donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Andleeb Aamna
Title :
   Hazrat Bibi Fatma Zohra Ki Zindagi Ka Aik Ajmali Jayeza

ؓؓدختر رسول حضرت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا 

 

کی  زندگی کا ایک اجمالی تجزیہ


عندلیب آ منہ


چمنستان محمد کی ہر کلی و ہر غنچہء  انوار  کی  مہک  سے  آسمان و زمین معطر و آراستہ  ، آٖفتاب و ماہتاب منور  جنکے  صدقہ میں دنیا کی خلقت ہوئی سمندر کی عمیق گہرائیوں  کو طے کرنے والے  افراد ان کے فضائل و مناقب  کے اتھا ہ سمندر میں غو طہ زن  نہیں  ہو سکتے  اور جن افراد نے  کوشش کی اور میزان  کے ترازو پر کم تولنے کی کوشش کی و ہ ہلاک ہوئے۔ مناقب اہل بیت رسول ﷺ کو  سمجھنے  کے لئے  پاک طینت ،پاک سیرت، پاک دل،اور مطہر سینہ ہو  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری  زندگی  انسانوں  کے لئے ہدایت کا سامان ہے  فاطمہ جس کی پرورش خدیجہ  جیسی سابق الاسلام  عورت کی آغوش میں ہوتی ہے  اور شادی کے بعد  کی زندگی علی جیسے بہادر شجاع انسان کے ساتھ گذرتی ہے  اور محا فظان اسلام  ائمہ کرام کی نسل آپ کے ذریعے آ  گے بڑھتی ہے  اب اس عورت کی پرورش کی  ذمہ داری  خدااور رسول  کے اوپر  ہے  کہ اس کی تر بیت کس طریقے سے رسول ا سلام  نے اور انکی ماں  بی بی خدیجہ  نے کی۔  جناب خدیجہ  جنھیں  ملیکۃ العرب  کے نا  م سے جا نا جا تا تھا ا نھو ںنے دین اسلا م کی تبلیغ کے لئے اپنی ساری دولت راہ خدا میں قر بان کر دی ۔

  فاطمہ زہرا سلام  اللہ  علیہا  کی ولادت  سعادت۲۰؍ جمادی الثا نیہ  ۵بعثت؁  مکہ  معظمہ   میں ہوئی ۔اصول کافی میں امام باقر  ؑسے  روایت  نقل ہے  کہ  دختر پیغمبر کی ولات حضورﷺ کی نبوت کے اعلان کے پانچ برس بعد ہوئی شہادت ۳؍جمادی ا لثانیہ ۱۱ہجری؁   شہادت کے وقت آپکی عمر اٹھارہ برس  دو ماہ اور پندرہ دن  تھی ۔ معانی الا خبار میں سدیر حیرنی  نے امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ  آپ نے اپنے آباء و اجداد  کے ذریعہ  فخر موجودات سے سنا ہے،،اللہ نے تخلیق ارض و سما سے  قبل  نور فاطمہ پیدا کیا  تھا،، صحا بی نے سوال کیا  کہ  فاطمہ  نوع انسان سے نہیں ہے  رسول ﷺنے فرمایا  فاطمہ حورائے  انسیہ ہے  اللہ نے نور فاطمہ کو تخلیق آدم سے پہلے  پیدا کیا  اور تخلیق آدم سے پہلے  نور فاطمہ کا قیام  زیر عرش تھا  اور فاطمہ کی غذا تسبیح و تہلیل  خالق تھی ۔آپ کی تربیت  خاندان رسالت میں ہوئی  حضرت خدیجہ،فاطمہ بنت اسد،ام سلمیٰ،ام الفضل(رسول کے چچا  عباس کی زوجہ)،ام ہانی (حضرت ابوطالب ؑکی ہمشیرہ)،اسماء بنت عمیس (زوجہ جعفر طیار ؑ)،صفیہ(دختر جناب حمزہ ؑ ) مختلف اوقات میںکیں۔


اسماء و القاب :

