donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Prof. Mohsin Usmani Nadvi
Title :
   Saleb Aur Helal Ki Nayi Kashmakash

 

پروفیسر  محسن  عثمانی  ندوی  

 


 صلیب  اور ہلال کی نئی کشمکش


           حدیث  میں  علماء کو  ورثۃ الانبیاء  کہا گیا ہے  ۔ ایک دوسری  حدیث  میں  ہے کہ  مسلمانوں کے معاملات  ومسائل  سے جو دلچسپی نہ لے  وہ ہم  میں  سے نہیں  ۔ چونکہ  پیغمبر کو اپنی  امت کی فکر  ہمیشہ لاحق رہتی  ہے  اس لئے  امت کے مسائل  کی فکر کرنا  اور امت  کی پریشانیوں  سے  بیچین ہونا اور ان کے غم کو اپنا غم بنانا  اوامت کی  صحیح فکری رہنمائی کرنا  پیغمبروں کی وراثت ہے۔  خوش نصیب ہیں  وہ اہل علم  جنہوں نے  اسلامی دنیاکے حالات پر اپنی  نگاہ رکھی ہے  اور جنہوں نے عالم اسلام کے غم کو اپنا غم بنایا ہے  ۔ جب اسلامی دنیا کراہ رہی ہو  اور جب  وہ  استبداد اور ظلم  کا شکار ہورہی ہواور مسلمانوں کا خون بہایاجارہاہو اور بے گناہ لوگوں کو پس دیوار زنداں ڈالا جارہا ہو  اس وقت سب سے اہم کام  مظلوم کی حمایت اور مدد ہوتی ہے،  قرآن میں ہے  و  من احیا ہا  فکانما احیا  الناس جمیعا  یعنی جس نے  انسان کو زندگی بخشی   اس نے گویا تمام انسانوں  کو زندگی بخشی  ۔   زندگی بخشنے کا مطلب  بے جان مردہ لاش کوزندہ کرنا اوراس  میں روح پھونکنا  نہیں ہے،  زندگی بخشنے کا مطلب  موت  سے بچانا ہے  اور کسی کو موت سے بچانے طریقے  متعدد ہوسکتے  ہیں  ظالم کو ظلم سے روکنا ، انصاف کی  عدالت میں ظالم کے خلاف مقدمہ  قائم کرنا ، تحریر یا تقریر یا بیان  کے ذریعہ احتجاج کرنا اور  لوگوں کو ظلم کی طرف متوجہ کرنا، یہ ساری  تدبیریں  زندگی بخشنے کے مفہوم میں داخل  ہیں  ۔ یہاں مسلمانوں کی تنظیمیں بہت سی ہیں،  لیکن ہم نے  نہیں دیکھا  کہ مسلم ملک میں  اسلامی شخصیات کوپھانسی دی  جائے چمن اسلام کے گل ہائے تازہ کو کچل دیاجائے اور غنچوں کومسل دیا جائے  تو کسی مسلمان قائد کا دل اس پر مضطرب  ہوا ہو ، مصر  میں  سیکڑوں  انسانوں کو موت کے گھاٹ  اتاردیاجائے  اور دار ورسن کی منزلوں سے  دینی ذہن وفکر رکھنے  والی شخصیتوں کو  گذارا جائے  تواس پر کسی کا د ل  اس طرح  دکھا ہو کہ اس  نے  اخبارات کے ذریعہ اپنے  غم اور کرب  کا اظہا ر کیا ہو ،  عرب  ملکوں میں  مسلمانوں کے  خون سے ہولی کھیلی جائے  اور عوام پر ظلم ہو  اور غیر قانونی   طور پر کوئی سیسی   اقتدار پر قابض  ہوجائے  اور اپنے مخالفوں کو  جیلوں میں بند کردے  تو ہم نے  نہیںدیکھا کہ کسی عالم اور کسی جماعت کے امیر نے  کسی صوفی اور کسی فقیر نے  کسی  جمعیت  کے مقتدا اور پیشوانے  غم اور  غصہ کا اظہار کیا ہو  الا ماشاء اللہ  ۔یعنی اب  خون سفید ہوگیا ہے  اور مسلمانوں کے معاملات سے  دوری اور بے تعلقی پیدا ہوگئی ہے  اور ہم اس حدیث کا مصداق ہوگئے ہیں  من لم یہتم بامر  المسلمین فلیس منا یعنی جو مسلمانوں کے معاملات سے بے نیاز ہو وہ ہم میں سے نہیں ۔  اتنا ہی نہیں  جو  اہل علم  ان موضوعات پر لکھتے ہیں اور اپنے  کرب کا اظہار کرتے  ہیں  انہیں  معمولی درجہ کا مضمون نگار اور قلم کار سمجھاجاتا ہے،  اور  منبر ومحراب کے فضیلت مآب علماء کے مقام بلند  سے انہیں فروتر سمجھا جاتا ہے   ۔  زیادہ تر علماء  حالات کے سمندر میں  خود  کو کتابی  جزیرہ کے اندر نظر بند رکھتے ہیں  انہیں کوئی خبر نہیں ہوتی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف  کہاں کیاکیاسازشیں ہورہی ہیں  اور کہاں کیا افتاد پڑی ہے۔ لیکن ہندوستان میں شاہ ولی اللہ دہلوی سے لے کر  شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا  ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر  ،مولاناشبلی نعمانی  ، مولانا مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی  تک بہت سے علماء اور مفکرین  اپنے وقت کے حالات سے غافل نہیں رہے، وہ  عالم اسلام سے بے تعلق نہیں رہے، وہ باطل کے خلاف شمشیر بے نیام  رہے، انہوں نے  اپنے قلم کواور اپنی زندگی کوملت کی صحیح رہنمائی کے لئے وقف کردیا تھا،


