donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sanbhali
Title :
   Rehan Aur Bank Se Qarz Lene Ke Zaruri Masael


بسم اللہ الرحمن الرحیم


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔


رہن (گروی رکھنے) اور بینک سے قرض لینے کے ضروری مسائل

 

 محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض


رہن (گروی) کے مسائل سمجھنے سے قبل پہلے تین اصطلاحات سمجھ لیں:  ۱) جو شخص کوئی سامان گروی رکھ کر کوئی چیز خریدتا ہے یا قرض لیتا ہے اس کو راہن کہتے ہیں۔ ۲) جس شخص کے پاس کوئی سامان گروی رکھا جائے اسے مرتہن کہتے ہیں۔ ۳) جو سامان گروی رکھا جائے اسے مرہون کہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص نے ایک ہزار روپئے کے چاول خریدے اور ایک ماہ میں پیسوں کی ادائیگی تک گروی میں ایک گھڑی رکھ دی تو گھڑی گروی رکھ کر چاول خریدنے والا راہن ہوا، گھڑی اپنے پاس گروی رکھ کر چاول بیچنے والا مرتہن ہوا اور گھڑی مرہون ہوئی۔ اسی طرح زید نے عمر سے ایک لاکھ روپئے قرض لئے اور قرض کی ادائیگی کی ضمانت کے لئے اپنا سونا گروی رکھاتو قرض کی ادائیگی کے لئے گروی رکھا ہونا سونامرہون ہوا، زید راہن جبکہ عمر مرتہن ہے۔

رہن کے لغوی معنی مطلق روکنے کے ہیں، شرعی اصطلاع میں اپنے کسی حق مثلاً قرض وغیرہ کے عوض میں قرضدار کی ایسی چیز روک لینے کو رہن کہتے ہیں کہ جس کے ذریعہ وہ اپنا قرض وصول کرسکے۔ راہن ومرتہن میں زبان سے معاملہ طے ہونے کے بعد گروی میں رکھی جانے والی چیز مرتہن کے قبضہ میں آجانے سے رہن لازم ہوجاتا ہے، یعنی جب تک مرتہن نے مرہون (گروی میں رکھا ہوا سامان) کو اپنے قبضہ میں نہ لیا ہو راہن کو رہن سے پھر جانا اور اس معاملہ کو ختم کرنا جائز ہے۔لیکن قبضہ کے بعد یعنی راہن نے چاول یا پیسے حاصل کرلئے اور مرتہن نے گروی میں رکھا ہوا سامان مثلاً گھڑی پر قبضہ کرلیا تو اب راہن کو معاملہ ختم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یعنی اب اس کو چاول کی قیمت یا قرض میں لی ہوئی رقم کی واپسی پر ہی گروی میں رکھا ہوا سامان واپس ملے گا۔


رہن یعنی گروی رکھ کر کوئی معاملہ طے کرنا قرآن وحدیث واجماع امت تینوں سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَرِہَانٌ مَّقْبُوْضَۃٌ اگر تم سفر میں ہواور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو (ادائیگی کی ضمانت کے طور پر) رہن قبضے میں رکھ لئے جائیں۔ حضور اکرم ﷺ کے عمل سے بھی رہن ثابت ہے، حضور اکرم ﷺ نے جو (Barley)خریدنے کے لئے اپنی زرہ مدینہ منورہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی ۔ (بخاری ومسلم) حضرات صحابہ کرام بھی حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں رہن کے معاملات کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے اُن کو منع نہیں فرمایا۔ غرضیکہ پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ چند شرائط کے ساتھ حضر وسفر دونوں میں رہن (گروی) رکھ کر کوئی معاملہ طے کیا جاسکتا ہے۔

رہن بھی قرض کی ایک شکل ہے۔ اور قرض لیتے اور دیتے وقت ہمیں ان احکام کی پابندی کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ البقرہ کی آیت ۲۸۲ میں بیان کئے ہیں۔ اس آیت میں قرض کے احکام ذکر کئے گئے ہیں، ان احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ ان احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ قرض کی ادائیگی کی تاریخ متعین کرلی جائے۔

سب سے قبل ایک تمہیدی بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجروثواب ہے جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے، لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دنیاوی فائدہ کے لئے کوئی شرط نہ لگائے، مثلاً ایک لاکھ کے بدلے ایک لاکھ بیس ہزار روپئے کی ادائیگی کی شرط لگانا جائز نہیں، البتہ وہ اپنی رقم کی ادائیگی کی ضمانت کے لئے کسی چیز کے گروی رکھنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لئے نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ ﷺ ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرمادیتے تھے جس پر قرض ہو یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔

اسلامی تعلیمات میں ایک اچھے معاشرہ کو وجود میں لانے کی بار بار ترغیب دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ اچھا معاشرہ ایک دوسرے کے کام آنے سے ہی وجود میں آسکتا ہے۔ چنانچہ شریعت اسلامیہ نے ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لئے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم) اسی طرح ہمارے نبی ﷺکا فرمان ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہیں ہونا چاہئے۔

