donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sanbhali
Title :
   Sood Mushtarka Fund Aur Zindagi Ka Bima


بسم  اللہ الرحمن الرحیم


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

 

سود، مشترکہ فنڈ اور زندگی کا بیمہ

 

محمد نجیب قاسمی


اصل موضوع سے قبل دو اہم امور پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے اصل موضوع کا سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں مال کی حیثیت:مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن مال کے نعمت بننے کے لئے ضروری ہے کہ مال کو حلال وسائل اختیار کرکے حاصل کیا جائے اور اس مال سے متعلق جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں یعنی زکوٰۃ وغیرہ ان کی ادائیگی کی جائے۔ مال نعمت ہونے کے ساتھ ایک انسانی ضرورت بھی ہے، لیکن مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجو خالق کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ نے مال کو متعددجگہوں پر فتنہ ، دھوکے کی چیز اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دی ہے۔ چند مثالیں عرض ہیں: مال و اولاد تو فانی دنیا کی عارضی زینت ہیں۔ (سورۃ الکہف ۴۶) مال و اولاد کی زیادتی کی چاہت نے تمہیں اللہ کی عبادت سے غافل کردیایہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ (سورۃ التکاثر ۱۔۲) خوب جان لو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل تماشا، عارضی زینت اور آپس میں فخر وغرور اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرناہے۔ (سورۃ الحدید۲۰)  رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ہر امت کے لئے ایک فتنہ رہا ہے، میری امت کا فتنہ مال ہے۔  (ترمذی) رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:  میں نے جنت کو دیکھا تو وہاں غریب لوگوں کو زیادہ پایا۔ (بخاری ومسلم) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: غریب لوگ مالداروں سے پانچ سو سال قبل جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:  اللہ کی قسم!  مجھے تمہارے لئے غریبی کا خوف نہیں ہے بلکہ مجھے خوف ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کہیں تمہارے لئے دنیا یعنی مال ودولت کھول دی جائے اور تم اس کے پیچھے پڑ جاؤ، پھر وہ مال ودولت پہلے لوگوں کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ (بخاری ومسلم

قرآن وحدیث کی روشنی میں سود شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ:  

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ (سورۃ البقرہ  ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) سود کھانے والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو اور کسی بڑے گناہ مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔  (تفسیر ابن کثیر) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:  ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (مسند احمد) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:  سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔

(موطا امام مالک، طبرانی)

ان دونوں تمہیدی ابواب کے بعد اصل موضوع کی طرف رجوع کرتا ہوں، سب سے پہلے حلال ، حرام اور مشتبہ چیزو ں کے متعلق اللہ کے حبیب حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد کو پڑھیں جس میں شبہ والی چیزوں سے تعامل کرنے کا شرعی اصول ذکر کیا گیا ہے :

 رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے ۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا  اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اس کا جانور دوسرے کی چراگاہ سے کچھ چرلے۔ 

(بخاری ومسلم)

نبی اکرم  ﷺکے اس ارشاد سے معلوم ہواکہ حکم کے اعتبار سے چیزوں کی تین قسمیں ہیں:  ۱)  وہ چیزیں جن کا حلال ہونا واضح ہے، مثلاً جائز لباس وجائز کھانے وغیرہ۔  ۲) وہ چیزیں جن کا حرام ہونا واضح ہے،مثلاً سود کھانا، شراب پینا، زنا کرنا، جھوٹ بولنا، یتیم کا مال کھانا وغیرہ۔  ۳) وہ چیزیں جن کے حلال اور حرام ہونے میں شبہ ہوجائے، مثلاً موضوع بحث مسائل ( مشترکہ فنڈ اور زندگی کا بیمہ) امت مسلمہ کے موجودہ تمام مکاتب فکر کے بیشتر علماء ان مذکورہ شکلوں کے ناجائز ہونے پر متفق ہیں کیونکہ مشترکہ فنڈ اور زندگی کا بیمہ عمومی طور پر سود اور جوئے پر مشتمل ہوتا ہے اور ان دونوں کی حرمت قرآن وحدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ بعض علماء نے موضوع بحث مسائل کی بعض شکلیں چند شرطوں کے ساتھ جائز قرار دی ہیں۔ لہذا جس کو نبی اکرمﷺکے اقوال وفرمان سے واقعی سچی محبت ہے جو ہر مسلمان کو ہونی چاہئے جیساکہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: کوئی بھی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لئے اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں (بخاری ومسلم)  تو وہ کبھی بھی ان مشتبہ امور کے قریب نہیں جائے گا،کیونکہ ہمارے نبی حضور اکرم ﷺ نے واضح طور پر ذکر فرمادیا کہ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کرلی، اور جو شخص مشتبہ چیزوں کے چکر میں پڑا گویا وہ حرام چیزوں میں پڑگیا۔