فاطمہ ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زاکیہ، راضیہ، مرضیہ ،محدثہ، بتول۔
الحصان،الحرق، السیدہ،العذراء ،زہرا، حورائے انسیہ، مریم کبریٰ ،سیدۃ نساء العالمین، خاتون جنت
آسمان میں بی بی کا نام ۔ تورات سماویہ اور حانیہ ،صدیقہ کبریٰ

کنیت:

ٓام الحسن، ام الحسین، ام المحسن، ام الا ئمہ ، ام ابیھا،ام الحسنین، ام السبطین
اسلام سے قبل عربوں کے لوگوں  کے حالات بہت برے تھے  ان کا رہنا سہنا  جا نوروں سے بھی بدتر  تھا عورتیں ظلم کا شکار تھیں

    کئی مر د ملکر ایک مشترکہ عورت رکھتے تھے ، اور جب اس سے بچہ پیدا ہوتا تو   ولادت  کے چند دن بعد  اپنے سارے شوہروں کو جمع  کر  کے  اپنی خواہش کے مطابق   ان میںسے بچے کسی سے منسوب کردیتی  یہ اختیار  عورت کو تھا  مردوں کو  اس معاملے میں دخل اندازی  کا حق نہیں  تھا  لیکن اگر لڑکی پیدا ہوتی تو  وہ اسے اپنے شوہروں  سے مخفی رکھتی تھی۔اگر مردوں   کو اس کا علم ہو جا تا تھا تو وہ اس کو زندہ دفن کر دیتے تھے عورت بالخصوص بیٹی جننے والی عورت کو ایام  جاہلیت  میںکس حقارت کی نظر سے دیکھا جا تا تھا اس کا اندازہ قر آ نی آ یات کے ذ ریعے لگا یا جا سکتا ہے ،،اللہ تبا رک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے  جب زندہ در گور  لڑ  کی سے پو چھا جائے گا  کہ اسے کس جرم میں  قتل کیاگیا  تھا  سورئہ تکویر آیت نمبر۸،۹

وہ کس گناہ میں  ماری گئی ۔ایک جگہ ارشاد فر مایا  جب ان میں سے  کسی کو  بیٹی کی  خوشخبری سنائی جاتی ہے  تو اس کے  چہر ے پر   سیاہی چھا جا تی ہے  اوروہ اپنے دل  ہی دل میں گھٹتا رہتا ہے بیٹی کی شرم کے مارے  چھپا چھپا پھرتا ہے اور سوچتا ہے ذلت برداشت کر کے اس کو رکھ لے یا اس کو مٹی میں گاڑ دے  سورئہ نحل آیت نمبر۵۸؍۵۹

  اس آیت  سے صاف واضح ہے کہ   اس وقت   کے  لوگوں کی  زندگی  جانوروں   بھی  بدتر  تھی   کیوں  کہ اگر تاریخ   جانوران  کا  جائزہ  لیا جائے تو ان  کی تاریخ میں بھی اس طرح کے  واقعات  کا پایا جا نا  مشکل  ہے  اسلام نے عورت کے مراتب و حقوق کا پاس   ولحاظ  رکھا ہے پیغمبر  ختمی مرتبت ﷺنے اس جا ہلانہ وبدترین رسم ورواج  کو ختم کیا اور ہر ایک کے مرتبہ واہمیت سے روشناش کرایا ۔ اسلام نے نہ صرف عورتوں  کے  حقوق کا  دفاع کیا  بلکہ عورت کے مثبت کردار کو  پیش کیا  اور اسلام کی تاریخ  پر گہرا اثر   چھو ڑا ہے  جناب خدیجہ  ان مسلمان عورتو ں  کے لئے  نمونہ ء عمل تھیں جنہوں نے  دین کا دفاع کیا  اور دین کی خاطر جہاد میں حصہ لیا  جب خدا نے کفار و منافقین  کے خلاف جہاد واجب قرار دیا تو مسلمان خواتین نے بھی  مردوں کے شانہ بشانہ اسلام کی مدد کے لئے آگے  بڑھیں  اور ان میںوہ خواتین بھی تھیں  جو اپنے شوہروں اور بچوں کو چھوڑ کر  اسلام میں مسلمان  کی جماعت میں شامل ہو گئیں  مسلمان عورتوں  نے ہر حا لت میں دشمنوں کے مقابلے میں رسول اللہ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔  بہادر اور شیر دل خواتین  نے  دین مبین  کی  تبلیغ سے غا فل نہیں ہوئیں ۔جنگوں میں زخمیوں کا علاج  کرتی تھیں،افواج کے لئے  کھانا تیار  کیا، تلوار و نیزے بھی اٹھا ئے ۔جناب فاطمہ زہرا   صلوات اللہ علیہا  بچپن ہی سے اپنے والد ماجد  کے  رنج و  خوشی میں شریک رہتی تھیں  جناب ابوطالب اور  جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد  کفار ر قریش رسول  نہایت ہی بے رحمی سے  اور بے باکی  سے  آنحضرت  کو ستاتے  تھے ۔ ایک دفعہ  جا رہے تھے  ایک شخض نے آکر آپ کے سر پر خاک ڈال دی  اسی  حالت میںآ پ گھر آ ئے  جناب  فاطمہ نے دیکھا تو  پانی لے کر آ ئیں  آ پ کا سر دہوتی تھیں اور فرط محبت سے روتی جاتی تھیں۔

