donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Sami
Title :
   Love Marriage

 

لو میرج

 

…محمد سمیع…


’’لو میرج نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ہم نہ مشرقی روایات کی پاسداری کررہے ہیں اور نہ مغربی معاشرے کی تقلید۔ معاشرہ کھچڑی بن چکا ہے۔ گھر سے بھاگ کر شادی کا انجام لڑائی ،مارکٹائی اور پھر طلاق ہوتاہے۔‘‘یہ وہ آبزرویشن ہے جولاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد فرخ عرفان خان نے دی ہے۔ انہوں نے وہ حقائق بیان کیے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ واقعات یہ ہیں کہ اگر اس حوالے سے سروے کیا جائے تو پتا چلے گا کہ جو شادیاں بزرگوں کی مرضی سے ہوتی ہیں، ان کے نتائج جو لو میرج کے حوالے سے جسٹس صاحب نے بیان کیے ہیں ان میں کوئی نسبت و تناسب ہی نہیں۔ انہوں نے مشرقی روایات کی جو بات کی ہے اس کی جگہ وہ اسلامی تعلیمات کی اصطلاح استعمال کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ اگر بزرگوں کی مرضی سے ہونے والی شادیوں کے حوالے سے جو اس قسم کے نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جن کی تعداد بدقسمتی سے دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے وہ اس لیے ہے کہ مشرقی روایات میں ہندوانہ معاشرے کے اثرات ہمارے ہاں در آئے ہیں۔ ان کا تذکرہ ان شاء اللہ آگے آئے گا۔ دراصل دونوں قسم کی شادیوں میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ نکاح کے حوالے سے ہماری ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ آیے ذرا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔


نکاح کے حوالے سے جو ہمیں پہلی تعلیم ملتی ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کے بالغ ہوجانے کی صورت میں ان کی فوری شادی کی فکر کرنا ہے۔ اس تاکید کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ اگر نکاح میں تاخیرکی بناء پر خدانخواستہ اولاد بے راہ روی کا شکار ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا گیا ہے،۔الحمد للہ ،  دین کے اس حکم پر بالعموم عمل کیا جاتا ہے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ہمارا خاندانی نظام جو اللہ کے فضل و کرم سے اب تک بچا ہوا ہے اس میں دراڑیں ڈالنے کے لیے مغرب کوشاں ہے۔ہم نے مغرب کے سیاسی اور معاشی نظام کو تو تقریباً اپنا ہی لیا ہے ۔مغربی جمہوریت ہمارے سیاستدانوں کے لیے جن میں صاحبان جبہ و دستاربھی شامل ہیں،نیلم پری بنی ہوئی ہے بقول علامہ اقبال کے: 

کیا امامان سیاست کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنادیتی ہے اس کی ایک ھو

اسی طرح ہمارا معاشی نظام بھی مغرب کی تقلید میں سود پراستوار کیا جاچکا ہے۔ اب ہمارے معاشرتی نظام پر بھی مغرب اثر انداز ہونے کی پوری کوشش میں مصروف ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ ہمارے پارلیمنٹیرینز ایسی قانون سازی کے لیے پر تول رہے ہیں جس کے ذریعے ایک خاص عمر تک شادی پر پابندی ہوگی۔


پسند کی شادی اس دینی  تعلیم سے انحراف کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں رسول اللہؐ کے ارشاد گرامی کے مطابق ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔(مسند احمد،ابودائو،ترمذی، ابن ماجہ)۔اس حدیث کی تشریح میں مولانا منٓظڑ حسن گیلانی  ؒ نے معارف الحدیث میں فرمایا ہے ’’کہ حدیث کا مقصد و مدعا بظاہر یہ ہے کہ نکاح ولی ہی کے ذریعے ہونا چاہیے۔ عورت کے لیے ٹھیک نہیں کہ وہ خود اپنا نکا ح کرے۔یہ اس کے شرف اور مقام حیا کے بھی خلاف ہے اور اس سے خرابیاں پیدا ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے۔ ‘‘ہاں ایک اورحدیث مبارکہ کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اپنے بارے میں اصل اختیار عورت ہی کا ہے۔ولی اس کی مرضی اور رائے کے خلاف اس کانکاح نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ ؐ کے فرمان کے مطابق شوہر دیدہ عورت کا اپنے نفس کے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ حق اوراختیار ہے اور باکرہ (کنواری) کے باپ کو بھی چاہیے کہ اس کے نکاح کے بارے میں اس کی

