donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Zakawat Hussain Qasmi
Title :
   Mufti Zakawat Hussain Qasmi

   حج ایک بڑی توبہ ہے

 

:مفتی ذکاوت حسین قاسمی

 

وَاَذِّ ن ْفی الناس با لحج۔۔

(حج:۲۷)


حج  اصل میں ایک ایسی توبہ ہے جو خداکے سب سے پہلے اور بڑے گھرمیں اپنی عاجزی اورذلت کااظہارکرتے ہوئے دوبناسلے کپڑے پہنے ِننگے سردیوانگی کی صورت میںحاضرہوکرکی جاتی ہے ،اس کیفیت کے ساتھ کہ حاجی کی بیحدعاجزی و ذلت کے گواہ کعبہ کے د رودیوار،ذرہ ذرہ ،صفامروہ، مقام ابراہیم ،کعبہ کی چوکھٹ، حجراسود، اور میزاب رحمت سب ہی ہوتے  ہیںجوکہ اس کی زارو قطاررورواورگڑاگڑانے پرشاید آمین بھی کہتے ہوں۔حج کے لغوی معنیٰ قصد اورارادہ کرنے کے ہیں مگرشریعت کی زبان میںدنیابھرکے مسلمان حج کے پانچ دنوںمیںیعنی۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲ذی الحجہ کو جو خاص اعمال انجام دیتے ہیںان ہی کاناحج ہے، اوران افعال واعمال کوجو حج کے دنوںمیںانجام دیئے جاتے ہیںمناسک حج کہاجاتاہے،اسلام میںحج فرض ہونے کے لئے پانچ شرطیںہیں(۱)مسلمان(۲)عاقل (۳)بالغ(۴)آزادہونا(۵)مالدارومستطیع ہونا۔

استطاعت کے معنیٰ سہلوت اورگنجائش ہیںجیساکہ صحابی رسولﷺ نے قرآن کی آیت ’من استطاع الیہ سبیلا(آل عمران:۹۷)کامطلب پوچھاتوآپﷺنے زاد(توشہ)اورسواری بتایا۔توشہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اتنامال رکھتاہو کہ وہ اپنے حج کے سفرکے علاوہ اپنے زیر کفالت ، بال بچوںاورجواس کے ذمہ ہوں ان کی پرورش اوررہن سہن کاانتظام کرسکے،استطاعت میں عورت کے لئے اس کے محرم کاساتھ ہونا، راستہ کاجان ومال کے خطرات سے محفوظ ہونا، پاسپورٹ، ویزا،اپنی حکومت وسعودی حکومت کے قوانین کی پابندی وغیرہ اس طرح کی کئی چیزیں شامل ہوسکتی ہیں۔حج کی شروعات:جب اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمؑ خانہ کعبہ کی تعمیرسے فارغ ہوگئے تواللہ نے حکم فرمایاکہ’ اے براہیم لوگوںکو اس کے حج وزریات کے لئے بلاؤ،انھوںنے عرض کیا کہ ’یا االلہ!میری آواز اتنی بلند کہاںجوپوری دنیاکے لوگوں تک پہنچ جائے ؟