رہن سے متعلق چند اہم مسائل: جب راہن قرض میں لی گئی رقم یا گروی رکھ کر خریدے ہوئے سامان کی قیمت واپس کردے گا تو مرتہن گروی میں رکھی ہوئی چیز کو واپس کردے گا۔ لیکن جب تک راہن قرض میں لی گئی رقم یا گروی رکھ کر خریدے ہوئے سامان کی قیمت ادا نہیں کرے گا مرتہن کو گروی میں رکھی ہوئی چیز کو واپس نہ کرنے کا حق حاصل رہے گا۔ کوئی سامان گروی رکھ کر قرض میں لی گئی رقم یا خریدے ہوئے سامان کی قیمت وقت پر ادا نہ کرنے پر مرتہن کو حق حاصل ہوگا کہ وہ گروی میں رکھی ہوئی چیز کو فروخت کرکے اپناحق حاصل کرلے۔ مثلاً گھڑی گروی رکھ کر ایک ہزار روپئے کے چاول فروخت کرنے کی صورت میں، پہلے سے طے شدہ ادائیگی کے وقت پر قیمت ادا نہ کرنے پر مرتہن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گھڑی فروخت کرکے اپنا حق یعنی ایک ہزار روپئے حاصل کرلے، باقی رقم راہن کو واپس کردے۔ ہاں اگر گھڑی ایک ہزار روپئے سے کم میں فروخت ہوئی تو اسے اپنی رقم کا باقی حصہ راہن سے لینے کا حق حاصل رہے گا۔

اگر راہن (جو گروی میں رکھے ہوئے سامان کا اصل مالک ہے) رہن میں رکھی ہوئی چیز (جو مرتہن کے پاس ہے) فروخت کردے تو اس کا فروخت کرنا مرتہن کی اجازت یا اس کا قرضہ ادا کرنے پر موقوف رہے گا۔ اگر اس کے بعد مرتہن نے اجازت دے دی یا راہن نے اس کا روپیہ دے دیا تو بیع ہوجائے گی ورنہ نہیں۔

رہن میں رکھی ہوئی چیزکے اخراجات راہن کے ذمہ ہوں گے۔ مثلاً راہن نے اپنی بھینس گروی رکھ کر دس ہزار روپئے قرض لئے تو بھینس کے چارہ وغیرہ کا خرچہ راہن (یعنی جو اصل میں بھینس کا مالک ہے) کے ذمہ رہے گا۔اسی طرح گروی میں رکھی ہوئی چیز میں جو اضافہ اور بڑھوتری ہوتی ہے مثلاً گروی رکھی ہوئی بھینس نے بچہ دیا تو بچہ راہن (یعنی جو اصل میں بھینس کا مالک ہے) کی ملکیت ہوگا۔

 رہن میں رکھی ہوئی چیز کا موجود ہونا ضروری ہے، یعنی اگر کوئی شخص آئندہ موسم پر آنے والے پھلوں کو درخت اور زمین کے بغیر گروی میں رکھ کر رہن کا کوئی معاملہ طے کرنا چاہئے تو یہ جائز نہیں ہے۔

اگر مرتہن کے قصد کے بغیر مرہون (یعنی گروی رکھی ہوئی چیز) ضائع ہوجائے تو اب اس کی تین صورتیں ہیں: ۱) گروی رکھی ہوئی چیز اور قرض کی مالیت برابر ہے۔ ۲) گروی رکھی ہوئی چیز کی قیمت قرض کی مالیت سے زائد ہے۔ ۳) گروی رکھی ہوئی چیز کی قیمت قرض کی مالیت سے کم ہے۔ اگر دونوں برابر ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ مرتہن نے اپنا قرضہ حکما وصول کرلیا اور اگر گروی میں رکھی ہوئی چیز کی قیمت زائد ہے تو یہ زائد چیز امانت کے حکم میں ہے، لہٰذا جو زائد ہے  اس کے ضائع ہونے پرکوئی تاوان مرتہن پر لازم نہیں آئے گا۔ اور اگر گروی میں رکھی ہوئی چیز کی قیمت قرض کی مالیت سے کم ہے تو اس صورت میں گروی میں رکھی ہوئی چیز کی قیمت کی مقدار کے برابر قرض ختم ہوجائے گا اور باقی ماندہ قرض مرتہن راہن سے وصول کرے گا۔

بینک سے قرض عین سود ہے:تمام مکاتب فکر کے 99.99%  علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورۂ البقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصر حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے ۔ برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی ( نیودہلی) کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے کے عدم جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میںکسی بھی مکتب فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ کے جواز کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ خلیجی ممالک کے بعض بینکوں نے قرض دینے کی بعض جائز شکلیں نکالی ہیں، مگر ہر شکل میں شک وشبہات موجود ہیں، اسی وجہ سے یہاں کے علماء کے درمیان اس کے جواز میں اختلاف ہے، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم خلیجی ممالک میں بھی بینک سے قرض لینے سے بچیں۔

بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لئے قرض لینے سے ہے، لیکن تجارت کی غرض سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے لیکن Single سود قرآن کے اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم میں کسی شرط کو ذکر کئے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کریم کے اس عموم کو مختص کرنے کے لئے قرآن وحدیث کی واضح دلیل درکار ہے جو قیامت تک پیش نہیں کی جاسکتی۔ اسی لئے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا سود پر سود دونوں رائج تھے۔۱۴۰۰ سال سے مفسرین ومحدثین وعلماء کرام نے دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریرفرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ قرآن کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لئے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب گندی جگہوں پر بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی ہے،حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے،لہذا یہ حرام نہیں ہے۔

ان دنوں حصول مال کے لئے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے، بلکہ کچھ لوگوں نے تو اب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لئے جائز سمجھنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینا شروع کردیا ہے ، حالانکہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اُس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ چرواہے کی تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے وہ بکریاں دوسرے کی چراگاہ سے کچھ کھالیں۔ (بخاری ومسلم)  لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لئے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو ان پر صبر کریں، کیونکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:  حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی)  اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

(مسند احمد)

نوٹ: اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر سود کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لئے نہیں بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، شراب نوشی، خنزیرکھانے اور زنا کاری کے لئے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کئے گئے جو سود کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں ۔


 (www.najeebqasmi.com)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 588