donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azeez Belgaumi
Title :
   Maut Se Kisko Rastgari Hai



!...موت سے کس کو رستگاری ہے


عزیز بلگامی

Mobile : 09900222551


     انسانی زندگی ایک ٹھوس حقیقت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ٹھوس اور ناقابل تردید حقیقت موت کا وہ لمحہ ہے جس سے آدمی طوعاً و کرہاً گزرتا ہے۔لیکن اس سے کہیں زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آدمی موت سے فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اُسکا یہ یقین محکم اور احساسِ قوی ہے کہ جو بھی ذی حیات ہے، اُس کا مقدر موت ہے یعنی اُسے لازماً موت کی وادی سے گذرناہے۔سورۃ الجمعہ میں درج یہ اعلان ملاحظہ ہو:’’ نبیؐ جی! آپ اعلان فرمادیجیے کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ ضرورایک دن تمہیں آدبوچے گی ، پھر (دربارِ الٰہی میں) تم پیش کیے جائوگے، جوعلم رکھتاہے پوشیدہ اور ظاہر کا، (اوراپنے کرتوتوں کے تمہارے لاکھ چھپائے جانے کے باوجود) وہ تمہیں بتا دے گا کہ (دنیا میں) تمہاری حقیقی مصروفیات کیا رہی ہیں ۔ ‘‘

    پھریہ کہ یہ دنیا اس قدر دلفریب و دلآ ویز ہے کہ ایک جانب آدمی اپنے دل میں اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی آرزو پالنے لگتا ہے، تو دوسری طرف خود دنیا کی دلفریبی مستقل طور پر اسے اپنے جھانسے کی لپیٹ میں رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے دی گئی مہلت ختم ہوجاتی ہے اور آخرش وہ موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔مشکل یہ ہے کہ موت کے مرحلے سے گزرنے کے بعد کوئی انسان آج تک اس دنیا میں دوبارہ لوٹ کر نہیں آیاہے کہ وہ اپنے تجربات سے انسانوں کو آگاہ کر سکے، اورنہ آج تک کوئی تجربہ گاہ ایسی پائی گئی ہے جہاں بعد از موت واقعات کی تفتیش و ادراک کا کوئی تجربہ ممکن ہو سکا ہو۔ حقیقتِ موت ہمارے لئے تلخ بھی ہے اورپر اسرار بھی،کجا کہ ہم اس پر قادرہوجائیں۔ موت جیسے کئی معاملات ایسے ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ خصوصاًموت و حیات کی حقیقت کے بارے میں اپنی اتنی ترقی کے باوجود ہم بے بس و لاچار ہیں۔

    موت اور حیات پر کس کا قابو ہے؟ کون انہیںکنٹرول کرتا ہے؟ یہ اوراس نوعیت کے سوالات کے جوابات کا مکلف اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف خالقِ موت و حیات ہی ہے ، اور ہو نا بھی چاہیے۔ لازماً ہمیں اسی الخلاق العلیم ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس نے موت اور حیات کے اس سلسلے کو جاری کر رکھا ہے۔ایک طالبِ حق کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسی خالقِ موت و حیات سے دریافت کرے کہ موت فی الحقیقت کس شئے کا نام ہے؟ موت جب آجاتی ہے تو انسان فی الواقع کس منزل کی طرف کوچ کر جاتا ہے؟ اور کیا حالات اس کے ساتھ پیش آتے ہیں؟

    خالقِ انسان،جس کے اختیار میں ہماری موت وحیات کی باگ ڈور ہے، اپنی کتاب با برکات کی سدسٹھویں سورۃ کی پہلی اور دوسری آیت میں اس نوع کے حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ’’بزرگ و برتر ہے وہ جس کے دستِ اختیار میں وہ بادشاہت ہے(جس کی وسعت کی کوئی حد نہیںاور اس لامحدودسلطنت کی) ہر شے اُسی کی مضبوط گرفت میں ہے۔ وہی قادر مطلق سے جس نے موت کی بھی تخلیق کی اور حیات کی بھی ، اس طرح وہ ایک امتحان کے ذریعہ تمہاراجائزہ لے گا کہ تم میں سے کون اپنی زندگی کو احسن مصروفیات سے مزین کرتا ہے۔اور وہ انتہائی عزیز و غفور ہے۔‘‘

