donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arshad Ali Nadvi
Title :
   Maulana Syed Abdullah Hasni Nadwi Islam Ke Aik Wafadar Sipahi

مولاناسیدعبداللہ حسنی ندویؒ اسلام کے ایک وفادار سپاہی
 
ارشدعلی ولی اللّٰہی ندوی
 
راقم دارالعلوم ندوۃ العلماء میںاپنے تین سالہ قیام(۲۰۰۸ئ؁ تا ۲۰۱۱ئ؁) کے دوران متعدد دفعہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میںحاضری سے فیضیاب ہوا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس فکرومعرفت، متانت واعتدال اوراثرآفرینی کی آئینہ دار ہوتی تھی، مجلس میں اکثران کتابوں کی تعلیم ہوتی تھی جن سے دماغ کوتازگی، دل کوحرارت اورروح کوتقویت حاصل ہوتی تھی، امت کی فکر اوران کی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتاتھا، دوران تعلیم مولاناؒ جابجا پرازحکمت وروحانیت بیان بھی فرماتے تھے۔ مولاناؒ سے راقم کا تعلق اس طرح سے ہوا کہ اس نے فراغت (عالیہ رابعہ شریعہ) کے سال ’’عیدمیلاد‘‘ کے موضوع پر ایک کتابچہ بنام ’’بدعت کی حقیقت اور عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت‘‘قلمبند کیا، اس پر اس نے مولاناؒ سے مقدمہ تحریر کرنے کی درخواست کی، انہوں نے جستہ جستہ کتاب کودیکھا، پسند فرمایا اور مقدمہ لکھنے کی یقین دہانی کرائی۔
 
راقم کوحضرت سیداحمدشہیدؒ اورعلامہ شاہ اسمٰعیل شہیدؒ سے غیرمعمولی عقیدت اور ردشرک وبدعات اوراثبات توحید وسنت سے خاص دلچسپی ہے اور اس موضوع کی بے نظیر کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کا توگویا عاشق ہے، میں نے مولاناؒ سے حضرات شہیدین سے اپنی محبت وعقیدت، تقویۃ الایمان کا تذکرہ اوربیان کردہ موضوع پر کچھ کام کرنے کے تعلق سے بات کی تومولانا نہایت مسرور ہوئے اوراپنے سایہ عاطفت وتربیت میںلیا، اس دن سے مولاناؒ کی وفات حسرت آیات تک آپ ہی کی سرپرستی میںمیں کام کرتا رہا۔(اللہ کرے کام کا سلسلہ جاری رہے،آمین)
 
مولانا عبداللہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ تقویٰ وطہارت، اخلاص واختصاص، منکسرالمزاجی اورزہدوقناعت سے متصف تھے، ریا وشہرت مولانا کے اندربالکل نہیں تھی، خاموشی ان کی صفت خاص تھی، بلاضرورت تکلم نہیں فرماتے تھے۔
 
اکثرلوگ اس بات سے واقف ہیں کہ مولانا پر جادو کیاگیاتھا، تین چارمہینے سے مولانا بیمار چل رہے تھے اورآخر میں تویہ بیماری بہت بڑھ گئی تھی، جسم میں جابجا دردبھی اٹھتا تھا اورنقاہت بھی حدسے تجاوز کرگئی تھی، اسی موقعے سے میں نے ایک دفعہ ازراہِ ہمدردی وتسلی عرض کیا کہ حضرت، حدیث شریف میںآتا ہے سب سے زیادہ انبیاء کرام کوتکلیف ومصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھردرجہ بدرجہ، اس پر مولانا نے برجستہ کہا اللہ یہ مقام نصیب فرمائے، پھرمولاناؒاسی بیماری میں رنج والم سہتے ہوئے اس عالم فانی سے ملک جاودانی کی طرف رحلت کرگئے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مولانا جس مقام کے خواہاں تھے وہ مقام حاصل ہوگیا۔
 
ایں سعادت بزوربازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کے کام کومختصراً دوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
 
(۱) برادران وطن میںاسلام کی دعوت اوراس کا طریقۂ کار
 
مولانا سیدعبداللہ حسنی ندویؒ نے پیام انسانیت کے پلیٹ فارم سے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کواسلام کی زریں تعلیمات سے روشناس کرایا، تحریک پیام انسانیت سے کسی کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ مولانا صرف انسانیت، مروت، ہمدردی، بہی خواہی اوراخلاق حمیدہ کے داعی تھے اوربس، جوتمام مذاہب عالم میں محمود اورپسندیدہ امور ہیں،ایسا نہیں بلکہ مولانا عبداللہ حسنیؒ ایک عالم ربانی، پیکرعلم وعمل، ہمالیائے اخلاص کی چوٹی پر فائز اورممتازدینی شخصیت کے مالک تھے۔
 
مولاناؒ کا غیرمسلموں میںدعوت اسلامی کے تئیں نظریہ یہ تھا کہ پیام انسانیت کے جلسوں کے ذریعہ انہیں باہم ہمدردی وغمگساری، بھائی چارگی، انسانیت وخیرخواہی، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت اوراسی نوع کے اخلاق حسنہ کا درس دے کر اسلام سے قریب کیا جائے، واقعات شاہد ہیںکہ مولاناؒ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔
 