اللہ نے فرمایاکہ ابراہیم آواز لگانا تمہاراکام اورپہچاناہماراکام ہے، قرآن کریم میں اللہ کاحکم درج ہے ’واذن فی الناس با لحج۔۔(حج:۲۷)لوگوںکوحج کے لئے بلاؤوہ چلے آئیں گے پیدل ،کمزورو،طاقتورسواریوں کے ذریعہ دوردرازگھاٹیوں سے ۔حکم کے مطابق ابراہیم خلیل اللہ نے آواز لگائی ،کہتے ہیں کہ جس جس کے کان میںوہ آوزاپہنچی اوراس نے اس پرلبیک کہدیاتو وہ قیامت تک ضرور خانہ کعبہ میں پہنچ کر رہے گاانشاء اللہ۔حج کی تاریخ:امت محمدیہ سے پہلے دیگرامتیں بھی حج کرتی رہی ہیں جیساکہ حضرت ابراہیم ؑ کے بعد لوگ خانہ کعبہ کاحج توبرابرکرتے رہے مگراپنے مشرکانہ عقائد کی بناپر وہ اپنی عاجزی ظاہر کرنے کے لئے ننگے بغیرکپڑوں طواف کیاکرتے ،خوشی میںتالیاںبجاتے ، سیٹیاںماراکرتے ،چونکہ مکہ مکرمہ میں بت پرستی کا بانی عمروبن لُحَی تھااس لئے اس نے مناسک حج میں کچھ کمی زیادتیاںبھی پیداکردی تھیں جس کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ’خذو عنی مناسککم ترجمہ: تم مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھو،زندگی میں مسلمان پرایک ہی بارحج فرض ہے باقی نفل ہوگا۔جس کے لئے دوسروںکا فرض نمبرکاٹ کر جاناعبادت نہیں بلکہ دین کے نام پرشوق وتفریح میں شامل ہے، اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص مسجد میں فرض پڑھنے آیا اوردوسرانفل ، نفل والا طاقتورتھا اس نے کمزورکو دھکّادے کر اس کی جگہ خودنماز کی نیت باندھ لی اور فرض والابیچارہ اپنی کمزوری کی وجہ سے پچھڑگیا تواس گناہ کاذمہ دارکون ہوگا، وہ بھی ان حالات میں کہ جب حکومتوں کی طرف سے پابندیوں کی تعداد دن دن  بڑھتی جارہی ہے،

 حج کے دن اورمناسک حج: ایام حج:۸ ذی الحجہ سے ارکان حج شروع ہوجاتے ہیں اس کو یوم الترویہ کہتے ہیں،۷،۸ ذی الحجہ کی درمیانی رات حج کااحرام باندھ کردورکعت نماز نفل پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدسورہ کافرون اوردوسری میںقُل ھواللہ پڑھیں اس کے بعد حج کی نیت کرکے مردزور سے اورعورتیںتین بارآہستہ تلبیہ پڑھیںگے، عموماََ اس دن کا سورج طلوع ہونے کے بعد مکہ سے حالت احرام میں حاجی منیٰ کے لئے چلتے ہیںمیقات (ہندوستانی یلم لم) سے احرام باندھتے ہیں،احرام باندھ کرتلبیہلَبَّیْکْ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک، لَبَّیْک،، لَاشَرِیْک َلَکَ لَبَّیْک،، اِنَّ الْحَمْد َوَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک َلاَ شَرِیْکَ لَکَ،

، پڑھ کر نیت کی جاتی ہے ۔اب اس کے بعد آدمی کے لئے ہرقسم کی احرام کی پابندیاںلازم ہوجاتی ہیںجیسے عمرہ اداکرتے وقت تھیں۔ منیٰ جانا، منیٰ کے لئے حاجی رات ہی سے جانے شروع ہوجاتے ہیں،

