donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jahangir Hasan
Title :
   Falsafae Shahadat

فلسفۂ شہادت
 
جہانگیر حسن٭
 
اللہ تعالیٰ کا بے پایاں فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیںایک مومن بندے کی شکل میں پیدافرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قراردیا،اگر اس کی شان کریمی شامل حال نہ ہوتی تونہ جانے ہم مخلوق کی کس قبیل سے ہوتے اور ہماراشمار نہ جانے کس خانے میںہوتا۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ شرف بخشا اور یہ عزت دی تو ہمارے اوپر بھی لازماً کچھ نہ کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیںتاکہ ان کی بجاآوری کرکے ہم حق بندگی کچھ تو اداکریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا سے قریب ہونے کا راستہ تلاش کریں۔
 
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںارشاد فرماتاہے: 
 
 یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ (نسا:۵۹)
ترجمہ: اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو ،اور اطاعت کرورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اوراپنے امیروحاکم کی۔
اس آیت میں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ امیروحاکم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس امیروحاکم کی اطاعت کی جائے گی وہ یقینااللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ںبردار ہوگا، شریعت وطریقت کاپیروکاراورمحافظ ہوگااور اللہ ورسول کی رضا کے سامنے دنیا کی تمام چاہتیں اور خواہشات اس کے نزدیک ہیچ ہوںگی۔
 
اب اگر کوئی امیروحاکم ایسا ہوکہ اللہ ورسول کی اطاعت وفرماں برداری تودور کی بات ہے ،وہ ہمیشہ فسق وفجوراور خرافات میں مبتلارہتا ہو تو اس کی اطاعت کیسے کی جائے گی اور کس کی جرأت ہے جو ایسے فاسق وفاجر امیروحاکم کی اطاعت کو اللہ ورسول کی اطاعت کے مقابلے یااس کے زمرے میں رکھے۔  
اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوکہ کون امیروحاکم اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہے اورکون فاسق و فاجرہے؟تو اس کے لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا جواب قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں موجود ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: 
  وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔ (حشر:۷)
ترجمہ: اورتمھیںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
اس آیت سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔ وہ عمل جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیاہے،اس پر عمل کیا جائے،اس میں تمام جائز اعمال شامل ہیں۔
۲۔وہ عمل جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکنے کا حکم دیا ہے،اس سے پرہیزکیاجائے،اس میں تمام ناجائز وحرام اعمال داخل ہیں۔ 
چنانچہ اب جو امیروحاکم اول الذکرحکم پر عمل کرے گا وہ بلاشبہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اورطریقے پر چلنے والا اطاعت وفرماںبردارہوگا ،ایسے امیروحاکم کی اطاعت کی جائے گی اورشرعی اعتبارسے وہ ’’اولوالامر‘‘میں شمارہوگا۔
 
لیکن جو امیروحاکم ثانی الذکرممنوع عمل کو اپنائے گا وہ یقینااللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا فاسق وفاجر کہلائے گا اور ایسے ہی امیروحاکم کی اطاعت ممنوع ہے،کیونکہ ہوائے نفس کی پیروی کے سبب اللہ نے اس کو اپنے ذکر سے غافل کردیاہے اورجس کو اللہ اپنے ذکرسے غافل کردے اس کی اطاعت کیوںکرکی جائے۔
 
ارشادباری تعالیٰ ہے:
 وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہٗ فُرُطًا۔ (کہف:۲۸)
ترجمہ:اوراس کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے ۔
 
اس پس منظرمیں یزیدکی امارت وحکومت کو دیکھیں تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کیوں یزیدکی بیعت اور اطاعت کرنے سے انکارکردیااور شرعی طورپراسے امیروحاکم کیوں تسلیم نہیں کیا؟اس کی اصل وجہ یہی تھی کہ یزیدایک فاسق وفاجرانسان تھا ۔ یزید کافر ہے یا نہیں اس میںعلماکا اختلاف ہے ،لیکن اس کے فاسق وفاجر ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ،بلکہ اس پر جمہورعلماکا اتفاق ہے۔ 
چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے نہ صرف بھائی،بھتیجے،بھانجے اور بیٹے کی شہادت پر صبر وضبط سے کام لیا بلکہ خودبھی جام شہادت پینا گوارہ تو کرلیا لیکن یہ پسندنہ کیا کہ ایک فاسق وفاجرکو اپنا امیر وحاکم تسلیم کریں ،اورقیامت تک مسلمانوںکو یہ سبق دے گئے کہ ایک سچے اورپکے مسلمان کے لیے جان دینا توآسان ہے لیکن کسی فاسق وفاجر کی اطاعت قبول نہیں۔
 
 اگرامام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت قبول کرلیتے تویہ ایک طرح سے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی اوراس صورت میں: وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا پرعمل نہیںہو پاتاجس کا حکم تمام مسلم  بندوںکو دیاگیاہے۔ 
 
گویاامام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے کرداروعمل سے یہ ثابت کردیاکہ اللہ کے سواکسی کی اطاعت اورحکومت نہیں،نیز یہ حقیقت بھی واضح کردیا کہ:لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  ہی دین کی اصل بنیادہے۔
اسی کوسلطان الہندخواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ یوںبیان فرماتے ہیں:
شاہ است حسین پادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین
 
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین
حسینی نسبت یہی ہے کہ تمام معبودان باطلہ اورفُسّاق وفجارکی امارت وحاکمیت کو ردکرکے صرف ایک اللہ کی حاکمیت کو نافذکردیا جائے۔
 
 داعی اسلام شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ دورحاضر میں بھی امام حسین کے اس پیغام کویاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان کسی کو اپناامام ورہنمااورامیروحاکم بنانے سے پہلے سوچے کہ اس کا امیروحاکم ،فرائضـ اور واجبات کی ادائیگی میں کس حد تک شریعت کاپابندہے ،اورجس کو وہ اپنا امیر وحاکم بنارہا ہے کہیں وہ فاسق وفاجرتو نہیں۔ 
 
    لیکن آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ نمازیں ترک ہورہی ہیں،فسق وفجورمیں مبتلا ہیں،نہ زباںپر ذکر الٰہی ہے نہ دل میںاللہ کاخوف ،محبت رسول کے دعوے دارتو ہیں مگر ہمارا کوئی عمل محمدی نہیں ۔
غورکریں !کیا ہم اب بھی واقعی حسینی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ ہم دن رات فسق وفجورمیں مبتلاہونے کی وجہ سے یزیدی ہوتے جارہے ہیں اور ہمیں اس کا شعوربھی نہیں ۔
 
٭جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
mjhasan@gmail.com
+919910865854
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 626