donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imdad Hussain
Title :
   Islam Musawat Ke Ayine Mein

 

 اسلام مساوات کے آئینہ میں 

امدادحسین ریسرچ اسکالر
شعبہ سنی دینیات علیگڑھ مسلم 
یونیورسیٹی علی گڑھ،یوپی،۲۰۲۰۰۲   


    آج کی دنیا میں اہم ترین معاشرتی و سما جی مسائل میں سے ایک مسئلہ ـــ’’مساوات ‘‘ کا بھی ہے۔ مساوات کے معنی برابرہونے کے ہیں ۔جس کا سیدھااور صاف مفہوم یہ کہ تما م نوع ِانسان جملہ حقوق میں یکساں ہوں اور باہم کسی میں کوئی فرق و امتیاز نہ برتاجائے۔ اسی مساوات کو بروئے کار لانے کے لئے دنیا میں بعض اقتصادی نظام بھی رائج کئے گئے ہیںجن میںکمیونزم،سوشلزم جیسے کئی ازم شامل ہیں۔ان نظریات کی بنیاد پرآج دنیا کے متمدن ممالک کار ہائے زندگی کے مختلف شعبوں میںعورتوںکو مردوں کے پہلوبہ پہلو کام کرنے کے موقع فراہم کئے جا رہے ہیںاورپوری دنیا میں زوروشور سے اس کا پرو پیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے۔

    اسلام نے آج سے تقریباچودہ سو سال پہلے دنیا کو مساوات کا سبق دیا ہے اور اسلام کے پیروکاروں نے اپنے اخلاق وکردار کے ذریعے دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ بھی پیش کرتے ہوئے دنیا کے سامنے حقیقی مساوات کو پیش کیا ہے۔آج سے چودہ سو سال پہلے ہی رنگ و نسل اورمذہب و زبان کی بنیاد پر پائے جانے والے فرق کومعاشرے سے نیست ونابود کرکے ثابت کردیا ہے کہ اسلام دین فطرت اوردین رحمت ہے ۔ یہاںایک بات قابل غور ہے کہ اسلامی مساوات کا مفہوم وہ نہیں ہے جو آج سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی واضح کردیا جائے کہ جو مفہوم آج رائج ہے نہ صرف فطرت کے خلاف ہے بلکہ فسادو انتشار کا باعث بھی ہے،کیوں کہ اس نتیجہ حقوق کا احترام نہیں بلکہ حق تلفی ہے ۔  

    ازروئے فطرت یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جملہ نوع انسان کی صلاحیتیں اور استعداد یکساں نہیں ، نہ ان کی عقل وفہم یکساں ہے ،نہ ذمہ داریوںکی ادائیگی کے معیار پر سب ایک معیار پر اترتے ہیں۔مرد و عورت کے درمیان فطرۃًایسا طبقاتی فرق ہے کہ عورت کبھی مرد کی اور مرد کبھی عورت کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔اگر اس اصول سے صرف نظرکرتے ہوئے کوئی نظام بنایاجاتا ہے تو وہ فطرت کے ساتھ صریح بغاوت ہے اور دنیا نے ایسے نظاموں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔

    اسلامی مساوات کامفہوم یہ کہ کسی فرد بشر کی کوئی حق تلفی نہ ہو ۔اس کا بنیادی اصول یہ کہ دنیا کی نعمتوں سے ہر ایک یکساں طورپر فائدہ حاصل کر نے کا حق حاصل ہے اور ہر فرد اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کے مطابق اپنے میدان میں کا م کرنے کا اہل ہے۔اس نظام میں کسی کے بھی ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتیبلکہ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے۔اس نظام کے تحت کوئی بھی فرد کوئی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا جرم کرنے بعد رنگ و نسل یا عہدہ ومنصب کی آڑ لیکر بچ نہیں سکتا۔حاصل یہ کہ مساوات کا مفہوم یہ نہیں کہ صرف قانون سب کے لئے یکساں ہو بلکہ سب کے حق میں اس قانون کا نفاذ یکساں ہو۔

    یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں ہونی چاہئے کہ اسلام کو ہمیشہ سے ایک سازش کے تحت بدنام کیا جاتا رہاہے۔چاہے حدود و قصاص کا معاملہ ہو یا عد ل و انصاف یا حقِ مساوات کا مسئلہ ہو۔حالانکہ اگربغض وعناداور عصبیت کی چادر ہٹاکر دیکھا جائے تو یہ تمام باتیں مثالی طور پراسلام ہی کی عطاکردہ ہیں اورجس کی نظیر دنیا کے کسی اور مذ ہب میں نہیں پائی جاتی۔اسلامی نظامِ مساوات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں دوسرے ادیان میں موجود مساوات کے تصور کو سمجھنا ہوگا۔
یہودیت میں مساوات کا تصور :  مذہب ِیہود میں ان کے علماء وپیشوا نے اللہ کی کتاب کو اس طرح مسخ کر ڈالاکہ حق و باطل میں امتیاز کرنا محال ہے۔یہودی پیشوائوںکی پرانی عادت رہی ہے کہ جب کبھی بڑے لوگوں سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو انہیں اقربا پروری،یا مال و جاہ کی لالچ میں ان کی خواہشات کے مطابق سزائیں نافذ کرتے یاپھر اس جرم کو اخفا رکھنے کی کو شش کرتے اور جب قوم کے کسی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے سے کوئی جرم صادر ہوتا تو انہیں وہی سزا دیتے جو تورات میں مذکور ہو۔ان کی انہی برائیوں کو قرآن کریم اس طرح بیان کرتا ہے،یا یھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفرمن الذین قالواامنا بافواہہم ولم تومن قلوبھم۔ الآخر (سورئہ مائدہ،آیت۴۱تا۴۳) ’’اے پیغمبرؐ!تمہارے لئے باعث رنج نہ ہوںوہ لوگ جو کفر کی راہ میںبڑی تیزگامی دکھا رہے ہیں، خواہ وہ ان میںسے ہوںجو منھ سے کہتے ہیںہم ایمان لائے مگردل ان کے ایمان نہیں لائے۔‘‘ ان آیات کے سبب نزول سے متعلق علماء مفسرین دو وجہیں بیان کرتے ہیں،ایک قتل و قصاص ، اور دوسری زناکی۔یہ بات کسی تاریخ عالم کے جاننے والے پر مخفی نہیں کہ اسلام سے پہلے ہر جگہ،ہر خطہ اور ہرطبقہ میں ظلم و جور کی حکومت تھی قوی ضعیف کو،عزت والے بے عزت کوغلام بنائے رکھتے تھے۔ قوی اور عزت والے کے لئے قانون اور تھا،اور کمزور و بے عزت کیلئے قانون دوسرا تھا۔جیساکہ دور حاضر میں اس کا مشاہدہ روزبروزکرتے رہتے ہیں۔ 

    جناب نبی کریمؐ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے مدینہ کے اردگردیہود کے دو قبیلے بنو قریظہ اور بنو نضیر آبادتھے، بنونضیر شان و شوکت اور دولت وعزت میں بنو قریظہ سے اعلی مقام رکھتے تھے، اور یہ لوگ آئے دن بنوقریظہ پر طرح طرح کے ظلم و ستم کرتے رہتے تھے،اور بنو قریظہ چاروناچاران مظالم کو سہتے تھے ،یہاں تک کہ بنو نضیرکا کوئی شخص اگر بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کرتے تو ان کوکو ئی حق نہیں تھا کہ بنونضیرسے بدلہ لیں ،بلکہ صرف ستروسق کھجوریںخون بہا کے طور پر ادا کی جاتیں( وسق عربی اوزان کا ایک پیمانہ ہے، جو تقریبا پانچ من دس سیر کا ہوتا ہے) اور اگر بنو قریظہ کے کسی آدمی نے بنونضیر کے کسی شخص کو قتل کردیا تو بدلے میں بنو نضیر اس کے دو آدمیوں کو قتل کرتے۔

