donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Kalimullah Umri Madni
Title :
   Ramzanul Mubarak : Fazail Va Ahkaam

رمضان المبارک : فضائل واحکام
 
حافظ کلیم اللہ عمری مدنی 
*مفتي جامعه دارالسلام عمر اباد 
: hskpbt.2009@gmail.com
 
 
صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ جب ایک یا دو قابل اعتماد اور دین دار مسلمان ۲۹شعبان یا ۳۰شعبان کو سورج کے غروب ہونے کے بعد رمضان کا چاند دیکھ لیں تو ان کی رویت پر اعتماد کیاجائے گا۔ اس طرح ان کی رویت قابلِ قبول ہوگی اور سورج غروب ہونے کے بعد ۲۰منٹ یا اس سے کم یازیادہ دیر تک ہلال کا رکنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ ہمیں صرف یہ حکم دیاگیاہے کہ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے شروع کرو۔اگر مطلع ابرآلود ہوتو شعبان کے تیس دن پورے کرو۔﴿بخاری ،مسلم﴾رویت ہلال میں جدید حسابات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے ۔
 
رویت ہلال میں محدثین کرام کے پاس ایک اُصول یہ ہے کہ’ لکل بلد رویتھم‘﴿صحیح مسلم ﴾ہر شہر والوں کے لیے ان کی اپنی رویت معتبر ہے۔ اہل مکہ کی رویت ہمارے لیے اختلاف مطالع اور تفاوتِ وقت کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ لہٰذا راجح مسلک یہی ہے کہ اختلاف مطالع سے احکام بد ل جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
 
فَمَنْ شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ      ﴿البقرۃ :(۱۸۵
 
’ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہیے ۔‘
 
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
 
’ اذا رأیتموہ فصوموا واذا رأ یتموہ فأفطوروا ‘
 
’جب تم اس کو ﴿چاند﴾ دیکھوتوروزہ رکھواور جب تم اس کو دیکھ لوتو روزہ چھوڑ دو۔ ‘
 
حضرت ابن عباس ؓ  نے حضرت کریبؓ  کی شہادت کوقبول نہیں کیا، جب کہ انھوں نے شام میں چاند دیکھا تھا ۔ ﴿ مسلم ۳/۱۹۷﴾
 
روزہ ہر مسلمان ،عاقل ،بالغ ،مرد،عورت ،مقیم اورقدرت رکھنے والے پر فرض ہے اور وہ بچے جونابالغ ہیں انھیں بھی عادت ڈالنے کے لیے روزے رکھوانے چاہییں۔درج ذیل لوگوں کوروزوں سے رخصت دی گئی ہے اور ان پر قضاء ضروری ہے:
 
﴿۱﴾مسافر ﴿۲﴾ایسا بیمار جسے شفایابی کی اُمید ہو ﴿البقرۃ :۱۸۵﴾﴿۳﴾ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت اگر مشقت محسوس کرے﴿ترمذی ﴾﴿۴﴾حائضہ اور نفاس والی عورت ﴿بخاری،مسلم﴾
 
درج ذیل لوگوں کورخصت دی گئی ہے ۔ ان پر قضانہیں فدیہ ضروری ہے:
 
﴿۱﴾ ضعیف مرد یا عورت جسے روزہ رکھنے کی قوت نہ ہو ﴿۲﴾ ایسا بیمار جسے شفایابی کی اُمید نہ ہو اس کا فدیہ روزانہ ایک مسکین کوکھاناکھلاناہے۔﴿بخاری ﴾
 
روزے کے فوائد
 
 ﴿۱﴾ روزہ تقرب الٰہی کاذریعہ ہے ۔ ﴿۲﴾تقویٰ حاصل کرنے کاایک زرین موقع ہے ﴿۳﴾ خوش حالی اورتنگ دستی میں امتیاز ی فرق محسوس کرنے کا ذریعہ ہے ۔خوش حال شخص اس کے ذریعے بھوک اور پیاس کا اندازہ کرسکتا ہے ﴿۴﴾ نفس انسانی پر کنڑول کرنے اوراسے نیک بخت بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ ﴿۵﴾انسانی معدے کو راحت پہنچانے اور اسے مُضراثرات سے روکنے کا ذریعہ ہے۔روزہ جسم کی زکوٰۃ اور اس کی پاکی وصفائی کا بہترین مظہر ہے ﴿۶﴾روزے سے اسلامی سوسائٹی میں مساوات کا سبق ملتاہے۔ اس معاملے میں شاہ وگدا اورامیر وغریب حکم میں برابر ہیں ﴿۷﴾اطباء کااتفاق ہے کہ روزہ دائمی مرض سے بچاتا ہے۔ بالخصوص سل﴿T.B﴾، سرطان ﴿Cancer﴾ ،جلدی امراض اور معدے کی تمام بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے ﴿۸﴾ روزہ دار اللہ کی نعمتوں سے صحیح طور پر واقف ہوتا ہے ۔
 
