donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Shabe Barat Ya Kharafat Ki Rat


شبِ برأت یا خرافات کی رات


مسلمانوں نے عبادت کی رات کو دیوالی کیوں بنادی؟


تحریر: غوث سیوانی


    پندرہوین شعبان کی رات کو شبِ برأت کہتے ہیں۔یہ وہ مبارک رات ہے ،جس کی فضیلت بعض احادیث میں مروی ہے اور اسی کے پیشِ نظر دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلمان اس رات میں عبادت، تلاوت، صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور نیک اعمال میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ اس رات میں قبروں کی زیارت کا سلسلہ بھی عہد قدیم سے چلا آرہا ہے ،مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ خلاف شریعت رسوم بھی ہیں جن میں سب سے بری رسم آتش بازی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں اس رات میں عبادت و ریاضت کرنا چاہئے اور دعاء و درود میں رات گزارنی چاہئے وہیں اس رات کو خرافات اور خلاف شرع کاموں سے پاک کرنا بھی لازم ہے۔

شبِ برأت کی آتش بازی

    شب برأت کے رسوم میں ایک بہت بری رسم آتش بازی کی ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ملتی باوجود اس کے سینکڑوں سال سے اس کا رواج برصغیر ہندو پاک میں چلا آرہاہے۔ دلی کے حکمراں فیروز شاہ تغلق کے دور میں بھی یہ رواج تھا اور تاریخی حوالوں کے مطابق آتش بازی میں خود بادشاہ بھی شریک ہوتا تھا۔ اس موقع پر پورے شہر میں چراغاں اور آتش بازی ہوتی تھی۔ یونہی دکن کے حکمراں اور حیدر آباد شہر کے بانی محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں بھی شب برأت کی رسوم کا ذکر ملتا ہے۔شب برأت کی آتشبازی اور رسوم کا ذکر معروف شاعر نظیرؔ اکبر آبادی کے کلام میں ملتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان کے عہد میں یہ رسمیں جاری تھیں۔نظیرؔ کی نظم ’’شب برات‘‘ کی ابتدا یوں ہوتی ہے:

کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
چلپک، چپاتی، حلوے سے ہے بھاری شب برات
زندوں کی ہے زباں کی مزیداری شب برات
مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برات
لگتی ہے سب کے دل کو غرض پیاری شب برات

     کتابوں میں مذکور تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں سینکڑوں سال سے شب برأت منائی جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ بعض خلاف شریعت رسمیں بھی چلی آرہی ہیں جن سے اس مبارک رات کو پاک کرنا ضروری ہے۔ اس رات میں پٹاخے جلانا نہ صرف اس کی حرمت کے خلاف ہے بلکہ اسلام کی نظر میں بھی فضول خرچی ہے جس کے بارے میں قرآن میں ارشاد فرمایا گیا کہ ’’بیشک فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔

شبِ برأت اسی کام کے لئے ہے؟

    زمانۂ حال میں شب برأت میں جو رسوم جڑی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نوجوان لڑکے پوری رات ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان  اور دوسرے سے تیسرے قبرستان گھومتے رہتے ہیں ۔ یونہی بڑے شہروں میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس رات میں موٹر سائیکلوں پوری رات چکر لگاتے ہیں۔ راجدھانی دلی میں تو عجیب و غریب صورتحال رہتی ہے اور کھلے عام ٹرافک ضابطوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور قانون شکن عناضر اس رات میں اس قدر آزاد نظر آتے ہیں کہ ان کے سامنے پولس اور انتطامیہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ یہ باتیں شب برأت کی حرمت ہی نہیں بلکہ اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔راجدھانی میں اس رات سینکڑوں بائیکرس کو سر پر اسلامی ٹوپیاں رکھے ہوئے اسٹنٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ایک بائک پر چار چار جوانوں کی سواری عام بات ہوتی ہے، جن کے سر پر ہلمٹ نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ بغیر ہلمٹ کے گاڑی چلانا اور اسٹنٹ کرنا ،دونوں خود کو خطرے میں ڈالنے کے ہم معنیٰ ہیں اور خود کشی کے مترادف  ہیں جن کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ ملکی قانون کی دھجیاں اڑانا بھی اسلام کی نظر میں کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ دلی کے تمام ٹی وی چینل شب برأت کے دوسرے دن یہ خبر دکھاتے ہیں کہ رات بھر بائکرس نے شہر میں ہنگامہ مچایا اور پولس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسی کے ساتھ اسلامی ٹوپی سر پر ڈالے ہوئے، مسلم نوجوانوں کی ویزول دکھائے جاتے ہیں جو مسلمان اور اسلام دونون کے تصویر کو مسخ کرنے والی بات ہوتی ہے مگر اس کے لئے زمہ دار بہرحال ہمارے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ مبارک رات جو عبادت کی رات ہے، جو تلاوت قرآن کی رات ہے، جو قبولیت دعاء کی رات ہے، جس میں تجلیات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور جس میں اللہ کی رحمت بندوں کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اس میں دعاء و درود سے غافل ہوکر فضول کاموں میں وقت گذارنا کس قدر محرومی اور بد قسمتی کی بات ہے؟     

