donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rafat Khan
Title :
   Islam,Secularism aur Afaqiat

اسلام، سیکولرازم اور آفاقیت
 
ڈاکٹر محمد رفعت
 
 
انسانی دنیا میں نظریات کا تصادم ہوتا رہتا ہے۔ پرانے نظریات مٹتے ہیں اور نئے وجود میں آتے ہیں۔ نظریات کے ہجوم میں ایک شخص یہ سوال کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے کہ اِن مختلف نظام ہائے فکر میں حق وصداقت کا حامل نظریہ کون سا ہے اور وہ معیار کیا ہے، جس پر کسی نظریے کی صداقت کو پرکھا جاسکتا ہو؟ ظاہر ہے کہ اِنسانی زندگی کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے جز کا تعلق ہے کسی نظریے کی صداقت کو جانچنے کے لیے عموماً تین معیارات تجویز کیے گئے ہیں:
 
الف) زیرِ بحث نظریے اور مسلمہ حقائق میں مطابقت
 
ب) نظریے کے اجزائے ترکیبی کے مابین ہم آہنگی
 
ج) آفاقیت
 
اَب جہاں تک سوال کے پہلے جز کا تعلق ہے، صداقت کے دعویدار بہت سے نظریات دنیائے اِنسانیت میں موجود ہیں جو اِنسانوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اِن نظریات میں قابلِ ذکر دو ہیں۔ ایک سیکولراِزم جس کے پاس موجودہ دنیا کا سیاسی اور معاشی اقتدار ہے اور دوسرا اِسلام۔ عالمی سطح پر خصوصاً مسلم ممالک کے اندر دونوں کے درمیان کشمکش جاری ہے اورتیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال اِسی کشمکش کی غماز ہے۔ کسی نظریے کی صداقت کے مندرجہ بالا تین معیارات پر اِسلام اور سیکولراِزم کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اِس وقت صرف تیسرے معیار آفاقیت کے سیاق میں یہ موازنہ پیش نظر ہے۔ اِس تقابل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود ’’آفاقیت‘‘ کا مفہوم متعین کرلیاجائے۔
 
آفاقیت
کسی نظریے کو آفاقی نظریہ اُس وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب اس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
 
(الف) اس کی دعوت، بِلا کسی تفریق کے، تمام اِنسانوں کے لیے ہو۔ اِنسانی آبادی کے کسی جز کو خطاب کرنے کے  بجائے وہ ہر اِنسان کو اپنا مخاطب بناتا ہو، اور اُس کی دعوت ہرفرد اِنسانی کے لیے یکساں پیغام رکھتی ہو۔ آفاقیت کے اِس پہلو کا تعلق اس تنوع سے ہے جو اِنسانوں کے درمیان پایاجاتا ہے۔ اگر کوئی نظریہ فی الواقع آفاقی نظریہ ہے تو اس کی دعوت میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ تمام تر تنوع کے باوجود ہر اِنسان اسے سمجھ سکے اور قبول کرسکے۔
  
(ب) آفاقی نظریے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں اِنسانی رہنمائی کی صلاحیت اس کے اندر پائی جاتی ہو۔ اس پہلو کو ’’زمانی آفاقیت‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
 
(ج) آفاقی نظریے کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اِنسان کی مکمل شخصیت، اس کا موضوع ہو۔ وہ اِنسانی وجود کے کسی پہلو کو نظرانداز نہ 
کرے، نفسِ انسانی میں پائے جانے والے تمام جذبات، داعیات اور تقاضوں کی رعایت اس میں موجود ہو اور وہ انسان سے ایسا کوئی مطالبہ نہ کرے، جو اُس کی انسانی فطرت سے ٹکراتا ہو۔
 
مذکورہ خصوصیات میں سے پہلی کو چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ دورِ جدید کے متعددنظریات ایسے ہیں جنھوں نے انسانوں کے کسی خاص گروہ کو خطاب کیا۔ مثلاً کچھ نظریات اپنے عملی پروگرام کے ساتھ ، اِس مقصد کے حامل بن کر سامنے آئے کہ کسی خاص نسل کو بقیہ اِنسانی نسلوں پر اقتدار اور غلبہ حاصل ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اُن کا پیغام محض اُس نسل کے افراد کے لیے تھا جس کا غلبہ وہ چاہتے تھے۔ بقیہ اِنسانوں کے لیے اُن کے پاس کوئی پیغام نہیں تھا۔ نازی ازم، فاشزم اور ہندتوا اس کی مثالیں ہیں۔ اِس طرح کے نظریات کو آفاقی نہیں کہا جاسکتا۔ نیشنلزم (قوم پرستی) خصوصاً جارحانہ قوم پرستی بھی غیر آفاقی نظریہ ہے۔ اِس لیے کہ ہر قوم پرستی کی اپیل اُن حدود کے اندر محدود ہوتی ہے جو اس قوم کی حدود ہوں۔ اس سرحد کے باہر رہنے والے اِنسانوں کے لیے اس میں کوئی پیغام نہیں ہوتا۔ یہ واقعہ ہے کہ غیر آفاقی نظریات کا کردار اِنسانی تاریخ میں انتہائی منفی رہا ہے۔ اِنسانوں کی باہم ایک دوسرے پر زیادتیوں کے لیے یہ نظریات جواز فراہم کرتے رہے ہیں اور اِس طرح انہوں نے اِنسانی ضمیر کو سلانے کا کام انجام دیا ہے۔
 