(اجازت حاصل کرلے اور اس کی خاموشی بھی اجازت ہے۔(صحیح مسلم


نکاح کو آسان بنانے کے ضمن میں صرف مندرجہ ذیل باتوں کی ہمارے دین نے تعلیم دی ہے۔:


۱)دین مہر: سورئہ نساء آیت ۱ میں فرمایا گیا:’’اپنی بیویوں کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو۔‘‘ مہر کی ادائیگی کے بارے میں تاکید کا اندازہ حضور ؐ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہرپر نکاح کیا اور اس کے دل میں اس حق مہر کی ادائیگی کا ارادہ نہیں ہے تو قیامت میں اللہ کے حضور زناکار کی حیثیت سے پیش ہوگا۔ (طبرانی) اس حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہے کہ دین مہر کی کوئی مخصوص رقم مقرر نہیں کی گئی ہے۔

۲) نکاح :جو گواہان کی موجودگی میں منعقد ہو۔ اس میں بھی آسانی کے لیے مسجد میں نکاح کی

ترغیب دی گئی ہے۔
۳)
دعوت ولیمہ: اآیے دیکھیں کہ حضورؐ نے دعوت ولیمہ میں کیا کیا پیش کیا:’’حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنی کسی بیوی کے نکاح پر ایسا ولیمہ نہیں کیا جیسا کہ حضرت زینت بنت جحشؓ کے نکاح کے موقع پر کیا ۔پوری ایک بکری پر ولیمہ کیا۔‘(متفق علیہ)‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور سب بیویوں سے نکاح پر آپؐ نے جو ولیمہ کی دعوت کی تھی وہ اس سے مختصر اورہلکے پیمانے پر کی تھی۔چنانچہ صحیح بخاری میں  صفیہ بنت شیبہ ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے بعض بیویوں کے نکاح پر جو ولیمہ کی دعوت کی تو صرف دو سیر جو کام آئے اور حضرت انسؓ سے یہ بیان مروی ہے کہ رسول اللہ ؐؐنے جب حضرت صفیہ ؓ کو نکاح میں لیا تو دعوت ولیمہ کے موقع پر دسترخوان پر گوشت روٹی کچھ نہیں تھا۔کچھ کھجوریں تھیں اور کچھ پنیر اور مکھن تھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کے لیے باقاعدہ کھانے کی دعوت بھی ضروری نہیں ۔کھانے پینے کی جو بھی مناسب اور مرغوب چیز میسر ہو ،رکھ دی جائے۔لیکن بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ہم مسلمانوں نے جہیز کی طرح ولیمہ کو بھی ایک مصیبت بنالیا ہے جبکہ جہیز کا اسلامی تعلیمات میں کوئی تذکرہ ہی نہیں۔ حضرت فاطمہؓ  کے نکاح پر جو سامان حضور ؐ نے انہیںفراہم کیا تھا وہ حضرت علیؓ کے وکیل کے طور پر اور انہی کی فراہم کردہ رقم کے ذریعے خرید کیے گئے تھے جو ان کی زرہ کے فروخت کے عوض ملی تھی۔ اگر اسے جہیز کانام دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ حضورؐ کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے مواقع پر کوئی جہیز کی روایت کیوں دستیاب نہیں۔اسی طرح ہم نے بارات کی رسم ایجاد کرلی اور اس موقع پر لڑکی والوں کی جانب سے کھانے کی دعوت کولازم کرلیا۔اس کے علاوہ ہم نے شادی کے موقع پر رسومات کا ایک طومار باندھ لیاہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی شادی ایک بڑا مسئلہ بن کر رہ گئی ہے۔


اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمایے۔ ہمارے دین نے کسب معاش کی ذمہ داری مرد پر رکھی تھی۔اب یہ ذمہ داری بھی لوگوں نے بڑی ہوشیاری سے خواتین کو منتقل کردی ہے۔ وجہ حب دنیا کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دنیوی ترقی اور معیار زندگی کو بلند کرنے کی خاطر جب خواتین کو گھر سے باہر نکالا گیا تو جو اس کی اصل ذمہ داری تھی وہ پس منظر میں چلی گئی۔ اس کے جو ثمرات بد پیدا ہوئے اس پر تو کوئی گفتگو کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ دنیوی زندگی کی چکا چو ند نے ان کی بینائی اس لائق رہنے ہی نہیں دی جو وہ اس جانب نظر ڈالیں۔چلیے اگر آپ دنیوی ترقی میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے تو کم از کم خواتین کے لیے باہر ایسے مواقع پیدا کریں کہ وہ شرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کسب معاش کرسکیں۔ دفاتر میں انہیں مخصوص ماحول فراہم کریں کہ انہیںاپنے فرض کی ادائیگی کے لیے مردوں سے رابطہ کی ضرورت نہ رہے۔ عورتوں اور مردوں کی مخلوط معاشرت کی ہمارے دین میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس کے برعکس ہم نے اپنے دفاتر میں، تعلیم گاہوں میں حتیٰ کہ سماجی تقریبات میں عورتوں اور مردوں کو اکٹھا کردیا ہے۔ ایسے میں ان کے لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ ستر و حجاب کی پابندی کرسکیں۔ایک طرف لڑکیوں کی شادی کی مشکلات اور دوسری جانب عورتوںاور مردوں کے اختلاط کے نتائج ہی تو ہیں جو لڑکیوں کو گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی پر اکساتی ہیں۔اس کے نتیجے میں ایک طر ف وہ اپنے گھر والوں سے کٹ جاتی ہیں تو دوسری طرف اس کے سسرال والے اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نوبت بقول جسٹس صاحب کے لڑائی ،مارکٹائی اور طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔


اس صورتحال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ دین کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بچوں کی بروقت شادیوں کا اہتمام کریں ۔گو کہ موجود ہ معاشرے میں ایسا ہونا امر محال نظر آتا ہے تاہم عزیمت کی راہ اختیار کی جائے تو یہ ناممکن بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ آپ برادری سے کٹ جائیں گے۔دین سے جڑے رہنے کی قیمت برادری کے بائیکاٹ کی صورت میں بہت ہی کم ہے جو ہمیں ادا کرنی پڑے گی۔اگر بامر مجبوری آپ کے لیے دنیا سے کٹنا محال ہو تو حکومتی سطح پر اس کی کوشش کی جاسکتی ہے جس کے نتیجے میںخواتین اپنے گھر وںمیں رہ کر کاٹیج انڈسٹری چلاسکیں۔ مردوں کے لیے الگ اور عورتوں کے لیے الگ ہسپتال قائم کیے جاسکتے ہیں۔ عورتوں کے لیے عورتیں نرس ہوں اور مردوں کے لیے مرد نرس ہوں۔ پرائمری سطح تک کی تعلیم گاہیں عورتوں کے سپرد کردی جائیں۔ مخلوط تعلیم کا خاتمہ کرکے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ درسگا ہیں قائم کی جائیں۔ اس کے علاوہ بھی عورتوں کو لیے روزی کے ایسے ذرائع پیدا کیے جاسکتے ہیں جہاں ان کا مردوں سے رابطہ ضروری نہ ہو۔اگر نیت اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہو تو حکومت کے لیے یہ کچھ کرنا پڑے گا۔اگر ہم ایسا کچھ نہیں کرسکتے تو عدالتوں میں ازدواجی مسائل پر مقدمات آتے رہیں گے اور ہمارے جج حضرات ایسے ہی آبزرویشنز دیتے رہیںگے۔

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1140