ولادت : جب جناب سیدہ ؑکی ولادت  کا وقت نزدیک آ یا تو  جناب خدیجہ نے  خواتین قریش کو پیغام بھیجا  سب نے امداد سے  منع کر دیا ۔اتنے میں  چار  عورتیں آئیں  جناب خدیجہ پریشان ہوگئیں  عورتوں کہا آپ گھبرائیں  نہیں  ہمیںاللہ نے آپ کی خدمت کے لئے بھیجا گیا ہے   اور سب نے اپنا تعارف کرایا  ۔(آسیہ بنت مزاحم،سارہ زوجہء خلیل ؑ،مریم مادر عیسیٰ ؑ،کلثوم خواہر موسیٰؑ)پھر کچھ کنیزیں آب سبیل جنت سے  لباس اورخوشبو لے کر آ ئیں۔جب جناب زہرا ؑکی ولادت ہوئی تو  بی بی کی جبین مطہر سے ایک ایسا نور چمکا  کہ تمام مکہ اس سے منورو روشن ہو گیا۔


فضائل :بحار میں ابن طائوس سے مروی ہے کہ  ایک مرتبہ  شاہ حبشہ  نے  سرور کونین کی بارگاہ میں چاندی کے تاروں سے نقاش چادر ہدیہ کی۔آپ نے اسے قبول کیا اور فرمایا  اس چادر پر اس کا حق ہے  جوخدا ورسول کو دوست رکھتا ہو اور خداو رسول اسے دوست رکھتے ہوں ۔ اصحاب کرام  نے  گردنیں بلند کیں ۔رسول ﷺنے کہا علی کہاں  ہیں۔حضرت عمارحضرت علی ؑ کو بلاکر لائے اور رسول ﷺنے وہ چادر  آ ُپ کو دی اور آپ نے اسے تین ہزار دینار میں فروخت کردیا  اورتمام رقم  مہاجرین وانصار میں بانٹ دی ۔شام کو نبی کریم نے کہا  کہ :یا علی! آج آ پ کو تین ہزار دینار ملے ہیں  آج  کھا نا آ پ کے گھر کھائیں  گے  علی ؑ نے کہا  بسم اللہ ۔ گھر آئے تو جناب فاطمہ نے کھا نا چنا  جس سے مشک کی خوشبو آ رہی تھی  نبی کریم ﷺنے علی ؑسے مسکرا کرکہا یہ کھا نا ان پیسوں سے تو نہیں آ ئے  علی ؑنے کہا وہ تو گھر آئے ہی نہیں  آپ نے بیٹی سے پوچھا یہ کہاں  سے آئے شاہزادی نے  کہا  با با جان  اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب رزق دیتا ہے ۔آپ نے دعا کی اس اللہ کی حمد ہے  جس نے  مجھے دنیا سے اس وقت نہ اٹھا یا   جب تک  میں نے وہ کچھ نہ دیکھ لیا  جو میں چاہتا تھا ۔اس  واقعہ سے یہ واضح  ہے پیغمبر اکرم ﷺ دنیا  والو ں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ رسول وآل رسول وہ دنیا وی ضرروتو ں  کے محتاج نہ تھے  ان کو جو ملتا تھا اسے غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے رسولﷺ  جانتے تھے کہ علی ؑ وہی کریں  گے جو میری  منشاء ہوگی ۔ رسولﷺ  چاہتے تو اسے  صحا بہ کرام کے ذریعے فروخت  کر وا کر  اس کو اس کے حق دار تک پہونچا دیتے۔لیکن اس سے  بتا دیا کہ علی ؑ اس مال کو راہ خدا میںہی  دے دیں  گے  اور اس سے اپنی کوئی ضرورت نہیں پوری کریں گے چاہے گھر میں ٖفاقہ ہی کیوں نہ ہو۔