اِسلام کی دعوت
 
آفاقیت کا مفہوم سامنے آجانے کے بعد زیرِ بحث دو نظریات اِسلام اور سیکولرازم کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اِس تقابل کے لیے ضروری ہے کہ ہر نظریے کے پیغام کو سمجھ لیا جائے۔
 
(الف) اِسلام کا پیغام یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیاجائے۔
 
’’اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے۔ ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے، پس اللہ کی بندگی کرو، دین کو اس کے لیے خالص کرکے‘‘۔ (الزمر:۱۔۲)
 
’’اے لوگو! بندگی کرو اپنے رب کی جس نے تم کو اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو پیدا کیا۔ تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت میں ہوسکتی ہے۔ وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا، آسمان کی چھت بنائی، آسمان سے پانی اتارا اوراس کے ذریعے تمہارے رزق کے واسطے میوے نکالے۔ پس جانتے بوجھتے دوسروں کو اللہ کا مدّمقابل نہ ٹھہراؤ‘‘۔ (البقرۃ: ۲۱۔۲۲)
 
 
(ب) اِسلام کے پیغام کاد وسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی کی مکمل اور مخلصانہ پیروی کی جائے اور اس کو چھوڑ کر دوسروں کی رہنمائی کی پیروی نہ کی جائے۔
 
’’ا۔ل۔م۔ص۔ یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے تو تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی تنگی نہ ہو (یہ کتاب اِس لیے ہے کہ) تم اس کے ذریعے سے (انسانوں کو بُرے انجام سے) خبردار کرو اور ایمان لانے والوں کے لیے یہ نصیحت ہو، پیروی کرو اس ہدایت کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل ہوئی ہے اور اس کے سِوا دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی قبول کرتے ہو‘‘۔ (الاعراف:۱۔۳)
 
’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو۔ بے شک اللہ علیم وحکیم ہے۔ پیروی کرو اس وحی کی جو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس آئی ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو، بے شک اللہ اس کی خبر رکھتا ہے‘‘۔ (الاحزاب:۱۔۲)
(ج) اِسلام کی دعوت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اِنسانوں کے مابین فیصلہ اللہ کے احکام کے مطابق کیا جائے:
 
’’اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس (قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ اور ہوشیار رہو کہ وہ (منکرین حق) تمہیں بہکا نہ دیں کہ تم اللہ کے نازل کردہ کسی حکم کی پیروی سے باز رہ جائو۔
 اور اگر یہ (حق کو) نہ مانیں تو جان لو کہ اللہ کی مشیت یہی ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی سزا ان تک پہنچا دے او ریہ واقعہ ہے کہ اِنسانوں میں سے بہت سے نافرمان ہیں‘‘۔ (المائدہ:۴۹)
 
(د) اِسلام کی دعوت کاچوتھا پہلو یہ ہے کہ جس امور کے بارے میں بھی اِنسانوں میں اختلاف واقع ہو ان کے سلسلےمیں ہدایتِ الٰہی کو حَکَم بنایا جائے:
 
’’تمہارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کاکام ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں‘‘۔ (الشوریٰ:۱۰)
 
 
’’یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لامحالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات واختلافات کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الاعلان، تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور ناپاک کیا، جائز اورحلال کیا ہے اورحرام ومکروہ کیا، اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی وخوبی کیا۔ معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے۔
 معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت میں کون سے طریقے درست ہیں اور کون سے غلط‘‘؟ (تفہیم القرآن،
 سورہ شوریٰ،حاشیہ ۱۴)
 
