donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Islam Ke Taqaze : Ittehad Ummat Aur Asbiyat

باسمہٖ تعالی


اسلام کے تقاضے،اتحاد امت اور عصبیت!


 محمد ضمیر رشیدی

(وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر

 

 دل،  پھیپڑے،جگر،کان،دماغ  اور دیگر جسمانی اعضا کی

اہمیت و ا فادیت سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ان  میں سے کوئی ایک بھی صحیح و سا لم نہ ہو تو انسانی زندگی کس حدتک مجبور و بے بس اور لاچار ہو جاتی ہے ۔ گو کہ ان اعضا کے کام الگ الگ ہیں، تاہم ان میں کامل ہم آہنگٔی جاتی ہے،جسکے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے۔ٍمثلا  سر میں درد ہو تو دوا کے لیٍٍٍٍٍٔ پاؤںچل کر جاتے ہیں،آنکھ آنسو بہاتی ہے ،زبان اسے بیان کرتی ہے ،دل و دماغ اسے محسوس کرتے ہیں،ہاتھ دوا پلا نے میں مددگار ہوتے ہیں ،وغیرہ۔اگر ان اعضا و جوارح میں یہ مقابلہ آرایٔ شروع ہو جا ئے کہ کون قیمتی،کون اعلیٰ،کون بہتر،کون افضل توظاہر بات ہے کہ جسم میںفساد پھوٹ پڑ یگا اورپھر ایسے جسم کا خدا حافظ! اس جسم کے بے شمارتقاضے ہیں،مثلا غذا،پانی،ہوا،نیند،راحت و سکون وغیرہ۔اگر انسانی جسم کے یہ تقاضے
 بر وقت پورے نہ ہوں تو انسانی زندگی کی نشو و نما اور قیام و بقا خطرے میں پڑ جائے ۔  


                                 ٹھیک اسی طرح اسلام کے بیشمار تقاضے ہیں۔مثلامساجد،مدارس ،خانقاہوں کی تعمیر و توسیع اور انکے انتظامات،دارالقضا ٰکا قیام تاکہ طاغوت سے مکمل طور سے بچا جا سکے ،قرآن مجید،حدیث شریف اور دیگر دینی کتابوں کی طباعت و اشاعت،مسلمانوں کے عا ئلی قوانین میں حکومت کی مداخلت پرروک، بیوہ و مطلقہ کے نکاح کا انتظام ،فسادزدگان اور قدرتی آفات میں گھرے ہو مسلمانوں کی بازآبادکاری،جیل میں قید بے قصور مسلمانوں کی رہائی کے لئے کوششیں، دینی و اسلامی تعلیمات  سے دور مسلمانوں میں ۱یمان و یقین کی بنیادی محنت ، وغیرہ۔یہ فہرست بہت طویل ہے ۔چنانچہ کسی بھی فرد ،تحریک،جماعت،گرو ہ یاحلقہ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ان مین سے  ہر ہر کام ،امر اور تقاضوں کو کما حقہ پوری طرح انجام دیا جا سکے۔اس لئے زیادہ بہتر اور قابل عمل صورت حال یہی ہیکہ افراد،تحریکیں،جماعتیں،گروہ،حلقہ وغیرہ اپنے اپنے ذوق و شوق اور رغبت و صلاحیت کے مطابق ان کا موں کوفنا فی اللہ و فنا فی الرسول کے جذبہ کے تحت  ان امور و تقاضوں اور کاموں کو انجام  دیں۔ اگر سارے امور اور تقاضوں کی طرف توجہ کی جائیـ گی تو ایک ہوگا نہ دوسرا۔امت میں اتحاد کی ممکن صورت یہی ہے کہ ہر ہر فرد،جماعت،تحریک اور ادارہ وغیرہ اپنی اپنی بساط اور طاقت و قوت کے مطابق اسلام کے تقاضوں کو پورا کریں۔رمزو ایماء اور اشارہ و کنایہ میں بھی ایک دوسرے کی طرف طعن وتشنیع،بے جا تنقید،تنقیص،تقابل،تفاخر وغیرہ سے آخری حد تک پر ہیز کیا جاے کہ یہ چیزیں امت کے اتحاد کے لئے سم قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔دوسروں کی محنتوں اور  خدمات کا اعتراف ہو۔نیز جو کوئی جس کام کا اہل ہو اسے وہ کام کرنے دیں۔اور جس کسی کے اندر کسی مخصوص کام کو بجالانے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ اس سے دور ہی رہے تو بہتر ہے کہ اس سے دوہرا نقصان ہے ، ایک کام کے بگڑنے کا اور دوسرا کسی قا بل شخص کی صلاحیت کے عدم استعمال کا۔ ایکدوسروں کو جوڑ کررکھیں،ا ور سب سے آسان یہ ہے کہ خود سب سے جڑجائے۔