 روزے کی حالت میں درج ذیل باتوں کالحاظ رکھنا ضروری ہے:
 
روزہ دار غیبت، جھوٹ ،گالی گلوج ، لڑائی جھگڑے اور جہالت کے کاموں سے دوررہے ۔ حدیث میںہے کہ ’ جس نے غلط بیانی ،جھوٹ ،اور جہالت کاکام نہ چھوڑا تو ایسے شخص کا کھانے پینے کو ترک کرنا اللہ کو منظور نہیں ۔‘
 
 سحری کھاتے وقت کسی مخصوص ومسنون دعا کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجودنہیں ہے۔ البتہ بسم اللہ کے ساتھ سحری کرنا بہتر ہے۔’ سحری کھانے میں برکت ہے اور سحری دیر سے کھانا مستحب ہے۔ اگر سحری کھاتے ہوئے اذان ہوجائے تو کھانا فوراً ترک کرنے کی بجائے جلدی جلدی کھالینا چاہیے ﴿ابوداؤد ﴾حضرت زیدبن ثابت ؓ  سے سوال کیا گیا کہ سحری اور اذان ِفجر کے درمیان کتنا وقفہ ہوتاتھا؟ انھوں نے جواب دیا : پچاس آیات پڑھنے کی بہ قدر ﴿بخاری ، مسلم ﴾ اس کا مطلب ہے کہ سحری آخری وقت کھانا چاہیے۔ ﴿ریاض الصالحین۲/۱۴۱﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’ ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کاہے۔‘﴿مسلم ﴾
 
درج ذیل باتوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
 
﴿۱﴾جان بوجھ کر ہم بستری کرنا ﴿۲﴾ جان بوجھ کر کھانا پینا ﴿۳﴾ حیض ونفاس کا آجانا﴿۴﴾عمداً قے کرنا ﴿۵﴾منی کا مباشرت یابوس وکنار وغیرہ کی وجہ سے نکل جانا ﴿۶﴾غذا کے طورپر طاقت کے انجکشن لینا بھی عمداً کھانے پینے کے برابر ہے ﴿ احکام الصیام ص ۱۴﴾
 
حالت سفر میں سحری وافطاری کی سہولت ہواور مسافر پر شاق نہ گزرے تو ایسے مسافر کا روزہ رکھنا بہتر ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حالت سفر میں روزہ رکھتے تھے اور بعض رخصت پر عمل کرتے تھے اور بعد میں قضا کرلیتے تھے۔ کوئی کسی پر نکیر نہیں کرتاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرمایا: ’یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، جو اس کو لے لے بہتر ہے اور جو کوئی روزہ رکھنا چاہے تورکھے کوئی حرج نہیں ہے۔ ‘
 
 وہ غلطیاں جن کا ارتکاب روزے دارعموماً کرتے ہیں درج ذیل ہیں:
 
﴿۱﴾سحری طلو ع صبح صادق سے ایک گھنٹے یا دوگھنٹے پہلے کھالینا ﴿۲﴾کھانے میں بیجا اسراف ﴿۳﴾ نماز ِ باجماعت ترک کرنا ﴿۴﴾مسلسل سوتے رہنا ﴿۵﴾ زبان کی حفاظت نہ کرنا ﴿۶﴾لہوولعب میں مشغول رہنا ﴿۷﴾نماز تراویح میں کوتاہی کرنا﴿۸﴾عشرہ اخیر ہ میں صرف ستائیسویں رات کو شب ِ قدر تلاش کرنا ﴿۹﴾ قرآن کی تلاوت وتدبر میں کوتاہی کرنا۔
 
اگر حاملہ کمزور ہو یا کسی طبیب کا مشورہ روزہ نہ رکھنے کا ہو تو روزہ چھوڑ دے اور بعد میں قضا کرے۔ اُسی طرح دودھ پلانے والی کوبھی روزہ ترک کرکے بعد میں قضاء کرنے کی اجازت ہے :
 
 لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساًاِلَّا وُسْعَھَا                           ﴿البقرۃ : ۲۸۶
 
’ اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔‘
 
 کیاکوئی ۳۱ دن روزے رکھ سکتا ہے ؟
 
 کوئی ایسی جگہ سے پہنچاجہاں کے روزے میں ایک دن کافرق پایا گیا مثلاً کوئی سعودی عرب سے ۳۰روزے مکمل کرکے ہندستان آیا جہاں ۲۹روزے مکمل ہوئے تو اُس شخص پر ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اورعید منائے۔ اگر چہ اُس کے ۳۱روزے ہوجائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :’ روزہ اُس دن ہے جس دن تم سب مل کر روزہ رکھتے ہو، اور افطار اُس دن ہے جس دن تم سب مل کر روزہ چھوڑ تے ہو ‘‘ ﴿ترمذی ﴾جیسا کہ ایک شخص فرض نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں حاضر ہواور وہاں فرض نماز ہورہی ہو تو وہ شخص جماعت کے ساتھ شریک ہوکر نفل کا ثواب پالیتا ہے ۔ اُسی طرح یہ روزے دار بھی نفل کا ثواب پالے گا۔ اس کے برعکس ۹۲سے کم ہونے کی صورت میں ایک روزہ قضاکرلے اس لیے کے مہینہ ۲۹یا۳۰دن کا ہوتاہے۔﴿فتاوی الصیام، ص: ۶۱﴾
 