مولانا مودودی اِس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 
(ہ) اِسلامی نظریے کی ایک خصوصیت اس کی ہمہ گیری اور جامعیت ہے۔ اِسلام نے زندگی کے ہر پہلو میں اِنسان کی رہنمائی کی ہے۔ قرآن مجید میں طہارت، وضو اور تیمم کا بھی ذکر ملتا ہے اور ذکر، شکر اور فکر کا بھی۔ جس طرح اسلام کی تعلیمات تزکیہ، عبادت اور حصولِ تقویٰ کے سلسلے میں اِنسان کی رہنمائی کرتی ہیں اسی طرح وہ دعوتِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی اور جہاد فی سبیل اللہ کی طرف بھی متوجہ کرتی ہیں۔ اِسلام کی جامع رہنمائی اخلاقِ فاضلہ کی بلندیوں کی طرف اِنسان کو لے جاتی ہے اور بارِ امانت کا حق ادا کرنے کے لیے اس کو تیار کرتی ہے۔ اِسلام نے اشخاص کی انفرادی اصلاح کو کافی نہیں سمجھا ہے بلکہ معاشرے اور ریاست کی اصلاح کو کلیدی اہمیت دی ہے۔ اسی طرح اسلام کے نزدیک صرف باطن کی درستی کااہتمام کافی نہیں بلکہ ظاہر کی طرف توجہ بھی ضروری ہے۔ اِنسانی زندگی کے تمام شعبے  اسلام کے نزدیک اہم ہیں، خاندانی نظام، معاشرتی روابط ، معاشی تگ ودو، سیاست وحکومت، صلح وجنگ، تہذیب وتمدن، ثقافت و فنونِ لطیفہ اور تعلیم وتربیت سب پر اسلام نے توجہ کی ہے۔ مظاہر کی کثرت کے باوجود، اسلام کے نزدیک اِنسانی زندگی ایک وحدت ہے۔ وہ اِس پوری زندگی کو اللہ کی بندگی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے اور اِنسان کی شخصیت کے ہر پہلو کو غیر اللہ کی بندگی سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔
 
سیکولراِزم کی دعوت
 
اِسلام کی دعوت سامنے آجانے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیکولراِزم کس بات کا علمبردار ہے اور وہ اِنسانوں کے سامنے کیا پیغام پیش کرتا ہے؟ آج کل بحث وگفتگو میں سیکولراِزم کی اصطلاح بہت استعمال ہوتی ہے ، لیکن پہلے اس کے لغوی معنی پر غور کیاجانا چاہیے۔ اوکسفرڈ 
ڈکشنری میں سیکولراِزم کا مفہوم یوں بیان کیاگیا ہے:
 
 
’’سیکولرازم ایسا نظریہ ہے جو اِس دنیا کے معاملات سے بحث کرتا ہے اور روحانیت یا تقدس سے عاری ہے۔ یہ مذہب یا مذہبی عقیدے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا‘‘۔ (ایڈیشن ۲۰۰۶ء)
 
ویبسٹر ڈکشنری میں سیکولرازم کی اصطلاح کی تشریح اِس طرح کی گئی ہے:
 
یعنی ’’سیکولراِزم ایک منظم سیاسی وسماجی فلسفہ ہے جو مذہبی عقیدے اور عبادت کی ہر شکل کو مسترد کرتا ہے۔
 سیکولرازم اس تخیل کا نام ہے کہ تعلیم اور دیگر اجتماعی امور کے نظم میں کسی مذہبی عنصر کی شمولیت نہ ہونی چاہیے‘‘۔
 (ایڈیشن ۱۹۹۶ء)
 
اپنی تصنیف "Secularization of European Mind" میں Chadwick نے تذکرہ کیا ہے کہ پہلی بار سیکولراِزم کی اصطلاح Holyoake نامی مفکر نے ۱۸۵۱ء میں استعمال کی۔ وہ اور اس کے رفقا اپنے آپ کو سیکولر کہتے تھے۔ انہوں نے "Reasoner" نامی جریدے کو اپنے خیالات کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا۔ اس جریدے نے اپنے مشن کا تعارف یوں کرایا ہے:
 
’’یہ ایک جیسا جریدہ ہے جو اِ س دنیا کے مسائل سے تعرض کرتا ہے اور ان سوالات پر بحث کرتا ہے جن کا تصفیہ اِسی زندگی میں ممکن ہے‘‘۔ (یورپی ذہن. از چاڈوک۔ باب چہارم)
 
چاڈوک اپنی مذکورہ بالا تصنیف میں تصریح کرتا ہے کہ سیکولراِزم کی اصطلاح کو رواج دینے والا مفکر ہولیوک اپنے آپ کو ملحد کہلانا پسند نہیں کرتا تھا۔ ’’ملحد‘‘ کی حیثیت سے تعارف کو ناپسند کرنے کی وجہ اس کے الفاظ میں یہ تھی:
 
