donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Akber
Title :
   Halal Aur Haram Ke Darmiyan Mufahmat

 

حلال اور حرام کے درمیان مفاہمت
 
غلام اکبر
 
جائز اور ناجائز کا معاملہ بنی نوع انسان کی پوری تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ہمارے دین میں جائز اور ناجائز کے لیے دو بڑی واضح اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ حلال اور حرام۔
 
اس معاملے میں قرآن حکیم مکمل طور پر غیر مبہم ہے اور آنحضرت کی تعلیمات بھی سو فیصد واضح ہیں۔ ایک سچے مسلمان کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی حلال کے دائرئے میں رہ کر گزارنے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کوشش کے باوجود حرام کبھی اس کی زندگی میں داخل ہوجائے تو توبہ کا دروازہ اس پر کھلا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اس کی نیت کو جانتا ہے اس لیے اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔ مگر جو بات قادرِ مطلق کو قبول نہیں وہ حلال اور حرام کا فرق مٹانے کی کوشش ہے خواہ وہ کسی ہی نیت سے کیوں نہ کی جائے۔
 
میں نے آج یہ تمہید اپنے سیاسی نظام اور رموز مملکت کو حلال وحرام کسو کوٹی پر پرکھنے کے لیے باندھی ہے۔ لیکن بات کا آغاز میں برصغیر کے ’’عہد اکبری‘‘ سے کروں گا۔ میری مراد مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے پوتے جلال الدین اکبر سے ہے جسے تاریخ میں اکبر اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میری حقیر رائے یہ ہے کہ اگر برصغیر میں مسلمانوں کا روشن ترین عہد شیرشاہ سوری کا تھا تو تاریک ترین دورِ اکبری کو کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سیاسی مصلحتوں اور رموزِ مملکت کے نام پر حلال اور حرام کا فرق مٹا ڈالنے کی ایک شعوری کوشش کی گئی۔ یہ شعوری کوشش مجھے پورے دورِ اکبری میں نظر آتی ہے۔ شہنشاہ اکبر نے ’’مفاہمت کی سیاست‘‘ کے نام پر ’’دینِ الہٰی‘‘ رائج کرنے کی جو افسوسناک (بلکہ ناپاک) کوشش کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس ناپاک کوشش کی تراس کا ’’حرم‘‘ کرتا ہے۔ اگر شہزادہ سلیم کی ماں نے کبھی ہندو مت نہیں چھوڑا تھا یا اللہ کا دین قبول نہیں کیا تھا تو پھر کون سا قانون یا جواز ایسا ہے جو شہنشاہ اکبر اور مہارانی جو دھا بائی کے ازدواجی رشتے کو ’’حلال‘‘ قرار دلا سکتا ہے؟ اور اگر شہنشاہ ہند اور ملکہء ہند کے درمیان قائم ہونے والا رشتہ حلال نہیں تھا تو پھر شہزاد سلیم (جو بعد میں شہنشاہ جہانگیر بنا) کو کس خانے میں رکھا جائے؟
 
یہ سوال تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ہمیشہ پریشان کرتا رہا ہے۔ میں شنہشاہ جہانگیری ’’مسلمانی‘‘ کے سامنے سوال نہیں اٹھارہا۔ اس نے کلمہ توحید ورسالت ضرور پڑھا ہوگا لیکن جس معاشرے یا مملکت میں حلال اور حرام کا فرق ایک ’’پالیسی‘‘ کے طور پر مٹا دیا گیا تھا اسے میں اپنی یعنی مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ماننے یابنانے کے لیے تیار نہیں۔ حلال اور حرام کے درمیان قائم لکیر کو مٹاڈالنے کی ناپاک جسارت کے خلاف ہی حضرت مجددالف ثانی کا ظہور ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لکیر جہانگیری عہد میں تو ’’مدھم‘‘ رہی ہی شاہجہانی عہد میں بھی واضح طور پر سامنے نہ آسکی۔ اس لکیر کو دوبارہ کھینچنے اور قائم کرنے کا کام جس شخص نے انجام دیا وہ آج بھی دین کو دنیا سے الگ رکھنے کے خواہشمند لبرل حلقوں کی نظروں میں ایک ولن کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن میں اس بطل جلیل کو اپنی تاریخ کا ایک روشن اور سدا چمکنے والا ستارہ سمجھتا ہوں۔ میری مراد اورنگزیب ؒ سے ہے۔ اورنگزیبؒ ہمیشہ بیشتر مورخین کے معتوب رہے ہیں۔ ان کی کردار کشی کے لیے سہارا ہمیشہ اس دلیل کا لیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو قید خانے میں ڈالا اور اپنے بھائیوں کو یکے بعد دیگرے مروا ڈالا۔
 