      اس  وقت  صورت  حال  یہ ہے کہ صلیبی صہیونی جنگ  اسلامی دنیا  کے خلاف چھیڑ دی گئی  ہے اور شیعی دنیا بھی صلیبیوں اور صہیونیوں کے ساتھ مل گئی  ہے  ایرانی  رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا  بیان  اکتوبر 2014 کے تیسرے ہفتہ میں دہلی کے اردو اخبارات میںآ چکا  ہے کہ اگر بشارالاسد کو تخت اقتدار سے ہٹایا گیا  تو  اسرائیل  کے  وجود کی کوئی  ضمانت نہیں  ہے ، اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ  ایران  اسرائیل کی بقاء  چاہتا  ہے  اور  یہ کہنا چاہتا  ہے کہ اگر  بشار کو ہٹایاگیا  تو  اقتدار پر جولوگ آئیں گے  ان سے  اسرائیل کوخطرہ  ہے اس لئے  امریکہ مغربی طاقتین  بشار  الاسد کو ہٹانے کی کوششوں  سے باز آجائیں  ۔ اگر بشار کو  شام سے نکالا گیا  تو جولوگ  اقتدار  میں آئیں گے  وہ  اسرائیل  کے خلاف کاروائی سے باز نہیں آئیں  گے  ۔ہر مسلمان کو یہ جاننا چاہئے کہ  اس  وقت  عالم  اسلام  بے  حد کمزور  اور صلیبی صہیونی شیعی متحدہ محاذکے نرغہ میں ہے، تاریخ میں پہلے بھی شیعی اور صلیبی اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ تاریخ میںاسلام کے  بطل جلیل عماد الدین زنگی  کو صلیبیوں سے مل کر شہید کرنے والے  شیعہ تھے ۔  صلیبیوں کے خلاف جنگ آزما  ایک سلجوقی مجاہد کو  دمشق کی جامع مسجد میں قتل کرنے والے بھی شیعہ تھے،  شیعیت اور صلیبیت کا یہی اتحادتھا جس کی وجہ سے شیعوں کی سرکوبی کے لئے نور الدین زنگی نے مصر کی فاطمی حکومت کے خلاف فوج کشی کی تھی اور سلطان صلاح الدین ایوبی خود بھی اس مہم میںشریک  ہوئے تھے  اور انہوں نے شیعی فاطمی خلافت کے خلاف جہاد کیا  اور پھر شیعی فاطمی خلافت  کے  خاتمہ کا اعلان کیا تھا   سلطان صلاح ادین ایوبی  نے اپنے زمانہ میں مصر میں جامع ازہر کو بھی بند کیا جو شیعیت کی تعلیم وتلیغ کا سب سے بڑا مرکز تھا  ۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے  کہ مصر میں  جب  محمد مرسی  اقتدار میں آئے  تو ایرانی حکومت نے  جامع ازہر اور سیدنا  زینب  کے علاقہ کو ایرانی انتظام  میں دینے کا مطالبہ کیا تھا،  محمد مرسی نے  یہ  مطالبہ ٹھکر ادیاتھا  ۔ محمد مرسی نے ایران جاکر بھی  ناوابستہ ممالک کی کانفرنس کے موقعہ پرشامیوں کی جنگ آزادی کی حمایت کی تھی اور  بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی آواز اٹھائی تھی،  لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ ہر حال میں سعودی حکومت کی حمایت  پر تلا ہوا ہے،   وہ محمد نرسی  پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ  ایران  سے بہت قریب ہو گئے تھے  ۔ سعودی عرب  کی اس  اندھی حمایت کے پیچھے  درہم ودینار  کی طلب کے سوا کچھ نہیں  ہے  ۔