شادی: بحارالانوار اور امالی طوسی  کے مطابق ۲ ھ؁ شوال  جنگ بدر  کے بعد  جناب فاطمہ کی شادی ہوئی ۔ ایک  روایت  کے مطابق یکم ذی الحجہ ۲ہجری ؁،امام محمد باقرؑو صادق ؑ سے روایت ہے کہ نکاح  رمضان  میں ہوا اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ ۲ہجری  ؁ میں ہوئی۔شادی کے بعد کی زندگی صنف نسواں کے لئے ایک نمونہ ہے ۔

شیخ صدوق ؒ سے روایت ہے رسول خدا ؐنے حضرت علی ؑ سے  بتایا تھاکہ یاعلی ؑ! یہ لوگ مجھ سے اس بات سے ناراض ہیں کہ میںنے فاطمہؐ کی شادی  تم سے کردی  میں نے ان سے کہا کہ فاطمہؐ کی شادی کا تعلق مجھ سے  نہیں  ہے یہ اللہ نے کی ہے  جبریل نے مجھے آکر اللہ کا پیغام دیا ہے  کہ اگر علی ؑ کو پیدا نہ کرتا تو آدم تک فاطمہ ؐ  کوئی کفو نہ ہوتا۔ حضرت علی ؑ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تا حیات  دختر رسولؐ کو نہ تو کوئی تکلیف دی اور نہ کبھی غمگین کیا۔

سیرت و اخلاق جناب فاطمہؐ:شیخ صدوق  ؒنے  عیون اخبارالرضا میں اسماء بنت عمیس سے  روایت کیا ہے  کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؑ کسی جنگ میں اپنے حصے  سے ایک ہار  جناب فاطمہسلام اللہ علیھا کے لئے خریدکر دیا  جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے وہ ہار اپنے گلے میں پہن لیا  رسول اسلامؐ نے بیٹی کے گلے میں ہار دیکھا تو  فرمایا ،،اے زہرا ؐلوگوں کو یہ کہنے کا  موقعہ نہیں ملنا چاہیئے کہ دختر رسولؐ جباروں جیسے زیورات ، پہنتی ہے ۔ شہزادی ؐنے اسی وقت وہ ہار اتاکر بازار میں  فروخت  کر کے اس سے ایک غلام خرید کراور اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا ۔جنگ خندق اس وقت ہوئی جب مدینہ محاصرہ میںتھا  ہر کوئی  اپنی قدرت کے لحاظ سے اس میںشامل ہو رہا تھا  فاطمہ زہرا  روٹیا ں  تیار کر کے  محاذ پر لگے مجاھدین کی  امداد  کرتیں ایک دن آپ نے اپنے بچوں کے لئے  تازہ  روٹیاں پکائیں لیکن باپ کے بغیر  نہیں کھا ئیں اور محاذ پر با با  کے پاس گئیں اور کہا  بابا میرا دل گوارا نہیں کیا کہ  آپ کے بغیر کھا ئوں وہی روٹی آ ُ  پ  کی خدمت میں ٰٰؒٓٗؒٓٗلائی ہوں ۔رسول ﷺنے فرمایا : تین دن کے بعد یہ پہلا لقمہ ہے جو تمھارے  باپ نے  منھ میں رکھا ہے۔