    اسی طرح ستائسویں سورۃ کی چھیسٹھویں آیت میں خالقِ موت و حیات زندگی بعد موت کے بارے میں ہماری معلومات کی تنگ دامانی کی اطلاع بھی ہمیں مرحمت فرماتا ہے:’’ بلکہ آخرت (کی حقیقت کی جستجو کرتے کرتے ) ان لوگوں کا علم تھک گیا ہے،بلکہ اس کے تعلق سے یہ شک میں مبتلا ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘

     حقیقتِ موت کی جستجو میں اس کھلی ناکامی کے اعتراف میںہمیں کوئی تکلّف نہیں ہونا چاہئے نہ تامّل۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس باب میں حقائق سے ہم نا بلد ہیں اورکئی پہلو اور بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم کوئی قطعی موقف اختیار نہیں کر سکتے۔اگر کسی کو اس سلسلے میں پھر بھی کسی دعویٰ کا خبط ہے تو اس پرخام خیالی کا حکم لگانے میں ہمیں تامل نہیں ہونا چاہیے۔

     یہ بڑی حوصلہ آفریں حقیقت ہے کہ اگر ہم واقعی ہمارے خالق کے کلام کے آسمانی الفاظ کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو ہمیں موجودہ حیرت انگیززندگی اور سر پر کھڑی پراسرار موت کے بارے میں بڑی اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں، جو قلب وذہن کو مطمئن کرنے والی بھی ہیں اور دل لگتی بھی۔ایسی دل لگتی حقیقتیں دنیا کے موجود لٹریچر میں ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گی۔ موت و حیات پر کنٹرول رکھنے والے رب نے ہمیں جو اطلاعات فراہم کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم موجودہ زندگی کے خاتمہ پر، موت کے دروازے سے ہوتے ہوئے ایک فائنل زندگی میں داخل ہوں گے۔وہ زندگی ایسی ہوگی جس کا کوئی اختتام نہیں، جہاں موت کا کوئی وجود نہیںاور ہمیشہ رہنے والی ابدی زندگی کی پلاننگ ہمیں موجودہ فنا ہونے والی زندگی ہی میں کرنی ہے۔ جد وجہد یہیں کرنی ہے۔یعنی ڈپازٹ یہیں کرناہوگالیکن اس ڈپازٹ کاMaturity Periodزندگی بعد موت میں جاکر ختم ہوگا، اوروہیںRepaymentپورا کا پورا کر دیا جائے گا۔لیکن موت کی وادیوں سے گزر کر ایک دوسری زندگی میں داخل ہونے کا مرحلہ کیا کوئی سہل مرحلہ ہوگا؟ ہر گز نہیں، یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں ہوگا۔

