donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bhai Chara Aur Samaji Yakjahti Sufia Ke Aqwaal Ki Raushni Me


بھائی چارہ اور سماجی یکجہتی

 

صوفیہ کے اقوال کی روشنی میں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    سماج بنتا ہے انسانوں سے۔ یہ انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر کسی کی جسمانی اور ذہنی بناوٹ ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ کوئی گورا تو کوئی کالا ہوتا ہے۔ کوئی لمبا تو کوئی پستہ قد ہوتا ہے۔ کوئی زود رنج تو کوئی نرم خو ہوتا ہے۔ کسی کے مزاج میں تشدد ہوتا ہے تو کوئی امن پسند ہوتا ہے۔ کوئی محفل کو پسند کرتا ہے تو کوئی تنہائی کا خواہاں ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں کی ضرورتیں بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیںاور سب کی خواہشات کا رخ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی آدھی روٹی میں خوش تو کسی کو پورا ملک مل جائے تب بھی زیادہ کی چاہت۔ کسی کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا اور کسی کے پاس غذا کا انبار۔ اسی تنوع اور رنگا رنگی کو معاشرہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اسے درست رکھنا ان سبھی لوگوں کی ذمہ داری جو اس کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی بھی سبھی انسانوں پر لازم ہے اور تصوف کی تعلیمات اس قدر انسانیت دوست ہیں کہ وہ سماج کو بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کے بندھن میں باندھنے کا بڑا کام کرتی ہیں۔ تصوف کی نظر میں انسان تو بس انسان ہے اور سب انسان ایک خالق کی مخلوق ہیں لہٰذا اس نسبت سے سب کی خیر خواہی کی ذمہ داری سب پر ہے۔ اگر ایک شخص دوسرے کی بھلائی کے لئے کام نہ کرے تو بھی دوسرے اس کی بھلائی کا خیال رکھیں ،یہی تصوف کا سبق ہے اور صوفیہ نے اپنے کردار سے اسی کا درس دیا۔ 

آدمیت جذبۂ ایثار ہونا چاہئے

آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے

    اچھوں کے ساتھ اچھا برتائو تو سب کرتے ہیں لیکن جو آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے، اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا غیر معمولی بات ہے اور تصوف میں اسی کا درس دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں مثال کے طور پر ایک مشہور صوفی حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ کا واقعہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایک بار ایک مکان کرایے پر لیا۔پاس ہی ایک یہودی کا مکان تھا جو اپنے گھر کی گندگی، پرنالے سے بہا دیا کرتا تھا اور وہ گندگی آپ کے گھر میں چلی آتی تھی۔ اُس نے ایک مدت تک ایسا کیا مگر آپ نے کوئی شکایت نہیں کی ۔البتہ آپ خود ہی اسکی صفائی کردیا کرتے تھے، ایک دن اس نے پوچھا کہ میں جو نالے سے گندگی بہادیتا ہوں اس سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی ؟ آپ نے فرمایا تکلیف تو ہوتی ہے مگر میں نے اسکی صفائی کے لئے ایک جھاڑو اور ایک ٹوکری رکھ چھوڑی ہے ۔ اُسی سے صفائی کر دیتا ہوں۔ظاہر ہے اِس جواب کے بعد اس کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہ ہوگا۔  

(سچی حکایات،پنجم، بحوالہ تذکرۃ الاولیائ)
    پڑوسیوں کے بیچ جھگڑے کے جو اسباب ہوتے ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب ردعمل ہے ، مگر جو ردعمل(RE ACTION) حضرت مالک بن دینار کی طرف سے دیکھنے کو ملا، ایسا ردعمل ہمارے سماج میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔اگر اسی طرح کا ردعمل پڑوسیوں کی طرف سے ہونے لگے تو تمام جھگڑے ہی تمام ہو جائیں۔

مسئلے خود بخود حل ہوجائیںگے 

اپنی اپنی حدوں میں رہا کیجئے

امام محمدغزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:    

    ’’جان لو آپسی محبت ،اچھے اخلاق اور اختلاف بد اخلاقی کا نتیجہ ہے۔ اچھے اخلاق باہم محبت، الفت اورموافقت کا سبب ہوتے ہیں اور برے اخلاق سے بغض وعداوت، حسد اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے جیسی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔جب پیڑ اچھا ہو تو اس کا پھل عمدہ ہوتا ہے ۔‘‘

   (جلد دوم ،صفحہ ۳۶۲ )
    عظیم مبلغِ اسلام اور کشمیرمیں روحانی اور سماجی انقلاب برپا کرنے والے حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’ذخیرۃ الملوک‘ میں لکھتے ہیں:

    ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے خذالعفووامر بالمعروف واعرض عن الجاہلین (عفو اختیار کرو اور اچھائیوں کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائو۔)جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے رسول اللہﷺسے اس کی تفسیر پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جو شخص بے رحمی سے تجھ سے تعلق توڑے تو مہربانی سے اس کے ساتھ مل جا اور جو تجھ کو بھلائی سے محروم رکھے تو جہاں تک ہوسکے اس پر ایثار ہی کرتارہ اور جو تجھ پر ظلم کرے تو اس کے ساتھ وفاداری سے برتائوکر۔‘‘            