علل الشرائع میں حضرت علی ؑ سے  مروی ہے کہ ۔  فاطمہؐ میری زوجہ تھیں اور نبی کریم ﷺکی نگاہ میں محبوبہ ء کائنات تھیں مگر اس کے  با وجود  دختر رسول ؐنے  اس قدر چکی  پیسی کہ  کف دست  پرزخم ابھر آتے تھے  گھر میں  جھا  ڑو دیتی تھیں کہ لباس گر د آلود   ہو جا تا تھا  کھانا پکانے کے لئے  اس قدر آگ جلائی کہ  کپڑے دھوئیںسے زرد ہو جاتے تھے ۔  اور اگر کنیز بھی رکھتی ں ہیںتوپورے طورپر  امور خانہ کی ذمہ داری  کنیز پر نہیں  چھوڑتیں  بلکہ ایک دن خود کا م کرتیں ہیں  اور دوسرے دن  کنیز سے کام لیتی ہیں ۔کیا کوئی ذات سیدہ ؐکا مقابلہ کر سکتی ہے  جناب ام ایمن جو  بی بی فاطمہؐ کی  کنیز تھیں  آ پکی وفات کے بعد قسم کھائی تھی  کہ میں  اب مدینہ میں نہیں رہوںگی ۔ کیونکہ  مجھ  میں اتنا صبر و ضبط نہیں کہ  میںزہرا ؐکا خالی گھر دیکھ  سکوں ۔ مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ کیا  راستہ میں پانی  ختم ہو گیا  اور پیاس کی شدت نے پریشان کیا  دور دور تک کہیں پانی نہیں نظر نہیں آیا  کہا اے اللہ میںکنیز زہرا ہوں  کیا پیاسی مرونگی  اللہ نے آسمان سے  پانی کا جام نازل کیا  ام ایمن اس پانی سے سیراب ہوئی کہ سات سال تک  تشنگی اور گرسنگی کا احساس نہیں ہوا۔جب کوئی ذات سیدہؐ کی کنیزوں  کی برابری نہیں  کر سکتی  تو سیدہ ؐکا مقا بلہ کر سکتا ہے ۔

 جناب سیدہؐ اور اہل اسلام :اے لوگو ! جان لو کہ  میں فاطمہؐ ہوں ،محمدﷺ میر ے پدر  ہیں میری بات حق پر مبنی ہے  میں کوئی بیکا ر بات نہیں کہتی  تم کو پیغمبرﷺ نے ضلالت  سے نکا لا  وہ مومنوں پر رحیم تھے اگر تمہیںان کی معرفت ہے  تو تم کو معلوم ہے کہ  وہ میرے باپ ہیں تمھاری عورتوں میں سے کسی کے باپ نہیں ۔ان کے بھائی میرے ابن عم (علی ابن ابی طالب ؑ)ہیں  یہ کتنی بہتر نسبت  مجھ سے ہے  آنحضرت  ﷺنے  دین ایمان او راپنی رسالت کو عوام الناس تک پہونچایا اور انھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا اور لوگوں حق سے روشناش کرایا ۔مشرکوں  نے  راہ فرار  کا راستہ لیا  شیطان رسوا ہوا  تمہاری زبان پر کلمہء حق جاری ہوا  تم جہنم کے شعلوں میں گھر  گئے تھے  رسوائی اور ذلالت نے تمہیں اسیر کر لیا تھا  اور بیرونی طاقتوں  کے حملوںسے مخوف تھے  کہ کہیں  ان کے حملہ سے  متاع و مال چھن نہ جائے  اللہ نے محمد ﷺ کے وسیلے سے ان ہلا کتوں  سے نجات دلائی  اور عربی درندوں اور اہل کتاب  کے شر رسے بچایا ۔ اور رسول ﷺکے انتقال کے بعد تم پھر شیطان کے چنگل میں پھنس گئے اور تم مکر و فریب  کی غذا کا مزہ  مل گیا  اور فتنہ وفساد کی آ گ میں پڑگئے۔ تم نے گمراہی کو پکڑ لیا جبکہ تمھارے پاس کتاب خدا موجود ہے ۔اس کے معنی و مفاہیم واضح اور آشکار ہیں  تم نے قرآ ن سے کنارہ کشی کر لی ہے جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کوپکڑے گا  اللہ اسے نہیں بخشے گا ۔نور اسلام کو بجھا نے کی تم نے ٹھان لی ہے  اور نبیؐ کی سنت کی تباہی کے لئے آ مادہ ہو گئے اور  منافقت کی راہ کواپنا لیا اور اہل بیت ؑ کو برباد کرنے کیلئے کمین گاہ میں نشست و برخاست کرنے لگے اب ہم ان مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ فدک ہماری میراث نہیں ہے کیا تم  نادانستہ قانون اور حکم کو پسند کرتے ہو ؟ اہل یقین کیلئے اللہ سے بہتر حاکم کوئی نہیں ہے ۔ قرآن میں انبیاء کرامؐ کے وارثوں کو ان کی میراث سے محروم نہیں کیا  تو فاطمہؐ آخری نبی کی بیٹی کیو ں اپنے حق سے محروم رہیں۔

