donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghazala Khalid
Title :
   Shadi Aik Zimmedari

 

شادی ایک ذمہ داری
 
غزالہ خالد
 
عموماً شادی کے تصور سے ایک خوبصورت دلہن کا تصور آتا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ ہو۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ ہو‘ اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو، ساتھ ہی جہیز بھی پورا لے کر آئے۔ اور ہر طرح کے رسم و رواج ہورہے ہیں۔
لیکن معاشرے میں یہ سوچ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ ہونے والی بہو کی گود میں جو نسل پروان چڑھے گی اُس کا تصورِ دین اور مقصدِ زندگی کیا ہوگا؟ اس کی تربیت اور سیرت کی تعمیر اخلاقی اصولوں پر ہوسکے گی؟
 
سورۃ روم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرسکو۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘(آیت4)
دراصل اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر باہمی کشش رکھی ہے تاکہ نکاح کے پاکیزہ رشتے سے ایک دوسرے کے تقاضے پورے ہوں، اسی سے خاندان اور قبیلے وجود میں آئیں۔
لہٰذا ہمارا پیارا دین اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ انسان اپنی تمام ضروریات اور حاجات کے لیے اپنے رب کا محتاج ہے۔ وہ بندوں کی ہر حاجت دعا مانگنے پر پوری کرتا ہے۔
حضرت موسیٰ ؑ جب عالمِ جوانی میں تھے، غربت اور مسافت میں جب انہوں نے اپنے رب سے دعا کی: رب انی لما انزلتا الی من خیر فقیر(پروردگار جو خیر بھی تُو مجھ پر نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں)۔ لہٰذا اللہ سے اچھے رشتے کے لیے بھی یہ دعا مانگنی چاہیے، کیونکہ اللہ ہی 
نے حضرت موسیٰ ؑ کی تمام ضروریات پوری کیں، ساتھ ہی نکاح کی بھی حاجت پوری کی۔
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قابلِ ترجیح رشتہ دینداری کی بنیاد کو قرار دیا۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’عورت سے چار چیزوں کی بدولت شادی کی جاتی ہے۔ اس کے مال‘ خاندانی شرافت ‘ اس کی خوبصورتی اور اس کی دینداری ۔ تم دیندار عورت حاصل کرو، تمہارا بھلا ہو۔‘‘ (متفق علیہ)
سعد ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ ایک اور جگہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں خوش بختی کی علامت ہیں (1) نیک بیوی(2) کھلا گھر(3) نیک ہمسایہ(4) اچھی سواری۔
 
ہم کو ان احادیث کی روشنی میں رشتہ کی تلاش کرنی چاہیے، اور جب رشتہ طے ہوجائے تو آپؐ نے یہاں بھی رہنمائی کی ہے کہ ’’جس لڑکے کے دین و اخلاق سے مطمئن ہوجائو اس سے اپنی لڑکیوں کا نکاح کرو، اگر ایسا نہ کرو گے تو تکن فی الارض و فساد عریض (یعنی زمین میں عظیم فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا)۔ آج جو ہم معاشرے میں بہت سے نوجوانوں میں خرابیاں دیکھ رہے ہیں وہ نکاح نہ ہونے وجہ سے بھی ہیں۔ رشتہ کے تعین میں ایک لحاظ کفو بھی ہے، یعنی زوجین میں دینی‘ معاشی‘ معاشرتی برابری ہو، تاکہ باہمی محبت اور احترام کا جذبہ رہے۔ جس خاندان میں رشتہ استوار کیا گیا ہے اب وہ آپ کے لیے اتنا ہی محترم ہے جتنا آپ کا خاندان۔ ویسے بھی اللہ کو یہ ہرگز پسند نہیں کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کا مذاق اڑائے یا اس کو حقیر سمجھے۔ سورۃ حجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘
 