 افطارکی سنتیں
 
 ﴿۱﴾ سورج غروب ہونے کے بعد افطارمیں جلدی کرنا ﴿۲﴾ بسم اللہ پڑھنا ﴿۳﴾ ترکھجوروں سے افطار کرنا ﴿۴﴾ اگر وہ میسرنہ ہو ں تو چھوارے سے افطار کرنا ﴿۵﴾ کھجور طاق کی شکل میں کھانا ﴿۶﴾اگر وہ بھی نہ ملے تو پانی کے چند گھونٹ پی لینا ۔﴿ ابوداؤد﴾
 
 رمضان کی عظمت کی وجہ سے سب سے افضل صدقہ رمضان کا ہے۔ حضرت انس ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’ رمضان میں صدقہ دینا ﴿ترمذی: ۶۶۳، ضعفہ الالبانی ﴾ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ فیاض تھے ، اور پھر رمضان میں جب جبریل علیہ السلام آپﷺ سے ملتے تھے اورقرآن کریم کامذاکرہ کرتے تھے تو آپﷺ کی فیاضی اورتلاوت ِ قرآن دوسرے ایام کے مقابلے میں دوچند ہوجاتی تھی۔ ﴿بخاری ، مسلم ﴾
 
 زکوٰ ۃ دین ِاسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے، جس کی فرضیت قرآن کریم، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع ِاُمت سے ثابت ہے ارشاد ربانی ہے:
 
وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ واٰتُواْ الزَّکوٰۃَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴿البقرۃ :۴۳﴾
 
’ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ اداکرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکو ع کرو۔
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : ’لاَاِ لٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ کی شہادت دینا ،نماز قائم کرنا زکوٰۃ اداکرنا ، حج کرنا ،اورماہِ رمضان کے روزے رکھنا ﴿بخاری ، مسلم ﴾
 
 زکوٰۃ نہ دینے پر وعید
 
 قال اللہ تعالی والذین یکنزون الذہب والفضۃ ولاینفقونہا فی سبیل اللہ فبشرہم بعذاب الیم     ﴿ التوبۃ ۳۴﴾
 
’جولوگ سونا چاندی کا خزانہ جمع رکھتے ہیں او ر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی بشارت پہنچادیجیے۔‘
 
 حضرت ابوہریرۃ ؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 
 اگر کسی کے پاس سونا یا چاندی ﴿بقدر نصاب زکوۃ جس پر سال گزر چکا ہو ﴾ ہو اور وہ ان کی زکوٰۃ ادانہ کرے تو قیامت کے دن اسی سونے اورچاندی سے آگ کی چادر بنائی جائے گی اورا س چادر کو جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا ،پھر اس سے اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ کو داغاجائے گا ،اگر چادر ٹھنڈی ہونے لگے تواسے پھر گرمایا جائے گا اور اس شخص کو یہ عذاب ہمیشہ دیاجائے گا ، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔‘﴿مسلم﴾
 
 شرائط زکوۃ
 
﴿۱﴾ مال زکوۃ بقدر نصاب یا اُس سے زیادہ موجود ہو﴿۲﴾ اُس مال پر ایک ہجری سال گزرچکاہو ﴿۳﴾ مال پر مالکانہ قبضہ ہو۔
 
 مستحقین زکوٰۃ
 
﴿۱﴾ فقراء ﴿۲﴾ مساکین ﴿۳﴾ زکوٰۃ کی وصول یابی کرنے والے ﴿۴﴾ تالیف قلب کے مستحقین ﴿۵﴾ غلام آزاد کرنے کے لیے﴿۶﴾ مقروض ﴿۷﴾ اللہ کی راہ میں ﴿۸﴾ مسافر ﴿توبہ:۶۰﴾
 
زکوٰۃ کا ماہ رمضان میںادا کرنا نہیں ہے۔ بلکہ وجوبِ زکوٰۃ کے لیے شرائط ہیں۔ یہ شرطیں مکمل ہوجائیں تو زکوٰۃ کی ادا ئی واجب ہوگی۔ چونکہ رمضان ایک مبارک مہینا ہے ، اس میں صدقہ وخیرات کا اجر دُگنا ہوتاہے، اس لیے لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے لیے رمضان میں زکوۃ دینا بہتر ہے ۔
 
*******************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 576