donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Daure Jadeed Ke Ikhlaqi Masayel Aur Seerate Nabvi


دورجدید کے اخلاقی مسائل اور سیرت نبویﷺ


 تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    آدمی کی اخلاقی خوبیاں اسے بلند کرتی ہیں اورخرابیاں اسے اشرف المخلوقات کے مقام سے نیچے گراتی ہیں۔ انسان اپنے عمل سے اونچا مقام پاتاہے اور اپنے کردار سے وہ بدتر ہوتاہے۔ نباض انسانیت علامہ اقبال نے اسی بات کو زیادہ خوبی کے ساتھ دومصرعوں میںبیان کیا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے ،جنت بھی ،جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت سے‘ نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    آج سماج میں گونا گوںخرابیاں آگئی ہیں‘ جن کا روناہم روتے ہیں‘مگر کبھی اس پردھیان نہیں دیتے کہ سماج بنتاہے انسانوںسے ،اور جب انسان کے اخلاق وکردار اچھے نہیں ہوں گے‘ توسماج کہاںسے اچھا ہوگا۔ چونکہ انسان اخلاقی اعتبار سے اچھے نہیں بن رہے ہیں‘لہٰذا سماج کے سبھی حصے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ چوری‘ڈکیتی‘ رہزنی‘ لوٹ مار ‘قتل وغارت گری‘ شراب نوشی‘ کرپشن اور دوسری اخلاقی خرابیاں معاشرے میں سرایت کرچکی ہیں اورہمیں ان کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ہم سرکاری سسٹم کی خرابی کارونا روتے ہیں۔ہم دہشت گردی سے پریشان نظرآتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے اندر سے اخلاق ومروت کا خاتمہ ہوتاجارہاہے‘ مگر اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اصل میں غور کیا جائے‘ تو ان سبھی اخلاقی مسائل کاحل سیرت نبوی میں موجود ہے‘ مگر ہم نے کبھی ان خطوط پر دھیان نہیں دیا۔ ہم نے کبھی سیرت کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی کو بدلنے کی طرف دھیان دیا۔

دل کی اصلاح

    رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے درمیان اصلاح کا کام شروع کیا‘ وہ بھی تمام اخلاقی خرابیاںرکھتے تھے‘ جو آج ہمارے سماج کا حصہ ہیں‘مگر باوجود اس کے سماج بدلا اور ایسا انقلاب آیا‘ جو تاریخ عالم میں بے مثل تھا۔ آپ نے اس اصلاح کی ابتداء قلب انسانی کی اصلاح سے کی۔ کیونکہ یہ پورے جسم پر حکومت کرتا ہے۔ اس کی خرابی سے پورا نظام بگڑ جاتاہے اور اس کی اصلاح سے پورے نظام کی اصلاح ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے‘ اگر وہ صحیح ہوجائے‘ تو سارا جسم صحیح ہوجاتاہے اور وہ بگڑ جائے تو سارا سسٹم بگڑ جاتا ہے ،اور وہ دل ہے۔

    ظاہر ہے کہ اسی دل کی اصلاح کے سبب انسان اخلاقی خوبیوں کا مجموعہ بن جاتاہے۔ اس کے اندر محبت‘ شفقت‘ رحمدلی‘ صبرواستقامت‘حق پسندی اور صداقت‘ عفوودرگذر‘ صلح پسندی ونرم خوئی‘ مہمان نوازی وامانت داری‘ ایثار وسخاوت‘زہد وقناعت کی اعلیٰ انسانی قدریں آتی ہیں۔ آدمی کی سیرت کی اصلاح اس کے عقیدے سے شروع ہوتی ہے۔ اسی لئے آپ نے اسے سچا اور پکا موحد بننے کی دعوت دی۔ اسے سب سے پہلے ایک خالق ومالک کاماننے والا بنایاکیونکہ وہ انسان فکری طور پر مضبوط نہیں ہوسکتا ‘ جو اپنی طاقت وقوت کا ایک سرچشمہ نہ رکھتا ہو۔ مختلف خدائوں کے پرستار مضبوط فکری قوت اورجمعیت دل کے حامل نہیں ہوسکتے۔

اخلاقیات پر اثر

    عقیدے کی اصلاح کے بعد آپ نے اخلاقیات کو درست فرمایا اوروہ باتیں جو انسانی معاشرے کے لئے نقصان دہ تھیں‘ انہیں نہ صرف حرام قرار دیا‘بلکہ ان کی خرابی بھی لوگوں کے سامنے واضح فرمائیں۔ شراب ’زنا‘ جوا‘ سود‘ جھوٹ اور غیبت کو حرام قرار دیاکیونکہ جہاں یہ انسان کے اخلاق اورجسم کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں‘ وہیں یہ سماج میںبھی کئی خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔

شراب کی خرابی

    شراب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام برائیوں کی ماں قرار دیا۔ یہ وہ بری چیز ہے‘جسے پی لینے کے بعد انسان کی تمام اخلاقی خوبیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں‘ لہٰذا پہلے اس کی خرابی کوواضح کیاگیا اور اس سے دور رہنے کی تاکید کی گئی‘ پھر دوسرے قدم کے طور پر نشے کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی گئی۔ اصل میں شراب، عرب معاشرے میں بہت عام تھی۔ وہ اپنی محفلوں میں اسے اہتمام کے ساتھ پیتے تھے اور اپنی شاعری میں اس کی تعریفیں بیان کرتے تھے‘لہٰذا جب نشے کی حالت میں نماز کی ممانعت کی گئی‘تو اس کے استعمال میں کمی آگئی۔ کیونکہ نماز پنج وقتہ ادا کی جاتی ہے اوریہ نشہ اگرنماز کے وقت تک برقرار رہا‘ تو نماز نہیں ادا ہوپائے گی۔ لوگوں نے اس کے استعمال میں کمی کردی۔ اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میںحاضر ہوکر اس تعلق سے ایک واضح حکم چاہا‘ پھر قرآن کی سورۃ بقرہ والی آیت نازل ہوئی کہ :

