donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aaj Bhi Inqilab La Sakti Hai Khwaja Gharib Nawaz Ki Talimat


آج بھی انقلاب لاسکتی ہیںخواجہ غریب نواز کی تعلیمات


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کو جس شخصیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ہیں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔ بادشاہوں نے اس سرزمین کو فتح کیا اور اسے اپنے زیر اقتدار رکھا مگر صوفیہ کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے، جس نے اللہ کے بندوں کو اس کی بارگاہ سے قریب لانے کا کام کیا۔ اس خطے کو اگر تلوار کے دھنی افراد نے فتح کیا تو عوام کے دلوں کو فتح کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا کام اللہ کے ان نیک بندوں نے کیا جن کے قافلہ سالار ہندوستان میں خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے یہاں اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور جس شمع کو آپ نے یہاں روشن کیا تھا اس کی حفاظت کا کام ان بزرگوں نے کیا جو آپ کے روحانی جانشیں تھے۔ خواجہ اجمیری کا آستانہ آج بھی دکھی دلوں کا سہارا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں سکون قلب کے لئے آتے ہیں۔ جس طرح آپ کی زندگی لوگوں کے لئے مینارۂ نور تھی ، اسی طرح تعلیمات بھی عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔

خواجہ صاحب کے عہد میں خانقاہی نظام اپنے عروج پر تھا اور صوفیہ کی خانقاہیں تعلیم وتعلم کا اہم مقام ہوا کرتی تھیں کیونکہ تصوف کے لئے لازمی شرط علم ہے۔ اسی لئے یہاں آنے والے اور صوفیہ کی صحبت اختیار کرنے والے اگر عالم نہیں ہوتے تو بھی ان کے اندر علمی صلاحیت پیدا کی جاتی تھی۔ ایسی سینکڑوں مثالیں مل جائینگی کہ جنھوں نے علم نہیں پایا تھا انھوں نے بھی یہاں آکر علم حاصل کیا اور پھر سلوک وعرفان کے راستے پر چلے۔ان صوفیہ کی تعلیمات آج بھی موجود ہیں اور ان سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز کی تعلیمات جو سیرالعارفین، دلیل العارفین، بزم صوفیہ، وغیرہ کتب کے صفحات پر بکھری ہیں‘ وہ ہم تک تین طریقے سے پہنچی ہیں۔ اول وہ تعلیمات جو آپ اپنی مجلسوں میں دیاکرتے تھے ۔یہ اسلام کی تعلیم تھی جو آپ کی زبان سے ادا ہوتی تھی۔ آپ کی تعلیم کا انداز بہت سیدھا سادہ ہوا کرتا تھا۔ جو بھی تعلیم فرماتے‘ اس کے تعلق سے بزرگوں کی حکایات بیان کرتے۔دوسری وہ تعلیم ہے‘ جو روز مرہ کی زندگی میں آپ کی زبان سے نکلتی تھی۔ انھیں آپ کے اقوال زریں کہہ سکتے ہیں۔آپ کے ایک ایک جملہ کے اندر انسانی رشدوہدایت کاچشمہ پھوٹتا تھا۔حضرت خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کا تیسرا ذریعہ آپ کے خطوط ہیں جو ارادتمندوں کو لکھے گئے ہیں۔ ایسے خطوط کم ملتے ہیں۔ آپ کے کچھ خطوط حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے نام ہیں۔

خواجہ صاحب کی زندگی پاکیزہ تھی اور انتہائی سادگی کے ساتھ گزرتی تھی ۔آپ کا قول ہے کہ’’عارف سے ادنیٰ سی بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ وہ ملک ومال سے بیزار ہوجاتا ہے۔‘‘ اور آپ کی پوری زندگی اسی قول کی تعبیر نظر آتی ہے۔

 ہم ذیل میں خواجہ غریب نواز کی تعلیمات سے کچھ جھلکیاں پیش کرتے ہیں جن میں سے بیشتر ملفوظات کے مجموعے ’’دلیل العارفین‘‘(جامع:خواجہ قطب الدین بختیارکاکی) اور انیس الارواح (ملفوظات ِ خواجہ عثمان ہارونی، جامع:خواجہ معین الدین چشتی)سے ماخوذ ہیں۔

نماز کی فضیلت

دلیل العارفین کی ابتدا نماز کی فضیلت سے ہوتی ہے، کیونکہ نماز کو تصوف میں خصوصی مقام حاصل ہے۔یہ اللہ تک رسائی کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور روحانیت کی بنیاد ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’صرف نماز ہی ایسا فریضہ ہے جس سے لوگ نزدیک ہوسکتے ہیں ، اس لئے کہ نماز مومن کی معراج ہے، حدیث میں آیا ہے کہ، الصلوٰۃ معراج المومن۔ تمام مقام سے بڑھ کر نماز ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاپ نماز کی بدولت ہی ہوتا ہے۔

