donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Asif Iqbal
Title :
   Istaqbale Ramzan


استقبال رمضان


محمد آصف اقبال، نئی دہلی

    کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانہ پر کی جاتی ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان  کے لیے بلکہ امت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت کی  خبر ہوتی ہے۔ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے،تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمت ِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد،اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان ہی صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جو صفات ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کومخصوص اہمیت دی گئی ، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔لہذااس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان ہی اس کا استقبال بھی کیا جائے گا۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو ہم اپنے باطن و ظاہر کو اس کے لیے تیار کر لیں۔ظاہر و باطن کو پاک کرنے اورتیار کرنے میں نیزتقویٰ کی روش اختیار کرنے میں سب سے زیادہ جو مددگار عمل ہے وہ "روزہ"ہے۔اسی لیے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے ماہِ شعبان میں رکھے۔یہی اس کے استقبال کا بہترین ذریعہ ہے!

رمضان المبارک کے یہ تین واقعات:

     رمضان المبارک کے یہ تین واقعات وہ ہیں جس نے دنیا کی صورتحال بالکل ہی تبدیل کر دی۔یہ حقیقت ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرناکے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود  ابتدائی یہ تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہوں۔نیز  یہ کامیابی بھی اسی طرز عمل کے نتیجہ میں ہوگی جو پہلے کے لوگوں نے اختیار کی ہے ۔اس لحاظ سے یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہقرآن نے حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوںسے نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے:یہ واقعہ اس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس نے عطا کی ہیں۔اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے ۔جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جاتے ہیں۔اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریۂ ہائے افکار و نظریات سے چھٹکارا پایااور دلایا جا سکتا ہے۔اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس  آخری انتہا سے قبل بہت سے وہ کام ہیں جن کا آغاز ہرشخص فرداً فرداً کر سکتا ہے لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس کی ضرورتنہیں ہے۔حاملِ قرآن جب قرآن پر عمل کرنے والے ہو جائیں گے تو ان کو وہی کامیابی میسر ہوگی جوہمیشہ اور ہر دور میں مخالفین و معاندین کے مقابلے ہوتی رہی ہے۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے  :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کریں گے اور آخرت کی کامیابی تو ابدی ہے۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی تمام توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور اسلامی نظام میں اجتماعیت کی روح پھونکتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جاتے ہیں، ان کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑتی نہیں ہے بلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والا بن جاتے ہیں،مزید یہ کہ انسانوں سے خیر خواہی کے جذبات ابھرتے ہیں۔یہ تین واقعات ہمیں اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال یعنی رمضان المبارک کے استقبال میں ہمیں اپنے ظاہرو باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینا چاہیے اور ان چیزوں پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے جن کے اختیار کے نتیجہ میں کامیابی لازماً حاصل ہوتی ہے۔

یکسو ہو جائیے:

     آج اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد و ملت اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رائج ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر قلابیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں،اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں۔ حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور مل جائیں ۔لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہعوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے جامع پروگرام ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔اس پس منظر میں یہ سوال لازماً اٹھنا ہی چاہیے کہ وہ کامل پروگرام کیا ہے جس کی بنا پر ہم جہت تبدیلی ممکن ہے؟لیکن اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی! اب رہا یہ سوال کہ یکسو کیسے ہوا جائے ؟ اس کے لیے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسلا م کو حقیقی معنوں میں اختیار کرنے کے قائل ہیں اور کون ہیں جو فکرِاسلا می کو "مغربی اجتہاد"کی روشنی میں پسند کرتے ہیں۔یعنی یہ کہ ایک گروہ ،وہ ہوگا جو اسلام کو عالم انسانیت کی کامیابی ،خیر و فلاح اور امن و سکون کا ذریعہ سمجھتے ہوئے فکرِ اسلامی کو زندگی کے ہر مرحلے میں قائم کرنے کا قائل ہے اور دوسرا گروہ ،وہ جو اسلام کو موجودہ زمانے میں قابلِ عمل نہیں سمجھتا اور چاہتا ہے کہ کچھ ترمیمات کے ساتھ اس کو اختیار کیا جائے تاکہ ا نسانوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے ۔جس کے نتیجہ میں دنیا کی وہ ساری ترقیات حاصل ہو جائیں جو ایک مادہ پرست ذہن اور ایک مادہ پرست معاشرے کی چاہت ہیں۔