ان مذکورہ شکلوں میں رقم نہ لگانے پر اگر بظاہر کچھ وقتی نقصان بھی نظر آئے تو دوسرے جائزوبہتر وسائل سے اللہ تعالیٰ روزی عطا فرمائے گا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لئے (غلط راستوں سے) چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔ اور ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اس کے لئے کافی ہوگا۔

(سورۃ الطلاق ۲۔۳)

تنبیہ:

٭  علماء کرام نے بعض شرائط کے ساتھ Shares خریدنے کے جواز کا فیصلہ فرمایا ہے، لیکن ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ ہم جس کمپنی کے Shares  خریدنا چاہتے ہیں، اس کمپنی کے متعلق پہلے وافر معلومات حاصل کریں۔ اگر اس کمپنی کا کاروبار مثلاًشراب کا ہے تو ایسی کمپنی کے Shares خریدنے جائز نہیں ہوں گے۔

٭  آجکل چند دنیاوی مادی طاقتیں مسلمانوں کے مال کو حاصل کے لئے اسلامی بینکنگ کے نام پر مختلف مالی پروجکٹس پیش کرتی رہتی ہیں تاکہ مسلمان  اسلام کا نام دیکھ کر اپنی رقم ان کے حوالے کردیں۔ ان پروجیکٹس پر رقم لگانے سے قبل ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان پروجیکٹس کی مکمل تفصیلات معلوم کریں پھر علماء کرام کی سرپرستی میں فیصلہ کریں ۔

٭  بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس زمانے میں سودی نظام سے بچنا انتہائی مشکل ہے، مختلف اسباب کی وجہ سے کسی نہ کسی حد تک سودی نظام سے جڑنا ہی پڑتا ہے۔ میری ایسے تمام حضرات سے درخواست ہے کہ ہمیں اس دنیاوی زندگی میں رہ کر ہمیشہ ہمیشہ کی اخروی زندگی کی تیاری کرنی ہے، موت کا آنا یقینی ہے، البتہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں کہ ملک الموت کب ہماری جان نکالنے کے لئے آجائے، آنکھ بند ہونے کے بعد پھر ہمیں کوئی دوسرا موقعہ آخرت کی تیاری کرنے کا میسر نہیں ہوگا۔ لہذا بظاہر دنیاوی نقصان وضرر کو برداشت کریں، کیونکہ دنیاوی زندگی تو بہرحال گزرجائے گی، لیکن آخرت کی ناکامی پر ناقابل تلافی نقصان وخسارہ ہوگا۔ مرنے کے بعد مال واولاد اسی وقت کام آئے گی جب ہم نے حلال وسائل اختیار کرکے مال کو کماکر ان پر خرچ کیا ہوگا۔

٭  جن حضرات نے بینکوں میں اپنا مال جمع کررکھا ہے اور اس پر سود مل رہا ہے، اس سے متعلق علماء کی رائے یہ ہے کہ سود کی رقم بینکوں سے نکال کرعا م رفاہی کاموں میں لگادیں، اپنے اوپر یا اپنی اولاد پر خرچ نہ کریں۔

٭  بعض حضرات اگر مشترکہ فنڈ اور زندگی کے بیمہ سے متفق ہیں تو میری ان سے درخواست ہے کہ وہ کم از کم دوسروں کو شک وشبہ میں نہ ڈالیں کیونکہ اسلام نے نہ تو ہمارے اوپریہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم دوسروں کے مال کو بڑھانے کی فکر کریںاور نہ ہی اس کی کوئی ترغیب دی ہے، بلکہ قرآن وحدیث میں مال کو متعددجگہوں پر فتنہ ، دھوکے کی چیز اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔

 اللہ تعالیٰ ہمیں حلال، وسیع اور برکت والا رزق عطا فرمائے اور مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرنے والا بنائے۔ آمین۔  

دعاؤں کا  محتاج:  محمد نجیب قاسمی

(www.najeebqasmi.com)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 544