ٌ۸ ذی الحجہ:منیٰ میں دوران قیام ظہر، عصر، مغرب، عشااور۹ تاریخ کی فجر اداکرنا ہیں۸ ،۹ کی درمیانی رات منٰی میں گزارنی ہے، تلبیہ پڑھتے رہیں۔۹ تاریخ (یوم عرفہ)میں ذی الحجہ کی صبح فجرمنیٰ میںاداکرنے کے بعد عرفات تلبیہ پڑھتے جاناہے،عرفات میں زوال کے بعدظہراورعصرکی دونوںنمازیں ایک اذان اورایک ہی تکبیر کے ساتھ جمع کرکے اداکرنی ہیںامام ان سے پہلے خطبہ دیںگے۔سورج چھپے تک عرفات میں کھڑے یا مجبوری میں بیٹھ کراللہ کاذکر اوردعاکرنے ہیں،میدان عرفات وہی میدان ہے جس میں میدان حشر قائم ہوگا،یہاں کچھ وقت کے لئے ٹھہرناشرط ہے،ٹھہرناہے اسی کا نام وقوف عرفات یادوسرے لفظوں میںحج ہے حج کا سب سے بڑا رکن یہی ہے۔ اس کے بغیرحج نہیںہوسکتا۹ تاریخ: ۱۰: کی درمیانی رات میںعرفات سے مزدلفہ کیلئے روانہ ہوںمزدلفہ میںمغرب اورعشا کی  نمازیںجمع کرکے پڑھنی ہیں۹کوہی کو بعد فجرتکبیرات تشریق شروع ہوجاتی ہیںجوکہ پانچوں نمازوں کے بعد مردوںکوزور سے اور عورت کو آہستہ کہنی ہیں۱۰ تاریخ تک پہلے پھر تلبیہ پھریہ تکبیریںپڑھیں،رات مزدلفہ میںہی گذارنی ہے،۔

۱۰ ذی الحجہ:(قربانی کے دن)صبح فجرکی نماز مزدلفہ میںپڑھ کرمشعرحرام کے مقام پرآناقبلہ ر خ کھڑے ہوکر اللہ سے دعائیںمانگناصبح کی روشنی میںوادی محسر(جہاںنرابرہہ کی فوج پرعذاب آیاتھا)کے راستہ سے منیٰ روانہ ہوناہے۔منیٰ میں جمرہ عقبہ (بڑے شیطان کورمی(کنکرمارنا)ہے،رمی سے پہلے تلبیہ کہنا بند کردیں۔رمی کے ساتھ تکبیرکہناسنت ہے،،زیادہ بھیڑہوتوعشابعدصبح صادق سے پہلے پہلے بھی رمی کی جاسکتی ہے۔ ،اورتکبیرتشریق۱۳ کی عصربعدتک کہی جاتی رہیںگی، اب قربان گاہ آنا اورحج کے شکریہ کی قربانی کرناہے، قصریاحلق اس کے بعد احرام سے باہرآئیں، نہانا کپڑے پہننا خوشبولگاناسب جائز ہوگیاگربیوی کے تعلق پرابھی طواف افاضہ تک پابندی باقی ہے،۱۱ذی الحجہ:کورمی کاوقت زوال بعد سے صبح  صادق تک رہتاہے،اگربھیڑزیادہ ہوتومغرب یاعشاکے بعد بھی رمی کاجاسکتی ہے،کہ آج پہلے چھوٹے شیطان پرقبلہ رخ ہوکرکنکریںماریںاللہ سے دعاکریں اسی طرح درمیانی شیطان کو کنکریاںمارناہیںبڑے شیطان کوکنکرمارکرکسی بھی روزدعانہیںکرنی ہے۔طواف زیارت :۱۰ سے ۱۲ کی غروب تک ہے،آسانی اس میں ہے کہ ۱۱،۱۲کی درمیانی رات میںطواف زیارت کرلیں،طواف کے پہلے تین چکروںمیںرمل(دوڑکرچلنا) کرناہے۔طواف کے بعد دورکعات واجب الطواف اداکرکے صفامروہ کی سعی کریں،۱۲ذی الحجہ:،آج رمی کا وقت بعد زوال سے صبح صادق تک ہے،۱۲ کوبھی ۱۱کی طرح تینوںشیطانوںکوکنکرمارنے ہیں،۱۲ذی الحجہ:غروب آفتاب سے پہلیمنیٰ سے نکل کر مکہ واپس ہوناہے،اورمکہ سے رخصتی پر طواف وداع ہوتاہے دورکعت نماز واجب الطوف اداکرنی ہے۔حج سے فراغت پر رحمت للعالمین حضرت محمدﷺ جن کے ذریعہ ہم کوخداکی ذات کی پہچان اوراس گھرکے مالک کی معرفت حاصل ہوئی ہے ان کے درپرحاضری یعنی روضہ نبیﷺ پرحاضری اورمسجد نبوی ﷺ کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ حاضرہوناہے ،مدینہ منورہ میںچالیس نمازیںاداکرنے پر احادیث میں رسول اللہﷺ کی شفاعت واجب اوراس آدمی کو نفاق سے بری ہونے کاسرٹیفکیٹ ملنے کی خوشخبری ہے۔ رسول کریمﷺ کی قبرشریف کی زیارت کے لئے سفرکرنامستحب ہے حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایاﷺ نے جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی توگویااس نے میری زندگی میں میری زیارت کی