پھر ہمارے ہاں اگلا مرحلہ لڑکے کو لڑکی دکھانے کا ہوتا ہے۔ آپؐ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے نکاح کرے تو اسے چاہیے اگر ممکن ہو تو ایک نظر عورت کو دیکھ لے۔‘‘ اجازت صرف ایک نظر کی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں تو پتا نہیں نکاح سے پہلے کتنے مرحلے طے ہوجاتے ہیں جو سب غیر شرعی اور غیر محفوظ ہیں۔
رشتہ کے لیے لڑکی کی رضامندی بھی بے حد اہم اور ضروری ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے: ’’باکرہ یعنی کنواری لڑکی کا نکاح اُس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اُس سے اجازت نہ لے لی جائے۔‘‘
لیکن اسلام میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو درست نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو عورت اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کرے اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘
ہر اہم معاملے کی طرح شادی کے لیے بھی استخارہ ضرور کرنا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا سے استخارہ کرنا اولادِ آدم کی سعادت ہے۔‘‘ پھر ہمارے ہاں منگنی کا تصور ہے جس میں بہت زیادہ اسرافِ بے جا اور بالکل فضول رسمیں ہوتی ہیں۔ اگر ہم فاطمۃ الزہرہؓ کی منگنی دیکھتے ہیں تو حضرت علیؓ نے آپؐ کو فاطمہؓ کا پیغام بھجوایا۔ آپؐ نے بخوشی منظور کرلیا۔ بس یہی منگنی تھی۔ پھر مردوں کے لیے کسی قسم کا سونا بھی حرام ہے چاہے انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔
 
اس کے بعد منگیتروں کی بات چیت، ملنا جلنا، غرضیکہ شادی سے پہلے کوئی تعلق درست نہیں۔ شادی میں سب سے اہم کام نکاح ہے۔ آپؐ نے فرمایا : ’’النکاح من سنتی پس جس نے میری سنت سے گریز کیا وہ ہم 
میں سے نہیں‘‘۔ اس سے پہلے مایوں‘ مہندی اور دوسری رسومات کا سلسلہ جو ہمارے اسلام میں نہیں ہے، بہت طویل اور بوجھل لگنے لگتا ہے۔ اسلام میں صرف نکاح اور ولیمہ مسنونہ ہے جو لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے، مگر اس کو بھی آج کل نمائش اور اسٹیٹس کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ کھانوں کی بہتات… تقریباً 9-10 ڈشیں۔ اس وجہ سے نکاح ہر ایک کے لیے مشکل بنتا جارہا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی ذمہ داری بھی بتادی ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جس کو اولاد دے اسے چاہیے کہ اچھا نام رکھے اور اچھی تربیت کرے، اور جب سنِ بلوغت کو پہنچ جائے تو اس کی شادی کردے۔ اگر اس وقت اس کی شادی نہ ہوئی اور اس نے گناہ کا ارتکاب کرلیا تو اس کا باپ گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔‘‘
نکاح گویا معاشرے میں پاکیزگی اور خاندان میں وقار اور حسن اس رشتے کے قیام کے سبب ہے۔ نکاح سے پہلے مہر کا تعین ضروری ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لیے بعض لوگ بہت زیادہ مہر کی رقم کا اعلان کرتے ہیں اور اس کو ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، یا اسے اہمیت نہیں دیتے۔ سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
واتوالنساء صدقٰتھن نحلۃ
(عورتوں کے مہر خوش دلی سے ادا کرو)
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں مہر کی ادائیگی کا ارادہ ہی نہیں تو قیامت میں زناکار کی حیثیت سے پیش ہوگا۔‘‘ لہٰذا مہر کی اہمیت واضح ہوگئی۔
 
