donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Khanda Peshani se Milna

خندہ پیشانی سے ملنا
 
اسلام اپنے پیروکاروں کے درمیان محبت اور امن چاہتا ہے، ایک اسلامی معاشرے کےلئے محبت کا جذبہ انتہائی ضروری اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ محبت اور اخوت کے بغیر اسلام کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ اسلام کی اساس ہی انسانیت سے محبت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی بہترین اخلاق کا نمونہ ہے۔ انسان جب آپس میں ملتے ہیں تو ملنے کے دوران اپنے جذبات اور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اس خوشی اور اپنے جذبات کا الفاظ کے ذریعے اظہار کرنے سے پہلے ہمارے چہرے سے ہی اس بات کا اظہار ہو جاتا ہے کہ ہم سامنے والے فرد سے کس گرم جوشی سے مل رہے ہیں اور اسے کتنی اہمیت دے رہے ہیں۔
 
سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے ایک چھوٹے سے کام کو بھی حقیر نہ جانو اگرچہ یہ نیکی کا کام صرف اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم)
 
اس حدیث میں اپنے مسلمان بھائی سے خوش دلی اور خندہ پیشانی سے ملنے کو ایک نیکی بتایا گیا ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان بظاہر کسی معمولی عمل (نیکی)کو بھی حقیر یا کم درجے کا عمل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بظاہر نظر آنے والا یہ چھوٹا سا عمل بھی ہمارے لئے بہت سے دنیوی اور اخروی فوائد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ دنیوی فائدہ اس طرح کے آپ فرض کریں کہ آپ کسی شخص سے اچھے اخلاق اور خوش دلی سے ملیں تو اس شخص کے دل میں آپ کےلیے نیک خیالات پیدا ہوںگے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی وجہ سے ماضی کے اس کے دل میں آپ کے متعلق کوئی بدگمانی ہوئی ہوگی تو وہ بھی دور ہو جائے گی اس طرح آپ اپنے معاشرے کے ایک نیک اور اچھے اخلاق والے شخص کے طور پر جانے جائیں گے، اور آخرت میں فائدہ تو اس عمل کا ثواب اور اللہ کی رضا وخوشنودی کا حصول ہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صحابہؓ کا فرمان ہے کہ آپ ہم میں سب سے زیادہ مسکرانے والے ہوتے تھے۔ مطلب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس سے ہر وقت دوسروں کےلئے خوشی اور بھلائی کے جذبات عیاں ہوتے تھے۔
 
ترمذی کی روایت میں سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ”اپنے بھائی کی طرف مسکرا کر دیکھنا تیرے لئے صدقہ ہے، نیک کام کا حکم اور برے کام سے روکنا بھی آپ کےلئے صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے، کمزور بینائی والے کی مدد کرنا صدقہ ہے، رستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی کو ہٹانا صدقہ ہے، اپنے برتن سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈالنا بھی تیرے لئے صدقہ ہے۔“
 
اس حدیث میں ہمارے روز مرہ کے کاموں کو بھی صدقہ (نیکی) کہا گیا ہے۔ اصل میں صحابہؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مالدار لوگ تو اپنے مالی صدقوں کی وجہ سے غریب صحابہؓ پر نیکیوں میں سبقت لے جائیں گے اور اسی طرح سابقہ امتوں کے لوگ جن کی لمبی لمبی عمریں تھیں ان کے بھی نیک اعمال زیادہ ہوں گے اور وہ اس طرح ہم سے نیکی کے معاملہ میں آگے بڑھ جائیں گے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ باتیں سن کر فرمایا کہ آپ لوگوں کا بظاہر ایک چھوٹا اور معمولی نظر آنے والا عمل بھی آپ لوگوں کےلئے ایک عظیم نیکی اور صدقہ و خیرات کی حیثیت رکھتا ہے۔
 
سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا اور آپ کے ساتھ وقت گزارا اس وقت سے آپ نے مجھے کبھی بھی نہیں جھڑکا، اور آپ جب بھی میری طرف دیکھتے تو مسکراتے ہو ئے ہی دیکھتے۔ (بخاری)
 
کسی کے ملتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کی تمام تر توجہ ملنے والے پر ہو نہ کسی اور طرف۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ہم مل تو کسی سے رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری نظریں، توجہ اور گفتگو کسی اور سے ہو رہی ہوتی ہے، یہ اخلاق کے خلاف بات ہے، اس طرز عمل سے ملنے والے کو بھی شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے کہ آپ نے اسے توجہ نہیں دی اور آپ نے اس کے ملنے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملتے وقت آپ کے چہرے کا رخ ملنے والے کی طرف ہو، آپ کے چہرے پر خوشی کے اثرات ہوں اور اس سے بہترین الفاط میں گفتگو کریں۔
 
*****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 745