’’ملحد کی اصطلاح اِس لیے نامناسب ہے کہ عوام ’’ملحد‘‘ سے ایسا شخص مراد لیتے ہیں جو نہ خدا سے کوئی واسطہ رکھتا ہو نہ
 اخلاقیات سے، بلکہ جو اِن دونوں سے دور ہی رہناچاہتا ہو‘‘۔ (ایضاً)
 
 
مندرجہ بالا تشریحات کی روشنی میں سیکولرازم کے دو پہلو سامنے آتے ہیں:
 
(الف) ایک پہلو فلسفیانہ ہے۔ اس اعتبار سے سیکولرازم خدا اور اِنسان کے زندہ تعلق کی صاف نفی کرتا ہے۔ اگرچہ سیکولراِزم کے ابتدائی داعی خود کو ملحد کہلانا پسند نہیں کرتے تھے مگر اس کی وجہ محض یہ تھی کہ وہ عوام میں اپنے خیالات پھیلانے کے خواہاں تھے اور اِس لیے عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔ بہر صورت یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ ان کا رجحان الحادکی جانب تھا۔ اِس رجحان کی وجہ ان کا یہ اصرار تھا کہ صرف ان معلومات کو یقینی اور قابل اعتماد تسلیم کیا جانا چاہیے جو اِنسان کو اپنے مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں بالفاظ دیگر وحی الٰہی کو علم کا قابلِ اعتماد ذریعہ تسلیم نہ کرناچاہیے۔ غیب کا انکار اِس رجحان کا لازمی نتیجہ ہے۔
 
(ب) سیکولراِزم کا دوسرا پہلو عملی ہے۔ اس اعتبار سے سیکولرازم اِس رجحان کا نام ہے کہ اصلاً اِس دنیا اور اس کے معاملات پر توجہ کی جائے۔ چاہے زبان سے آخرت کا انکار نہ ہو لیکن زندگی کے امور ومسائل پر گفتگو اور بحث میں اور کارِ حیات کی انجام دہی میں آخرت کو اور اس کے اِمکان کو نظرانداز کردیا جائے۔ اِسی طرح سیکولرازم اِس بات کانام بھی ہے کہ تعلیم، سیاست اور دیگر اجتماعی امور کو مذہب سے آزاد رکھاجائے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب یا الٰہی ہدایت کی طرف رجوع نہ کرنے کی صورت میں اجتماعی امور میں رہنمائی کس منبع سے حاصل کی جائے گی تو اِس کا جواب سیکولراِزم کے نزدیک یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے معاملات کی تنظیم کے لیے اِنسانی عقل کو رہنما بنایا جائے گا۔
 یہ عقل انسانی مشاہدات اور تجربات کو زیر غور لائے گی، ان کو منظم کرے گی اور ان سے نتائج اخذ کرے گی۔ چونکہ مشاہدات اور تجربات قابلِ اعتماد ہیں، اِس لیے ان سے اخذ کردہ نتائج بھی قابلِ اعتماد ہوں گے۔
 
دعوت کی عالم گیری
 
اِسلام اور سیکولرازم کا مختصر تعارف سامنے آجانے کے بعد اِس اعتبار سے دونوں کا موازنہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا ان نظریات نے تمام اِنسانوں کو اپنا مخاطب بنایا ہے اور کیا سب سے ان کے خطاب کی نوعیت یکساں ہے؟ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، یہ بات واضح ہے کہ اس کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ قرآن مجید اِنسانوں کے لیے ’’الناس‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اس نے اپنی دعوت بِلا تفریق سارے انسانوں کو پیش کی ہے۔ ایرانی مفکر علی شریعتی اپنی تصنیف ’’عمرانیاتِ اسلامی‘‘ میں لکھتے ہیں:
 
 
’’قرآن نے ہرجگہ ’الناس‘ کو خطاب کیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو الناس کی طرف بھیجا گیا، آپ نے الناس سے خطاب کیا۔ مزید برآں اجتماعی عروج وزوال کا ذمہ دار بھی الناس کو ٹھہرایا گیا ہے۔ عمرانیات کی زبان میں تشریح کریں تو اِنسانوں کو مجموعی حیثیت سے الناس کہا گیا ہے (مختلف طبقوں اور گروہوں کے مابین فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے)۔‘‘
 
اِسلامی خطاب کے عام ہونے کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہے کہ اسلام جو پیغام پیش کرتا ہے ، وہ بھی سب کے لیے یکساں ہے۔ جو دعوت ایک فرد کے لیے ہے، وہی دوسرے کے لیے بھی ہے۔ سب کو اِسلام نے اللہ کی بندگی کی طرف ہی دعوت دی ہے۔ دعوت کی یہ یکسانیت، انسانی مساوات کا لازمی نتیجہ ہے۔
 