(صفحہ،۱۱۲)
    محبت اوراچھے اخلاق میں طاقت ہوتی ہے ۔یہ طاقت نفرت کو مٹاسکتی ہے اسی لئے یہ حکم ہے کہ جو برائی کرے اس کے ساتھ بھی بھلائی کا برتائو کرو، جو تعلق توڑنے کی کوشش کرے، اس کے ساتھ بھی بھلائی کرو اور جو ظلم کرے اس کے ساتھ بھی وفاداری کرو۔ ظاہر ہے کہ محبت ،اخلاق، ایثار اور وفاداری کی طاقت ، نفرت، بے رحمی، ظلم کو مٹاسکتی ہے۔

گالیوں کے بدلے، دعائیں

     اسی طرح کی ایک حکایت حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے تذکروں میں بھی ملتی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان بیٹھا سارنگی بجا رہا تھا آپ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر آپ لاحول پڑھنے لگے ،وہ اس سے اسقدر آگ بگولہ ہوا کہ سارنگی سے کھینچ کر آپ کے سر پر دے مارا ۔ اس سے نہ صرف بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا سر پھٹ گیا بلکہ اسکی سارنگی بھی ٹوٹ گئی۔ آپ نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر جاکر سارنگی کی قیمت کے ساتھ ساتھ کچھ مٹھائیاں بھی اس کے پاس بھیج دیں ۔اور کہلا بھیجا کہ، بھائی تمہاری سارنگی ٹوٹ گئی یہ اسکی قیمت ہے۔ اور سارنگی ٹوٹنے سے جو تمہیں تکلیف ہوئی اسے دورکرنے کے لئے یہ مٹھائی ہے۔ اس اخلاق نے اسے ہمیشہ کے لئے آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ 
(یہ واقعہ تذکرۃ الاولیاء اور افضل الفوائد، ملفوظات نظام الدین اولیاء فصل۔۲۱ میںدرج ہے)

    لڑائی جھگڑے اور باہمی منافرت ہمارے سماج کا قابلِ نفرت حصہ ہیں۔ ہمارے قیمتی وقت کا ایک بڑاحصہ اسی طرح کی فضول باتوں میں گزر جاتا ہے۔تھانہ پولس اور کورٹ ،کچہری اسی کی بدولت قائم ہیں۔عوام کے کروڑوں روپئے سالانہ اسی کی نذر ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ہم نفرت کا جواب محبت سے دینا سیکھ لیں تو ہمارے کئی مسائل خودبخود حل ہو جائیں۔تصوف میں آدمی کو اسی کے لئے راضی کیا جاتا ہے۔یہاں محبت ہی محبت ہے،پیار ہی پیار ہے،ایسے میں کہاں کی لڑائی اور کیساجھگڑا؟

برائی کا بدلہ بھلائی

    حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے حاضر باشوں میں ہر طبقے کے لوگ ہوتے تھے ۔ شاہزادوں اور درباریوں سے لے کر عام غریب لوگ بھی موجود رہتے تھے۔ بعض حاسد قسم کے لوگ بھی آپ کی محفل میں آتے تو بعض جان چھڑکنے والے عقیدت مند بھی ہوتے تھے۔ آپ کے ملفوظات کے جامع امیر حسن سنجری ایک مجلس کا ذکر کرتے ہیں:

    ’’حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا کہ بعض آدمیوں نے جناب کو ہر موقع پر برا کہا وہ آپکی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے سننے کی ہم تاب نہیں لا سکتے ۔خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب کو معاف کیا تم بھی معاف کردواور کسی سے دشمنی نہ کرو ۔ بعد ازاں فرمایا کہ چھجو ،ساکن اندیپ ہمیشہ مجھے برا بھلا کہاکرتا اور میری برائی کے درپے رہتا۔ برا کہنا سہل ہے لیکن برا چاہنا اس سے برا ہے۔ الغرض جب وہ مرگیا تومیں تیسرے روز اسکی قبر پر گیا اور دعاء کی کہ پروردگار!جس نے میرے حق میں برا بھلا کہا ،میں اس سے درگزرا، تو میری وجہ سے اسے عذاب نہ کرنا۔ا س بارے میں فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے مابین رنجش ہو تو دور کردینی چاہیے۔اگر ایک شخص دور کر دیگا تو دوسرے کی طرف سے کم تکلیف ہوگی۔ ،،

(جلد ۳،مجلس ۔۵)  
    آدمی کی شخصیت اچھائیوں اوربرائیوں سے بنی ہے ،وہ کئی بار غیراخلاقی (IMMORAL)کام بھی کرتا ہے مگر اس کی برائی کا جواب اچھائی سے دینے والے کم ہی ملتے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر ایک شخص کانٹے بوتا ہے اور اس کے جواب میں دوسرا بھی کانٹے بوئے تو پھر ایک سلسلہ چل پڑے گا اور یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائیگی اور کانٹوں کی وجہ سے یہاں گزر بسر ناممکن ہوجائیگا مگر کانٹوں کے جواب میں اگر پھول بوئے جانے لگیں تو کتنا اچھا ہو۔ یہ دنیا گلزار بن جائے اور جنت کا نمونہ لگنے لگے۔تصوف کی تعلیمات میں یہی خوبی ہے کہ یہ انسان کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتی رہتی ہیں کہ وہ ایک انسان ہے اور اللہ کا بندہ ہے، جسے چند روزہ زندگی کے بعد اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔ جو زندگی عنقریب ختم ہونے والی ہے اس میں نفرت اور بد اخلاقی کی کھیتی کیا کرنا۔ 