پھر فرمایا:نماز ایک راز ہے، جو بندہ خالق سے بیان کرتا ہے۔ وہی قرب پاسکتا ہے جو راز کے قابل ہو۔ نماز کے بغیر یہ راز حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

نماز کی فضیلت کا بیان خواجہ صاحب کی ملفوظات میں بہت زیادہ ملتا ہے اور دوسرے صوفیہ بھی اس پر زور دیتے ہیں، لیکن صوفیہ صرف رسمی نماز کو کافی نہیں جانتے ۔ وہ ایسی نماز کا حکم دیتے ہیں جو خشوع و خضوع کے ساتھ ہو۔ جس میں انسان دلجمعی کے ساتھ اللہ کی جانب مائل ہو جائے۔نماز ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض ہے اور محبت الٰہی کانمونہ ہے کہ انسان اپنے ہر کام کاج کوچھوڑکر رب العالمین کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ نماز کسی بھی حالت میں ترک کرنا جائز نہیں ہے مگر آج نماز سے غفلت کاجو حال ہے وہ محتاج بیان نہیں۔بقول اقبالؔ

مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ ،کیسے ہیں وہ مسلمان ‘جووقت پر نمازادا نہیں کرتے اور اس قدر دیر کرتے ہیں کہ وقت گذرجاتا ہے اور اپنے کلمہ کی تائید حدیث سے کرتے ہیں کہ دووقت کی نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرکے پڑھنا سب سے بڑا گناہ ہے۔

عارف کی حالت

تصوف نام ہے عرفانِ خداوندی کے راستے کا۔ اس پر چلنے والے اپنے پیدا کرنے والے مالک کا عرفان حاصل کرتے ہیں۔ صوفیہ اس راستے کو طویل اور مشکلوں سے بھرا ہوا مانتے ہیں۔ اس راستے پر چلنے والوں کو دوران سفر مختلف قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں:

’’عرفان میں ایک حالت ہوتی ہے، جب اس پر یہ حالت طاری ہوتی ہے ، تو وہ ایک ہی قدم میں عرش سے حجاب عظمت تک کا فاصلہ طے کرلیتا ہے۔ وہاں سے حجاب کبریا تک پہنچ جاتے ہیں، پھر دوسرے قدم پر اپنے مقام پر آجاتے ہیں۔ (پھر خواجہ صاحب آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا) عارف کا سب سے کم درجہ یہی ہے، لیکن کامل کا درجہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک ہے۔‘‘

(دلیل العارفین،مجلس۔1)

عرفان و تصوف کی راہ ہی خداشناسی کی راہ ہے۔ یہاں منزل تک رسائی کے لئے کئی مشکل مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس راہ پر چلنے والے زہدوتقویٰ اور عبادت وریاضت کو اپنا معمول بنالیتے ہیں۔ جس طرح موتی پانے کے لئے سمندر میں غوطے لگانا پڑتا ہے اسی طرح عرفان حق کے لئے بھی عبادت و ریاضت کے دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

کبیرا یہ گھر پریم کا خالہ کا گھر ناہیں
جو شیش بھوئیں دھرے،سوپیٹھے گھر ماہیں

 درجات تصوف

جیسا کہ ذکر ہوا تصوف کے مختلف درجات ہیں۔ ان درجات کے بارے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’شریعت پر چلنے والے ثابت قدم ہوجاتے ہیں اور تمام فرمان بجا لاتے ہیں۔ جب طریقت میں کامل ہوجاتے ہیں تو معرفت کو پہنچتے ہیںاور شناخت و شناسائی کا مقام آجاتاہے۔ جب اس مقام میں ثابت قدم ہوجاتے ہیں تو درجہ حقیقت کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس مقام کو پہنچ کر جو کچھ طلب کرتے ہیں ، وہ پالیتے ہیں۔

 (دلیل العارفین، مجلس۔2)

شریعت کو اس کی روح کے مطابق عمل میں لانا ہی راہ طریقت کا مقصد ہے۔ شریعت پر کامل طور پر عمل کرنے والا ہی طریقت کے راستے کا مسافر کہا جاتا ہے۔ انسان اللہ کے احکام پر جس قدر عامل ہوگا وہ اسی قدر کامل سالک ہوگا۔

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:

 ’’ عاشق کا دل محبت کا آتش کدہ ہوتاہے۔جو کچھ اس میں جائے اسے جلا دیتا ہے اور ناچیز کردیتا ہے کیونکہ عشق کی آگ (FIRE OF LOVE)سے بڑھ کر کوئی آگ تیز نہیں ہے۔‘‘

 دلیل العارفین، مجلس۔۹

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

خدمت خلق

اللہ تک پہنچنے کا بہتر راستہ ہے اس کے بندوں کی خدمت کرنا۔ چونکہ اللہ کو اپنی مخلوق سے پیار ہے اور وہ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں لہٰذا صوفیہ کے ہاں بھی اس پر عمل پایا جاتا ہے۔ اللہ والوں کی خانقاہیں ہمیشہ بندگان خدا کے لئے کھلی رہتی تھیں اور یہاں سے ہر کوئی اپنے مسئلے کا حل پایا کرتا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی کا آستانہ بھی لوگوں کے لئے ہمیشہ پناہ گاہ بنا رہتا تھا اور اسی لئے آپ فرماتے ہیں:

’’عاجزوں کی فریادرسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔‘‘

 (دلیل العارفین،مجلس۔6)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جس میں یہ تین خصلتیں ہونگی، وہ اس حقیقت کو جان لے کہ خدائے تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ اول سخاوت دریا کی طرح۔ دوسرے شفقت،آسمان کی طرح۔ تیسرے خاکساری زمین کی طرح۔ فرمایا ، جس کسی نے نعمت پائی ، سخاوت سے پائی اور جو تقدم حاصل کرتا ہے، صفائے باطن سے حاصل کرتا ہے۔‘‘   

(سیرالاولیائ، صفحہ128،از امیر خورد)

    اللہ کے بندوںکی خدمت کرنا ، ان کے دکھ درد میں کام آنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنا اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دور کرنا خواجہ غریب نواز کی زندگی کا مقصد تھا۔ آپ کے بعد جو لوگ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے انھوں نے بھی آپ کے سبق کو یاد رکھا اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے رہے۔ اسی مقصد سے صوفیہ خانقاہیں قائم کرتے تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جگہ جگہ خدمت خلق کی تاکید آئی ہے۔ آپ بار بار اس جانب اپنے پیروکاروں کو مائل کرتے تھے۔خواجہ غریب نواز نے خدمت خلق کا جو کام شروع کیا تھا وہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے والے اس پر عامل رہے۔ حالانکہ آج خانقاہی نظام مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور جو ہے وہ محض رسمی ہے مگر جن کاموں کی شروعات پہلے ہوچکی تھی اس کی جھلک آج بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ آج بھی خانقاہوں میں لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے جو اسی لنگر کی یاد ہے جو صوفیہ کی خانقاہوں میں چلا کرتا تھا۔ حالانکہ آج کل خانقاہیں صرف نام کی رہ گئی ہیں اور یہ تعلیماتِ صوفیہ کا مقتل بن گئی ہیں۔خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنی مجلسوں میں بار بار خدمت خلق کادرس دیا کرتے تھے۔ آپ نے جو اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات جمع کئے ہیں، ان میں مرشد کے حوالے سے حضرت خواجہ حسن بصری کی کتاب آثار الاولیاء کا ایک حصہ نقل کیا ہے :

’’صدقہ ایک نور ہے ،صدقہ جنت کی حوروں کا زیور ہے اور صدقہ اسی ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے جو پڑھی جائے۔ صدقہ دینے والے روزِ حشر عرش کے سائے میں ہونگے ۔ جس نے موت سے قبل صدقہ دیا ہوگا وہ اللہ کی رحمت سے دور نہ ہوگا۔پھر فرمایا صدقہ جنت کی راہ ہے ،جو صدقہ دیتا ہے وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔

    حضرت خواجہ شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ کا لنگر صبح سے رات گئے تک جاری رہتا ، جوکوئی آتا کھا نا کھا کر جاتا ۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر لنگر میں کچھ نہ ہوتو پانی سے تواضع کروکوئی خالی نہ جائے ۔

    پھر فرمایا زمین بھی سخی آدمی پر فخر کرتی ہے ،جب وہ چلتا ہے تو نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔،،

    انیس الارواح

(ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی،مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی)  

    اسی لئے خدمت خلق سلسلہ چشتیہ میں صدیوں تک جاری رہا اور جب تک اس سلسلے کے صوفیہ موجود رہے وہ خواجہ صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرتے رہے۔ خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد کے کئی اقوال تحریر کئے ہیں جو خدمت خلق کے سلسلے میں ہیں۔ ایک مقام پر ہے:

    ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے ، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداء میں ہوگا ۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اسکی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے ،اور جنت میں اس کے لئے ایک محل مخصوص کرتا ہے ۔ ،،  

 انیس الارواح،مجلس۔۱۰  

     ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے :  

’’میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سنا کہ اللہ تعالیٰ تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے ،پہلے وہ باہمت لوگ جو محنت کرکے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں ۔تیسرے وہ جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔،،  

انیس الارواح،مجلس۔۲۰

    صوفیہ کا ماننا تھا کہ انسان، اللہ کی صفت خلق کا مظہر ہے اور اسی لئے وہ انسان سے بے حد محبت کرتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی خدمت سے خوش ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ اس پر زور دیتے ہیں۔

سورہ فاتحہ شفا ہے

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے مختلف اوقات میں پریشانیوں کے لئے اوراد ووظائف بتائے ہیں۔ آپ کے بتائے ہوئے وظائف ملفوظات اور تذکروں میں ملتے ہیں۔ آپ نے فرمایا :

’’سورہ فاتحہ تمام دردوں اور بیماریوں کے لئے شفا ہے۔ جس بیماری کا علاج نہ ہو، صبح کی نماز میں سنتوں اور فرضوں کے درمیان ۴۱مرتبہ بسم اللہ اور سورہ فاتحہ پڑھنے اور اس کے دم کرنے سے دور ہوجاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ سورہ فاتحہ ہردرد کی دوا ہے۔

    پھر فرمایا: ایک موقع پر ہارون رشید کو سخت بیماری لاحق ہوئی۔ جب علاج سے عاجز آگیا تو اس نے وزیر کو خواجہ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیجا۔ آپ نے آکر۴۱مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرا ۔اسے صحت ہوگئی۔ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی بیمار کے اوپر سورہ فاتحہ پڑھ کردم کیا، وہ صحت مند ہوگیا۔ کسی نے پوچھا کیسے صحت یاب ہوئے؟ اس نے ماجرا طنزاً بیان کیا۔ ابھی وہ بات ختم کرنے نہ پایا تھا کہ پھر وہی بیماری لاحق ہوئی اور وہ مرگیا۔ یہ بد اعتقادی کا نتیجہ ہے۔‘‘ دلیل العارفین، مجلس۷
     قرآن مجید ہدایت اور شفا ہے۔ سورہ فاتحہ کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ اسے سبع مثانی کہا گیا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی محفلوں میں اکثر قرآن کریم کے اوراد وظائف کا ذکر ہوتا تھا۔

صحبت کا اثر

    یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ اچھوں کی صحبت میں آدمی اچھا ہوتا ہے اور بروں کی صحبت اسے خراب کردیتی ہے۔ پھولوں کی خوشبو تیل میں آجاتی  اور اسے عطر میں تبدیل کردیتی ہے ۔ بزرگوں کی طرف سے بچوں کو اچھی صحبت اختیار کرنے کی نصیحت اسی لئے دی جاتی ہے کہ وہ اچھی باتیں سیکھیں گے اور درست راستہ اختیار کریںگے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ علیہ  کے ہاں بھی اس قسم کی تعلیم ملتی ہے مگر منفرد انداز میں۔ آپ فرماتے ہیں :

’’سلوک میں آیا ہے کہ نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بری ہے۔‘‘

    (دلیل العارفین،مجلس۱۰)

    اسی مقصد کے تحت لوگ صوفیہ کی محفلوں میں آتے تھے اور ان سے فیوض وبرکات حاصل کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان پاک محفلوں میں آنے جانے والوں کی اکثر زندگی میں تبدیلی آئی ہے اور ان کی زندگی آخرت رخی ہوگئی ہے۔

اعتدال کی زندگی

    اسلام اعتدال کا راستہ ہے اور بے اعتدالی ہی اسلام سے دوری ہے۔ فطرت انسانی کا تقاضہ یہی ہے کہ آدمی بیچ بیچ کا راستہ اپنائے۔ کسی بھی معاملے میں بے اعتدالی درست نہیں ہے۔ انسان اگر اپنے روزمرہ کے معمولات میں بھی بے اعتدالی کرتا ہے تو اس کے لئے نقصاندہ ہوسکتی ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:

’’توبۃ النصوح تین باتیں ہیں۔ اول کم کھانا روزے کے لئے۔ دوسرے کم سونا اطاعت کے لئے۔ تیسرے کم بولنا دعاء کے لئے۔ پہلے سے خوف، دوسرے اور تیسرے سے محبت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

 (دلیل العارفین،مجلس۱۱)

