکو ن و اطمینان کی دولت میسر ہو ، گو یا شادی و بیاہ اسلام کی نظر میں ایک مامون و محفوظ پناہ گاہ ہے جن میں پہونچ کرشوہرو بیوی ہر دوصنفوں کو امن وامان ،حفاظت و سلامتی،آرام وراحت ،اطمینان و سکون ،لطف ولذت،روحانی قرار،اورقلبی آسودگی نصیب ہو تی ہے ۔اللہ پاک کا ارشاد ہے : اور اسی کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پا س آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی بیشک اِ س میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں(سورہ روم؍آیت: 21

   ہمیشگی نکاح پر اسلام کی توجہ:

    نکاح چونکہ بندگان رحمانی پر اللہ کی ایک خاص نعمت ہے ،اسی لئے اسلام اس کی دیمومت و ہمیشگی پر پور ی توجہ صرف اور ناکح کو ہر قسم کے شکوک و شبہات کی آلائش سے اپنے دل ودماغ کی تطہیر کا حکم دیتا اور بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اور حسن معاملت کی تلقین کرتا ہے ۔نیز شوہر کو حتیٰ الوسع اپنی منکوحہ کو کسی طرح کی تکلیف وگزند پہونچانے سے ہر ممکن باز رہنے کی سخت ہدایت بھی دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ زندگی بسرکیا کرو،اور اگر وہ تم کو ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ تم  ان کی ایک صفت کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ ا س کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھدے(سورہ نساء ؍آیت :19 )علامہ ابن کثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر کے متعلق لکھا ہے کہ ان (بیویوں ) سے اچھی باتیں کرو،ان کے ساتھ اچھے سلوک کرو، اور ان سے اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق بہترین انداز و کیفیت میں پیش آئو،کہ جس طرح تم ان سے چاہتے ہو ،لہٰذا اس باب میں تم بھی انکے ساتھ اسی طرح  کیا کرو۔(ابن کثیر ؍تفسیر ابن کثیر ؍ج 2ص212)خداتعالیٰ کا ارشادہے او ان کو تکلیف پہونچانے کی غرض سے مت رو کے رکھو ،اس ارادہ سے کہ ان پر ظلم کیا کروگے اورجو شخص ایسا برتائو کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا (سورہ بقرہ :؍آیت :231)اس آیت کریمہ سے شوہر کا بیوی کو کسی قسم کی تکلیف اور نقصان پہونچانا سراسر حرام ہو نا معلوم ہوتاہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے حضور پاک ؑ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال (بیوی بچے ) کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل وعیال کے حق میں تم میں سب سے بہتر ہوں(ابن ماجہ ؍حدیث: 1977) حدیث شریف سے خوشی ومسرت ،اچھے اخلاق و عادات اور بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اور اچھے معاملات کی اہمیت دو دوچار کی طرح معلوم ہو جاتی ہے ۔یہی نہیں بلکہ خود فخر رسالت ؐ نے بسااوقات  شوہر وں کو بیویوں سے خوش رہنے کی ایک ترکیب بتلاتے ہوئے انہیں اپنی بیویوں کے محاسن یعنی خوبیوں کو یادرکھنے اور ان سے نظریں نہ چرانے پر اکسایا بھی ہے ۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی ؐ نے فرمایا: کوئی مومن مرد(شوہر )کسی مومنہ عورت(بیوی) سے نظریں نہ پھیریں بلکہ اگر اسے (شوہر )اس کی (بیوی)ایک (بری)عادت سے نفرت ہو تو اس کی دوسری (اچھی )عادت سے اُسے بہرحال خوش ہونی چاہئے (صحیح مسلم ؍حدیث نمبر:1469

              نکا ح کے مذکورہ بالا مقصد کی تکمیل کے پیش نظر اسلام نے عورتوں مرد دونوں کی فطری کمزوریوں اور جسمانی ساختوں کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے ان کے درمیان حقو ق و واجبات کی مساویانہ تقسیم کی ہے اور عورت پر مرد  کے ہر حق کے عوض مرد پر بھی اس کا حق مقر رکردیا ہے ، اور اس تقسیم میں شارع نے اس با ت کا خاص خیال رکھا ہے کہ  ان کو دئے جانے والے حقوق اور ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں  دونوں کی طبعی اور جسمانی ساختو ں کے لحاظ مناسب و موزو ں ہو ں ۔ارشاد خداوندی ہے : عورتوں پر بھی مردوں کے حقوق ہیں جو انہی حقوق کے مثل ہیں جو ان عورتوں پر مردوں کے ہیں ،ہاں مگر مردوں کا انکے مقابلہ میں کچھ درجہ بڑھا ہو ا ہے (سورہ بقرہ : 228)یاد رہے کہ حقوق وواجبات کی یہ تقسیم دراصل میاں بیوی کے باہمی جھگڑوں اور لڑائیوں کے اسباب و وجوہات  کا خاتمہ کرنے اور انہیں اپنے اپنے حقوق کی ادائے گی کی ترغیب دینے کے لئے عمل میں لائی گئی ہے ۔شادی وبیاہ کی اسی مسنون روایت کو ہمیشگی و دوام بخشنے ہی کی غرض سے دین اسلام میں شوہر و بیوی دونوںکو ایک دوسرے کے لئے اظہار الفت ومحبت کرنے ،ایک دوسرے کی تعریف وتوصیف کرنے ،باہم تعاون ومشورہ کرنے ،ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے ،کسی نا منا سب بات پرہردو طرف سے صبر وتحمل کا مظاہر کرنے ،ایک دوسرے کے عیوب سے چشم پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔نیز اسی سہانی رسم نکاح کو بقاء دوام عطا کرنے کی غرض اور بے شمار مصلحتو ں کے پیش نظر مردوں کو عورتوں کا قوام یعنی قائد و لیڈر بنایا ہے ۔اللہ پاک نے قرآن کریم میں کہلوایا : مرد عورتوں پر اس سبب سے حاکم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ،سوجو عورتیں نیک ہیں مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظت الٰہی نگہداشت کرتی ہیں (سورہ نساء ؍آیت: 34