     اس وقت مشرق وسطی صلیب کے نشانہ پر ہے اگرچہ نام صلیبی جنگ کا نہیںہے، تاریخ  میں یہی خطہ پہلے بھی صلیبی حرص و آز کا نشانہ تھا  اور آج بھی یہی علاقہ اس کی سازِش کا  ہدف  ہے ۔ غم  اس بات کا ہے کہ عربوں کو اورپوری اسلامی دنیا کو اس خطرہ کا احساس نہیں ۔ متاع کارواں کے لٹ جانے کا غم  اتنا  شدید نہیں جتنا اس  بات  کا غم ہے کہ کارواں کے دل سے احساس  زیاں بھی جاتا  رہا ہے ۔عرب ممالک میں امریکہ کھلے آسمان سے بمباری کررہا ہے، عرب انتہائی کمزور ہیں وہ ہتھیلی پر رکھے  ہوئے اس گوشت کی طرح  ہیں  جسے کوئی چیل کسی وقت بھی جھپٹا  مار کر لے جاسکتی  ہے ۔ یہ عرب ممالک  امریکہ اور مغربی ملکوں سے ہتھیار لیتے  ہیں  ۔ یہ عر ب  ملک بھی کیا سادہ  ہیں جس کے بیمار ہوئے ہیں اسی سے دوا لیتے ہیں ۔عربوں کو ہتھیار امریکہ اور مغربی ملکوں سے بس اسی قدر مل سکتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو نقصان نہ پہونچاسکیں ۔غلطی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ پٹرول کی دولت جو اللہ نے دی تھی اس کا صحیح  استعمال نہیں ہوسکا ، پٹرول کی دولت سے عرب ملکوں میں صنعتی  اور سائنسی  انقلاب آنا چاہئے تھا،  اسلحہ سازی ہونی چاہئے تھے، ان ملکوں کو خود کفیل ہونا چاہئے تھا،  افسوس کہ یہ سب نہ ہوسکا ، باہر سے سامان منگا کر عیش کرنے کے سوا عربوں نے کچھ نہیں سیکھا  ۔صحیح  تعلیمی اور سائنسی منصوبہ بندی نہ ہوسکی ۔