مولانا کے اندر امت کا درد بہت تھا، ایک دفعہ فرمایا، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے ارشاد فرماتا ہے:’’فعلک باخغ نفسک علی آثارہم ان لم یؤمنوا بہذا الحدیث اسفا‘‘ (اگریہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے مارے غم کے اپنی جان ہلاک کرڈالیںگے) اوراسی نوع کی قرآن مجید کی کئی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کی فکراوراس کے لئے درد وبے قراری ایک مستقل سنت ہے، افسوس کہ بہت سے لوگوں کا اس سنت کی طرف بالکل دھیان ہی نہیں۔
 
بلامبالغہ مولاناؒ کے اندر حمیت دینی اورغیرت ایمانی بدرجۂ اتم موجود تھی، دین کی خاطر خود کوکلفت ومشقت میںڈالنا مولانا کے نزدیک ایک معمولی بات تھی۔مولانا کی غیرت ایمانی کا اندازہ ان کے صر ف اس جملہ سے لگایاجاسکتا ہے ۔فرمایا: ایک ہے دل شکنی اورایک ہے حق شکنی، میںہمیشہ دل شکنی کوحق شکنی پر ترجیح دیتا ہوں(یعنی کسی کا دل ٹوٹے توٹوٹے مگردین میںرخنہ نہ پڑے) اسی وجہ سے بہت سے لوگ ہم سے ناراض رہتے ہیں۔
 
(۲) اصلاح امت اوراس کا طریقۂ کار
 
جس طرح مولانا عبداللہ حسنی ندویؒ کی خواہش تھی کہ غیرمسلم کلمۂ توحید پڑھیں اوردائرۂ اسلام میںداخل ہوںاوراس کے لئے وہ جانی ومالی کسی بھی طرح کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح مولانا کی فکرتھی کہ مسلمان غلط عقیدے اورباطل افکار وخیالات کے شکار ہوکر دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہوں۔
مولاناؒ کا ارادہ تھا کہ فرق باطلہ کے ردّ اوراسلام کی صحیح وسچی تعلیم کے لئے ایک پوری ٹیم تیار ہو، بہرکیف ’’جویندہ یابندہ‘‘ کے تحت مولاناؒ کوتین چار افراد ایسے ملے جواس کام کوانجام دے رہے ہیں۔
مولاناؒ کے نزدیک عقیدے کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی کمی اورکمزوری ناقابل برداشت جرم تھا، آپ صاف وشاف عقیدے کے حامل اورشرکت وبدعت سے حددرجہ متنفر تھے اوریہ سب کچھ اثرآپ کے خاندان عالی مرتبت کے اس برگزیدہ اورفنافی التوحید شخصیت سے تعلق کی وجہ سے تھا جس کودنیا والے حضرت سیداحمدشہیدؒ کے نام سے جانتے ہیں۔
 
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اوراس کے حبیب حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے نزدیک ہرچیز سے زیادہ محبوب تھے، چنانچہ آپ تلاوت کلام پاک اور نعت شریف سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے، پھرآپ کے وادی عشق ومحبت میںاگرکسی کا نام آتا ہے تووہ صحابہ کرام کی مقدس وپاکیزہ جماعت ہے، رضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔ ان کے بعدشخصیات میںمولانا سب سے زیادہ جن کے معتقد تھے ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں: 
 
عالم ربانی حضرت سیداحمدشہیدؒ، مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ اورقطب الاقطاب حضرت مولانارشیداحمدگنگوہیؒ۔اسی طرح کتابوں  میں قرآن مجیداورکتب احادیث کے بعدآپ کی نگاہ میںمحبوب ترین اوربہترین کتاب علامہ شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ تھی۔
خلاصۂ کلام یہ کہ حضرت مولاناسیدعبداللہ حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ دین کے ایک عظیم داعی اورامانت دار سپاہی تھے۔
 
جس طرح ملک کا ایک وفادار سپاہی قوم کی فلاح وبہبود چاہتا ہے اورملک کوخارجی وداخلی حملوں سے محفوظ رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرتا ہے اوراس کی خاطر اپنی جان تک قربان کردیتا ہے، اسی طرح مولاناؒ نے غیرمسلموں کی دائمی فلاح وبہبودی کی خاطر اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے روشنا س کرایا اور مسلمانوں کو ایمان سوز اوراخلاق سوز فتنوں سے محفوظ رکھنے کے واسطے دامے، درمے، قدمے، سخنے کوشش کی اوراسی راستے میںاپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے ان خوش نصیبوں کی فہرست میں شامل ہوگئے جن کا تذکرہ قرآن مجید میںیوںآیاہے:’’من المومنین رجال صدقوا ماعاہدوا اللّٰہ علیہ‘‘۔
(ترجمہ) مومنوں میںایسے لوگ بھی ہیںجنہوں نے جوعہداللہ تعالیٰ سے کیاتھا انہیں سچاکردکھایا۔
 
*****************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 792