         خدا کی طر ف  سے مردوں پر عائد کردہ خانگی قیادت کی ـذمہ داری بلاشبہ بہت ہی اہم اور  ایک عظیم ذمہ داری ہے ،جسے بحسن وخوبی انجام دینا بڑی دانشمندی کا متقاضی ہے ۔فیملی یا خاندان چوں کہ معاشرہ کا ہی ایک چھوٹا یونٹ اور وحدہ ہو تا ہے اسی لئے اسے صحیح ہدایت ،سچی قیادت اورمناسب رہبری کی بہت اشد ضرورت ہو تی ہے ، او ر اپنی اس ذمہ داری کو نبھا نے کے لئے جس طرح مرد کسی قابل تقلید نمونہ کا محتاج وضرورت مند ہوتا ہے اسی طرح عورت بھی کسی قابل تقلید نمونہ کی ضرورت محسوس کرتی ہے ، جبکہ عورت کے لئے یہ قابل تقلید نمونہ اس کے شوہر سے بہتر کو ئی نہیں ہوسکتا ،جس سے وہ ازدواجی زندگی کی نشیب وفراز سے گزرنے،رفعت و بلندی کے مدارج طے کرنے اور فلاح وکامیا بی حاصل کرنے کے گُر سیکھ سکے ۔رہا سوال یہ کہ کیا صرف اسلا م ہی  دنیا کا و ہ واحد مذہب ہے جس نے ہمیشگی نکاح یا رواج شادی کو لباس دوام پہناننے کے لئے سب سے زیادہ زوردیا ہے ،تو اس کامسکت و ملز م جواب اور دندان شکن دلیل یہ ہے کہ اس مذہب میں فسخ نکاح یعنی طلاق وخلع کی اجازت و مشروعیت صرف اور صرف نا گزیر وجوہات اور لاعلاج دشوار اسباب کی بنیا د پر ہے اور جب تک فریقین کی باہمی زندگی ایک دوسرے سے الگ نہ ہونے کی وجہ اجیر ن نہ بن جائے اس وقت تک طلا ق کی گنجائش نہیں ہے ۔حضرت عبدا اللہ بن عمر ؓ نے حـضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیاہے :’’ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ‘‘  یعنی حلال امور میں اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض وناپسندیدہ امر ’’طلاق ‘‘ ہے (ابودائود؍حدیث:2178،ابن ماجہ ؍حدیث: 2018

 خاتمہ:

    آخر میں ان چند اہم نتائج کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہو ں جو میں نے اپنے اس مقالہ کے دوران محسوس کئے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں:

(۱)    اسلام پر امن زندگی کی دعوت دیتا ہے ۔

(۲)    معاشرہ میں امن وسلامتی کے قیام پر اسلام سب سے زیادہ زور دیتا ہے ۔

(۳)    مذہب اسلام میں غیر مسلموں سے بہتر سماجی تعلقات رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ صلح پسند غیر مسلموں سے سماجی تعلقات بہتر بنا نے کی ہدایت بھی دی گئی ہے ۔

(۴)    سماجی کشیدگی کوختم کرنے کے لئے اسلام نے حقو ق کو واجبات سے مربو ط کر دیا ہے ۔

(۵)    اسلام خانگی سلامتی اور ہمیشگی  نکاح پر کافی زور دیتا ہے ۔

(۶)    میاں بیوی کے درمیان حقوق وواجبات کی تقسیم ہمیشگی ِ نکاح کے لئے ہے ۔

(۷)    

سخ نکاح یعنی طلاق کی اجازت صرف جبری اسباب اور ناگزیر ضرورتوں پر موقوف ہے

(یو این این

عربی تحریر:      ڈاکٹر پروفیسر محمد شاہ جہاں ندوی


  اردوترجمہ:    شفاء اللہ ندوی
 کریم گنج جھٹکی سیتا مڑھی
9419966805  

********************************

                                      

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 825