    موجودہ زندگی نے ہمیں جس حال میں رکھا ہے ، اُس سے نکل کر ایک دوسرے نامعلوم ماحول میں ہمارا داخلہ کوئی آسان Processنہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک بچہ جب موجودہ دنیا میں پہلی بار آنکھ کھولتا ہے تووہ ہنستے مسکراتے نہیں آتا بلکہ وہ روتے بلکتے اس دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ہم خود اس دور سے گذر چکے ہیں ۔یہ اور بات کہ ہماری یادداشت سے رحمِ مادر کے قیام اور ہماری پیدائش کا یہ واقعہ ہماری hidden memory میںجا چکا ہے اور ہمیں دنیا میںہر روز پیدا ہونے والے بچوں کی پیدائش کو دیکھ کر اعتماد کر لینا پڑتا ہے کہ یقینا یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی پیش آیا ہوگااور یہی کیفیت ہماری موت کے بعد ملنے والی نئی زندگی کے سلسلے میں ہوگی۔چھپنویں سورۃ کی تراسی ویں تا پچااسی ویں آیات میں ہماری بے بسی کی تصویر ان الفاظ میں پیش کی ہے:’’ اگر تمہیں یہ بِرتا ہے کہ تم پر کسی کا قابو نہیں، تو پھرتم کیوں نہیں(مرنے والے کی اُکھڑتی سانسوں پر قابو حاصل کر لیتے،جب وہ حلق میں جا اٹکتی ہے! تمہارا حال تو یہ ہوتا ہے کہ تم اس منظرِ جاں کنی کو بڑی بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہ جاتے ہو۔دراصل بہ وقتِ جاں کنی، زندگی کی آخری سانسیں گننے والے فرد کے قریب تو تم سے زیادہ ہم ہی ہوتے ہیں جس کا ادراک تمہاری(ظاہر نواز) بصارت نہیں کرسکتی ۔‘‘

     تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے، مگر اس کا دوسرا رخ کچھ کم عبرت انگیز نہیں۔ مرنے والا ہمارا کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو، اپنے عزیز کے انتقال کے تھوڑی ہی دیر بعد ہم اُس کے مردہ جسم کوDisposeکرنے کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں۔ یہ انتظام احترام وعقیدت کے جذبات کے تحت ہوتا ہے ۔چونکہ طبعی موت کے بعد انسانی بدن کے خلیے بھی زندگی کی رمق کھو بیٹھتے ہیں، اور نتیجتاًبدن کے decompose  ہونے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس لئے اُس فوت شدہ بدن اور اسکے رشتہ داروں کی خیریت اسی میں ہوتی ہے کہ اسے جلد سے جلد، عزت واحترام کے ساتھ سپرد خاک کردیا جائے۔جہاں تک انسانی روح کی بات ہے تو یہ خالقِ کائنات کی خدمت میں لوٹ جاتی ہے۔اس لیے کہ وہ وہیں سے آئی ہوئی تھی۔

    پھر صدیاں گزر گئیں، حقیقتِ روح کے بارے میں ہماری معلومات یا تو ناقص ہیں یا صفر کے برابرہی رہیں۔ روح کے تعلق سے ہماری معلومات میں سرے سے کوئی اضافہ ہو ہی نہ سکا اور نہ اس کا کوئی امکان ہے۔ اس لئے کہ جس مالک نے روح کی تخلیق فرمائی ہے وہ خود الکتاب کی ستراویں سورۃ بنی اسرائیل کی پچااسی ویں میں صحیح صورتحال بیان فرماتا ہے:’’ نبی ٔ  محترمؐ! عالمِ انسانی آپ سے روح کی حقیقت کے بارے میں پوچھتی ہے،اسے جانکاری دیجیے : روح تو میرے رب کا معاملہ، میرے رب کا Matter اور حکم سی ایک شئے ہے۔ تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا گیا بجز کچھ قلیل سی معلومات کے۔‘‘ 

     انسانی جسم کی کل کیفیت یہ ہے کہ اس کے اعضاء اسی زمین کی مٹی سے بنے ہوتے ہیں، اور اس پیکرِ خاکی میں زندگی کی گرمی اُس روح کے سبب پیدا ہوتی ہے جس کا تعلق عرشِ بریں سے ہے۔ اس طرح موت کے بعد جو شے جہاں سے آتی ہے وہیں لوٹ جاتی ہے۔ یعنی جسم مٹی کی طرف اور روح آسمانوں کی طرف ۔اِس منظر کو بطورِ عبرت بیسویں سورۃ سورئہ طٰہٰ کی پچپنویں آیت میں پیش کیا گیا ہے:’’ انسانو!ہم نے تمہیںزمین ہی( کے لوازمات)سے پیدا کیا ہے،(پھرجب تم وفات پا جائو گے تو)ہم تمہیں( اسی زمین کا جُز بننے کے لیے اِس کی سمت) لوٹادیں گے اور تمہیں آخری بار اسی زمین( کی پہنائیوں میں) سے نکالیں گے، (اور پھر تمہیں حساب دینا ہوگا)۔‘‘ 