ہمارے پیارے نبیؐ نے دلہن کے لیے دعائوں کا بھی اہتمام کیا: فتبارک اللہ علیک (بخاری و مسلم) آپؐ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کو ان الفاظ میں دعا دی:
اللھم انی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم (اے اللہ میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے آپ کی پناہ میں دیتا ہوں) پھر بعد میں ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتناقرۃ اعین و جعلنا للمتقین اماما۔
ہمارے معاشرے میں شادی کے لیے ہر طرح کی تیاری کی جاتی ہے۔ بہترین ہال‘ خوبصورت فرنیچر‘ قیمتی کپڑے‘ زیورات‘ نکاح‘ ولیمہ میں کھانے کا اہتمام۔ بے شک یہ سب انتہائی اہم اور ضروری لوازمات ہیں، مگر ایک اور اہم چیز کہ بچوں اور بچیوں کو ازدواجی زندگی کی دعائوں اور غسل پاکی کا علم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وان کنتم جنباً فاطھروا(سورۃ المائدۃ)
(اگر جنابت کی حالت میں ہو تو پاک ہوجائو)
غسل کے صرف تین فرائض ہیں (1) کلی اس طرح کرنا کہ پانی حلق تک پہنچ جائے۔ غرارے کرلیں۔ (2) ناک میں پانی ڈالنا نرم 
ہڈی تک (3) سارے بدن پر پانی پہنچانا کہ بال برابر بھی جگہ خشک نہ رہے۔ پہلے دائیں ہاتھ میں پانی لے کر دونوں ہاتھ دھوئیں۔ پھر استنجا کریں۔ پھر بدن کی نجاست دھوئیں۔ پھر دونوں ہاتھوں کو صابن سے دھوکر اچھی طرح وضو کریں۔ وضو میں بسمہ اللہ الرحمن الرحیم کے علاوہ اور کوئی دعا نہ پڑھیں۔ وضو کے بعد سر پر پانی ڈالیں۔ پھر دائیں شانے اور پھر بائیں شانے پر پانی ڈالیں، پھر پورے بدن کو صابن سے اچھی طرح دھوئیں۔ پھر اس کے بعد دوبارہ اچھی طرح پانی بہائیں کہ کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔ بالوں کی جڑوں اور ناخنوں کے اندر بھی پانی پہنچانا ضروری ہے۔ نیل پالش لگی ہونے کی صورت میں نہ غسل ہوگا نہ وضو۔
 
اس چیز کو بھی جاننا ضروری ہے کہ پاکیزہ معاشرے کی تعمیر میں سب سے زیادہ ضروری خاندانی نظام کا مضبوط اور کامیاب ہونا ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب بیوی اور شوہر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں اور آدابِ زندگی سے واقف ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا (مفہوم ) ’’دنیا کی بہترین متاع نیک و صالح عورت ہے‘‘۔ دنیا ایک متاع ہے اور بہترین متاعِ حیات نیک و صالح عورت ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:
 
’’وہ تمہارے لیے لباس اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘
لباس خوبصورتی‘ جسم کو ڈھانپنے‘ عیوب چھپانے‘ موسم کی شدت سے محفوظ رہنے‘ آرام دہ خوش پوشی کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا میاں بیوی کے درمیان خوش گمانی‘ خوش گفتاری‘ کوتاہیوں سے درگزر‘ صبر و ضبط‘ ایثار و خوش اخلاقی‘ دینی تربیت ضرور ہونی چاہیے۔ قرآن پاک میں سورۃ التحریم میں ہے: ’’اے ایمان والو، اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، خود بھی اس پر قائم رہو۔‘‘
گھر کے ماحول اور بچوں کی تربیت میں خواتین کا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ لہٰذا بچوں کے اندر سلام سب کو کرنا آنا چاہیے (اس لیے کہ سلام محبت کا دروازہ کھولتا ہے۔ مسکراہٹ کے ساتھ ملنے سے سسرال والوں کے دل میں جگہ پیدا ہوتی ہے۔ اپنائیت اور قربت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کو تحائف دینے کی عادت ہو، خواہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو۔ طبیعت میں اظہارِ تشکر ہو۔ خود پسندی اور منفی سوچ نہ ہو۔ میری مرضی اور میری پسند کے بجائے ایثار ہو۔
 
اپنے ساتھی کی رفاقت پر مطمئن رہیں، اعتماد دیں اور اعتماد حاصل کریں۔ ایک دوسرے سے چھپاکر کوئی کام نہ کریں۔ مشورہ اور رائے کا احترام کریں۔ زبان کو بہترین رکھیں۔ تلخی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔ آپ کی ذات ہر ایک کے لیے خیر کا نمونہ ہو۔ تمام رشتے اللہ نے نعمت اور رحمت کے بنائے ہیں۔ اگر ان سب سے تعلقات درست ہوں تو زندگی خوبصورت اور آسان ہوجاتی ہے۔ ایسے میں کوئی بہترین دوست ضرور ہونی چاہیے۔ اگر معاملے میں خدانخواستہ کوئی خرابی ہو تو وہ آپ کی بہترین مدد کرسکے بشرطیکہ وہ دین کا فہم رکھنے والی، سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک ہو، جو آپ کے مسائل حل کرنے میں مدد کرسکے۔
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 798