              اتّحاد کے لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح  بچا جائے۔علاقہ،نسل، رنگ،ملک،قوم،وطن،زبان وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔   ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر،تحریریا فعل و عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی چیز ہے۔دیا سلائی کی ایک سلائی  پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے۔  اس لئے ضروری ہے کہ ہر حال میں اتحاد کو  قائم و دائم رکھا جائے کیوں کہ یہ  ایسی اجتماعی صفت ہے جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقاء و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے یہ عقل کو مائوف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور بھید بھائو پیدا کرتی ہے،اسکی پکار جاہلیت کی پکار ہے۔عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی  وہاں اتحاد  قائم نہیں رہ سکتا۔ بالفاظ دیگر،جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گذر نہیں ہو سکتا۔عصبیت کو چھوڑے بغیر امت میں اتحاد کی آرزو اور تمنا رکھنا ایسا ہی فضول  ہے جیسا کہ مشرق کی سمت میں سفر کرنا اور مغرب میں پہنچنے کے خواب دیکھنا۔


 عصبیت ، اتحاد کے لئے زہر ہلا ہل ہے یعنی زہریلا زہر۔پیارے آقا  حضرت محمدﷺ نے سخت ا لفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ  جہالت پر مرا۱ور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں۔  اس لئے ضروری ہے کہ اتحاد کو  ہر حال میں  قائم و دائم رکھا جائیکہ  یہی سب سے بڑا اصول ہے ۔اتحاد زندگی ہے اور نا اتفاقی موت۔ اتحاد ترقی کی اولین شرط ہے ۔ اور نا اتفاقی بر بادی کا پہلا زینہ ۔متحد رہیں گے  تو زمانہ ٹہوکر میں ہوگا اور منتشر ہوں  گے    ُٰٰٰٰٰ تو زمانہ کی ٹہوکر میں ہوںگے ۔ یہی تاریخ کا سب  سے بڑا سبق ہے۔ مگر شایدتاریخ کایہی سب سے بڑا سبق ہے ،جسے مسلمانوں  نے بھلا رکھا ہے  ۔ پیارے آقاﷺ ،ہمارے روحی فداہ نے عصبیت کی ساری دیواروں کو گرا کر کالے گورے۔عربی عجمی۔چھوٹے بڑے۔بادشاہ غلام۔ کے فرق کو مٹا کرعرب کے ابو بکر،حبشہ کے بلال،روم کے کے صہیب، فارس کے سلمان؛ وغیرہ کی مخفی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر نہ صرف  رضی اللٰہ عنہم ورضو  عنہ کے درجہ پر پہنچا دیا تھا بلکہ  اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے  میںبھی استعمال کرکے انسانیت کے باغ کو سینچ کر نوع انسانی کو  ایک خاندان میں تبدیل کر دیا تھا۔مگر ہم امتیوں کا حال یہ ہے کہ عصبیت کا طوق غلامی گلے میں ڈال کر امت کے شیرازہ کو بکھیر تے ہوئے اپنے سے قریب لوگوں کو دور کرکے انسانیت کو خانہ در خانہ  تقسیم کرتے ہوئے ا  ﷲ  کے بندوں کو اس کے خالق و مالک سے دور کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔شاید اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے آقا کی منشاء اور اسکے غلاموں کے کاموں میں اس سے زیادہ تضاد کہیں نہیں۔

 محمد ضمیر رشیدی
 وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر)
 Mob. 9403770333    

******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 690