    اب ایک باشعور انسان کا کام یہ ہے کہ اپنی کمزوریوںاور اپنی کمیوں پر غور کرے۔وہ سوچے کہ روح کے پرواز کر جانے کے بعد جب اُسے اپنے ہی جسم کے ضائع ہو جانے پر قابو نہیں، تو وہ کیوں کرروح کی امانت کے ساتھ زمین پر ایک بے فکری کی زندگی گزارنے کی سوچ سکتا ہے! کیا ہوگا جب اُسکی روح کوایک نئے جسم سے ملاپ کے ساتھ اس کے خالق کے روبرو پیش کیا جائے گا۔یعنی زندگی بعد موت کے لیے موجودہ زندگی میں ہمیںکیا کرنا چاہئے؟ یہی وہ مقام ہے جب ایک باشعور انسان کی سوچ کا یا تو ایک رُخ متعین ہو جاتا ہے یا وہ فکر و نظر کی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔سوچ کو ایک صحیح رُخ دینے کے لیے اُسے اپنے مالک کی مدد کی بیحد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ زندگی بعد موت کی منصوبہ بندی کس طرح کرے؟ چنانچہ انہی معلومات کی فراہمی اور انسانوں کی اسی ضرورت کے تحت ہر دور میں خالقِ انسانیت نے اپنے نبی مبعوث کئے، رسول بھیجے اوراپنی کتابیں نازل فرمائیں۔ مگریہ ایک المیہ ہے کہ ہر زمانے میںانسانوں نے نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات اورنورانی صحیفوں اور کتابوں کی نا قدری کی،انکی حفاظت سے گریز کیا اور بالآ خر انہیںکھو دیا۔بعض آسمانی کتابوں میں، اللہ کے کلام میں انسانی کلام کو ملادیا ۔اپنی تفسیریں، اپنے بزگوں کے اقوال بھی اس میں خلط ملط کردئے۔ اپنی تاریخ کے واقعات بھی ڈال دئے۔ یہاں تک کہ ان کی ابتدائی حیثیت Original Statusکو بدل کر رکھ دیا۔آخر کار رب تعالیٰ نے انسانوں کی لاپرواہیوں کے پیشِ نظر اپنا آخری کلام اپنے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرماکر اس کی حفاظت کاذمہّ بھی خود ہی لے لیا۔ الکتاب کی پندرھویں سورۃ الحجر کی نویںآیت میں اس کا تذکرہ موجود ہے:’’بلاشبہ، ہم نے ( بلکہ مکرر عرض ہے) ہم ہی نے اس ذکرِ پند و نصائح (قرآن) کونازل کیا ہے اوربے شک ہم ہی ہیں، (ہر پہلو سے اِس کیAuthenticityکی )حفاظت کرنے والے۔‘‘

