donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Shahnawaz Khan Qasmi
Title :
   Hijri Calender Ka Aghaz

ہجری کیلنڈر کاآغاز


مولانا شاہ نواز خان قاسمی(استاد، دارالعلوم امدادیہ)، ممبئی۔۳


اسلامی ہجری سال۵۳۴۱؁ھ رخصت ہو رہا ہے اورسالِ نوکی آمد آمد ہے،بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہیں ہجری کیلنڈر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ ہجری کیلنڈر کاآغازکب سے اورکیونکر ہوا؟جب کہ ہونا تویہ چاہیے کہ ہرایک مسلمان اسلامی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہو،سرکاردوعالمﷺ سے عقیدت ومحبت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ آقاﷺکی حیاتِ طیبہ میںپیش آنے والے ہر ہر واقعے سے متعلق معلومات حاصل کی جائے ،حضورؐ کی سیرت کی کتب ومضامین کا مطالعہ کیا جائے۔جب رسول عربیؐ نے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی  تویہ واقعہ مسلمانوں کے لیے انتہائی  اہمیت وعظمت والا تھا چنانچہ اس نسبت سے اسلامی کیلنڈرجاری کیاگیا جسے ’’ہجری کیلنڈر‘‘بھی کہا جاتا ہے۔دین کی خاطر ایک جگہ چھوڑکر دوسری جگہ چلے  جانے کو ’’ہجرت ‘‘کہتے ہیں،آقاﷺ کے دَور میں مبارک میں مسلمانوں نے سب سے پہلے ملکِ حبشہ کی طرف ہجرت کی ہے اس ہجرت میں کل پندرہ یا سولہ مسلمان تھے اور مشہور یہ ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ ان سب کے سردار تھے اس وقت ملک حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا اور وہ مذہباً عیسائی تھا چونکہ قریش نے مسلمانوںکی زندگی دو بھر کردی تھی تو حضورﷺ نے ان کی جان کا خوف کر کے اجازت دیدی تھی کہ وہ حبشہ چلے جائیں ،قریش نے اپنے آدمیوں کو تحفے تحائف دے کر حبشہ کے بادشاہ کے پاس بھیجا،انہوںنے بادشاہ کے سامنے تحفے پیش کر کے درخواست کی کہ ان لوگوں کو ان کے حوالے کردیا جائے وہ قوم اورمذہب کے باغی ہیں،شاہ حبشہ نے جواب دیا کہ جب تک میں ان لوگوں سے گفتگو نہ کرلوں اوراسلام کی حقیقت نہ معلوم کرلوں،حوالہ نہیں کر سکتا،اس موقع پر حضرت جعفرؓ نے عربوں کی حالت،سرکار دو عالمؐ کے  احوال بیان کیے،سورہ مریم کی تلاوت کی اور حضرت عیسیٰؑ اور مریمؑ کے متعلق اسلامی عقیدے کو واضح کیا،بادشاہ اس سچی اور دردبھری تقریر کو سن کر خود بھی ایمان لے آیااوران مسلمانوں کو قریش کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔یہ پہلی ہجرت نبوت کے پانچویں سال ہوئی،پھر ایک غلط خبر مشہور ہو گئی کہ مکہ کے کافر مسلمان ہو گئے یہ سن کر دو یا تین ماہ بعد یہ حضرات دوبارہ مکہ واپس آئے،واپسی پرمکہ کے کافروں نے ان کے ساتھ وہی ظلم وستم کا سلوک شروع کردیا ،پھر نبوت کے ساتویں سال ،محرم کے مہینے میں مسلمانوں کا مقاطعہ(نظربندی)شروع کردیاگیا جو تین برس تک برابر رہا،مقاطعہ کے اس دور میں مسلمانوں تک دانہ پانی کا پہونچنا بند کردیاگیا تھا،بھوک سے بچے بلبلاتے تھے وہ کافر جو خاص رشتہ دار تھے ،ان کی آوازیں توسنتے مگر رحم نہ آتا تھا، درختوں کے پتے گھاس کی جڑیں کھا کر زندگی بسر کی جاتی تھی، حضورﷺ نے صحابہؓ کو ہجرت کی اجازت دیدی چنانچہ مسلمانوں نے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کی،اس ہجرت کو ہجرت حبشہ ثانیہ کہتے ہیں اوراس میں ۳۸ ؍مرد اور ۸۱؍عورتیں شریک تھیں اوران کے علاوہ یمن کے کچھ آدمی بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے۔


مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت

حج وغیرہ کے موقعوں پر تمام عرب کے آدمی مکہ مکرمہ آیا کرتے تھے،حضورؐ ان کے سامنے تبلیغ فرمایا کرتے تھے مگر وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ پہلے اپنی قوم کو تو مسلمان بنا لو،نبوت کے دسویں سال خدا کی رحمت نے حج کے بڑے مجمع میں سے چند مدینے والوں کے دل آقاؐ کی تبلیغ کی طرف متوجہ کردئیے،سرکارؐ کے دردآمیز مشفقانہ وعظ نے ان کے دلوں میں جگہ کرلی اور نسیم رحمت نے ان میں سے دو(۱)حضرت سعد بن زرارہ(۲)ذکوان بن عبدقیسؓ کو حضورؐ کا متوالا بنادیا‘یہ دونوں حضرات قبیلہ اوس کے تھے،ان دو بزرگوں نے اپنی جان ومال ،رشتے وغیرہ سے بے پرواہو کر مدینہ طیبہ میں اسلام کی تبلیغ بڑے زور سے کی اور تمام مصیبتوں کو مردانہ وار برداشت کیا‘ایک سال نہ گزرنے پایاتھا کہ سچائی کی روشنی سے دلوں میں اجالا پیدا ہونا شروع ہوگیا،اگلے سال پھر اسی موقعہ پر مدینہ طیبہ کے آدمی حاضر ہوئے اوران میں سے چھ یا آٹھ نفوس کھلم کھلا مسلمان ہو گئے۔

پھر تیسرے سال(نبوت کے بارہویں سال)مدینہ کے بارہ آدمیوں نے  حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کا شرف حاصل کیا اس بیعت کا نام بیعت عقبہ اولیٰ ہوا اور پھر نبوت سے تیرھویں سال یعنی چوتھی مرتبہ ۳۷آدمیوں نے حضورؐ کی زیارت سے مشرف ہو کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی جس کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہوا۔

سرکار دو عالمﷺ نے شروع میں مدینہ والوں کی تعلیم کے لیے دو حضرات حضرت ابن مکتومؓ اور حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بھیجا،ان دو بزرگوں کے بعدحضرت عمار،حضرت بلالؓ اور حضرت سعدؓ مدینہ تشریف لائے،پھر حضرت عمرفاروقؓ بیس آدمیوں کے ساتھ تشریف لے گئے،پھر سرور انبیاء نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

اہلِ مدینہ کی تمنا:نورنبوت کاآفتاب ہماری بستی میں آجائے

کیونکہ تیرہ سال کے تجربے نے بتادیا تھا کہ مکہ میں کفار کے ظلم واستبداد اور سخت دلی کی وجہ سے تبلیغ اسلام میں کامیابی مشکل ہے اور ترقی اسلام کی صرف یہی صورت ہے کہ مکہ سے ہجرت کی جائے اور اس طرف مدینہ طیبہ میں نبوت کے نور سے ہمہ وقت جگمگاہٹ پیدا ہو رہی تھی مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا چرچا ہوگیا تھا اور پروانوں کی طرح ہر ایک کی دلی تمنا تھی کہ نور نبوت کا آفتاب ہماری بستی میں آجائے،عقبہ کی دونوں بیعتوں میں وفاداری اورجاں نثاری کا پورا پورا معاہدہ ہو چکا تھا گویا ترقی اسلام کا صرف یہی راستہ رہ گیا تھا لا محالہ اسی کو اختیار فرمایا۔

کفار مکہ کو جب صحابہ کرامؓ کے ایک ایک دودو کر کے ہجرت کرجانے کا علم ہوا تو فوراً دارالندوہ(مشورہ کا گھر)میں بڑے بڑے سرداروں کا جلسہ ہوا،ابو جہل کی تجویز کے مطابق رائے ہوئی کہ آج شب کو ہی حضورؐ کو شہید کر کے اسلام کا قصہ ختم کردیا جائے،خداوند عالم نے حضورؐ کو ان کے مشورے کی اطلاع فرمادی۔آپؐ نے اسی شب ہجرت کا ارادہ فرمالیا،صدیق اکبرؓ،حضورؐ کے ساتھ چلنے کے شوق میں ٹھہرے ہوئے تھے اور پہلے سے ’’راستہ بتانے والے شخص‘‘اور دو سانڈنیوں (اونٹنیوں )کا انتظام کر چکے تھے،جب رات ہوئی تو دشمنان اسلام حریم  نبوت کے چاروں طرف چھپ کر بیٹھ گئے کہ آخری رات کی خاموشی میں رسالت کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردینگے،اسی شب کے درمیانی حصے میں جب آقاﷺ نے دولت کدہ سے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت علیؓ کو حکم فرمایا کہ چادر اوڑھ کر حضورﷺ کے بستر پر لیٹ جائیں تا کہ گھر میں نہ ہونے کا کسی کو پتہ نہ چل سکے،

حضورﷺ دروازہ پرتشریف لائے ،سورہ یٰسین شریف کی تلاوت شروع فرمائی اور ’’فاغشیناہم فہم لایبصرون‘‘کئی مرتبہ دہرایا،خدا نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈالدیا چنانچہ آقاﷺ ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے باہر تشریف لائے،حضرت ابوبکرؓ اور راستہ بتانے والے کے ہمراہ مدینہ کے راستہ پر روانہ ہو گئے،کچھ آگے چل کر ’’ثورپہاڑ‘‘کے ایک غار میں قیام فرمایا۔