خطاب کی عمومیت کے اعتبار سے اب سیکولرازم کے نظریے کا جائزہ لیاجاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’کیا سیکولرازم کا خطاب سارے اِنسانوں سے ہے‘‘؟ اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں سیکولرازم کے علمبرداروں نے پوری دنیامیں اس کی تبلیغ کی ہے اور جہاں موقع ملا ہے جبر اوراکراہ کے ذریعے سیکولرازم کے نفاذ میں بھی کوئی دریغ نہیں کیا ہے۔ اس طرز عمل سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ سیکولرازم اپناپیغام سارے اِنسانوں تک پہنچانے کا قائل ہے۔ اس کی دعوت کسی ملک، طبقے یا گروہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ سب کے لیے ہے۔
 
اس موضوع سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا سیکولراِزم کا پیغام ہر انسانی گروہ کے لیے یکساں ہے؟ اِس سوال کا جواب دینے کے لیے سیکولرازم کی دعوت کے ایک کلیدی جز پر غور ضروری ہے۔ وہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اِنسانی مسائل میں رہنمائی کے لیے ’’ہدایت الٰہی‘‘ کے بجائے ’’عقلِ انسانی‘‘ کی طرف رجوع کیا جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقلِ انسانی سے استفادہ کس طرح کیا جائے گا؟ اس سلسلے میں پہلی مشکل تو یہ ہے کہ ہر فرد کی عقل الگ الگ رہنمائی کرتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باہم تبادلہ خیال اور بحث ومباحثے کے بعد بھی لوگوں کی آرا میں یکسانیت پیدا نہیں ہوپاتی۔ دوسری دقّت یہ ہے کہ اِنسانی عقل آزادانہ اور دیانت دارانہ کام نہیں کرتی بلکہ سوچنے والے فرد کے جذبات اور مفادات سے بہرحال متاثر ہوتی ہے۔تیسری دشواری یہ پیش آتی ہے کہ عقل کو اپنا کام انجام دینے کے لیے زیرِ غور معاملے سے متعلق معلومات درکار ہوتی ہیں اور اکثر یہ معلومات ناقص اور ادھوری ہوتی ہیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خلافِ واقعہ باتوں کو ’’معلومات‘‘ کے طور پر پیش کردیاجاتا ہے۔ جب عقل ناقص معلومات کی بنا پر نتائج اخذ کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ نتائج بھی ناقص ہوتے ہیں۔ چوتھی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ پیچیدہ معاملات میں صحیح رائے پر پہنچنے کے لیے معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوچنے والے کی عقل، معاملے کے ایک پہلو پر توجہ کرتی ہے تو دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کردیتی ہے۔ عقل کی رہنمائی سے استفادہ کرنے میں 
حائل اِن تمام دشواریوں سے ہر وہ شخص واقف ہوگا جس نے اجتماعی امور و مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہو۔
 
اِن مشکلات کے علاوہ عقلِ انسانی سے استفادے میں سب سے بڑی دشواری جو سامنے آتی ہے وہ معیارات اور قدروں کے بارے میں ہے۔ اِنسانی رویوں کے تعین کے لیے رہنما اقدار (Values) کی ضرورت پڑتی ہے جو خوب و ناخوب، صحیح و غلط، پسندیدہ و ناپسندیدہ اور مطلوب و نامطلوب طرزِ عمل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ عقل اِس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی بلکہ اس کو قدروں کے تعین کے لیے اِنسانی ضمیر اور وجدان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے یا سماجی روایت (Tradition) سے رہنمائی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ جب ایک بار معیارات متعین ہوجاتے ہیں تب اِنسانی عقل یہ کام کرسکتی ہے کہ ایسے طریقے سوچے اور ایسی تدابیر اختیار کرے جن سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوسکتے ہوں یا اجتماعی معاملات میں ایسے ضوابط اورقوانین وضع کرے اور ایسی پالیسیاں مرتب کرے جو متعین اقدار کی آئینہ دار ہوں۔
مثال کے طور پر اگر کسی سماج میں حیا اور عفت و عصمت کو بنیادی قدر قرار دیا جائے اور فرد کی آزادی کو اخلاقی حدود کے تابع سمجھا جائے تو عقلِ انسانی اِس مزاج سے مطابقت رکھنے والے ضوابط اور آداب وضع کرسکتی ہے یا وہ موجود ہوں تو ان کی معقولیت پر بآسانی مطمئن ہوسکتی ہے۔ مثلاً حیا اور پاکیزگی کی قدروں کی تابع عقل کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ بِلاضرورت اختلاطِ مرد وزن ناپسندیدہ ہے، مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ عورتوں کے لیے یہ درست نہیں کہ غیر محرم مردوں کے سامنے اپنی زینت کا مظاہرہ کریں۔ پردے اور حجاب کا اہتمام ضروری ہے ، نکاح کو آسان بنایا جانا چاہیے اور عورت کو سامانِ تجارت بنانا اس کی توہین ہے۔اِس کے برعکس اگر کسی سماج میں حیا اور پاکیزگی کو کوئی خاص اہمیت نہ دی جائے بلکہ جنسی معاملات میں فرد کی آزادی کو مطلق (Absolute) سمجھا جائے تو عقلِ انسانی اس مزاج سے مطابقت رکھنے والے قوانین وضوابط وضع کرسکتی ہے۔ اس مزاج کی تابع عقل محض بدکاری کو جرم قرار نہ دے گی بلکہ صرف اس وقت اس فعل کو جرم سمجھے گی جب اس میں جبر شامل ہو اس لیے کہ اس صورت میں فرد کی آزادی مجروح ہوتی ہے۔ اِسی طرح پردے، حجاب اور اخفائے زینت کے احکام اِس عقل کی سمجھ میں نہ آئیں گے۔
 