     اس آخری پیغامِ ربّانی میں بڑے واضح الفاظ میں انسانیت کو بتا دیا گیا کہ اپنی مذکورہ فائنل زندگی کی کامیابی کے لئے اُسے کیا اور کس طرح کے deposits جمع کرنے ہیں۔کیسی حیاتِ دنیاوی انہیں اُخروی فلاح کا حقدار بنا سکے گی۔ اس کا ایک مکمل ضابطہ ہمیں الکتاب کی تیئسویں سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیتوں میں ملتا ہے:’’دیکھ لینا، فلاح اور کامیابی اُن ہی ایمان دارنیک نفسوںکے قدم چومے گی جو اپنی عبادت گزاریوں میںخشیتِ ایزدی کا عنصر شامل رکھتے ہیں۔فضولیات سے اعراض کرتے ہیں۔ افعالِ پاکیزہ کی انجام دہی میں سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔اپنے جسم کے پردہ دار حصوں کو(ہر نوع کی) بے پردگی سے محفوظ رکھنے کے جتن کرتے ہیں،مگر (یہ اور بات کہ ایسا موقع کبھی) اُن کے ازواج جواُن کے قانونی شرکائے حیات ہیں،کے سلسلے میں( پیداہو رہا ہو تو پھر یہ) قابِل ملامت نہیں ہوگا۔(پھر اگراس خدا پرستانہ طرزِ عمل کو چھوڑ کر اپنی تعیشانہ ذوق کی تکمیل کی) کوئی دیگر(مذموم )راہوں کی جستجو کرتا ہے، تو دراصل اِس قبیل کے افراد ہی حدود اللہ کو پامال کرنے کا گناہ مول لیتے ہیں۔ پھرجو لوگ اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کی پاسداری کرتے ہیں اور جو اپنی عبادگذایوںکے تحفظ میںلگ جاتے ہیں، توفی الحقیقت یہی لوگ وارث ہوں گے، جنت الفردوس کی وراثت کے حق دار ہوں گے،جہاں اُن کے لیے قیام ابدی (کی سوغات) میسر آئے گی۔‘‘

    فطرتاً اپنی ذات میں بعض انسان بڑے نیک واقع ہوتے ہیں، اوراپنی پسندیدہ نیکیوں یا Charitiesکا ایک ایجنڈہ اپنے لیے طے کر لیتے ہیں، اور اپنی تمام تر سعی و کوشش کو اسے Executeکرنے پر مرکوز کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کو اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کھپا دیتے ہیں۔گو کہ یہ سب دلنواز نیکیوں ہی کے کام ہوتے ہیں، تاہم ترجیحات کے اعتبار سے اُس فہرست سے اِ ن کی کوئی نسبت نہیں ہوتی جو مالکِ کائنات کی فراہم کردہ ہوتی ہے۔اسطرح ایسے کام اپنی تمام ترتقدس مآبیوں کے باوجود خدا کی خوشنودی کے حصول میں کامیابی کی ضمانت شاید نہ ہوں۔اس لیے ہمارے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم نیکیوں کی ہماری اپنی فہرست کا موازنہ ، مالک کی فہرست کے ساتھ کرکے دیکھ لیں۔ کمی بیشی ہوتو درست کرلیں، پھر اپنی زندگی کا ایسا لائحہ عمل مرتب کرلیں، جو بالآخر خدا کی خوشنودی کا باعث بن جائے۔

    تصورِنیکی کے بارے میں قرآن شریف میں ہمیں مختلف پیرائے ملتے ہیں۔ مثلاًدوسری سورۃ البقرۃ کی ایک سو ستہترویں آیت میں ہمیں ایک اہم فہرستِ حسنات ملتی ہے:’’محض، اپنے چہروں کومشرق و مغرب کی سمت پھیر لینے کا نام نیکی نہیں ہے،بلکہ(ترجیحات کے اعتبار سے نیکیوں کی فہرست کچھ اس طرح ترتیب پاتی ہے:پہلی نیکی) اللہ سے ایمانداری کا رویہ اختیارکرے،(دوسری نیکی) آخرت کے حساب کے تئیں حساس رہے۔(تیسری نیکی)فرشتوں کے وجود کو تسلیم کرے،(چوتھی نیکی)الکتاب کی حقانیت تسلیم کر لے،(پانچویں نیکی )سلسلۂ انبیاء کی ضرورت کا قائل ہو،(چھٹویں نیکی ) حبِّ الٰہی کی بنیاد پراپنے اقرباء کی مالی امداد کرے،(ساتویں نیکی)یتیموںکی مالی امداد کرے،(آٹھویں نیکی)مسکینوںغریبوں اور محتاجوںکی مالی امداد کرے،(نویں نیکی)مسافروں(یا راستوں میں مختلف مقاصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی) مالی ضروریات اور Public Utilities itemsسے جڑی خدمات پر خرچ کرے،(دسویں نیکی )دستِ سوال دراز کرنے والوںکی (بخوشی)مالی اعانت کرے،(گیارھویں نیکی)،متنوع  Liabilities  کے نرغے میں، پریشانی میںپھنسے ہوئے لوگوں(یاقیدیوں) کا مالی (و قانونی) تعاون کرے،(بارھویں نیکی)عبادتوں کے قیام کا نظم کرے،(تیرھویں نیکی)زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرے،(چودھویں نیکی)کسی سے کسی عہد میں بندھ جائے تو اُس سے وفا کرے،(پندرویں نیکی)حالات سخت ہوں تو صبر سے کام لے۔(سولویں نیکی)پریشان کن حالات میں تحمل کا مظاہرہ کرے،(سترویں نیکی)بحرانی مرحلوں میںصبر و تحمل کی ایک مضبوط چٹان بن جائے۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے(نیکیوں کی اس سترہ نکاتی فہرست کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے دعویٔ نیکو کاری کی)تصدیق کی اوران ہی لوگوں کے لیے تقویٰ کی صفت زیب دیتی ہے۔‘‘