    محبت سماج کو جوڑنے والی چیز ہے۔ دشمن کو بھی دوست بنانے والی چیز ہے۔ اسی لئے تصوف میں سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے محبت پر۔ بھائی چارے پر۔ ایک دوسرے کی غمخواری پر۔ اپنے عہد کے معروف صوفی حضرت ابو حمزہ بغدادی کا قول ہے: 

    ’’جب تمہارا جسم تم سے سلامتی پائے تو جان لو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور جب لوگ تم سے محفوظ رہیں تو جان لو کہ تم نے ان کا حق ادا کردیا۔،،    

(کشف المحجوب،صفحہ ۲۳۰)
    یعنی خود کو سلامت رکھنا، اپنے جسم کا حق ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کی بھی بھلائی چاہے۔یہ دوسرں کا حق ہے کہ وہ ہماری اذیت اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔ سماج کی خیر خواہی اور خدا کے بندوں کی بھلائی ، یہ وہ انسانی صفات ہیں جن پر تصوف میں خاص دھیان دیا جاتاہے اور انھیں عبادت تصور کیا جاتا ہے۔

یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

خدمت ِ خلق سے محبت پھیلتی ہے

     خدمت ِ خلق یعنی انسان کی خدمت اور لوگوں کی سیوا صوفیوں کا طریقہ رہا ہے ۔وہ اپنی خانقاہوں سے کئی کام خدمت کے جذبے سے کرتے تھے۔ خانقاہوں نے سماج سیوا کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں ، جو بادشاہوں اورامیروں کے لئے بھی ناممکن تھیں ۔ ایسی خانقاہیں ان سبھی ممالک میں پھیلی تھیں ،جہاں صوفیہ تھے ،انکے نظریات وخیالات تھے اور تصوف کے سلاسل موجود تھے ۔دلّی کی سب سے مشہور خانقاہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ تھی جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔اس خانقاہ کی طرف سے روزانہ ہزاروں افراد کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا۔جو غریب ونادار نہیں آسکتے تھے،ان کے گھرکھانا بھیج دیا جاتا تھا۔کئی غریب خاندانوں کے لئے وظیفے مقرر تھے جو پابندی کے ساتھ ہر مہینے انھیں بھیج دیئے جاتے تھے ۔علمائ،حفاظ اور فقراء ومساکین کی مدد کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا رہتا ۔علم حاصل کرنے والے طلباء کے اخراجات خانقاہ سے ہی پورے کئے جاتے تھے۔جو غریب خاندان دلی سے دور جنوبی ہند میں تھے انکی مدد کے لئے بھی یہاں سے پیسے بھیج دیئے جاتے تھے۔شادی بیاہ کے موقعوں پر لوگ خانقاہ کی طرف مدد کے لئے دیکھتے تھے۔ اس خانقاہ کی یہ حالت تھی کہ ہر جمعہ کو جھاڑو پھیردیا جاتا تھا اور کوئی بھی چیز باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی جو کچھ بھی بچا کھچا ہوتا اسے خیرات کردیا جاتا تھا۔ یہ روایت صرف اسی خانقاہ کی نہیں تھی دیگرخانقاہوں میں بھی اسی قسم کی سماجی خدمات کا سلسلہ جاری تھا ۔اس کے پیچھے صوفیہ کی خاص سوچ تھی، جسکی جھلک خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان میں ملتی ہے :

    ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے ، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداء میں ہوگا ۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اسکی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے ،اور جنت میں اس کے لئے ایک محل مخصوص کرتا ہے ۔ ،،  
                           (انیس الارواح،مجلس۔۱۰)  

 ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے :  

    ’’میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سنا کہ اللہ تعالیٰ تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے ،پہلے وہ باہمت لوگ جو محنت کرکے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں ۔تیسرے وہ جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔،،  

(انیس الارواح،مجلس۔۲۰)

اسی طرح حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : 

    ’’کھانا کھلانا سبھی مذاہب میں پسندیدہ ہے ۔،،   

             (فوائدالفواد،جلد۔۱ ،مجلس۔۱۷)

    اس قسم کے اقوال صوفیہ کے ملفوظات اور انکی کتابوں میں بہت زیادہ ملتے ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خدمت خلق کو کتنا پسند کرتے ہیں ۔وہ اس خدمت کو نہ صرف خدا تک پہونچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے انسانوں میں محبت اور بھائی چارہ کی اشاعت کا ذریعہ بھی تصور کرتے تھے ۔ 

(بشکریہ صوفی میڈیا سروس۔یو این این)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 1050