     صوفیہ عبادت وریاضت کی کثرت کے لئے جانے جاتے تھے اور اس کے لئے کھانے، سونے اور بولنے میں اعتدال ضروری ہے۔ صوفیہ کا پیغام ہی اعتدا ل کا پیغام تھا اسی لئے انھوں نے کسی سے نفرت کرنا نہیں سکھایا۔ انھوں نے انسانیت، محبت اور بھائی چارہ کی تعلیم دی۔   

بیٹیوں سے محبت

    آج کل سماج میں جس قسم کی نفرتیں عام ہوتی جا رہی ہیں،انھیں کی ایک قسم ہے بیٹیوں سے نفرت ۔ بچے اللہ کا تحفہ ہوتے ہیں اور انسان اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے مگر ہمارے ملک میں یہ بات عام ہے کہ لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ہی قتل کردیا جاتا ہے۔ جدید طبی آلات سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ پیدائش سے پہلے بچے کی جنس کی تشخیص ہو سکے ۔ بھارت ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں دختر کشی ( FEMALE FOETICIDE)کے واقعات سب سے زیادہ ہورہے ہیں۔اس کا اثر یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں لڑکیوں کی تعداد بے حدکم ہو گئی ہے۔کچھ ضلعے تو ایسے ہیں جہاں چھ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی تعداد ہزار لڑکوں کے مقابلے چھ،سات سو کے قریب ہے ۔یہ لڑکیاں اگر کسی طرح پیدا ہوجاتی ہیں تو ان کے ساتھ دوسرا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے بھید بھاؤ کے ساتھ انکی پرورش کا۔ مگر تصوف کی نظر میں انسان برابر ہیں۔ مرد اور عورت کا فرق ایسا نہیں کہ اس کے چلتے عورتوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جائے۔خواجہ غریب نواز نے اپنے مرشدحضرت خواجہ عثمان ہارونی کا قول نقل کیا ہے:

    ’’بیٹیاں اللہ کا تحفہ ہیں،وہ شخص جسے اللہ نے بیٹی دی ہے وہ اسے پیار کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے تو اللہ اس پر راضی اور خوش ہوتا ہے۔ جس نے لڑکی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا اللہ اسے سترحج کا ثواب دیتا ہے ۔گویا اس نے ستر غلام آزاد کئے ۔جو ماں باپ لڑکیوں سے محبت کرتے ہیں اور ان پر مہربان ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہوتا ہے اور رحمت فرماتا ہے۔،،

    انیس الارواح، مجلس ۔۱۰

     آج جو لوگ بیٹیوں کے ساتھ سوتیلا برتائو کرتے ہیں ان کے لئے صوفیہ کے اقوال عبرت کا سامان ہیں۔

جانوروں کے ساتھ اچھے برتائو کی تعلیم

    صوفیہ کی تعلیمات میں انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتائو کا حکم ملتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ انھوں نے جانوروں کے ساتھ اچھاسلوک کیا اور اپنے پیروکاروں کو عملی درس دیا۔خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے ایک حدیث کے حوالے سے فرمایا:

’’جو شخص خواہش نفس کے لئے جانور تلف کرے ،گویا اس نے خانہ کعبہ ویران کرنے کی کوشش کی ،مگر جہاں جانورذبح کرنا ہے اگر وہاں کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔۔۔ پھر فرمایا فرمانِ مصطفوی ہے کہ جس شخص نے کسی جانور کو آگ میں پھینکا یا بے رحمی سے مارڈالا اس کا کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا لگاتار دو ماہ کے روزے رکھے۔،،

    انیس الارواح،مجلس ۔۱۱

    انسانیت کی برتری اسی میں ہے کہ وہ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھے اور انھیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آج ایسی تنظیمیں بن گئی ہیں جو جانوروں کے تعلق سے کام کرتی ہیں مگر صوفیہ نے یہ تعلیم بہت پہلے دی تھی اور حضرت خواجہ غریب نواز کے اقوال وافعال میں اس قسم کا درس بہت زیادہ ہے۔

    خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور صوفیہ کی تعلیمات اسلام کے جمالیاتی رخ کو پیش کرتی ہیں۔آج دنیا جن مسائل سے نبرد آزما ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان اخلاقی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے اور انسان مادہ پرستی کا غلام ہوچکا ہے۔ آج بچوں کو جو تعلیم ابتدا سے ہی دی جاتی ہے اس میں اخلاقی تعلیمات بالکل نہیں ہوتیں، معیشت کو نظر میں رکھ کر نصاب تعلیم تیار کیا جاتا ہے۔دورِ حاضر کا تقاضہ ہے کہ ایک بار پھرصوفیہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیم کی طرف لوٹا جائے۔      


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

******************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 665