فدک ایک باغ  تھا  جو پیغمبر اکرم ؐکو جنگ خیبر کے وقت بغیر جنگ فتح کئے ہبہ کیا گیا تھا  ۔فئی اس ملکیت کو کہتے ہیں  جو بغیر کسی جنگ کے حا صل ہو ا اہل سنت اور اہل تشیع فدک کو رسولؐ کی ملکیت جانتے ہیں لیکن ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے ۔ صحیح مسلم  میںحضرت ابو سعد خدری  اور عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضورر ﷺ نے اپنی زندگی میں اس وقت ہبہ کیا  جب سورئہ حشر کی آ یت نمبر۷ نازل ہوئی ۔ صحیح  بخاری میں  بی بی حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ حضور ﷺکی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت فاطمہ صلواۃ اللہ علیہا کے درمیان فدک کی ملکیت پر اختلاف پیدا ہوا  جبکہ حضرت ابوبکر ؓ فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی  اس لئے فدک حکومت کی ملکیت میں  جائے گا  اس پر فاطمہ ناراض ہوئیں  اور اپنی وفات تک  ان سے کلام نہیں  کیا  ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ بڑھا گیا اورحضرت ابوبکرؓ کو  بتایا نہیں گیا۔ اہل سنت کی روایت کے مطا بق حضرت ابوبکر ؓ نے صلح کی کوشش کی  بیہقی کے مطابق صلح ہوئی  لیکن امام بخاری اور ابن قتیبہ کے مطابق صلح  نہیں ہوئی ۔احتجاج طبرسی میں امام صادقؑ سے روایت ہے کہ جب بیعت ابوبکرؓ کا معاملہ مستحکم ہو گیا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ فدک پر اپنے آ دمی بھیجکر دختر رسول کے وکیل کو وہاں  سے نکال دیا ۔دختر رسولؐ مسجد میں آ ئیں  ابوبکر تجھے معلوم ہے  فدک نبی کریم ﷺ اپنی حیات طیبہ میں بحکم خدا  مجھے دیا تھا اور قبضہ بھی اپنی زندگی میں  دے دیا تھا  فدک میں میرا ہی کارندہ رہتا  تھا تو نے اس کا اخراج کیوںکیا ۔ خلیفئہ وقت نے  گواہ ما نگے  شہزادی ؐنے ام ایمن ، اور حسنین ؑ اور حضرت علیؑ کو بطور گواہ پیش کیا خلیفہ نے ا ن شہادتوں  کے بعد بی بی سیدہ سلام اللہ علیھا کے سپرد کرنے کی تحریر  لکھد ی  اتنے میں حضرت عمر ؓ آ گئے  عمر ؓنے  تحریر  چھین کر پھاڑ ڈالا ۔ اور اب ابوبکر ؓنے کہا  یہ مسلمانوں  کا مال ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مسلما نوںکا مال تھا توآ ُ پ  نے پہلے کیوں نہیں کہا کہ فدک مسلمانوںکی ملکیت ہے شہادت ہی تسلیم نہ کر تے اور فاطمہ زہرا سلام اللہ سے شہا دت مانگنے کا مطلب آیت تطہیر اور مباہلہ ( مسلمان اور نجران کے  درمیان ہوا) سے انکار کیا  ۔آپ کہتے ہیں ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے آپ نے کتاب خدا کی مخا لفت کی۔ اور جہاں تک شہزادی ؐکے ناراض ہو نے کا مسئلہ ہے  تو آ پ کو معافی کی ضرورت کیوں پٹر ی اس کامطلب یہ ہے کہ آ ُپ نے  فدک شہزادی سے  طاقت وزور کی بنیاد پر چھینا آ ج اہل اسلام خواہ ہو اہل تسنن ہوں  یا اہل تشیع شیخین کی سیرت پر عمل کرتے ہیں  اوقاف کی زمینوں پر قابض ہیں اوقا ف  کی  زمینیں اپنے نام درج کر والیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے آباء اجداد کو راجہ صا حب نے دیا ہے ان کے اجداد اس وقت کہاں سوئے تھے جب  ان زمینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے۔ کاش سیرت اہل بیتؑ پر عمل کرتے ۔