فضائل شبِ برأت

    بعض کتابوں میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک عابد کا ذکر رسول اکرم ﷺ کی مجلس میں آیا جس کی عمر بہت طویل تھی اور اس نے سینکڑوں سال عبادت میں گذارے تھے۔ صحابہ کو تعجب ہوا اور رشک بھی آیا کہ امت محمدیہ کے افراد کی عمریں بہت مختصر ہیں اگر وہ چاہیں تو بھی اس قدر عبادت نہیں کرسکتے ۔ اس پر انھیں اللہ نے یہ رات مرحمت فرمائی جس میں عبادت کا ثواب پانچ سو سال تک عبادت کے برابر ملتا ہے۔ حالانکہ بعض محدثین کے مطابق مذکورہ بالا روایت شب قدر کے بارے میں ہے۔ ویسے اس رات کے بارے میں بھی کچھ حدیثیں علماء نے تحریر کی ہیں۔ایک حدیث حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھوکیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلی سورج کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمان ِ دنیا پر ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اسے بخش دوں؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ اسے عطا کروں ؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اسے چھوڑ دوں ؟ کیا کوئی فلان فلان حاجت والا ہے ، میں اس کی حاجت پوری کردوں؟ یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔
    اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اس رات کی خصوصی فضیلت ہے اور یہ رحمت و مغفرت کی رات ہے۔ اس رات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ جب یہ تجلیٔ الٰہی کی رات ہے اور قبولیت دعا کا وقت ہے تو اس رات کو غنیمت جان کر اسے عبادت اور دعاء میں بسر کرنا خوش  ْقسمتی کی بات ہے۔ اس رات کو خرافات میں گذارنا محرومی ہے۔

    ترمذی شریف میں ایک حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پایا تو وہ مدینہ کے قبرستان بقیع میں مجھے ملے۔ تب آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیںاس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا ،یا رسول اللہ! میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ تب آپ نے فرمایا ،بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ تو قبیلہ بنی سعد کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہگاروں کو بخشتا ہے۔

    شاید یہی سبب ہے کہ اس رات میں قبروں کی زیارت کی روایت چل پڑی اور اس رات میں قبرستانوں میں بھیڑ ہونے لگی۔ ایک دوسری روایت جو کہ بیہقی شریف کی ہے،اس میں فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں ہر وہ بچہ لکھ دیا جاتا ہے جو سال بھر کے اندر پیدا ہونے والا ہو ،اور اس آدمی کا نام لکھ دیا جاتا ہے جو سال بھر میں مرنے والا ہو۔ اس رات میں اعمال، آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں سب کا رزق اتارا جاتا ہے۔

    شب برأت میں مسلمانوں کو عبادت و ریاضت کرتے ہوئے عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اللہ کے عبادت گذار بندے پوری پوری بیدار رہ کر نوافل پڑھتے ہیں اور تلاوت و دعا میں رات بتاتے ہیں۔ قبرستانوں میں بھیڑ دیکھی جاتی ہے مگر اکثر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ یہاں شریعت کے خلاف کام ہوتے ہیں۔ قبروں کی زیارت کے بھی آداب ہیں جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا مگر اب تم قبروں کی زیارت کرو کہ وہ دنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت کی یاد دلانے والا ہے۔

     اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ابتدا میں قبروں کی زیارت سے روکا گیا تھا مگر بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی کیونکہ قبروں کی زیارت کے سبب انسان کا دل دنیا کے بجائے آخرت سے لگ جاتا ہے اور وہ آخرت کا انتظام کرنے لگتا ہے۔  

زیارت قبور کا طریقہ

    اس کے علاوہ بھی مختلف حدیثوں میں زیارت قبور کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور زیارت کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ خود رسول اکرمﷺ زیارت قبور کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب کوئی قبرستان میں جائے تو سلام کرے اور اللہ کے رسول ﷺ بھی جب قبروں کے پاس سے گذرتے تو سلام کیا کرتے تھے۔ آپ شہدائے بدر کی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں بھی جانے کا ثبوت احادیث میں ملتا ہے۔ علماء نے زیارت قبور کا طریقہ یہ لکھا ہے کہ جب جائیں تو قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں پڑھ کر مردوں کے لئے ایصال ثواب کریں اور مغفرت کی دعاء کریں۔ یہی طریقہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو شب برأت میں زیارت قبور کے لئے جاتے ہیں۔  

قبروں کا حترام   

    قبرستان جانے والوں کے لئے لازم ہے کہ وہ قبروں کا احترام کریں اور ان کے اوپر قدم نہ رکھیں۔ یہ اہل قبر کے لئے تکلیف دہ ہے۔عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ قبرستان جانے والے اپنے عزیزوں کی قبر تک پہنچنے کے لئے کئی قبروں کے اوپر سے گذرتے ہیں جب کہ نہ تو یہ درست ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔ قبروں پر آگ جلانا سخت ممنوع ہے لہذا قبروں کے اوپر اگر بتی اور موم بتی بھی نہیں جلانا چاہئے۔ شب برأت میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ قبروں کے اوپر موم بتیاں سلگا دیتے ہیں،اسے علماء نے منع فرمایا ہے۔ البتہ قبرستان میں آنے جانے والوں کے لئے اگر موم بتی و اگر بتی سلگائی گئی ہواور وہ قبروں کے اوپر نہ ہو تو جائز ہے۔ مردوں تک نہ تو موم بتی کی روشنی پہنچتی ہے اور نہ ہی اگر بتی کی خوشبو جاتی ہے لہذااسے اگر قبرستان میں کسی مقام پر سلگایا جائے ، اس نیت سے کہ آنے جانے والوں کو روشنی ملے گی تو درست ہے۔ البتہ جہاں بجلی کی لائٹوں سے ہر طرف اجالا ہے وہاں موم بتیاں سلگانا محض ایک رسم ہے ،جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ شب برأت میں قبرستان جانے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔


رابطہ

Email:gahussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 832