کفار مکہ کو جب اپنی شکست کا پتہ چلا تو بہت پریشان ہوئے اور چاروں طرف دوڑنا شروع کیا،اعلان کیاگیا کہ جو شخص حضورؐ کو پکڑ کر لائے اس کو سو اونٹ انعام دیے جائیں گے۔ایک جماعت نشانِ قدم پر اندازہ لگاتی ہوئی غار کے منہ پر جا پہنچی،اگر وہ ذرا جھکتے تو یقیناً حضورؐ کو دیکھ لیتے،حضرت ابوبکرؓ اس خیال سے گھبرا رہے تھے کہ ان میں سے کوئی حضورؐ کو دیکھ کر تکلیف پہنچائے،حضورﷺ نے ان کو تسکین دیتے ہوئے فرمایا’’ لاتحزن ان اللہ معنا‘‘کہ گھبراؤ نہیں،اللہ ہمارے ساتھ ہے،خدا کی قدرت،ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جا لاتن دیااور ایک کبوتر نے فوراً گھونسلہ بنالیا تھا جس سے دیکھنے والوں کو حضورﷺ کی موجودگی کا وہم بھی نہ ہوا۔

رسول اللہ ﷺ نے اس غار میں تین دن قیام فرمایا،اس دوران صدیق اکبرؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ رات کو خفیہ طور سے حضورﷺ کے پاس حاضرہوتے اور دن بھر کی تمام خبریں حضورﷺ کو سنا کر صبح سے پہلے مکہ واپس پہونچ جاتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت اسمائؓ رات کو کھانا پہونچاتی تھیں۔

تیسرے دن حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ دونوں اونٹنیاں لے کر پہنچے اور یہ حضرات مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اس سفر میں چوتھے آدمی عبداللہ بن اریقیط تھے جن کو اجرت دے کر راستہ بتانے کے لیے ساتھ لیا تھا،راستہ میں کھانے پینے کے سلسلے میں کسی جگہ حضرت ابوبکرؓ نے دودھ وغیرہ خرید کر ناشتہ کا انتظام کیا اوربعض جگہ معجزات کے ذریعے خدا نے اپنے خاص بندوں کا انتظام فرمایا۔

مشہور قول کے اعتبار سے اس سفر میں چار دن صَرف ہوئے،حضورﷺ نے مدینہ منورہ میں قیام سے پہلے کچھ دن قبا میں قیام فرمایا جو مدینہ طیبہ سے اوپر کی طرف ایک بستی تھی،حضورﷺ نے یہاں اپنے دست مبارک سے پہلی مسجد تعمیر فرمائی جسے مسجد قبا کہا جاتا ہے،اس مسجد کی تعمیر میں شاہ دوجہاں خوددوسرے لوگوں کی طرح پتھر اور مٹی ڈھو رہے تھے۔یہ مسجد قبامیں وادی بنی سالم کے درمیانی حصے میں بنائی۔

حضورﷺ جمعہ کے دن مدینہ طیبہ میں تشریف لائے اور حضور نے  جمعہ کی نمازبنی سالم کی مسجد میں ادا فرمائی۔

مدینہ طیبہ میں جب مقدس آفتاب داخل ہوا تو ہرایک شخص کی آرزوتھی کہ ہمارا گھر اس کا مقام بن جائے چنانچہ اصرار ہونے لگا اور حضورﷺ کی اونٹنی کی مہار پر کھینچاتانی ہونے لگی،حضورﷺ نے فرمایا ،چھوڑدو،جہاں یہ بیٹھ جائے گی وہیں پر قیام ہوگا،ایسا ہی حکم ہے وہ اتفاق سے بنونجار قیبلہ میں ٹھہری جہاں حضورﷺ کی ننھال بھی تھی،آپؐ ان ہی لوگوں میں سے حضرت ابوایوبؓ کے ہاں مقیم ہوگئے،اونٹنی کے بیٹھنے کی جگہ خاص وہی تھی جہاں حضورؐ کی مسجد ہے یہ قبیلہ بنی نجار ہی کے دویتیم لڑکوں سہل اور سہیل کی زمین تھی ان دونوں کی یہ خواہش تھی کہ آقاؐ یہ زمین مفت لے لیں مگر حضورﷺ نے قیمت لینے پر ان کو مجبورفرمادیا جو دس دینار طے ہوئی اور پھر سب نے مل کر یہ مسجد (مسجد نبوی شریف)بنائی اوراس کے ایک جانب اپنی ازواج مطہرات کے لیے آقاﷺ نے مکان بنائے،یہ تمام تعمیر کچی اینٹوں اور کھجور کے پتوں کی تھی۔

اسی واقعہ ہجرت اور اسی سال سے اسلامی تاریخ کی ابتداء ڈالی گئی،اسی وجہ سے اس کو سن ہجری کہتے ہیں،حضور کے زمانہ میںاس سن کی ابتداء نہیں ڈالی گئی تھی ،بلکہ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں ڈالی گئی،مگر اس کا شروع ہجرت کے سال سے مانا گیا۔(ماخوذاززادالمعاد،تاریخ الاسلام

۔یو این این


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 697