         اس وقت  امریکہ  اور  اس  کے ساتھ کئی  ملکوں کا اتحاد جو داعش کو عراق اور شام میں مسلسل  بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے  یہ بالواسطہ  طور پر صلیبی جنگوں  کا احیاء ہے،  یہ مسلمانوں کو برباد کرنے کی سازش ہے  ۔صرف  ترکی ہے جس نے بجا طور یہ سوال اٹھایا  ہے کہ صرف داعش  پر بمباری کیوں جس  نے  صرف  چند ہزار جانوں کو ختم کیا  ہے ، بشار الاسد اور اس کی حکومت کو نشانہ کیوں نہیں بنایا جارہا ہے جس نے دولاکھ انسانوںکا قتل کیا ہے۔ ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ ، کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ ۔ ظاہر میں داعش کے خلاف کاروائی باطن میں اسرائیل اور بشار کو مضبوط کرنے کامصمم ارادہ  ۔حقیقت یہ کہ  بشار سے اسرائیل کوکوئی خطرہ نہیں ، اسرائیل کو خطرہ ان اسلام پسندوں سے ہے جو شام میں انقلاب کی کامیابی کے بعداقتدار میں آئیں گے  ۔ داعش کے خلاف جنگ احزاب چھیڑ دی گئی  ہے،  سارا یورپ متحد ہے  اور چشم بد دور عرب خلیجی ممالک بھی ساتھ ہیں اور سب امریکہ کے زیر قیادت داعش پر بمباری کر رہے ہیں ۔شام میں کئی لاکھ لوگوں کاقتل  اور لاکھوں لوگوں کی جلاوطنی اور پناگزینی کی حالت امریکہ کو  بیچین نہیں کرسکی لیکن جیسے ہی نوری  المالکی کے ظلم  وعدوان اور سنیوں پر مظالم کو چیلنج کرتے ہوئے عراق میں داعش میدان میں آئے  امریکہ ان  لوگوں کو میدان سے ہٹانے اور مارنے کیلئے میدان میں آگیا۔ اس لئے کہ اگر  داعش  کا عراق میں  پٹرول  کے ذخیرے  پر  کاقبضہ ہوتا ہے  تو اس سے امریکہ کی معاشی  شہرگ کٹ جاتی ہے  ۔داعش پر حملہ اس لئے بھی  ہو رہا ہے  اس سے  بشار کواور اس کے اقتدار کو خطرہ ہے  اور بشار کے جانے سے اسرائیل کو خطرہ ہے ، یہ ہے اصل وجہ داعش پر حملہ کرنے کی  ۔ صہیونی اور صلیبی طاقتیں اسلام کو مٹانے ہٹانے اور گرانے پر متحد ہوگئی ہیں اور ایران کی شیعی طاقت خوش ہو رہی اور خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ہے کہ اہل سنت  کا خون بہایاجارہا ہے اور شام  میں بشار  مضبوط تر ہورہا ہے  ۔ ایران کا موقف تو سمجھ میں آتا ہے  لیکن خلیجی عرب حکومتوں کا داعش کے خلاف  امریکہ کا ساتھ دینا حیرت انگیز ہے، پرستاران خاک کعبہ اس وقت ناقوس کلیسا کے ہمساز اور ہم آواز بن گئے ہیں ، یہ بیچارے  ملک اپنی ملوکیت کے مستقبل کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں ۔انہیں فلسطین اور مسجد اقصی  کی کوئی فکر نہیں۔ امریکہ نے  دہشت گردی کو مٹانے کے نام سے داعش کے  خلاف  جنگ چھیڑی  ہے  لیکن  اسے  نوری  المالکی  اور بشار الاسد کی اسٹیٹ  دہشت گردی نظر نہیں آتی  ہے۔


       عیسائیوں کا یہ بھی عقیدہ  ہے کہ حضرت عیسی شام کے مقدس  شہر دمشق میں  اتریں گے،  اس لئے  عیسائی  اس  پورے خطہ ارض سے خود کو وابستہ رکھنا چاہتے  ہیں اور اس پر اپنا حکم چلانا چاہتے ہیں اسی لئے ان کا  اتحاد صہیونیوں سے ہے  اور صہیونیوں کی حکومت انہوں نے قائم کی ہے ، صہیونیوں کے ذریعہ  وہ اس  خطہ کے کے بڑے  حصہ پر اپنا تسلط  رکھ سکتے  ہیں  ۔ ظہور مسیح کی روایتوں کی سرزمین بھی یہی ہے  اور ظہور مہدی  کی روایتوں کا تعلق بھی اسی علاقہ سے ہے  ۔  مہدی   کے ظہور  کا  اسٹیج  ایران کی جانب سے  تیار کیا جارہا ہے ۔ اسی لئے  شیعی اقتدار کی توسیع  ہورہی  ہے  چنانچہ  ایران  وشام و عراق و لبنان  یمن اور بحرین کو  ملا کر شیعی استعمار کا ہیولی  تیار ہورہا  ہے،  اس  طرح سے صہیونیوت صلیبیت اور شیعیت کا اتحاد قائم  ہوگیا ہے اور اسی لئے ان تینوں طاقتوں کی متحدہ  جنگ مسلمانوں  کے  خلاف  جاری  ہے  ۔ اس جنگ  میں مسلمانوں کے خلاف  بہت سے مغربی ملک شریک ہیں اور خود مسلمان عرب ملک  بھی  امریکہ کے اشارہ  سے شریک ہیں  ، صرف ترکی ایسا ملک ہے جس نے اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کیا ہے اور اس نے  امریکہ کے دباو کا مقابلہ کیا ہے۔