(دارقطنی)

ایک روایت ہے کہ جس نے حج کیااورمیری زیارت نہیںکی اس نے مجھ پرظلم کیا(ابن حبان)حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ فرمایاﷺ نے جس شخص نے میری قبرکی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی(دارقطنی)٭٭٭بقیہ قربانی صفحہ ۱۲ کا۹پریہاں۔۔۔۔۔

اس دورکے  بعض روشن خیال حضرات اسلامی علوم وفلسفہ،اسلامیا ت سے ناواقفیت یا غیرسوسائٹیوںسے متأثرہوکرجانوروںکی قربانی وذبیحہ کواقتصادی نقصان اوربے رحمی سے تعبیرکرتے ہوئے اس کایوں رد کرتے ہوئے فتویٰ جاری کرتے ہیںجاری کرتے ہیں کہ قربانی کے دنوںمیںچند جانور ذبح کرکے باقی واجب قربانیوںکی رقم رفاہی وخیراتی کاموںاورغریبوںمیںیونہی تقسیم کردی جائے توزیادہ فائدہ ہوگا۔شایدان کی نظررسول کریم ﷺ کے مذکورہ عمل پرنہیںاسی کے ساتھ شاید وہ یہ بھی بھول چکے ہیں سب سے پہلے جب ابراہیمؑ کواللہ کی طرف سے اپنی سب سے پیاری چیزاللہ کے نام پرقربان کرنے کاحکم ملاتووہ بروابرتین دن تک اونٹ ہی ذبح کرتے رہے مگراللہ کامقصد توسخت قسم کاامتحان یعنی اسماعیل ؑکی قربانی لیکر ابراہیم کواپنی رضامندی کاسرٹیفکٹ عطافرماناتھااسی لئے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی کے بعداللہ کی طرف سے غیبی آوازآئی ’ترجمہ:سچ مچ تم نے اپناخواب پوراکردکھایا، یقینی طورپریہ ایک بڑی آزمائش تھی،اورہم نے اس (اسماعیل) کے بدلہ ایک بڑاذبیحہ(دُنبہ) دیاسلامتی ہوںابراہیم پر،ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیںنیکوںکو،بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوںمیں سے تھے،اور ہم نے خوشخبری دی اسحٰق کی جوصالح نبیوںمیںسے تھے۔،یعنی حضرت ابراہیمؑ جب تک اللہ نے نام پرصرف اپنا مال قربان کرتے رہے اللہ نے ان کو اپنی رضامندی کا پروانہ نہیںدیاآ پ جانتے ہیں کہ اللہ ہماری عبادتوں، روزہ نماز اورقربانی کامحتاج نہیںوہ توصرف ہمارے دلوں کی حالت فرشتوںاوردیگرمخلوقوںپرظاہرکرناچاہتاہے کہ یہ وہی انسان ہے ۔جس کی پیدائش پرتم کو اعتراض تھامگراس کی فرماںبرداری دیکھواسی لئے اس کاارشاد ہے’لن ینال اللّٰہ۔۔۔(آل عمران:92)ترجمہ :اللہ کے پاس تمہاری قربانیوںکاگوشت اورخون نہیںپہنچتابلکہ اس کے یہاںتوتمہاراتقویٰ پہنچتاہے٭٭٭

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 772