     جب نبی کریم ؐہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ دارالاسلام بن گیا ۔یہ دونوں قبیلے نہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور نہ ہی کسی معاہدہ کی رو سے اسلامی احکام کے پابند تھے مگر اسلامی قانون اور عدل و انصاف کو دور سے دیکھ رہے تھے کہ اسی عرصہ میں ایک واقعہ پیش آیاجس میں بنو قریظہ کے ایک شخص نے بنو نضیر کے کسی آدمی کاقتل کردیا۔ بنو نضیر نے بنوقریظہ سے دوگنا خون بہاکا مطالبہ کیا ۔بنوقریظہ اگر چہ اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے نہ ہی حضور  ؐ سے اس وقت کا کوئی معاہدہ تھا۔ لیکن یہ لو گ یہودی تھے اوران میں بہت سے لوگ پڑھے لکھے بھی تھے جو تورات کے پیشینگوئیوںکے مطابق جانتے تھے کہ آنحضرت ؐہی نبی آخرالزمان ہیں۔ وہ تعصب اور دنیا وی لالچ کیو جہ سے دولت ایمان سے محروم تھے اور یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ آپؐکامذہب مساوات انسانی ا ور عدل وانصاف کا علمبردارہے۔اس لئے بنو نضیر کے ظلم سے بچنے کیلئے ان کو ایک سہارا ملااور انھوں نے دوگنی دیت دینے سے انکارکردیا۔اس جواب پر بنو نضیرمیں اشتعال پیداہوااور قریب تھا کہ جنگ چھڑجائے لیکن کچھ سمجھ دارلوگوں کی سوجھ بوجھ سے معاملہ ٹل گیا اور یہ طے پایا کہ اس قضیہ کا فیصلہ حضور ؐسے کرایا جائے۔اس شرط پر کہ اگر فیصلہ ہمارے مطالبہ کے موافق ہو تو مان لیںگے ورنہ انکا رکر دیںگے۔(تفسیر مظہری،ج۳،ص۱۱۶ ،۱۱۷۔ قاضی ثناء اللہ عثمانی،ندوۃالمصنفین الکائینہ دہلی)

    دوسرا واقعہ زنا سے متعلق ہے جس کو امام مسلم نے براء بن عازب سے نقل کیا ہے ۔ خیبرکے یہودیوںمیں یہ واقعہ پیش آیااور تورات کی مقرر کردہ سزا کے مطابق ان دونوںکوسنگسار کرنا لازم تھا مگریہ دونوں کسی بڑے خاندان کے آدمی تھے ۔یہود نے اپنی قدیم عادت کے مطابق یہ چاہا کہ ان کے لئے سزا میںنرمی کی جائے اور ان کو معلوم تھاکہ مذہب اسلام میںبڑی سہولتیں دی گئی ہیں۔اس بنا پر انھوں نے یہ سمجھا کے اسلام میں اس سزا میں بھی تخفیف ہوگی۔لہذا خیبر کے لوگوں نے بنو قریظہ کے لوگوںکے پاس یہ پیغام اور ساتھ میں دونوں مجرموں کو بھی بھیجاکہ اس معاملہ کا فیصلہ محمدؐ سے کرادیں۔منشاء یہ تھا کہ اگر آپؐکوئی ہلکی سزا جاری کر دیں تو مان لیا جائے ورنہ انکار کر دیا جائے۔

    چنانچہ کعب بن اشرف کا ایک وفد ان کو ساتھ لیکرحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا،اور سوال کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت اگر بد کاری میں مبتلاہوں تو ان کی کیا سزا ہے؟  آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم میرا فیصلہ مانوگے؟انھوں نے کہا!ہاں،اس پر جبرئیل امین اللہ تعالی کایہ حکم لیکر نازل ہوئے کہ ان کی سزاء سنگسار کر کے قتل کردینا ہے ۔جب ان لوگوں نے یہ فیصلہ سنا تو بوکھلا گئے اور ماننے سے انکار کردیا۔

