donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Aziz
Title :
   Allah wa Rasool Ki Ataate Kamil Hi Amano Adal Ka Rasta Hai


اللہ و رسولؐ کی اطاعتِ کامل ہی امن و عدل کا راستہ ہے 
 
عبدالعزیز 
 
مسلمانوں میں جہالت اور ناخواندگی کی وجہ سے ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو اسلام سے ناواقف ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ اس سے زیادہ جاننے کا اسے شوق بھی نہیں ہے۔ اس لئے وہ اپنی خواہش نفس کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ دوسرا طبقہ نیم خواندہ ہے اسے بھی اسلام سے برائے نام ہی واقفیت ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت کم لوگ اسلام سے کما حقہ واقف ہیں اور پورے طور پر اللہ اور سولؐ کی اطاعت میں داخل ہیں۔ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: 
 
’’اے ایمان لانے والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
(سورہ البقرہ)
’’یعنی کسی استثنا اور تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور فریقے، تمہارے معاملات اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کر لو‘‘۔ (تفہیم القرآن) 
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں رقمطراز ہیں: 
 
سلم کے معنی اطاعت کے ہیں اور مراد اس سے اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے معنی اسلام کیلئے ہیں، لیکن یہ فرق محض ظاہر کا فرق ہے، اس لئے کہ اسلام کی اصل حقیقت اللہ و رسول کی اطاعت ہی ہے۔ لفظ حرب کا ضد بھی آتا ہے، اس صورت میں اس کے معنی صلح و امن کے ہوتے ہیں، اس مفہوم میں بھی اسلام کی روح موجود ہے، اس لئے کہ صلح و امن کی اصل راہ اللہ و رسول کی اطاعت ہی ہے۔ 
 
’’کَآفَّۃً‘‘ کے معنی جماعت کے ہیں اور یہ یہاں حال پڑا ہوا ہے۔ قرآن میں دوسرے مقامات میں بھی یہ اسی شکل میں استعمال ہوا ہے۔ 
خطاب اگر چہ الفاظ کے لحاظ سے عام یعنی تمام مسلمانوں سے ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ روئے سخن ان منافقین کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ہے۔ ان سے خطاب کرکے یہ کہا جارہا ہے کہ سچے اور پکے اہل ایمان کی طرح بھی اللہ و رسولؐ کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ اس ہدایت کی وجہ یہ ہے کہ ان منافقین کی وفاداری تقسیم تھی۔ یہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے مدعی تھے اور اسلام کی حمایت کا دم بھرتے تھے اور دوسری طرف اسلام کے مخالفین کے ساتھ بھی ان کا ساز باز تھا۔ قرآن نے جگہ جگہ ان کی اس روش کی طرف اشارے کئے ہیں۔ مثلاً سورۂ محمد میں انھیں لوگوں کی طرف اشارہ ہے۔ 
 
’’یہ اس وجہ سے ہے کہ ان منافقین نے ان لوگوں سے جنھوں نے اللہ کی اتاری ہوئی چیز کا برا منایا، یہ کہا کہ ہم بعض معاملات میں آپ ہی لوگوں کی اطاعت کریں گے۔ اللہ ان کی اس راز داری کو خوب جانتا ہے‘‘ (26 محمد)۔ 
ظاہر ہے کہ یہاں ’’لِلَّذِیْ کَرِہُوْا‘‘ سے اشارہ یہود اور مشرکین کے لیڈروں ہی کی طرف ہوسکتا ہے۔ سورۂ نساء کی مندرجہ ذیل آیات بھی ان کی اسی روش کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ 
 
’’ذرا ان لوگوں کو دیکھو جو مدعی ہیں کہ وہ اس چیز پر بھی ایمان لائے ہیں جو تم پر اتری ہے اور اس چیز پر بھی جو تم سے پہلے اتری ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کیلئے طاغوت کے پاس لے جائیں؛ حالانکہ ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کا انکار کریں۔ شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بڑی ہی دور کی گمراہی میں پھینک دے۔ اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف تو تم ان منافقین کو دیکھتے ہو کہ وہ طرح طرح سے گریز کی راہیں اختیار کرتے ہیں‘‘(سورہ نسائ، آیات:60-61)۔ 
 
یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ یہاں طاغوت سے مراد یہود کی عدالتیں ہیں؛ چونکہ ان عدالتوں سے رشوت وغیرہ دے کر خلافِ عدل و انصاف فیصلے کرانا بڑی آسانی سے ممکن تھا، نیز علمائے یہود نے اپنی کتر بیونت سے شریعت کے بہت سے احکام اپنی خواہشات کے مطابق کر دیئے تھے اس وجہ سے منافقین اپنے بہت سے معاملات انہی عدالتوں میں لے جانا چاہتے تھے اور جب ان سے کہا جاتا کہ ایمان و اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کریں تو وہ مختلف حیلوں حوالوں سے گریز اختیار کرنے کی کوشش کرتے۔ 
 
وفاداری کی یہ تقسیم ایمان و اسلام کے منافی بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے یہیں سے شیطانوں کو انسانوں کو گمراہ کرنے کی، جیسا کہ سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیت میں اشارے ہے، نہایت کشادہ راہ مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے قرآن نے اس فتنہ کے دروازے کو بند کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ سب کے سب بغیر کسی استثناء اور بغیر کسی تحفظ کے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں داخل ہوجائیں۔ اطاعت کامل کا یہی راستہ امن و عدل کا راستہ ہے اور اسی راستہ پر چلنے والوں کیلئے فوز و فلاح ہے۔ جو لوگ اس سے ہٹ کر کوئی راہ نکالنی چاہتے ہیں اور بیک وقت کفر اور اسلام دونوں سے رسم و راہ رکھنے کے خواہشمند ہیں، وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں اور شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اس لئے کہ اس نے روزِ اوّل ہی سے اس کی راہ مارنے اور اس کو گمراہ کرنے کا کھلم کھلا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔ 
 
موبائل: 9831439068
azizabdul03@gmail.com 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 639