donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Taameere Seerat Me Sunnate Nabvi Ki Ahmiyat


تعمیرِسیرت میں سنتِ نبوی کی اہمیت


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی

 

خاک جب خاکستار ہوتی ہے
کس  قدر باوقار  ہوتی ہے


انسان کس بنیاد پر بڑاہوتاہے؟ دولت؟ رتبے؟ اعلیٰ تعلیمی ڈگری؟ شہرت، کے سبب یاکسی اور وجہ سے؟ عام طورپر دنیامیں انسان کی بلندی کا معیار اس کی دولت یا شہرت واعلیٰ مرتبے کو مانا جاتا ہے مگر انسان کی بلندی کا ایک الگ ہی معیار رسول اکرم ﷺنے قائم فرمایا۔ یہ بلندی مذکورہ اسباب میں سے کسی سبب سے نہیں تھی بلکہ اخلاق وکردار ‘ انسانی ہمدردی وغمخواری اور خوفِ خداکی بنیاد پر تھی۔ آپ نے خود ایک سادہ زندگی بسر کی اور اپنے بجائے دنیا کے دوسرے لوگوں کے آرام کاخیال کیا اور اسی کی آپ نے دنیا کو دعوت بھی دی۔ چنانچہ آپ کے اصحاب واولاد نے بھی اسی اخلاقی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں بسرکیں۔

خوراک میں سادگی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی اصلاح کا کام مکہ معظمہ سے شروع کیا اور مدینہ منورہ تک جاری رہا۔ مکہ میں آپ کے سامنے بہت سی رکاوٹیں آئیں ‘جن کا آپ سامنا کرتے رہے ‘مگر جب مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو یہاں کے لوگوں نے آپ کو اپنا سردار تسلیم کرلیا۔ گویا آپ ان کے حکمراں ہوگئے اور دنیا کی اس پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بن گئے۔ اب ملک کی دولت‘ معیشت معاشرت اور انصاف وسیکوریٹی کے تمام معاملات آپ کے ماتحت تھے۔ صحابہ کرام آپ کے ایک اشارے پر اپنی زندگیاں قربان کرنے کو تیار تھے۔ دھیرے دھیرے پورا عرب آپ کے ماتحت آگیاتھا اور اس وقت کی عظیم شہنشاہیوں کے دروازوں پر آپ کے غلام دستک دینے لگے تھے مگر اس کے باوجود آپ ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ بلکہ ایک عام آدمی سے بھی کم وسائل آپ کے پاس ہوتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ کئی بار ہمارے گھر میں ایک ایک مہینہ تک چولہا نہیں جلتا کیونکہ ہمارے پاس کچھ کھانے کے لئے نہ ہوتا۔ اکثر جوکی روٹی تناول فرماتے ‘کبھی سالن سے اور کبھی سالن نہیں ہوتا‘ تو بغیر سالن کے ہی کھالیا کرتے تھے۔ اسی حالت میں آپ کے اہل وعیال آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ام المومنین کا بیان ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمایا‘ تو ہمارے گھر میں تھوڑے سے جوکے آٹے کے سوا کچھ بھی نہ تھا، لیکن یہ سب باوجود اس کے ہوتا کہ آپ کی خدمت میں کئی بار مال ودولت کے انبار آتے ‘مگر شام ہونے تک انہیں ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ کبھی اپنے گھر کے لئے کچھ بچا کر نہیں رکھتے۔

لباس میں سادگی

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بھی بہت معمولی ہوا کرتاتھا۔ جو لباس بھی زیب تن فرماتے‘ وہ تواضع اور انکساری کا نمونہ ہوتا۔ کبھی قیمتی اور زیب وزینت والا لباس نہیں پہنتے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ جمعہ‘عیدین اور سفیروں کی آمد پر شاندار کپڑے پہنیں مگر آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ایک بار راستے میں ریشمی کپڑا بک رہا تھا۔ حضرت عمرنے خرید لینے کی گذارش کی تاکہ خاص خاص مواقع پر اسے پہنیں‘ مگر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

 وہ  پہنے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک موٹا تہبند نکال کر لوگوں کو دکھایا اور بتایا کہ انہیں کپڑں میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ کپڑوں کی طرح آپ کا بستر بھی بہت سادہ ہوتا تھا۔ کبھی کھردری ٹاٹ‘ تو کبھی کمبل اور کبھی کھجور کی چھال بھرے ہوئے گدے پر سورہتے تھے‘ مگر اس سادگی کے باجود آپ صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ صفائی آدھا ایمان ہے۔ آپ کے جسم اقدس سے مشک وعنبر کی خوشبو آتی تھی اور آپ کا پسینہ مبارک بھی قدرتی طور پر خوشبودار ہوا کرتاتھا۔ پھٹے ہوئے کپڑے کبھی نہیں پہنتے اور اس سے منع فرمایا کرتے۔ ایسے کپڑے کو سل لیتے یا پیوند لگاکر درست کرلیتے تھے۔

انسانی زندگی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ وہی انسان حساس سمجھاجاتا ہے جو ہر چھوٹی بات کا بھی خیال رکھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کچھ ایسے ہی اصول نظرآتے ہیںکیونکہ آپ کے اخلاق وکردار میں ہر خوبی موجود تھی اور ہر خرابی سے آپ پاک تھے۔