اِس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایتِ الٰہی کے بجائے عقلِ انسانی سے رہنمائی حاصل کرنے کا سیکولر پیغام، اپنے اندرابہام (Ambiguity) رکھتا ہے۔ اِس ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ عقل اپنا فریضہ، کن قدروں کی رہنمائی میں انجام دے گی؟ سیکولرازم کے علمبرداروں نے اپنے عملی رویے سے اِس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ قدریں مغربی معاشرے سے لی جائیں گی۔ اِس جواب پر پوری دنیا میں عمل بھی ہورہا ہے۔ نظامِ تعلیم اور ذرائع اِبلاغ پوری قوت سے مغربی قدروں کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور جو معاشرے اِس تبلیغ میں مزاحم ہیں ان پر بہ جبر اِن قدروں کو مسلط کیاجارہا ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی اور معاشی نظام اِس طرح مرتب کیے جارہے ہیں کہ اِن قدروں کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاسکے۔
 
 
اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف اِنسانی گروہوں کے لیے سیکولراِزم کا پیغام یکساں نہیں ہے۔
 (الف) اہلِِ مغرب کے لیے سیکولراِزم کا پیغام یہ ہے کہ وہ اِنسانی امور ومسائل میں اپنی عقل کو رہنما بنائیں۔
(ب) رہی بقیہ انسانیت تو اس کے لیے سیکولرازم کی دعوت یہ ہے کہ وہ مغربی عقل کا اتباع کریں یعنی پہلے ان قدروں کو تسلیم کریں جن کو صنعتی انقلاب کے بعد مغرب نے اپنا رہنما بنایا ہے۔ پھر ان قدروں کے مطابق سماجی وسیاسی تنظیم کے لیے عقل کا استعمال کریں۔ مندرجہ بالا فرق کی بنا پر یہ بات واضح ہے کہ سیکولراِزم آفاقی نظریہ نہیں ہے۔
 
زمانی آفاقیت
 
دعوت کی یکسانیت کے علاوہ آفاقی نظریے کی تعریف میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ اُس کے اندر مختلف حالات میں اِنسانوں کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ آفاقی نظریہ کچھ دائمی اصول رکھتا ہے جو کسی حال میں نہیں بدلتے، کچھ حدود متعین کرتاہے جن سے انسانی سرگرمیوں کو محدود ہوناچاہیے اور کچھ مقاصد پیش کرتا ہے جن کے حصول کے لیے فرد، سماج اور ریاست کو کوشاں ہوناچاہیے۔ دائمی اصولوں، حدود، اقدار اور مقاصد کے تعین کے بعد آفاقی نظریہ انسانوں کو جزئیات اور تفصیلی تدابیر کے سلسلے میں آزادی دیتا ہے جہاں وہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق مناسب طرزِ عمل اختیار کرسکتے ہیں۔ گویا آفاقی قرار دیے جانے کے لیے نظریہ ایسا ہوناچاہیے جو دوقسم کے عناصر پر مشتمل ہو۔
 
(الف) دائمی عناصر جو وقت کے ساتھ نہیں بدلتے۔ اِن میں اصول، حدود، مقاصد، قدریں اور آداب شامل ہیں۔
 
(ب) غیر دائمی عناصر جن میں وقت اور حالات کے ساتھ تبدیلی کی جاسکتی ہو۔ اِن میں جزئیات اور تفصیلی تدابیر شامل ہیں۔
 