بادی النظر میں یہ الزامات محض الزامات نہیں حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں مگر یہ مورخین اس بات کو ہمیشہ نظر انداز کرجاتے رہے ہیں اورنگزیبؒ اپنے مذہبی رحجان اور عقائدے کے پیش نظر دربار شاہجہانی میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھے جاتے تھے۔ جب وہ بیس برس کے تھے تو انہیں کابل کی فتح کے لیے بھیجا گیا۔ اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس سپہ سالار کے سپرد کابل کی مہم کی جاتی ہے اسے ایک طرح سے موت کا پروانہ دے دیا جاتا ہے۔ اورنگزیبؒ نے تمام اندازے غلط ثابت کردیے اور وہ کابل فتح کرکے واپس لوٹے۔ یہ صورت حال شاہجہان اور ان کے لاڈلے بیٹے دارا کے لیے خوش آئند نہیں تھی۔ چنانچہ دہلی میں اورنگزیبؒ کے لیے جو جشن فتح منایا گیا اس میں انہیں ایک مست ہاتھی کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد اورنگزیبؒ کے سپرد حیدرآباد کن کی شورشوں کی سرکوبی کا مشن کیا گیا۔ یہ بھی مشہور تھا کہ حیدرآباد دکن ہمیشہ ایسے سالاروں کو بھیجا جاتا تھا جن کو ’’زندہ نہ دیکھنا‘‘ مقصود ہو۔ اورنگزیبؒ نے سترہ اٹھارہ برس دکن کی صوبیداری میں گزارے۔ تمام شورشوں پر قابو پایا اور پورے ہند میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ یہ صورت حال شہنشاہ شاہجہان کے لیے پریشان کن تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بڑے بیٹے دارا کے لیے اورنگزیبؒ کا وجود بہت بڑا خطرہ ہے۔ چنانچہ اورنگزیبؒ کو انعام واکرام کے لیے دکن سے دہلی طلب کیا گیا۔ مقصد انہیں ایک نادیدہ تلوار کی زد میں لانا تھا اورنگزیبؒ کی چھوٹی بہن روشن آراء نے انہیں اس سازش سے آگاہ کردیا۔ وہ پھر بھی دہلی آئے۔ جس محل میں ضیافت کا اہتمام تھا اس کے مرکزی دروازے کے اوپر سے ایک تلوار عین اس وقت گرنی تھی جب اورنگزیب اندر داخل ہوتے۔ جب وہ لمحہ آیا تو اورنگزیبؒ نے رک کر اپنے باپ کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ابا حضور پہلے آپ۔۔۔۔‘‘
 
کہا جاتا ہے کہ شاہجہان کا رنگ فق ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اورنگزیبؒ نے کلمہ پڑھا اور دروازے میں داخل ہوگئے۔ تلوار گری ضرور لیکن خدا نے اورنگزیبؒ کو بچالیا۔
 
یہ واقعہ اورنگزیبؒ کی زندگی کا ہم ترین موڑ تھا۔ انہوں نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’ابو حضور مجھے یقین نہیں تھا کہ ایک باپ ایسا کرسکتا ہے لیکن میں آپ کو معاف کرتا ہوں مگر اب ہندوستان کو ان عناصر کے قبضے میں نہیں جانے دوں گا جن کے ہاتھوں میں آپ کھیل رہے ہیں اور جو اسے خدا کے دین سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
پھرجو کچھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔
 
اورنگزیبؒ نے تقریباً نصف صدی تک حکومت کی۔ لیکن جو فتنے ’’دینِ اکبری‘‘ نے پیدا کیے تھے اور ’’حلال وحرام‘‘ میں امتیاز ختم کرنے کا جو کلچر دربار اکبری سے فروغ پا کر دربار جہانگیری اور دربار شاہجہانی تک پہنچا تھا اسے وہ پوری طرح نہ مٹاسکے۔
 
جب ایک مرتبہ حلال میں حرام کی آمیزش ہوجاتی ہے اور اس آمیزش کو معاشرے میں قبولیت ملنا شروع ہوجاتی ہے تو اصلاح احوال کے لیے ایک اورنگزیبؒ کافی نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے اورنگزیبؒ کے بعد کوئی دوسرا اورنگزیبؒ پیدا نہ ہوسکا۔ یہ الفاظ میں 2012 میں لکھ رہا ہوں اور مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے شہنشاہ اکبر کے دین الہٰی کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرنے کی کوششیں ہورہی ہوں۔ اور حلال وحرام کے درمیان امتیاز ختم کرنے کا رحجان پھر جڑیں پکڑ رہا ہو۔ اگر میں یہ کہوں کہ ’’این آر او‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تو نادرست نہیں ہوگا۔ ’’این آر او‘‘ کیا 
 
تھا؟ حلال اور حرام کے درمیان فرق مٹانے کی خواہش کو آئین کا درجہ دلانے کا ایک شرمناک قدم۔
نام اس ’’سعی‘‘ کے لیے بڑا پُرکشش منتخب کیا گیا۔ قومی مفاہمت کا آرڈیننس! اگر حلال اور حرام کے درمیان مفاہمت کو قومی مفاہمت قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر نظریں اور ہاتھ اوپر اٹھا کر کسی اورنگزیبؒ کو آواز دینی پڑے گی۔ شاید خدا ہماری یہ دعا قبول کرلے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولرزم کا نام لینا بلکہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے دودھ کے گلاس میں ایک ’’قطرۂ ناپاک‘‘ گرادیا جائے … بات اب جائز اور ناجائز یا حلال وحرام کے درمیان بڑی ہی واضح لکیر کھینچنے تک آپہنچی ہے۔
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 767