سب سے اعلیٰ و اولیٰ ہمارا نبی
سب سے بالاووالاہمارانبی
مسکراتے رہئے

انسان کے چہرے کی مسکراہٹ اس کی خوش مزاجی کا پتہ دیتی ہے ور موجودہ دور میں تومسکراہٹ کو بھی کامیابی کا ضامن سمجھاجاتا ہے ا۔سی لئے کئی قسم کے کاروبار میں مسکرانے کے گر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ ریسپشنس پر بیٹھنے والوں، مارکیٹنگ کا کام کرنے والوںاور شوبزنس سے متعلق لوگوں کو مسکراتے رہنے کی خاص تاکید ہوتی ہے‘ مگر مسکرانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطری عادت تھی۔ جوشخص بھی آپ کے مبارک چہرے کو دیکھتا‘ اس مسکراہٹ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا شخص نہیں دیکھا۔

(ترمذی)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اس  تبسم  کی  عادت  پہ  لاکھوں  سلام

چست اور تندرست رہئے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سستی کاہلی کو پسند نہیں فرماتے تھے۔آپ خود چست وتندرست رہتے تھے اور کاہلی سے بچنے کی دعا فرمایاکرتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ ’’سیدھے سادے رہو‘ میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش باش رہو‘‘( مشکوٰۃ) آپ میانہ رو تھے اور کسی کام میں تکلف کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ دو بیٹوںکے سہارے گھسٹتا ہوا جارہا ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ لوگوںنے بتایا کہ اس نے منت مانی ہے کہ کعبہ تک پیدل جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ بوڑھا خود کو عذا ب میں مبتلا کرے اور اس بوڑھے کو حکم دیا کہ سوارہوکر اپنا سفر پورا کرو۔

تری  رہ گذر کا  ذرہ  سرِتاجِ کہکشاں  ہے
’تری سادگی کے صدقے ترا شہر گلستاں ہے‘

جسم ومنہ کی صفائی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اصول صحت کا بے حد خیال رکھتے تھے اور اسی لئے آپ اکثر مسواک کرتے تھے۔ منہ کی صفائی کئی بیماریوں کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیتی ہے اور آدمی کو صحت مند رکھتی ہے۔ آپ جب بھی سوکر اٹھتے تو مسواک کرتے اور پانچوں وقت وضو سے پہلے مسواک ضرور کرتے۔ ایک بار آپ سے ملنے کے لئے کچھ لوگ آئے جن کے دانت پیلے پیلے تھے۔ آپ کی نظر پڑی توفرمایا تمہارے دانت پیلے پیلے کیو ںہو رہے ہیں۔ مسواک کیا کرو(مسند امام احمد) اسی طرح آپ جسمانی صفائی کی بھی تاکید کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک دن غسل کیا کرے اور اپنے سروبدن کو دھویا کرے

( بخاری)

دوسروں سے محبت

 انسان اپنے گھرو الے‘ والدین‘اولاد اور عزیزوں سے محبت کرتا ہے‘ مگر یہ محبت محدود رکھنے کی چیز نہیں بلکہ اسے عام کرناچاہئے۔ اللہ کے رسول نے انسانوں سے محبت اور اخلاق ومروت کی تعلیم دی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مومن سراپا الفت ومحبت ہے اور اس آدمی میں کوئی خیروخوبی نہیں ہے جونہ دوسروں سے محبت کرے اور نہ دوسرے ہی اس سے محبت کریں۔(مشکوٰۃ) ایک اور جگہ آپ نے سب کو مل جل کر رہنے کی تاکید فرمائی خواہ اس کے سبب کوئی پریشانی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرتاہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جولوگوں سے الگ تھلگ رہتاہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر دل برداشتہ ہوتا ہے

(ترمذی)

آدمیت ،جذبۂ ایثار  ہونا چاہئے
آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے

خندہ پیشانی سے گفتگو کرو

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور پوری توجہ سے اس کی گفتگو سنتے تھے۔ آپ کے پاس آنے والے کسی قبیلے کے سردار یا سفیر ہوں یا پھرکوئی غریب ومسکین شخص ہو،آپ سب کی طرف توجہ رکھتے اور سب کی باتوں کو دھیان سے سنتے تھے۔ صحابی رسول حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس توجہ اور خلوص کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوتے اور اتنا خیال رکھتے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید میں اپنی قوم کا سب سے بہتر آدمی ہوں۔

مزاج کی نرمی انسان کو دوسروں سے ممتا ز کرتی ہے اور اسے مقبول بناتی ہے۔ اسی طرح اس کی مسکان اس کے دل کی کیفیت کا پتہ دیتی ہے۔ سخت مزاج انسان کو لوگ پسند نہیںکرتے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس آدمی کا پتہ بتائوں، جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور جو آگ پر حرام ہے، یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ہو‘نرم طبیعت ہو اور نرم خوہو۔ (ترمذی) اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرادینا بھی صدقہ ہے

(ترمذی)

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 762