donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Maldeep Mein Kaise Islam Ko Farogh Mila

مالدیپ میں کیسے اسلام کو فروغ ملا
 
 مشہور مورخ سیاح علامہ ابن بطوطہ رحمةاللہ علیہ نے جزائر مالدیپ میں انسانی بلی چڑھائی جانی کی واقعی کو نقل کیا ہی۔ ا س وقت جزیری میںہندوحکمراں راجہ دھرم سانت کی حکومت تھی جنہوں نی بعد میںاسلام قبول کیا۔ ابن بطوطہ مالدیپ آئی اوریہاں بطورقاضی کام کرتی رہی۔ان کا مکمل نام ابوعبداللہ محمدا بن بطوطہ ہی جو مراقش کی شہر طنجہ میں پیدا ہوئی۔ ادب، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنی کی بعدانھوں نی محض اکیس سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس کی بعد شوق سیاحت نی انھیں افریقہ کی علاوہ روس سی ترکی پہنچا دیا۔ انھوں نی جزائر شرق الہند اور چین کی بھی سیاحت کی۔ عرب، ایران ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، اور ہندستان کی سیر کی۔ چار بار حج بیت اللہ سی مشرف ہوئی اور محمد تغلق کی عہد میں ہندستان آئی تھی۔ سلطان نی ان کی بڑی آؤ بھگت کی اور قاضی کی عہدی پر سرفراز کیا۔ یہیں سی ایک سفارتی مشن پر چین جانی کا حکم ملا۔ 28 سال کی مدت میں انھوںنی 75 ہزار میل کاسفر کیا۔ آخر میں فارس کی بادشاہ ابوحنان کی دربار میں آئی اور ان کی کہنی پر اپنی سفر نامی کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفارنی غرائب 
الدیار ہی۔ یہ کتاب مختلف ممالک کی تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہی۔ ابن بطوطہ کا سفرنامہ مالدیپ کی قدیم احوال کی باری میں اولین تاریخی دستاویزشمار ہوتی ہی۔
 
اپنی سفرنامہ میں وہ تحریر کرتی ہیں کہ جب وہ جزائر مالدیپ میں سیاحت کرتی ہوئی پہنچی تو دیکھا کہ تمام ملک اذان کی صداؤں سی گونج رہاہی اور ساری زمین سجدہ ہائی نماز کی کثرت سی ٹپی پڑی ہی۔ انہیں اس سی بہت تعجب ہوا کیوں کہ ان کی علم کی مطابق کوئی مسلمان اس میں فاتحانہ یا تاجرانہ حیثیت سی کبھی نہیں پہنچاتھا۔ انہوں نی وہاں کی لوگوں سی پوچھا کہ یہ دور دراز سرزمین اسلام کی نور سی کیسی روشن ہوئی؟وہاں کی اہل علم نی بتایاکہ عربوں کا کوئی تجارتی جہاز مشرقی اقصیٰ کی طرف جارہا تھا۔ یہ مشرقی جزائر کی قریب تھا کہ سمندر میں سخت طوفان آیا اور جہاز تباہ وبرباد ہوگیا۔ اس کی مسافروں میں سی ایک مسلم تاجر کسی تختہ پر بیٹھ کربچ گیا۔ اللہ کی فضل سی ہماری جزیرہ کی ساحل پر آلگا۔ یہ ایک مراقشی عرب تھا۔ چونکہ جزیرہ میں اس کا کوئی یارومددگار نہ تھا، اس لئی اس نی ایک بڑھیاکی گھر پناہ لی۔ وہ جنگل سی لکڑیاں کاٹ کر لاتاتھا اور انہیں فروخت کرتاتھا۔ ایک عرصہ تک اسی پر گزراوقات کرتا رہا۔ ایک دن جب یہ عرب گھر آیا تو اس نی دیکھا کہ بڑھیا روپیٹ رہی ہی اور پاس ہی اس کی نوجوان لڑکی سر پیٹ رہی ہی۔ عرب نی پوچھا۔’یہ مصیبت کیسی ہی؟