    جبریئلؑ نے رسول اللہؐ کو مشورہ دیا کہ آپؐان لوگوں سے یہ کہیںکہ میرے اس فیصلہ کو ماننے یا نہ ماننے کے لئے ابن صوریہ کو حکم بنادواور ابن صوریہ کے حالات و صفات آپؐ کو بتلادئے۔آپؐنے آنے والے وفد سے کہا کہ کیا تم اس نوجوان کو پہچانتے ہو جو سفید رنگ مگر ایک آنکھ سے معذور ہے اور فدک میں رہتا ہے،سب نے کہا ہاں۔ آپؐ نے دریافت کیا کہ تم لوگ اس کو کیسا سمجھتے ہو؟انھوں نے کہاکے علماء یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا عالم کوئی نہیں۔آپؐ نے اس کو بلا بھیجا،جب وہ آگیاتو آپؐ نے اس کو قسم دیکر پوچھاکہ اس صورت میں تورات کا کیا حکم ہے؟و ہ بولا قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپؐنے مجھ کو دی ہے،اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ غلط بات کہنے کی صورت میں تورات مجھے جلا ڈالے گی ،تو میں یہ حقیقت کبھی ظاہر نہ کرتا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ حکم اسلام کی طرح تورات میں بھی موجود ہے کہ ان کو سنگسار کر کے قتل کردیا جائے۔

       آنحضرت ؐ نے پوچھا کہ پھر تم تورات کے حکم کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو ؟ابن صوریہ نے کہا کہ بات اصل یہ ہے کے زنا کی سزاء ِشرعی تو ہمارے مذہب میںبھی یہی ہے،مگر ہمارا ایک شہزادہ اس جرم میں مبتلا ہو گیا۔ہم نے اس کی رعایت کر کے اسے چھوڑ دیا ۔پھر یہی جرم ایک معمولی آدمی سے سرزد ہواتب ذمہ داروں نے اس کو سنگسار کر نا چاہاتو مجرم کے گروہ نے احتجاج کیا کہ اگر شرعی سزا اس کو دینی ہے تو اس سے پہلے شہزادے کو دوورنہ ہم اس پر حد جاری نہ ہونے دیں گے۔پھر سب نے مل کر ایک ہلکی سزا تجویز کی اور تورات کے حکم کو چھوڑ دیا۔چنانچہ ہم نے کچھ مار پیٹ اور منھ کالا کر کے جلوس نکالنے کی سزاء تجویز کردی اور اب یہی رائج ہوگیا۔(مسلم شریف،ج۲،ص،۷۵،مکتبہ رشیدیہ دہلی)


ہندومذہب میں تصور مساوات:    ہندومذہب بھی ایک عالمی مذہب ہے۔ اس میں بھی مساوات کے سلسلے میں بہت بڑافرق نظر آتا ہے کیونکہ ہندوئوں میں کئی ذاتیں ہیں،برہمن،چھتری،ویش اور شودر۔ان میں سب سے چھوٹی ذات شودر ہے اور اس کے لئے وید کے کسی لفظ کا سننابھی حرام ہے۔ اگرکسی شودر نے وید کا کوئی لفظ سن لیا تو اس کے کان میںپگھلاہوا سیسہ ڈالدیا جاتا ہے۔(ویدانت سوترودھ دی کمنٹری بائی شنکر آچاریہ سیکریڈ بک آف دی ایسٹ،ج۳۴،ص۲۲۸)اسی طرح اگر کسی شودر نے وید کی تلاوت کر لی تو اس کو حاکم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس جرم کی پاداش میں سزا کے طور پراس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔(فی تحقیق ماللہند،ص۹۶)


    آپ نے دوسرے مذاہب میں موجود عدم مساوات کا مشاہدہ کیا۔اسلام میں ایسی کوئی تفریق نہیں۔جہاں اسلام نے حقوق کی ادائیگی اورکسی جرم پر مواخذہ کے حق میں حاکم و محکوم،امیر وغریب،اجنبی ،رشتہ دار،مرد وعورت ،آزادوغلام سب کی گرفت کی ہے  وہیںصلاحیت و استعداد اور عہدہ ومنصب کے اعتبار سے حقوق کی تقسیم بھی کی ہے،اس سلسلے میں قرآن کا واضح اعلان ہے۔یا یھاالناس انا خلقنکم من ذکر وانثی وجعلنکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقکم۔(الحجرات،آیت ۱۳)  ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورپھر تمہاری قومیں اور برادریاںبنادیں،تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میںسب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘


    اور یہی بات خطبئہ حجۃالوداع میںزبان رسالت ؐسے ان الفاظ میں ادا ہوئی،’ ’کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں،اور نہ کسی عجمی کو عربی پر،نہ کسی گورے کو کالے پر، اورکسی کالے کوگورے پر سوائے تقویٰ کے۔‘‘(مسنداحمد،ج۱۷،ص۱۲،احمدبن حنبل،دارالحدیث،بیروت)
    تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔‘‘(ترمذی شریف،ج۲،ص۲۳۴،مکتبہ رشیدیہ دہلی)

    قرآن اور پیغمبرِاسلام کے ان ارشادات کی رو سے اسلامی ریاست کی حدو دمیں بسنے والے تمام انسان قانون کی نظر میں مساوی الحیثیت ہیںاور معاشرتی زندگی میں بھی ان کے درمیان سوائے تقویٰ کے کوئی اور معیار فضیلت نہیں ہوگا۔اسلام نے خون کے رشتہ کی خاطر تمام بنی نوع انسان کو ایک برادری بنادیااور ایمان کی بنیاد پرمسلمانوں کو ایک دوسرے کابھائی قرار دیکر ان کے درمیان کامل مساوات قائم کردی۔انماالمئو منون اخوۃ۔(الحجرات،آیت۱۰)    ’’تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘اور جناب حضور اقدسؐنے صرف مسلمانوںکو ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوںکو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا۔’’میں شہادت دیتا ہوں کے سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘  (مسنداحمد،ج۴،ص۳۶۹،مطبوعہ المیمنیہ مصر۱۳۱۳ھ)

    عہد نبوی ؐ،خلافت راشدہ اور بعد کے زمانوںمیں ہمیںایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیںجن میںآقا وغلام ،حکمراںو شہری،امیر وغریب اور مسلم وغیر مسلم کے درمیان انصاف کے معاملہ میں اصول عدل ومساوات پر بڑی سختی سے عمل کیا گیا۔نبی اکرم ؐنے ہمیشہ ہمیش حقوق ہو یا معاملات اپنی ذات کو دوسروں کے برابر رکھا۔ایک مرتبہ قریش کی ایک عورت فاطمہ نے چوری کی۔حضرت اسامہؓ نے اسے معاف کردینے کی سفارش کی تو آپؐنے سختی کے ساتھ فرمایا۔اے اسامہ !اللہ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کرکے مداخلت کرتے ہو؟خبر دار آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا،پھر آپؐ نے حضرت بلال کو حکم دیاکہ مسلمانوں مسجد میں جمع کرو ،جب لوگ جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے خطاب فرمایا۔

’’تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لئے تباہ و برباد ہوئی کہ وہ کم درجے کے لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے کے لو گوںکوچھوڑ دیتے تھے۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اگر محمدؐکی بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘(بخاری شریف،ج۲،ص۶۱۶،اصح المطابع ) 

    چنانچہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ،یا یھا الذین آمنوا کونوا قوٰمین للہ شہداء بالقسط ولایجرمنکم شناٰن قوم علیٰ الاتعدلوا اعدلوا ھواقرب لتقویٰ واتقوااللہ ان اللہ خبیر بما تعملون۔(المائدہ ۔آیت ۸)’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو !اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو ۔عدل کرو،یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہواور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘

    نبی اکرم ؐ نے اگر چہ کسی کے ساتھ کبھی کوئی زیا دتی نہیں کی تھی لیکن اللہ کے اس حکم کو اسلامی معاشرے میں عملانافذ کرنے کے معاملہ میں آپؐ اس درجہ محتاط اور فکر مند رہتے تھے کہ لوگوں سے بار بار فرماتے، جس کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔چنانچہ حیات طیبہ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ نے خود کو بد لہ کیلئے پیش کیا ۔حضرت سوادبن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رنگین کپڑے پہن کر خدمت اقدس میں حاضر ہوا ،حضو ر  ؐ نے مجھے دیکھ کر ’’حط،حط‘‘فرمایا اور چھری سے ٹہوکا دیا۔میں نے کہا: یا رسول اللہ ’’میں تو قصاص لوںگا۔آپؐ نے فوراً شکم مبارک کھول کر میرے سامنے کر دیا۔‘‘(رحمت اللعلمین،قاضی محمد سلیمان ،سلمان منصورپوری ،ج۱، ص۳۵۶، مکتبہ محمودیہ سہارنپور،۲۰۰۷ئ)۔اسی طرح آپؐ نے بدر کے موقع پر حضرت سوادبن غزیہؓکو ایک مجلس میں دوران گفتگواور حضرت اسیدبن حضیرؓکو،اور مال غنیمت کے تقسیم کے وقت ایک صحابی کو چھری کی نوک سے پہنچنے والی تکلیف کا بدلہ لینے کی پیش کش کی۔(اسلامی مساوات،محمدحفیظ اللہ پھلواروی،مطبوعہ ادارہ تحقیق وتصنیف کراچی۱۹۷۱ئ،ص۸۵)

نبی کریم ؐ کی انہی قائم کردہ مثالوں پر خلفاء راشدینؓبھی عمل پیرا ہوئے اور امت محمدیہ کیلئے نمونہ عمل بنے،

    اسلامی عدل ومساوات ہی کا یہ نتیجہ تھا جسے بدر کے موقع پر تاریخ نے یوں دیکھا کہ ایک اونٹ حضورؐ،ابودردا اور علیؓکے حصہ میں تھا اور آپؐ بھی اپنی باری میں باصرار پیدل چلتے تھے کہ سب برابر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جب بیت المقدس کا سفر کیا تو اونٹ پر وہ اور غلام باری باری بیٹھتے تھے۔ جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو باری غلام کی تھی۔ چنانچہ شہر میں داخلہ اس حال میں ہوا کے اونٹ کی نکیل خلیفہ وقت عمرؓ کے ہاتھ میں اور سواری پر غلام۔(تاریخ اسلام،اکبر شاہ نجیب آبادی،ج۱،ص۳۵۰،مکتبہ رحمت دیوبند)

     اسی عدل ومساوات کا نتیجہ تھا کہ حضرت علیؓایک زرہ کی چوری کے مقد مہ میں قاضی شریح کی عدالت میںخود پیش ہوئے اور جب قاضی شریح نے حضرت علیؓ کو مخاطب کر کے فرمایا، ابو تراب !اپنے فریق کے برابر بیٹھئے۔ قاضی صاحب نے محسوس کیا کہ یہ بات علیؓ کو بری لگی ہے تووہ بولے ابوتراب آپ کو میری یہ ہدایت ناگوار گذری ،حالانکہ اسلام کی قانونی اور عدالتی مساوات کا تقاضا یہی ہے کہ آپ اپنے فریق کے برابر بیٹھیں۔حضرت علیؓ نے جواب دیا، مجھے یہ چیز بری نہیں لگی کہ آپ نے مجھے فریق مقابل کے برابر بیٹھنے کی ہدایت کی بلکہ مجھے یہ بات ناگوار گذری کے آپ نے مجھے کنیت سے خطاب کیا اور اس طرح میرے فریق کے مقابلے میں میری عزت افزائی کی اور یہ میرے فریق کے ساتھ صریح ناانصافی ہے۔(اسلامی ریاست،امین احسن اصلاحی،ص۴۵)

    یہ تصور عدل ومساوات کے چند نمونے ہیںورنہ اس قسم کی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ تصور ِمساوات اور اس کے خوشگوار اثرات و نتائج اسلام ہی کے مرہون منت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوںکو اور امت محمدیہ کوخاص طورسے عمل کی توفیق دے۔ 

***************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 891