اولاد:حضرت حسن ؑ ،حضرت حسین ؑ بیٹے،حضرت زینب وام کلثوم بیٹیاں  اور حضرت محسن شہید(ظالمین نے شہزادیؐ پر دروازہ گرایا جس سے بطن مادر میں ان کی شہادت ہو گئی) اور یہی دروازہ کا گرانا شہزادی کی شہادت کا باعث  بنا شہزادی نے ان زخموں کا ذکر اپنے شوہر علی ؑ سے بھی نہیں کیاعلی ؑ کو اس وقت پتہ  چلا جب علی ؑشاہزادی کو غسل دے رہے تھے  ان زخموں کی تاب  نہ لا سکے۔اور علیؑ جیسے بہا در چیخیں مار مار کر رونے لگے ۔

شہزادی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی پر جب ہم نظر اندازی کرتے ہیں تو صاف طور سے نظر آ تا ہے کہ شاہزادی کونین ؐنے دین کے پھلنے اور پھولنے کے لئے کس طرح قربانی دی ہیںاہل بیت ؑ نے کیسی سادی زندگی گذاری ہے فاقوں  پر زندگی  گذاری ، حاجت مندوں کی ضرروتوں کو پورا کیا ہے ۔رسول ﷺکے انتقال کے بعد مصائب کا کوہ گراں آن پڑا مرثیہ پڑھنا پڑا ـــــــ     ’’ صبت علی مصا ئب لو انھا‘‘ ۔۔۔

رسول ﷺ کی رحلت  ایک عظیم مصیبت ہے  ان کے اٹھ جا نے سے زمین بے  نور ہو گئی ہے ،چاند و سورج کو گہن لگ گیا ہے  ستا رے  بکھر گئے ہیں ،امیدیںمایوسی میںبدل گئیں ہیں َمحمدؐ ایک پیغمبر ہیں ان  سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر  گذر چکے ہیں  پس اگر وہ مر جائیں  یا قتل ہو جائیں  توکیا تم پچھلی حالت پر  پلٹ جائو گے ؟ اور جن جن لو گوں  نے ظلم کیا ہے  انھیں بہت جلد

معلوم ہو جائے گا کہ وہ کدہر  جا رے ہیں  آ نحضرت ﷺکی وفات کے بعد  تمہارا یہ کام  انہیں 

فتنوں جیسا ہے  جو تم نے ان کی حیات

 میں انھیں قتل کرنے کے لئے بر پا کیا تھا۔

(یو این این)

***********************


ؒؒؒؒؒؒـ

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 629