ظاہر ہے کہ اِن دونوں قسم کے عناصر میں واضح خطِ امتیاز (Distinction) ضروری ہے۔
 
ہدایتِ الٰہی سے ماخوذ نظریے
 
اسلام میں یہ امتیاز واضح ہے۔ جو کچھ کتابِ الٰہی اور سنتِ رسول سے ثابت ہے، وہ دائمی ہے اور جن امور میں کتاب وسنت نے آزادی دی 
ہے، وہ غیر دائمی عنصر سے متعلق ہیں۔ ان میں حالات بدلنے کے ساتھ، کتاب وسنت کی تربیت یافتہ عقلِ انسانی اپنا کام انجام دے سکتی ہے۔ اس سرگرمی کا نام اجتہاد ہے۔ مستقل اور غیر مستقل کے درمیان یہ واضح امتیاز ، الٰہی ہدایت کی بہت بڑی دَین ہے جو اِنسانوں کو غیرضروری اختلافات سے بچا لیتی ہے۔ اس امتیاز سے عقلِ انسانی کا صحیح رول متعین ہوجاتا ہے۔ تبدیلی زندگی کا وصف ضرور ہے لیکن حیات کے بعض پہلو دائمی بھی ہیں۔ آفاقی نظریہ اِس حقیقت کا واضح ادراک رکھتاہے۔
 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاسیکولراِزم ’’زمانی آفاقیت کے معیار پر پورا اترتاہے؟ کیا کوئی ’’کتاب‘‘ ایسی ہے جس پر سیکولر نظریے کے قائلین متفق ہوں اور جس کے مندرجات کو اِس نظریے کا دائمی عنصر قرار دیا جاسکتا ہو؟ ظاہر ہے کہ اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اصولاً اس نظریے میں ہر چیز متغیر ہے اس لیے کہ عقلِ انسانی کی پرواز پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ چنانچہ نظریے کے اجزائے ترکیبی میں سے کسی کو بھی دائمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اصولاً ان میں سے ہرجز میں تبدیلی کا یا اس کے یکسر مسترد کردیے جانے کا اِمکان موجود ہے۔
 
عملاً اس دشواری کا جو جواب سیکولراِزم کے قائلین نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مغرب کے تعامل کو سیکولر نظریے کا دائمی عنصر قرار دے لیا ہے گویااِس وقت جو کچھ مغرب میں مسلّم ہے، وہ ان کے نزدیک ہر قسم کے حالات کے لیے صحیح اور درست ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مفروضہ ہے جس کے حق میں کوئی معقول دلیل نہیں دی جاسکتی۔
 البتہ یہ ممکن ہے کہ جبر کے ذریعے دنیا کو مجبور کیا جائے کہ مغرب کے مفروضات کو تسلیم کرلے خواہ وہ اس کی سمجھ میں نہ آتے ہوں۔ اِس وقت سیکولراِزم کے داعیوں کا طرز عمل بتاتاہے کہ وہ بہ جبر دنیا پر اپنی فکرمسلط کرناچاہتے ہیں۔
اِس بحث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زمانی آفاقیت کے اعتبار سے بھی سیکولراِزم آفاقی نظریہ نہیں ہے۔
 
نظریے کی جامعیت
 
کسی نظریے کے آفاقی قرار دیے جانے کے لیے تیسری ضروری شرط یہ ہے کہ وہ نظریہ، حیاتِ انسانی کے ہر پہلو میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔ ظاہر ہے کہ اِسلام اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ اِسلام کی اس خصوصیت کا تعارف کراتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں:
 
’’اسلام فکر بھی ہے اور عمل بھی۔ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی۔ یہ اخلاق بھی ہے اور قانون بھی۔ یہ اللہ تعالیٰ سے اِنسان کا تعلق بھی جوڑتا ہے اور انسانوں کے ایک دوسرے سے روابط بھی درست کرتا ہے۔ یہ فرد کی اصلاح بھی ہے اور سماج کی تعمیر بھی۔ یہ تزکیہ و طہارت بھی ہے 
اور جدوجہد اور جہاد بھی۔ اِس میں روح کی تسکین بھی ہے اور مادی ضروریات کی تکمیل بھی۔ یہ اِنسانوں کے جذبات و احساسات اور خیالات کی بھی نگرانی کرتا ہے اور اس کے معاملات کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ اس کی روح کو خدا کے سامنے جھکاتا اور اس کے جسم کو اس کے احکام کا پابند بناتا ہے۔ یہ دین عورت کے لیے بھی ہے اور مرد کے لیے بھی۔ جوان کے لیے بھی ہے اور بوڑھے کے لیے بھی۔ حاکم کے لیے بھی ہے اور محکوم کے لیے بھی۔ امیر کے لیے بھی ہے اور غریب کے لیے بھی۔ یہ ہر ایک کے حقوق بھی بتاتا ہے اور فرائض بھی۔ یہ فرد اور معاشرہ دونوں پر خدا کی حکومت قائم کرتا ہے۔ اس کی حکومت ظاہر پر بھی ہوتی ہے اور باطن پر بھی۔ یہ فرد کو پاکیزہ زندگی اور قوموں کو عروج و ترقی عطاکرتا ہے۔ یہ خدائے قدوس کا دین ہے۔ اِس میں دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی‘‘۔ (’’اسلام اور اس کی دعوت‘‘)
 