‘ بڑھیا نی جواب دیاکہ آج یہ میری اکلوتی بچی مرجائی گی۔ عرب نی پوچھا کہ کیسی مرجائی گی؟ یہ تو تندرست ہی اور عالم الغیب تو خدائی تعالیٰ ہی ہی۔‘ بڑھیا نی انگلی کی اشاری سی بتایا کہ وہ سامنی دیکھو موت کھڑی ہی۔‘عرب نی حیرت زدہ ہوکر دیکھا تو فوجی سوار سامنی کھڑی تھی۔ اس نی حوصلہ مندی سی دریافت کیا کہ کیا یہ تمہاری لڑکی کو قتل کردیں گی؟‘بڑی بی نی کہا کہ یہ بات نہیں‘دراصل یہ سپاہی میری لڑکی کو لینی آئی ہیں کیونکہ ہماری اس جزیرہ میں ہرمہینہ کی ایک مقررہ تاریخ کو ایک سمندری بلا نمودار ہوتی ہی جس سی بچنی کا طریقہ یہ ہی کہ ہم اس جزیرہ والوں کی طرف سی ایک کنواری لڑکی اسی تاریخ کو غروب آفتاب کی بعد ایک مندر میں جو سمندر کی کناری ہی پہنچادیتی ہیں۔ دوسری صبح کو جب حکومت کی آدمی ساحل سمندر پر جاتی ہیں تو وہ لڑکی مردہ ملتی ہی‘اور اس کا کنوارہ پن زائل شدہ۔ ہرسال قرعہ اندازی سی فیصلہ کیا جاتاہی کہ کون لڑکی بھیجی جائی؟ ‘یہاں تک بیان کرکی بڑھیا زیادہ روئی اور کہنی لگی کہ اس مرتبہ قرعہ میری لڑکی کی نام نکلاہی جو میری اکلوتی بیٹی ہی، اس وجہ سی ہم رورہی ہیں۔ جب عرب نی یہ دردناک کہانی سنی تو کہاکہ تسلی رکھو ، سمندر میں بلا یعنی خبیث جنات کا علاج میں جانتاہوں۔ آج رات میں خود اس سمندر میں جاؤں گاتاکہ تمہاری اکلوتی لڑکی کی بجائی اپنی جان قربان کردوں۔ تم مجھی اپنی لڑکی کی زنانہ کپڑی پہنادو تاکہ کوئی شخص مجھی پہچان نہ سکی۔ مراقشی عرب ان لوگوں میں سی تھا جن کی داڑھی مونچھ صفر کی برابر یابالکل نہیں ہوتی۔ بڑھیا نی عرب کی یہ تجویز منظور کرلی اور اسی زنانہ کپڑی پہنادیئی۔ جب سپاہی آئی تو بڑھیا نی اس کو ان کی ساتھ بھیج دیا جو اس کو مندر میں بٹھاکر چلی آئی۔ یہ عرب قرآن پاک کی حافظ تھی۔ ان کا نام ابو البرکات تھا۔ جب حکومت کی سپاہی دور چلی گئی تو انہوں نی نہایت اطمینان سی وضو کیا۔ عشاءکی نماز پڑھی پھر اپنی سامنی ننگی تلوار ڈال کر سمندر کی موجوں کودیکھنی لگی اور قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی۔
 
رات نہایت خوفناک ،اندھیرا چھایا ہوا اور جزائر مالدیپ کی ساری کائنات نیند کی سمندر میں غرق تھی۔ سوائی تین روحوں کی جن کی 
آنکھوں پر نیند کی لذت حرام تھی۔ ان میں سی ایک بہادر شیر دل عرب تھا جس کی آنکھوں میں پانی کا سمندر تھا اور سینہ میں ایمان کا سمندر، دوسری غریب بڑھیا تھی جسی اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی پرشاد ہونا چاہئی تھا لیکن مراقشی غریب الوطن کی شہادت کا غم اس کی دل وجگر کو چھیلی جا رہا تھا۔ تیسری روح جزیرہ کی وہ معصوم لڑکی جس کو قرعہ حکومت نی موت اور ذلت کیلئی۔ مگر قسام ازل نی زندگی اور عزت کیلئی منتخب کرلیا تھا۔ وہ شریف اور بہادر عرب کی غم میں نڈھال تھی اور روئی جاتی تھی۔ شریف اور بہادر مراقشی عرب نی دل کش آواز کی ساتھ قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی اور اسی عالم میں رات کی بارہ بج گئی۔ ناگہاں افق سمندر سی ایک جہاز جیسی عجیب خوفناک شکل نمودار ہوئی جس میں بی شمار خانی بنی ہوئی تھی۔ یہ شی آہستہ آہستہ کناری کی طرف آئی اور مندر کی پاس آکر رک گئی۔ مراقشی غازی اپنی تلاوت میں مصروف رہا۔ نتیجہ یہ ہواکہ یہ خوفناک بلا آگی نہ بڑھ سکی اور تھوڑی دیر ٹھہر کر آہستہ آہستہ واپس چلی گئی۔ یہاں تک کہ نظروں سی غائب ہوگئی۔ صبح کی وقت جب حکومت کی سپاہی لڑکی کی نعش لینی آئی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں کوئی نعش موجود نہ تھی۔ لڑکی غائب اور اس کی بجائی ایک بہادر جواں مرد مسلمان موجود تھا۔ سپاہی اس غازی اسلام کی پاس آئی اور اس کو راجہ کی پاس لی گئی۔ راجہ نی ساری داستان سنی، اطمینان کیلئی جرح کی۔ پھر بڑھیا اور اس کی بیٹی کو بلایاجنہوں نی تمام واقعات کی تصدیق کردی۔ شریف عرب نی راجہ کو بتایاکہ میرا یہ فعل شریعت اسلام کی مطابق اوربوڑھی خاتون کی احسان کا معمولی سا بدلہ ہی۔ راجہ’ معمولی‘ لفظ سی بی حد متاثر ہوا۔ پھرراجہ نی پوچھا تم اتنی بڑی بلاکی سامنی تن تنہا جاکھڑی ہوئی۔ مراقشی عرب نی کہاکہ میں اکیلا نہیں تھابلکہ میرا خدا میری ساتھ تھا۔‘ راجہ نی پوچھا کہ لیکن تم ڈری کیوں نہیں؟ مجاہد عرب نی جواب دیا کہ مسلمان خداکی سوا کسی سی نہیں ڈرتی۔‘راجہ نی جوش سی کہا کہ اگر اس مرتبہ بھی تم اکیلی گئی اور سلامت واپس آگئی تو ہم سب اسلام کی صداقت کی سامنی سرتسلیم خم کردیں گی۔ تمام اہل دربارنی اس کی تائید کی۔ اس کی بعد جب دوسری تاریخ آئی تو بہادر عرب پھر مندر میں چلاگیا اور صحیح وسلامت واپس آگیا۔ اس مرتبہ کسی بلانی سمندر کا رخ نہیں کیا۔ جب راجہ اور اس کی رعیت کو یہ معلوم ہواکہ اس مسلمان کی فیض قدم سی اہل جزیرہ کو خوفناک سمندر ی بلا اور شیاطین سی ہمیشہ کیلئی نجات مل گئی ہی تو تمام ملک میں اسلام کی صداقت کا غلغلہ بلند ہوگیا۔ سب سی پہلی بڑھیا اور اس کی بیٹی مسلمان ہوئی۔ اس کی بعد راجہ اور اس کی درباریوں نی اسلام قبول کیا اور پھر تمام جزائر میں لاالہ الااللہ، محمد الرسول اللہ کی دھوم مچ گئی۔ اس طرح مالدیپ میں اسلام پہلی صدی ہجری میںعرب تاجروں کی وساطت سی آیا۔ یہ واقعہ1314کا ہی۔ مالدیپ کی لوگ اسی اب تک ’روحانی انقلاب ‘ کی نام سی یادکرتی ہیں۔ اس وقت سی اب تک پرتگالیوں کی مختصراًعہداقتدار کی سوا مالدیپ اسلامی سلطنت چلی آر ہی ہی۔ مالدیپ کا شماربھی قدیم اسلامی سلطنت میں ہوتاہی۔1581میں ان جزائر پرپرتگالیوں نی قبضہ کرلیا لیکن70ویں صدی میں دلندیزیوں کی نگرانی میں آگیا ‘جوسری لنکا کی بھی حاکم تھی۔1887 میں ایک معاہدی کی تحت برطانیہ براعظم پاک وہند کی ساتھ مالدیپ کا بھی حکمران تسلیم ہوا۔
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 814