donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Irfan Khateeb
Title :
   Uloome Jadeeda Aur Quran

علومِ جدیدہ اور قرآن 


    عرفان خطیب


کونڈیورے، تعلقہ سنگمیشور، رتناگری

 

        قرآن حکیم مکمل جامع اللہ کی کتاب ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے حضور سرکارِ مدینہ ـ  ﷺ پر نازل ہوئی اور جو شروع سے آخر تک تمام حقائق اور جملہ علوم و فنون کا خزانہ ہے۔ اس کتاب سمادی میں ہر اُس شئے کا ذکر ہے جو انسانی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس حقیقت کی نشاندہی ربِّ قدیر نے قرآن میں کئی مقامات پر کی ہے‘ مثلاً ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے :۔۔ اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان

(النحل۸۹) 

        دوسری جگہ ارشاد فرمایا اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھانہ ہو ۔

یہاں قرآن نے حقیقت میں ساری کائنات کے ایک ایک ذرّے کا بیان کر دیا ہے کہ ہر چیز کا علم اور اس کی اصل قرآن میں موجود ہے کیونکہ اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ یا تو خشک ہے یا تر تیسری کوئی حالت نہیںہے۔

        دور حاضر میں جتنی بھی سائنسی ایجادات ہیں سب کا ماخذ قرآن ِ حکیم میں تدبر کا نتیجہ ہے کیونکہ قرآن میں اکثر اشیاء کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے یا کم سے کم اشارۃ اس کا بیان ضرورہے اسی لئے امام شافعی قرآن کی نسبت فرماتے ہیں کہ جس چیز کی نسبت چاہو مجھ سے پوچھو میں اس کا جواب قرآن سے دوں گا۔

        قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں نئی نئی ایجادات کی اور زمانہ میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا۔ جب تک قرآنی آیات پر غور و فکر کا سلسلہ جاری رہا مسلمان پوری دینا میں سرخرورہے‘ لیکن جب مسلمانوں نے قرآن کو سینے سے نکال کر الماریوں میں رکھ دیا تو تم ترقیوں سے محروم ہو کر ذلیل و خوارہوگئے آج ہم یہ جانتے ہیں ہی نہیں کہ چند صدیوں قبل دنیا بھر میں تمام ترقیوں کا محور مسلمان سائنسداںہوا کرتے تھے‘ آج مغربی دنیا اپنی ترقی پر جو ناز کر رہی ہے وہ دراصل مسلمان سائنسدانوں کی مسلسل محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے مگر افسوس کہ آج ہم ان مسلمان سائنسدانوں کے نام سے بھی نا آشنا ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ماحول میں کسی بھی سطح پر ان کا ذکر نہیں کیا جاتا اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو اتنا مختصر کہ بچے اسے کہانی سمجھ کر پڑھتے ہیں اور بعد میں بھول جاتے ہیں۔ قرآن حکیم تو وہ کتاب ہے کہ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں غیر مسلم قرآن میں غور و فکر کے بعد ایمان کی دولت سے بھی مالا مال ہو گئے تو کیا وجہ ہے ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس پر غورو فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ خود انسان کو قرآن میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیںـــ’’ یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اُتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقلمند نصیحت مانیں۔

(ص:۲۹) 

        امام غزالی ؒ جن کو مغربی دنیا ایک عظیم فلسفی تسلیم کرتی ہے ان سے ایک مرتبہ ایک غیر مسلم سائنسداں نے سوال کیا کہ اجزام ِ فلکی فضا میں جو حرکت کرتے ہیں وہ دو طرح کے ہیں ، ایک سیدھی دوسری اُلٹی ، قرآن ِ حکیم میں ایک سمت میں حرکت کا ذکر موجود ہے لیکن دوسری سمت کا ذکر نہیں اور آپ کا قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس میں ہر چیز کا علم موجود ہے۔ آپ بتایئے کہ دوسری سمت کی حرکت کا ذکر کہاں ہے۔ امام غزالی ؒ نے اس سائنسداںسے پوچھا کہ تو نے پہلی حرکت کا ذکر قرآن حکیم کی کس آیت سے لیا ہے جواب میں اس نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی ۔۔کل فی فلک یسجون

(یٰس : ۴۰)

        امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ اسی آیت میں دوسری اُلٹی حرکت کا راز بھی موجود ہے وہ اس طرح کی ـ’’ کل فی فلک‘‘ کے الفاظ اُلٹی جانب یعنی بائیں جانب سے پڑھے جائیں یعنی فلک کی ک سے شروع کرکے کل کی ک تک پڑھا جائے تو پھر بھی کل فی فلک ہی بنے گا گویا آیت کو دائیں جانب سے پڑھیں تو اُلٹی حرکت کا ذکر ہے۔

        آج انسان زمین کی حدود سے نکل کر فضائوں کو چیرتا ہوا چاند پر قدم رکھنے کے قابل ہوگیا ہے اور اب انسان کا سفر چاند سے بھی دُورمریخ کی طرف ہے۔ ہمارا قرآن چودہ سوسال قبل اس حقیقت کو بیان کر چکا ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے کہــ’’اے جن و انس کے گروہ اگر تم سے ہو سکے کہ آسمان و زمین کے کناروں سے نکل کر جائو تو نکل جائو جہاں نکل کر جائو گے اسی کی سلطنت ہے۔(الرحمن:۳۳) اس آیت میں کوششوں کے بعد زمین کے کناروں سے نکلنے کا اِشارہ موجود ہے کہ انسان ترقی کر کے اس دَور میں داخل ہوگا کہ وہ زمین کے کناروں سے نکل سکے گا۔ قرآن سے یہ ثابت ہوا کہ زمین کے کناروں سے نکلنا آسان تو نہیں مگر پھر بھی اگر نکل جائیں تو سلطنت اسی کی رہیگی ، یعنی وہ اس زمین کا بھی خدا ہے اور جس جگہ بھی انسان چلا جائے وہاں اسی کی خدائی ہے۔ 

        انسان زمین کے علاوہ دیگر سیارے پر قدم رکھ سکتا ہے یہ مندرجہ ذیل آیت میں بتایا گیا ہے۔

        ’’ اور چاند کی قسم جب کامل ہو جائے ‘ تم ضرور بہ ضر ور منزل بہ منزل چڑھوگے تو کیا ہوا انہیں ایمان نہیں لاتے(الا نشقاق: ۱۸۔۱۹۔۲۰) اس آیت میں یہ بتادیا گیا ہے کہ انسان جب فضائوں کو چیرتا ہوا باہر نکلے گا تو ضرور اس کی کوئی دوسری منزل ہوگی اور آیت یہ بھی اشارہ کررہی ہے کہ وہ منزل چاند ہوگی اور ممکن ہے کہ منزل بہ منزل انسان چڑھتاہی چلا جائے۔ 

        اب اگر قرآن یہ بات بتانے سے قاصر رہے کہ انسان کسی دوسرے سیارے پر قدم رکھے گا یا نہیں اور انسان قدم رکھ لے تو اتنی بڑی بات اگر قرآن نہ بتاسکے تو پھر قرآن کا یہ دعویٰ درست نہیں رہتا کہ ہر خشک و تر چیز کا ذکر قرآن میں موجود ہے یا ہر شئے کی تفصیل موجود ہے اس  سلسلے میں موریس بوکاٹیلے کی کتاب’’ قرآن اور جدید سائنس‘‘ The Quraan and Modern Scienceکا مطالعہ مفید رہے گا۔ موریس بوکاٹیلے کا تعلق فرانس سے ہے اور وہ بعد میں ایمان بھی لے آئے وہ اپنی کتاب میں سائنس علوم کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ جب میں نے پہلے پہل قرآن وحی و تنزیل کا جائزہ لیا تو میرا نقطئہ نظرمعروضی تھا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ قرآنی متن اور جدید سائنس کی معلومات کے مابین کس قدرتی مطابقت ہے۔ تراجم سے مجھے پتہ چلا کہ قرآنہر طرح کے قدرتی حوادث کا کثر اشارہ کرتا ہے لیکن اس مطالعہ سے مجھے مختصر سی معلومات حاصل ہوئیں۔ جب میں نے گہری نظر سے عربی زبان میں اس کے متن کا مطالعہ کیا ور ایک فہرست تیار کی تو مجھے اس کام کو مکمل کرنے کے بعد اس شہادت کا اقرار کرنا پڑا جو میرے سامنے تھی۔ قرآن میں ایک بھی بان ایسا نہیں ملا جس پر’’ جدید سائنس کے نقطئہ نظر سے حرف گیری کی جا سکے‘‘۔

 لہٰذا قرآن کو سمجھنے کے لیئے خاص کر آج کل کے دَور میں دنیا وی علوم پر بھی عبور ضروری ہے۔

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 710