اب اس کسوٹی پر سیکولرز م کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سیکولرنظریہ آخرت کا کوئی تصور نہیں رکھتا چنانچہ وہ صرف دنیا کے معاملات سے بحث کرسکتا ہے۔ اِن معاملات میں اپنے عین مزاج کے مطابق سیکولراِزم صرف اجتماعی معاملات سے تعرض کرتا ہے اور اجتماعی امور کے بھی صرف اس ظاہری پہلو پر توجہ کرتا ہے، جو مشاہدے کی گرفت میں آسکتا ہو۔ ان ساری محدودیتوں کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہے کہ سیکولر نظریے کے پاس افراد کی اصلاح وتربیت کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اِنسانی زندگی کے بہت سارے پہلو ایسے ہیں جن میں سیکولراِزم نے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کی ہے۔
 
اس کے برعکس یہ واقعہ ہے کہ مذہب اِنسان کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اگر مذہب کو اِنسانی زندگی سے خارج کردیا جائے تو ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس کو سیکولر نظریہ پُر نہیں کرسکتا مثلاً:
 
(الف) اطمینانِ قلب اِنسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ مذہب بتاتا ہے کہ اللہ کی یاد سے دِلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
 
(ب) اِنسان موت کے بعد کی زندگی میں نجات کا خواہاں ہے۔ مذہب اسے بشارت دیتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں اسے نجات حاصل ہوگی۔ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے لوگ زندگی بعد موت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے لیے نجات کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہر اِنسان کے دل میں موت کے بعد آنے والی زندگی کا خیال موجود ہوتا ہے اور وہ کسی طرح اِس اندیشے سے آزاد نہیں ہوسکتا کہ وہاں اسے کِن حالات سے سابقہ پیش آئے گا۔
 
(ج) انسان زندگی کی مشکلات میں ایسا ولی ومددگار چاہتا ہے جس کی پناہ میں آکر وہ مصائب وآلام کا مقابلہ کرسکے۔
 مذہب بتاتا ہے کہ خالقِ کائنات کا سہارا حقیقی سہارا ہے۔ اس سے دعا مانگ کر اور اس کی پناہ طلب کرکے اِنسان مسائل حیات سے نبرد آزما 
ہونے کی طاقت فراہم کرسکتا ہے۔
 
(د) اِنسان کے قلب میں خیر کی طرف فطری رجحان اور شر سے بیزاری دونوں موجود ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ بہک جاتا ہے اور اپنی خواہشات کا اتباع کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ خیر کے راستے سے اس کے قدم ہٹ جاتے ہیں۔ اِس صورت حال میں انسان کسی قوی محرک کا طالب ہوتا ہے جو اس کے اندر نفس کی چالوں کے مقابلے کی قوت پیداکرسکے۔ مذہب کا عطا کردہ تصورِ آخرت اِنسان کی اِس ضرورت کو پوری کرتا ہے۔
 
مذکورہ بالا نکات کی بنا پر صاف اور سیدھا سوال یہ ہے کہ کیا اِنسان کو ایسا نظریہ درکار ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں
 رہنمائی کرے یا ایسا نظریہ جو محض بعض شعبوں سے بحث کرتا ہو؟ ظاہر ہے کہ اِنسانی فطرت جامع نظریے کا تقاضا
 کرتی ہے اور جزوی رہنمائی سے اس کی تشنگی پوری نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ جامعیت کے اعتبار سے بھی سیکولراِزم کو آفاقی
 نظریہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ جو لوگ فی الواقع حق کے متلاشی ہیں ان کو آفاقیت کی کسوٹی پر نظریات کو پرکھنا چاہیے۔
 ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع آفاقی نظریہ حیات صرف اسلام ہے۔ اسی نظریے کو اپناکر انسانیت کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔
 
ڈاکٹر محمد رفعت
 
**********************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 907