’’آپ سے لوگ شراب اورجوئے کا حکم جاننا چاہتے ہیں‘ تو کہہ دو کہ ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے ہیں‘ مگر اس کا گناہ‘ فائدے سے بڑھ کر ہے۔ ‘‘ 

    اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگ شراب سے اجتناب کرنے لگے‘ مگر میکدے پوری طرح بند نہ ہوئے‘ پھر قرآن میں اس کی حرمت کا حکم نازل ہوا اور اسے مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیاگیا۔ اس کے بعد جام وسبو توڑ دیئے گئے۔شراب، زمین پر بہادی گئی۔ یہاں تک کہ کوئی نالی ایسی نہ تھی‘ جس میںشراب نہ بہائی گئی ہو۔

سود وجوا کی خرابی

    اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی حکم کے تحت سود اور جوا کو بھی حرام قرار دیا ۔ یہ دولت کے حصول کے ایسے طریقے تھے‘ جو اخلاقی لحاظ سے غلط تھے۔ یہ طریقے انسان کو انسان کے تعلق سے بے مروت اور سفاک بناتے تھے۔ اس سے چند لوگوں کا خواہ مالی فائدہ ہو جائے‘ مگر سماج کا امداد باہمی کا رشتہ کمزور ہوتا تھا‘ اسی لئے اسے ممنوع قرار دیا گیا۔ معاشی تنظیم کے لئے سود وجوا کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ حکم نازل ہوگیا کہ :

’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود تمہارا لوگوں پر باقی ہے‘ اس کو چھوڑ دو‘ اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا ‘تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ قبول کرو۔

(سورۃالبقرہ)

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مزید وضاحت کرتے ہوئے سود لینے دینے‘ ‘دستاویز لکھنے اور گواہی دینے کی بھی ممانعت فرمادی۔ آپ نے ان سب پر اللہ کی لعنت فرمائی۔ اس کی ممانعت کے سبب لوگوں میں سخاوت‘ فیاضی‘ ہمدردی اورایثار کا جذبہ پیدا ہوا۔

فحاشی سے اجتناب

    موجودہ دور کی اخلاقی خرابیوں میںایک بڑی خرابی زنا کا عام ہوناہے۔ یہ بے حیائی عرب میں عام تھی اور اس کی تعریف میں اشعار کہے جاتے تھے‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں اسے فحاشی قرار دے کر ممنوع کردیا گیا۔ یہاں مرد وعورت کے لئے جنسی اختلاط کو صرف نکاح کی صورت میںجائز قرار دیاگیا۔ قرآنی حکم نازل ہوا۔ 

’’زنا کے قریب نہ جائو‘ یہ بڑی برائی ہے اور برا چلن ہے۔‘‘
     (سورۃبنی اسرائیل)

’’زنا کار مرد وعورت میں سے ہر ایک کو سوکوڑے لگائو۔‘‘    
   (سورۃالنور)

    زنا اخلاقی خرابی کے ساتھ ساتھ سماج کوکئی قسم کی ٹوٹ پھوٹ سے بھی ہم کنار کرتا تھا‘ لہٰذا اسے سختی کے ساتھ روک دیا گیا۔ حالانکہ آج کا سماج رضا مندی کے ساتھ زنا کو زنا تسلیم نہیں کرتا ‘مگر اسلام نے اسے مطلقاً حرام قرار دیا ہے اورفحاشی کے ہرراستے کو بند کردیا ہے۔

قتل وغارت کی خرابی

    جنگ وجدال اور قتل وغارت گری کسی بھی سماج کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ امن وامان کی حالت میں انسان تلاش معاش کرسکتا ہے اوراپنے اہل وعیال اور سماج کا بھلا سوچ سکتاہے۔ اس لئے امن وامان کے لئے قتل وغارت گری پرپابندی ضروری ہے۔ اسلام نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کوئی کسی کو معمولی تکلیف بھی پہنچائے، چہ جائیکہ انسان ‘ انسان کا قتل کرے۔ حکم قرآنی ہے:

’’جس نے ایک انسان کا قتل کیا ‘بغیر جان کے بدلے یا زمین پر فساد کیا‘ تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کردیا۔

(سورۃ المائدہ) 

    جہاں ایک طرف انسان کا قتل کرنا ممنوع ہے‘وہیں حکومت پرلازم کیاگیا کہ وہ لوگوں کے لئے انصاف یقینی بنائے۔ اگر کسی نے کسی انسان کا قتل کیا‘ تو اس کے بدلے میں قاتل کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ظاہر ہے قصاص کا یہ سخت ضابطہ اس لئے بنایا گیا‘ تاکہ سماج کو بدامنی سے محفوظ رکھا جائے۔

 جنت کا نمونہ

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس معاشرے کی اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر تشکیل فرمائی‘ وہ امن وامان اور بھائی چارہ کی مثال تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ انصار مدینہ نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے اوراپنی ہر چیز اورجائیداد آدھی آدھی کرکے اپنے مہاجر بھائیوں کو دے دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تربیت کا نتیجہ تھا کہ دم توڑتے ہوئے انسان نے خود پانی پینے کے بجائے اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی طرف بڑھا دیا اور اس نے تیسرے اسلامی بھائی کی طرف ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ــ’’تم میں سے کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ہے‘ جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے‘ جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘ 

’’وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا‘ جو پیٹ بھر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔

(مشکوٰۃ)

÷÷÷÷÷

(یو این این)

Comments


Login

You are Visitor Number : 952