    کسی بندۂ خدا کے لیے مرضی ٔ الٰہی سے قریب تر ہونے کی واحد سبیل یہ ہے کہ ہم اُس کے کلام کے روزانہ بلاناغہ مطالعہ کے ذریعہ اُس سے ایکLive Connectionپیدا کرلیں۔اپنی روزمرہ کی نارمل زندگی کی ہر مصروفیت کو مذکورہ فہرستِ حسنات کے زیرِ اثر لائیں، یہاں تک کہ ہمارے ہر عمل کا محوررضائے رب کی تمنا بن جائے۔مثال کے طور پر اگر ہم کو اپنی اولادکی تعلیم و تربیت کی ذمہّ داری کونیکو کاری میں بدلنا ہے تو اپنی سوچ کو یہ رُخ عطا کریں کہ جن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہم اُٹھا رہے ہیں، وہ اللہ کی مخلوق ہے، آدم علیہ السلام کے خاندان کے افراد ہیں جو اولاد کی شکل میں ہمارے حوالے کئے گئے ہیں۔اس طرح کے attitude & style   سے ہم انشاء اللہ آخرت میں اجر وثواب کے مستحق بنیں گے۔ اولاد اور انکے مستقبل کا علم تو اللہ کو ہوتا ہے۔ مگر ہماری یہ کوشش انشاء اللہ رائیگاں نہیں جائے گی اور اگر اس ذمہ داری کی احسن ادائیگی کے نتیجے میں ایک شریف ، باوقاراور کامیاب شخصیت پروان چڑھتی ہے تویہی شئے اُن والدین کے حق میں دنیا میں بھی سرخروئی کا باعث ہوگی اور آخرت میں بھی نیکیوں کا سرمایہ بن کر اُبھرے گی۔اسی طرح اپنے والدین کی خدمت پربھی اس طرزِ عمل کا اطلاق ہوگااور اسی طرح ہم دوسری ذمہ داریوں کو اس پر قیاس کر سکتے ہیں۔اس حقیقت کو ہم تیسری سورۃ آل عمران کی ایک سو دوسری آیت میں ہم بہت ہی واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں:’’اے صاحبینِ ایمان !  اپنی ذات پر طاری کرلو خشیت الٰہی کو، جیسا کہ خشیت ِ الٰہی اس کی متقاضی ہے۔تمہاری روح قفسِ عنصری سے پرواز نہ کرے، تاآنکہ تم(سرتاپااطاعت گزاری کے ساتھ اُ س کے) سپرد ہوچکے ہو۔ ‘‘


Azeez Belgaumi, 
No.43/373 Bhuwaneshwari Park Cross 
M K Ahmed Road Kempapura Hebbal Post 
Bangalore 560024 

**** 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 897