donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Modassir Ahmad
Title :
   Musalman Kafir Ho Gaya

مسلمان کافر ہوگیا


۔مدثر احمد:شیموگہ۔کرناٹک:9986437327


سرزمین ہند میں بسے ہوئے مسلمان ،مسلمان کم کافر زیادہ کہلاتے تھے،اور یہ کفر کا فتویٰ خود ہمارے علمائے سوہی دیا کرتے تھے۔چلو اب ان کی دعا شاید قبول ہوئی کہ ہندوستان کے تاریخی شہر آگرہ میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے قریب دو سو سے زائد مسلمانوں کا آخر دین سے دور کرتے ہوئے کافر بنا ہی دیا،بھلے یہ لوگ اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ ہمیں بہکایا گیا ،لالچ دی گئی اور ڈرا دھمکا کر ہون میں شرکت کیلئے بلایا گیا،لیکن یہ بات اور ہے کہ اس کے بعد یہ تریدد کی گئی کہ ان لوگوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی اس وجہ سے انہوںنے اس ہون میں شرکت کی اور اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے یہ بیان دیا کہ مذہبی رواداری کے پروگرام میںشرکت کی گئی تھی لیکن وہ مسلمان تھے مسلمان ہیں اور مسلمان رہیں گے۔اس میںسے کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ہون میں صرف اس ؛ئے شرکت کی تھی کہ انہیں ہندو بننے پر شناختی کارڈ ،بچوں کی تعلیم اور اقتصادی مدد کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن ہم اس بنیاد پر مذہب تبدیل نہیں کررہے ہیں۔بات کچھ بھی ہو لیکن مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کو تبدیلی مذہب کی آج جو چھوٹی تصویر لوگوں کے سامنے دکھائی دے رہی ہے وہ کل بڑی تصویر اور پوری حقیقت کے ساتھ ابھر سکتی ہے۔اسلام سے نکل کر دوسرے مذاہب کو اختیار کرنا یہ بات بھلے ہمیں گوارہ نہیں گذرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کو ایسی باتیں سوچنے اور غیروں کے دہلیز پر بے بس و لاچار کھڑے کرنے کیلئے خود ہماری قوم ہی ذمہ دار ہے۔ویسے بھی ہم آج مسلمان ہیں لیکن مومن نہیں ،اس بات سے شاید ہی کسی کو اعتراض ہے۔ویسے ہر دن الگ الگ طریقے سے مسلمان دین سے الگ ہورہا ہے کہیں خواتین کا بڑا گروہ مختلف مٹھ اور سنتھوں کی جانب سے دئیے جارہے مائیکرو فیانس کی خلیل رقم کو حاصل کرنے کیلئے ہر دن صبح سویرے اٹھ کر بھجن اور پاٹھ میں حصہ لے رہا ہے تو کئی نوجوان اپنے روزگار کیلئے سود پر رقم لے رہے ہیں تو کچھ لوگ اپنے آپ کو سوشیل لائف کے ٹھیکدار بتاتے ہوئے اپنے آپ کو غیروں میں شمار کرواتے ہیں،ملک کی بڑی بڑی ہستیاں جن کی بیویاںاور بیٹیاں مغربی طرز اور کافرانہ تہذیب کے روادار بن چکے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہیں،اسلام کیا ہے اور اس کا درس کیا ہے یہ بات ہمارے علماء بتانے سے قاصر ہورہے ہیں اس کے بجائے وہ اختلافات اور انتشار کی پھل چھڑیاں سماج میں بکھیر رہے ہیں کوئی ایک جب کسی کوملحد کہہ دے تو سامنے والا اسے کافر کا ٹھپہ لگانے میں تاخیر نہیں کرتا،موجودہ زمانے میں کون مسلمان ہے اور کافر ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہمارے یہاں یہ بتایا نہیں جارہا ہے کہ کافر کو کس طرح سے اسلام میں لایا جائے اور کفر کا کیسا ازالہ کیا جائے ۔اس کے بجائے روزبروز ایک دوسرے کو کافر پر کافر کہہ رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد کم ہوگئی ہے اور کافروں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔جب بھی ہم نے علمائے کرام سے یہ بات کہی ہے کہ مسلمان کو پختہ مسلمان بنائیں یا پھر مسلمان کو مومن مسلمان بننے کی راہ دکھائی جائے تو انہوںنے صرف اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم ہی مسلمان ہیں سامنے والا کافر ہے لیکن یہ بات نہیں بتائی گئی ہے کہ مسلمان کیسے مومن مسلمان بن سکے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ آج ہمارے پاس علمائے حق کی کمی ہے ایک دور تھا کہ جب علمائے کرام بارش کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو بارش برس پڑتا،جب سیلاب امنڈ آتا تو بارگاہ الہٰی میں ہاتھ اٹھتے توسیلاب رُک جاتا،ایک عالم کے اوصاف کو دیکھ کر سارے کا سارا شہر مسلمان ہوجاتا۔مگر آج کے دور میں ایسی باتیں کہاں ہیں،علمائے کرام کے ہاتھ اٹھانے پر بارش ہونے کی بات تو دور ،سیلاب روکنے کی بات تو دور،بارش اور سیلاب سے متاثرین کیلئے چندہ بھی اکٹھا نہیں ہورہا ہے۔اگر ہم نے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات سے حقیقی طور پر آشنا کیا ہوتا تو آج اگرہ جیسے حالات پیدا نہیں ہوتے۔غیر سودی بینکوں کا نظام قیام ہوا تو ہماری خواتین بھجن نہیں گاتی ،ہمارے نوجوان سود پر قرضے نہیں لیتے،قوم لاچار و بے بس نہیں ہوتی،قوم کی حالات دلتوں سے بد تر نہیں ہوتی۔ہر جمعہ کے خطاب میں ہم یہ سن رہے ہیں کہ نماز پڑھو،روزہ رکھو،زکوٰۃ دو اور حج کرو لیکن کبھی یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ سود کے شکنجہ سے آزادی کے لئے غیر سودی قرضوں کا نظا م قائم کرو،غیربیوں کی مدد کرو،بیماروں کو سہارا دو،پڑوسیوں کا حق ادا کرو،اچھے سیاسیدانوں کا انتخاب کرو،پاکی و صفائی کا اہتمام کرو،معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کیلئے ہر ایک مسلمان کو ذمہ دار بنائو اور اپنے مسجدوں ومدرسوں کو چندوں سے پاک کرتے ہوئے وہاں کیلئے آمدنی کے ذرائع بنادو۔اگر یہ سب اسلامی تعلیمات سے الگ بات ہے تو ہمیں قبول ہے کہ ہم پر بھی فتویٰ لگادو کہ ہم بھی کافر ہیں۔ویسے بھی فتویٰ آج صرف پچاس سے سو روپئے میں مل رہے ہیں اور علماء اپنے فتوئوں کو دین کے دائرے میں رکھتے ہوئے دینے کے باوجود سامنے والے کی صورت اور پس منظر پر دے رہے ہیں ،اگرواقعی مسلمان یہ چاہتا ہے کہ ہم مسلمانوں میں سے کافروں کی کمی ہوتو اور کافروں میں مسلمانوں کا اضافہ ہونا ہو تو اسلام کے داعی اور مسلمان صحیح راہ پر چلیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے اسلام کا بڑا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔


********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 575