     اس  وقت  عیسائیوںکی مذہبی تثلیث کی طرح مشرق وسطی میں سیاسی تثلیث ابھرکر سامنے آئی ہے ۔ اور اس سیاسی تثلیث نے  خطرہ کو شدیدتر کردیا ہے،  پہلے  امریکہ محض پٹرول کی  وجہ سے  اس  خطہ میں سعودی عرب کو اہمیت دیتا تھا اور ایران سے اس کے تعلقات خراب ہوگئے تھے،  ایرانی انقلاب کے بعد تعلقات کے  شیشہ  میں بال پڑ گئے تھے بلکہ  سخت دشمنی کا دور شروع ہوگیا تھا ۔ امریکہ نے  ایران پر معاشی پابندیاںعائد کردی تھیں ۔ ایران نے امریکہ کو شیطان اکبر کہنا شروع کردیا تھا ۔ لیکن شیطان اکبر کی’’  شیطنت ‘‘بھی اب  دیدنی ہے کہ اس  نے  ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا شروع کردیا ہے ۔ بارک اوباما نے آیت اللہ  خامنہ ای کو ایک اہم اور خفیہ خط بھیجا ہے جس میںداعش پر حملہ کرنے کے ساتھ تعلقات کی استواری کی دعوت دی گئی ہے ، یعنی یہ کہاجارہا ہے 

  آو  مل جاو مسکراکے  گلے
  ہوچکا  جو  عتاب  ہونا  تھا

 ایران کو بھی  احساس  ہے کہ امریکہ  بالواسطہ  ایران کو اور بشار الاسد کو اور بحیثیت مجموعی پوری شیعہ کمیونیٹی کو فائدہ پہونچارہا ہے  اور عراق کی شیعی حکومت  تو پہلے سے امریکہ کے تابع ہے ۔جب  جب  شام میں  النصرہ فرنٹ کو امریکی جنگی جہاز نشانہ بناتے ہیں  بشار الاسد کی حکومت مضبوط تر ہوتی ہے اور جب بھی عراق میں  داعش پر حملے ہوتے ہیں اس کاسیدھافائدہ ایران اور عراق کی حکومتوں کو ہوتا ہے  ۔ یمن میں جب بھی القاعدہ اور انصار الشریعہ کو نشانہ بنایاجاتا ہے یمن کے حوثیوں  اور شیعی گروہوں کے گھروں میں گھی کے چراغ جلتے ہیں اور ایران میں بھی چراغاں ہوتا ہے لبنان اور بحرین میں بھی خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ اس وقت صلیبیت اور صہیونیت  اور شیعیت کا ایسا تال میل ہوگیا ہے اور ایسا تابنا تیار ہوگیا ہے جو پہلے کبھی نہ تھا  ۔ سعودی عرب  اب سہ طرفہ اتحاد کے گھیرے میں ہے  ۔  ایران کا اثر ونفوذ  شیعہ آبادی کے ذریعہ سعودی عرب کے اند دو دورر تک پھیلا ہواہے  ۔ پھر صلیبیوں کی فوجی چھاونیاں سعودی عرب کے اندر اور اس کے گرد وپیش میں موجود ہیں  ۔ کتنا شدید خطرہ ہے ۔کہیں یہ شعلہ دامان حرم تک نہ پہونچ  جائے ،کہیں یہ آگ مرغان حرم کے آشیانہ کو خاکستر نہ کردے، کہیں اسلام کی مقدس سرزمیں غارت گری کا شکار نہ جائے،شطرنج کی بساط پر  شہ پڑچکی ہے  ۔اور بس ظالم کی نیت  کے بگڑنے کی دیر ہے ۔

 بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت 
  نہیں کام آتی  دلیل  اور حجت