    لہذا وہ لوگ جو اسلام کو اسلامی نظام ِ حیات کی شکل میں نہ صرف اختیا ر کرتے ہیں بلکہ قائم بھی کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ اسلام اور غیر اسلام کی اس آمیزش کو ،جسے صدیوں کی رویات نے پختہ کر رکھا ہے،تحلیل کریں اور قدامت کے اجزاء کو الگ کرکے خالص اسلام کے اس جوہر کولے لیں، جو قرآن و سنت کے معیار پر جوہر اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت ، اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہو سکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغرب کی حقیقی تمدنی و علمی ترقیات کو اس کے فلسفہ ٔ حیات ، انداز فکر اور اخلاق و معاشرت کی گمراہیوں سے الگ کر دیں اور پہلی چیز کو لے کر دوسری چیز کے بالکلیّہ اپنے ہاں سے خارج کر دیں۔ظاہر ہے کہ اسے ہمارے وہ گروہ برداشت نہیں کر سکتے،جنہوں نے خالص مغربیت کویا  اسلام کے کسی نہ کسی مغربی ایڈیشن کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔پھر اسی کے ساتھ یہ کام ایک انتہائی منظم قوت کی شکل میں بھی ابھرنا چاہیے۔مقصد کے حصول کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے گروہی و مسلکی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے جوق درجوق اس اجتماعیت سے وابستہ ہوں جو اس کام کو کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔اس کے بعد یہ کہ ایک ہمہ گیر سیلاب کی مانند زندگی کے ہر شعبہ پر چھا جائیں ۔ٹھیک اسی طرح جس طرح مغربی تہذیب اٹھی اور چہار جانب چھاتی چلی گئی۔اس سب کے لیے نہ صرف بلند حوصلوں کی ضرورت بلکہ مضبوط سیرت اور صالح اخلاق و مستحکم ارادے کے انسان درکار ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آپ خود کو اس کام کے لیے تیار کرنے کا حوصلہ رکھتے  ہیں!!یہ وہ کام ہے جو بنا یکسوئی کے ہو ہی نہیں سکتااور یہی رمضان المبارک کا وہ پیغام ہے جس کا ہم استقبال کیا چاہتے ہیں!

استقبالِ رمضان:

    اس پورے پس منظر میں ماہِ رمضان کااستقبال کریںاپنے قول سے، اپنے عمل سے ، اسلامی نظریہ ٔ حیات کو عام کر کے نیز ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔استقبال کریں ماہِ رمضان کا اس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجہ میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں۔استقبال کریں رمضان المبارک کا اس طرح کہ یہ استقبال امت مسلمہ کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔کیونکہ اللہ کے رسول نے خود یہ مژدہ سنایا تھا کہ اگر تم نے میری دعوت مان لی تو تم عرب و عجم دونوں کے مالک بن جائو گے۔اور استقبال کریں ہر اس عبادت پر عمل کر کے جس کے ذریعہ ہمیں اللہ کی محبت اور قرب حاصل ہوجائے۔ سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریم ؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا:"اے لوگو!  ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں تراویح پڑھنانفل قرار دیا ہے(یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایک نیک کام (نفل)اپنے دل کی خواہش سے بطور خودکرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میںفرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینہ میں کسی نے ستّر(70)فرض ادا کیے۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ نیز یہ مہینہ معاشرے کے غریب او حاجتمندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے"(بیہقی فی شعبان الایمان)۔حدیث کی روشنی میں یہ اور ان جیسے دیگر کام و عبادات کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔قبل اس کے کہ کام کا آغاز کیا جائے لام زہے کہ فکر و قلب کو منتشر المزاجی سے نجات دلاتے ہوئے یکسوئی اختیار کی جائے۔پس یہی ہے استقبال،یہی ہے استفادہ اور یہی ہے منزلِ مقصودکا آغاز !!

 

محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 707