     اس وقت عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ  ایک نئے انداز  سے  برپا کی گئی ہے  ۔  نیا انداز یہ ہے کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بظاہر کچھ نہیں کہا جاتا ہے  لیکن وہ سارے جتن کئے گئے ہیں  جن سے  اسلام  کہیں سرنہ اٹھاسکے  ۔امریکہ میں  اناجیلی تحریک  جسے  Evangelicans کی تحریک  بھی کہتے ہیں  نائین الیون  کے بعد  سے خاص طور پر  عالم اسلام کے شکست وریخت کے لئے بہت سرگرم ہے  اور حکومت پر اس کے اثرات ہیں ، سوویت یونین کا جو دشمن نمبر ایک تھا خاتمہ ہو چکا،  سوویت کے بکھر جانے کے بعد سے کئی مفکرین کی کتابیں آچکی ہیں کہ  مغرب کو خطرہ اب صرف  اسلام  سے باقی ہے ، جاپانی  نزاد مفکر فوکویاما  کی کتاب  End of History and the last man میں یہ کہا گیا ہے  کہ سویت یونین  کے خاتمہ کے بعد  اب تاریخ اپنی انتہا کو پہونچ گئی  ہے  اب آخری آدمی  جس کے سر پر دنیا کی شہنشاہیت کاتاج ہے وہ  وہائٹ ہاوس میں جلوس افروز ہے  ۔   سیمویل  ہنٹنگٹن کی کتاب  Clash of civiliztion میں  جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں ایک ہے  یہ بتایاگیا ہے کہ سوویت یونین  کے خاتمہ سے  امریکہ کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ  تمام خطروں کا خاتمہ ہو گیا ہے  ۔اسلام سے  الحذر ، سوبار الحذر، اصل ٹکراو  اسلام سے ہے  ،جس کے پھیلنے  اور آبادی میں اضافہ ہونے کی رفتار اندیشہ ناک ہے  ، اب مغربی طاقتوں کی ساری کوشش یہ ہے کہ ایک دشمن جو باقی رہ گیا ہے  اس کا قصہ بھی ختم کیا جائے ۔ عالم اسلام میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو اس روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے  ۔ اس وقت عرب ملکوں میں  مغربی طاقتوں کے فوجی  اڈے موجود ہیں اور پھر ہوائی اڈے ہیں  جن میں جدید ترین سامان حرب سے لیس جنگی جہاز کھڑے ہوئے ہیں ۔عرب  ملکوں کے سمندر میں ساحل کے قریب  امریکی بحری بیڑے ہیں  ۔ امریکہ دنیا کا ’’پولیس مین‘‘ بن چکا ہے ، امریکہ اور مغربی طاقتوں کو برداشت نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی عرب ملک اپنی سیاسی فوجی اور اقتصادی  پالیسی بنائے ۔ عراق میں امریکہ کی قائم کی ہوئی شیعی حکومت تھی جوپورے طورپر ایران  کے زیر اثر تھی جو رات دن  اہل سنت کو ظلم کی چکی میں پیس رہی تھی    جب تک سنی  عراق میں  خاک وخون میں لوٹتے  رہے  ایران خوش  ہوتا رہا ،نوری المالکی کی دشمن اہل سنت  حکومت  اور بشار الاسد سے مقابلہ اورمقاوت کے لئے داعش کے لوگ جب کھڑے ہوئے تو ایران کے سینہ پر سانپ لوٹنے لگا اور جب عراق کے بڑے حصہ پر ان کا قبضہ ہوگیا تو امریکہ کا دل بھی دھڑکنے لگا  اور اسے بھی خطرہ پیدا ہوا کہ عراق کا پٹرول کا دریا اس کے لئے اب  سراب ثابت ہوگا  ،امریکہ کا اصل مقصد عرب ملکوں کے تیل  کے چشموں پر قبضہ کرنے کا ہے ،  اب  اس نے  مغربی  ملکوں کو ساتھ لے کر اور عقل سے محروم اور شعورسے بے بہرہ ایمان ویقین سے عاری خلیجوں ملکوں کو اپنا ہمنوا اور ہم خیال بنا کررات دن داعش پر بمباری شروع کر رکھی ہے ۔ داعش کی حمایت مقصود نہیں اور اس کی سنگین غلطییوں پر پر دہ ڈالنا بھی مقصود نہیںاور علماء نے بجا طور پر اس کی مذمت کی ہے لیکن حقیقت یہ  ہے کہ یہ اہل سنت کے شہیدان وفا کا خون ہے  جو داعش کی شکل میں سامنے آیاہے ۔یہ نظریہ غلط ہے کہ داعش کو امریکہ اور اسرائیل نے  کھڑا کیا ہے  ،سیاسی مبصرین دور کی کوڑی لانے کے عادی ہیں ،داعش پرمسلسل  بموں کی اس بارش  کے پیچھے اہل سنت کو کمزور کرنا اور بشار الاسد اور اسرائیل کو مضبوط کرنے کا جذبہ کام کررہا ہے  ۔  یہ گذشتہ صلیبی جنگوں کا تسلسل  ہے  دہشت گردی کو ختم کرناتو صرف ایک بہانہ ہے، یہ صرف فسوں اور فسانہ ہے،  اصل نشانہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے ۔اس  وقت پورے عالم اسلام میں تنہا  ترکی نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ یہ سخت نا انصافی  ہے کہ جس  درندہ صفت انسان  (بشار الاسد) نے  دولاکھ  انسانوں کا  خون بہایا  ہو اور ہنگامہ آہ وفغاں برپا کیا ہو  اورحسن وخوبصورتی میں بے مثال  ملک کو جس نے مسمار کرڈالا ہو اس کوتو  چھوڑ دیا جائے  اورصرف  داعش کو نشانہ بنایا جائے  ۔  ترکی نے وہ حق بات کہی  ہے جو کسی بھی مسلمان ملک نے نہیں کہی  ہے ۔ اس حق گوئی  اور بیباکی کی توفیق کاش عرب ملکوں کو مل جاتی اور کاش وہ صلیب  اور ہلال کی اس نئی کشمکش کو سمجھ پاتے   ۔ اور امریکہ کے اشارہ پر رقص کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔

     صلیب وہلال کی اس نئی کشمکش کو عربوں نے نہیں سمجھا ہے  ۔اس وقت  ایران بھی صلیب کا طرفدار اور حمایتی بن گیا ہے ۔اس وقت سعودی عرب  اور خلیجی ریاستوںنے سب سے بڑی غلطی یہ کی  ہے کہ وہ سب  امریکہ کے دام ہم رنگ زمیں میں گرفتار ہوگئے ہیں  ۔ ان سب  نے عبد الفتاح سیسی کی زور شور  سے حمایت کرڈالی ہے  اور عالم  اسلام کی سب سے بڑی  دینی جماعت کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے  متحدہ امارات کی حکومت نے  ایک قدم آگے بڑھ کر نہ صرف اخوان المسلمون کو بلکہ  دنیاکی بے شمار دینی اصلاحی کام کرنے والی جماعتوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے  اس کی فہرست میں انٹر نیشنل یونین آف مسلم اسکالر ز کی تنظیم بھی ہے جس کے سربراہ علامہ یوسف القرضاوی  ہیں  اس کی فہرست میں یورپ میں کام کرنے والی  فڈریشن آف  اسلامک  آرگنائزیشن  جیسی تنظیم  اور دیگر تنظیمیں بھی ہیں جو یورپ میں  سرگرم ہیں ، دہشت گرد قرار دینے کا یہ جنون ہے جس کی وجہ سے ۸۰ فی صد سے زیادہ مسلمان پوری دنیا میںسعودی عرب اور خلیجی ممالک کو ناپسند کرنے لگے ہیں اور انہیں عقل اور ایمان دونوں سے محروم قرار دیتے ہیں، خلیجی ملکوں کے خلاف غم وغصہ کی لہرپھیلتی جارہی ہے ۔  پوری دنیا میں اسلام پسند حلقوں کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی ہے کہ عبد الفتاح سیسی کی حمایت کی جائے اور اربوں کھربوں ڈالر سے اس کی مدد کی جائے اور اخوان کا تختہ الٹنے کی بین الاقوامی صلیبی سازش میں کوئی اللہ اور اس کے رسول کا نام لینے والا ملک تعاون کرے ۔ جن لوگوں کو ادنی  بصیرت بھی  اللہ نے دی ہے  وہ اس معاملہ میں سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کی تایید نہیں کرسکتے ہیں  ۔حکومتوں کو راہ راست پر لانے کی سب سے بڑی ذمہ داری ارباب علم ودانش کی ہے انہیں ہرحال میں حق بات کہنی چاہئے  ۔ قرآن میں’’ اولی  الامر‘‘ کا جو لفظ ہے  امام شافعی نے اس مراد  علماء اور امراء  لیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ علماء کا کام صحیح راستہ بتانا ہے اور امراء کا کام تنفیذ کرنا ہے،  اگر علماء  یہ کام نہیں کرتے اور امراو وحکام کے چشم و ابر و کو دیکھ کر بیان دیتے ہیں تو انہیں علماء سوء کہا جائے گا ، اور ’’ہیئۃ کبار العلمائ‘‘ میں  بہت سے  علماء کا شمار ایسے ہی علماء سوء میں ہے  ۔اگر علماء نے امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر کا فرض انجام نہیں دیااور حکمرانوں کو غلط راستہ پر چلنے سے نہیں روکا  توعذاب الہی کا کوڑا ان ملکوں کے حکمرانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دے گا اور ان کا نام ونشان مٹادے گا ۔ا

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 662